Saeed Millat Shaheed Pakistan

سعید ملت،شہید پاکستان
(قاسم علی شاہ)
یہ 1948ء  کی بات ہے ۔پاکستان دُنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ریاست کے طورپر معرض وجود میں آچکا تھا اوردہلی میں بیٹھا ایک انسان پاکستان پہنچنے کے لیے پل پل بے چین ہورہا تھا۔وہ ہندوستان چھوڑنا چاہ رہاتھا لیکن بہت ساری مجبوریاں اس کے پائوں کی بیڑیاں بن رہی تھیں۔اسی شش و پنج میں بالآخر اس نے حتمی فیصلہ کرلیا کہ اب جو بھی ہو میں نے پاکستان جانا ہے۔یہ حکیم محمد سعید تھے۔اِن کے بڑے بھائی انتہائی صدمے کی کیفیت سے دوچار تھے ۔چھوٹے بھائی کا یوں جدا ہونا انہیں ہرگز منظور نہ تھا لیکن چھوٹابھائی ضدی بھی بہت تھا۔معاملہ کافی سنگین صورت اختیار کرگیا تھا ۔مولاناابوالکلام آزاد جیسی شخصیت بھی چاہ رہی تھی کہ حکیم محمد سعید دہلی میں ہی رہے۔حکیم سعید کے استاد مولاناقاضی سجادحسین نے تو یہاں تک پیشن گوئی کردی تھی کہ’’ میاں سعید پاکستان جاکر ایک تلخ زندگی کاسامنا کریں گے اور بہت جلد ناکامی سے دوچارہوکر لوٹ آئیں گے ‘‘لیکن جن کے جذبے بلنداور محبت سچی ہوان کے سامنے کوئی چیلنج ، چیلنج نہیں رہتا۔دُنیا کی تمام عظیم شخصیات میں یہی صفت پائی جاتی ہے کہ وہ جب بھی کسی خواب کو پورا کرنے نکلتے ہیں تو کشتیاں جلاکر نکلتے ہیں اور پھر ان کا یہی جذبہ انھیں سرخرو کردیتا ہے۔

حکیم محمد سعید نے ہندوستان چھوڑا ، پاکستان آئے لیکن ان کا یہ آنا فقط ہجرت نہیں تھی بلکہ یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا ، ایک نئی تاریخ مرتب ہورہی تھی اور ایک ایسی داستان رقم ہورہی تھی جس میں حکیم محمد سعید اہل پاکستان کے لیے ایک مسیحا بن کر آرہے تھے۔
حکیم محمد سعید 9جنوری1920ء  کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ان کے آبائواجدا د ترکستان کے شہر کاشغر میں آباد تھے۔سترہویں صدی کے آغاز میں یہ خاندان کاشغر سے نکلا اور منزلیں طے کرتا ہواپشاور آپہنچا۔یہاں انھوں نے کپڑے اور ڈرائی فروٹ کاکاروبار شروع کیا۔کئی سالوں بعد یہ لوگ ملتان منتقل ہوگئے۔یہاںانھوں نے 135 برس قیام کیا اور زمانے کو کروٹیں بدلتے دیکھا۔انھوں نے مختلف تجارتیں کیں لیکن اکثر لوگ پنسارہٹ کی طرف متوجہ ہوئے۔1820ء  میں اس خاندان کے کچھ افراد نے ملتان چھوڑ کر دہلی کا رُخ کیا،اِنھی میں سے ایک حکیم محمد سعید کے دادا بھی تھے ۔دہلی پہنچ کر انھیں حکیم محمد اجمل خان کے دواخانے میں ملازمت مل گئی اور یوں طب کے ساتھ اس خاندان کا رشتہ مضبوط ہوگیا، جس کو بعد میں حکیم عبدالمجیداور ان کے بیٹوںعبد الحمید اور محمدسعید نے بام عروج پر پہنچایا۔

حکیم محمد سعید کے والد بچپن میں انتقال کرگئے تھے۔ان کی تربیت میں زیادہ تر ہاتھ ان کی والدہ کا ہے۔وہ ایک عبادت گزار خاتون تھیں۔انھوں نے گھربیٹھے اپنے مرحوم شوہر کے دواخانے کواس انداز میں چلایا کہ آج وہ صرف ہندوستان کا نہیں بلکہ ایشیاکا سب سے بڑادواخانہ ہے۔اگرچہ بچپن میں حکیم محمد سعید والد کے سائے سے محروم ہوگئے تھے لیکن خوش قسمتی سے انھیں ایک سمجھدار ماں اور ایک مدبر بھائی کا سہارا مل گیا، جس نے ان کوایک باکمال انسان بنادیا۔

حکیم محمد سعید کا کہناتھا کہ میں بھارتی حکومت کا وفادار نہیں رہ سکتا اور اسی وجہ سے کروڑوں کی جائیداد اور کاروبار چھوڑ کروہ بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان آگئے۔ مشکلات اور رُکاوٹیں قدم قدم پر ان کے سامنے آرہی تھیں، لیکن وہ آگے بڑھنے کا پختہ عزم کرچکے تھے۔ان کادِل انسانیت کی خدمت سے معمور تھا اوراسی جذبے کے تحت کراچی پہنچ کر وہ جگہ کی تلاش میں تھے تاکہ دواخانے کا کام شروع کیاجائے۔ان کے پاس کوئی سواری نہیں تھی ،مجبوراً پیدل گھومنا شروع کیا،جگہ تلاش کرتے کرتے جوتوںکے تلوے گھس گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُن میں سوراخ ہوگئے ، حالانکہ دہلی میں ان کے پاس اپنی پیکارڈکار تھی اور وہ وہاں شہزادوں جیسی زندگی گزاررہے تھے لیکن دردِ دِل رکھنے والے اس انسان نے ہر قسم کی مشکلات کو کھلے دِل سے قبول کیا۔بالآخر پچاس روپے کرائے پر ایک کمرہ مل گیا ،جہاں انھوں نے18نومبر1948ء کو ’’ہمدرد‘‘کی بنیاد رکھی اورپھر انھوں نے پیچھے نہیں دیکھا۔دِن رات محنت کی ، اپنی تمام ترتوانائیاں اسی کام میں لگادیں اور صرف پانچ برس کے عرصے میں اِس ادارے کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچادیا ۔ایسے وقت میں ان کے خلوص اور انسان دوستی کو داد دینی پڑتی ہے کہ انھوں نے اپنے قائم کردہ ادارے کو ذاتی ملکیت سے نکال کر وقف کردیااور ہمدرد فائونڈیشن کا قیام عمل میں لایا۔

’’ہمدرد‘‘ نے جہاں دواسازی کی صنعت میں انقلاب برپا کیا، روح افزا جیسی مشروب ایجاد کی جس کو نہ صرف پاک و ہند میں بلکہ پوری دنیا میں پسند کیا جانے لگا او ریہ آج تک اپنا معیار برقرار رکھے ہوئی ہے،وہیں اس ادارے نے حکیم محمد سعید کی سربراہی میں نئی نسل کی تعلیم و تربیت کابیڑا بھی اٹھایا۔تصنیف و تالیف کے میدان میں اس ادارے اور خاص طورپر حکیم محمد سعید کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں۔’’شام ہمدرد‘‘کے نام سے انھوں نے ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا جس میں بچوں اور طلبہ کو مختلف طرح کے موضوعات پر اظہارِخیال کرنے کا بھرپور موقع دیا گیااور اس کی بدولت طلبہ میں جذبہ حب الوطنی پروان چڑھی اور مختلف طرح کی معاشرتی اور علمی مباحثوں سے ان کی سوچ میں جدت آئی۔

حکیم محمد سعیدڈسپلن کے پابند انتہائی منظم انسان تھے جو اپناایک سیکنڈ بھی ضائع نہیں کرتے تھے ۔ہوائی جہاز کے سفر میں ان کے لیے ایک سیٹ مخصوص ہوتی تھی ، ائر ہوسٹس دوسرے مہمانوں سے کھانے کا پوچھتیں جبکہ حکیم محمد سعیدسے روشنائی اور کاغذ کا پوچھتیں ، کیونکہ ہوائی سفر میں وہ مسودوں کو دیکھتے اور ان کی پروف ریڈنگ کا کام کرتے ۔انھوں نے اپنے مطب سے کبھی ناغہ نہیں کیا۔وہ ہر ماہ لاہور، پشاور اور راولپنڈی جاتے اور مریضوں کا چیک اپ کرتے۔ساتھ ہی ساتھ لندن اور ڈھاکہ بھی پابندی کے ساتھ جاتے رہے ۔وہ ہمدرد کے بانی اور چیئر مین تھے ، ویٹوپاور کے مالک تھے لیکن اس کے باوجود ان کے مزاج میں عاجزی بھری ہوئی تھی۔وہ اپنے ملازمین اور ساتھیوں کا احترام کرتے اور ان کابھرپور خیال رکھتے۔

کام کاجنون ان پر اس انداز میں سوار تھا کہ اس سلسلے میں اپنی صحت کی پروا بھی چھوڑ دی تھی ۔ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیائے اسلام کی بڑی بڑی شخصیات شریک تھیں۔یہاں بھی حکیم محمد سعیدنے شرکت صرف اس وجہ سے کی کہ وہ پوری اسلامی دنیا میں پرائمری تعلیم کو یکساں کرنا چاہ رہے تھے تاکہ پورے عالم اسلام کی سوچ و فکر یکساں ہو اور وہ دنیا میں آگے بڑھے۔وہ چار دِن اور چار راتیں مسلسل اس کانفرنس میں مصروف رہے۔پانچویں رات مدینہ منورہ میں گزار کر وہ واپس آرہے تھے کہ انھیں یوں محسوس ہواجیسے دائیں جانب شعلے لپک رہے ہوں۔انھیں امریکہ جانا تھا ، جب وہ جدہ ائرپورٹ پہنچے تو آنکھوں سے پانی رواں تھا۔وقتی طورپر ایک دوائی استعمال کی اور پانی بند ہوالیکن کچھ وقفے کے بعد دوبارہ پانی شروع ہوگیا۔ واشنگٹن پہنچ کر انھوں نے ڈاکٹر کوچیک کرایاتو معلوم ہوا کہ دائیں آنکھ کے قرنیہ میں سوراخ ہوگیا ہے اور صورت حال اس حد تک نازک ہوگئی ہے کہ کسی بھی وقت آنکھ کا ڈھیلا باہر آسکتا ہے۔انھیں ایک اور ماہر ڈاکٹر کے پاس لے جایاگیا، جہاں لیزرکی شعاعوں کے ذریعے ان کا آپریشن کرنے کافیصلہ کیاگیا۔ڈاکٹر نے جب ان کو بے ہوش کرنا چاہاتو حکیم محمد سعیدنے منع کردیا۔ڈاکٹربولاکہ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے لیکن حکیم محمد سعید نہ مانے ۔گیارہ جھٹکوں کے بعد جب آپریشن مکمل ہوگیا تو ڈاکٹر نے پوچھا:’’حیرت ہے آپ نے اُف تک نہ کی ۔‘‘حکیم محمد سعیدنے جواب دیا:’’میں نے دنیا میں بہت تکلیفیں اُٹھائی ہیں ، اب اِن سب کاعادی ہوگیاہوں۔‘‘حکیم صاحب نے اس قدر حساس آپریشن کے بعد بھی آرام نہ کیا۔اسی صبح نیویارک روانہ ہوئے ،پھر میڈرڈ چلے گئے جہاں یونیسکو کی ایک کانفرنس میں انھوں نے شرکت کی۔

حکیم محمد سعیدطب مشرقی کے فروغ کے لیے ہر پلیٹ فارم پر جدوجہد کرتے رہے ۔اس مقصد کے لیے انھوں نے کئی ممالک کا سفر کیا۔ 1963میںانھوںنے چین کادورہ کیااور اس کی رپورٹ صدر ایوب خان کو پیش کی ،جس پر بعد میں’’میڈیسن ان چائنا‘‘نامی شہرہ آفاق کتاب تیار ہوئی۔اس کتاب پر چائینیز کا کہنا تھا کہ’ حکیم محمد سعیدنے جو کام ہمارے لیے کیاہے وہ خود ہم نے بھی اپنے لیے نہیں کیا۔‘حکیم محمد سعیدنے بیس سال کوشش کرکے عالمی ادارۂ صحت سے طب مشرقی کو منوایا۔ان کی محنت ، قابلیت اور ریسرچ سے متاثر ہوکرترکی ، کویت اور سوئیڈن نے انھیں بڑے بڑے اعزازات سے نوازا۔صدرایوب خا ن نے انھیں ان کی خدمات کے صلے میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ عطاکیا۔ان کو وزیر طب کاعہدہ بھی ملا،لیکن بدقسمتی سے وہ اپنوں کے ہی ستم ظریفی کا شکار ہوگئے اور یہ شعبہ پاکستان میں اس قدر ترقی نہ کرسکا، جتنا اس کا حق تھا۔

حکیم محمد سعیدکہتے تھے کہ طب نے لمبی عمر کا نسخہ اعتدال بتایا ہے۔مناسب غذا، صاف پانی ، تازہ ہوا،ورزش ، جلد سونا، صبح جلد اٹھنا اور عبادت کرنا، یہ تمام چیزیں انسان کو صحت کے ساتھ ساتھ دِل کاسکون بھی فراہم کرتی ہیں۔1984میں حکیم محمد سعیدنے ایک تحریک کا آغاز کیا۔انھوں نے کم کھانے کی تجویز پیش کی کہ اس سے صحت بھی بہتر ہوگی اور گھریلو بجٹ بھی بہتر رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہرپاکستانی کودِن بھر میں صرف ناشتے اور رات کے کھانے تک محدود ہونا چاہیے۔یہ بات حقیقت ہے کہ کم کھانے سے مسائل پیدا نہیں ہوتے لیکن زیادہ کھانا بہت ساری بیماریوںکا سبب بنتا ہے۔

حکیم محمد سعیدکی قابلیت، بلند اخلاق اور انسانیت کے لیے درددِل رکھنے کی وجہ سے بہت ساری مشہور شخصیات سے اِن کی شناسائی ہوگئی تھی اور وہ شخصیات بھی ان کے ساتھ تعلق کو اپنا اعزاز سمجھتی تھیں۔حکیم محمد سعید قائد اعظم کے بڑے شیدائی تھے لیکن اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے ان کی سیاسی تحریک میں حصہ نہ لے سکے۔قائد کے ساتھ محبت ہی تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح انھیں ٹیلی فون کرکے اسپغول ختم ہونے کی اطلاع دیتیں اور حکیم محمدسعید سارے کام چھوڑکر ان کے گھر اسپغول دے آتے۔حکیم محمد سعید کو مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی خدمت کاموقع بھی ملا۔اُن کے بقول:’’میں نے ان سے وقت کی پابندی سیکھی ، وہ جب گھر سے نکلتے تولوگ اپنی گھڑیاں ملالیاکرتے تھے۔‘‘صدر ایوب خان کے بارے میں کہتے ہیں:’’ان کے ساتھ محبت وخلوص کے روابط ا س عرصے میں بھی رہے جب وہ صدر تھے اور بعد میںبھی رہے جب وہ صدارت چھوڑ گئے۔میں معالج سے زیادہ ان کا محبت کرنے والاتھا، لیکن اپنے ذاتی فائدے کے لیے کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا۔‘‘

حکیم محمد سعیدنے مدینہ الحکمت کے نام سے ایک ایساعلمی شہر بسانے کا خواب دیکھا جہاں نئی نسل کو علم وحکمت سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بہترین تربیت بھی کی جائے۔وہاں پر ریسرچ سنٹرز قائم ہوں اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی طلبہ ریسرچ کے لیے یہاں آئیں۔حکیم محمد سعیدخواب دیکھنے والے شخص تھے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کاہنر بھی جانتے تھے۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک سچے اور عظیم پاکستانی تھے۔مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ ان کے مراسم تھے ، انھیں کئی بار بڑے بڑے عہدوں کی پیش کش ہوئی، ایک دفعہ ایک عرب ملک کے بادشاہ نے انھیں اپنے ہاں ’’شاہی طبیب‘‘ کا عہد ہ بھی آفر کیا تھا لیکن پاکستان کی محبت میں انھوں نے اس آفر کو ردکردیا۔وہ اس چیز کا برملااظہارکرتے کہ آج میں جو بھی ہوں، پاکستان اور پاکستانیو ں کی خدمت کرنا چاہتاہوں۔میری شخصیت کلی طورپر پاکستان کی مرہون منت ہے۔یہ پاکستان ہے جس نے مجھے اس مقام پر پہنچایاجہاں میں آج ہوں۔

بہت ساری خوبیوں کے ساتھ وہ ایک مرد مومن بھی تھے۔انھوں نے اپنی زندگی میں 9حج اورکئی عمروں کی سعادت حاصل کی۔وہ اسلامی اخلاق کی عملی تصویر تھے۔انھیں اُن کے دوست تین H (حافظ، حکیم ، حاجی) کے نام سے بھی پکارتے تھے۔وہ اس قدر بے لوث انسان تھے کہ حرمین شریفین میں بھی اپنے لیے دعا نہ مانگتے بلکہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ، شاید ان کی یہی عاجزی اور صبرتھا کہ انھیں وہ انعام ملا جو کسی کسی کو ملتاہے۔وہ بتاتے ہیں کہ’ دوبار خواب میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہونے پر مسرور و مطمئن ہوں۔اس سے بڑی خوش قسمی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سرورکونین ﷺ مجھے اپنے سینے سے لگائیں۔‘ان کے بقول مجھے الجھے ہوئے امراض میں مبتلا مریضوںکے علاج کے لیے خواب میں رہنمائی ملی ہے۔

جب وہ گورنر بنے تب بھی انھوں نے اپنی مصروفیات کو برقرار رکھا ۔مطب پر آتے ، مریضوں کا چیک اپ کرتے ۔مستحق لوگوںکی مدد کرتے اور ساتھ ہی سرکاری ذمہ داریاں بھی نبھاتے ۔وہ نمود و نمائش کو ناپسند کرتے تھے ،اسی وجہ سے سیکیورٹی کے بغیر ہی چل پڑتے۔گورنر ہوتے ہوئے بھی انھوں نے سرکاری مراعات نہیں لی، ذاتی گاڑی اور گھر استعمال کرتے رہے۔ان کے گورنری کے زمانے میں کراچی جیسے ہنگامہ خیزشہر میں بھی امن و امان رہا۔مگر ان کامزاج گورنروں والا نہیں تھا، اس لیے جلد ہی مستعفی ہوگئے۔ 78برس کی عمر گزارنے کے بعد ایک دِن کہنے لگے:’’وہ گولی جسے میری فصیل جاں میں پیوست ہونا ہے ، تیارہوچکی ہے۔‘‘

17اکتوبر1998کا سورج اہل پاکستان پر غم بن کر طلوع ہوا۔اس دِن حکیم محمد سعیدحسب معمول صبح کی نماز ، دعا اور وظائف سے فارغ ہوکر اپنے مطب میں مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے کی غرض سے آئے لیکن آج شاید ان کی سانسیں پوری ہوچکی تھیں ۔بدخواہوں کی انگلیاں کلاشنکوف کے ٹریگر پر تھیں اور نشانہ تھا ، ایک معصوم انسان۔ایک ایسا انسان جوبے سروسامانی کی حالت میں اس سرزمین پر آیا تھا، اسی قوم کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھی ، اس کو آسمان کی رفعتوں تک پہنچایا ۔یہاں کی نسلوںکی تربیت کے لیے دِن رات ایک کیے اور طب مشرقی میں اپنی شاندار خدمات اور تجربے کی بنیاد پر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔وہ انسان جس کی پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں تھی، ایک گھر تھا وہ بیگم کے نام کیا اور بعد میں بیٹی کو ملا۔جنھوں نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کی بے مثال خدمت کی ، جو دسیوں کتابوں کے مصنف ، ہمدردطبیہ کالج کے صدر، بزم ہمدردنونہال، شام ہمدرد کے بانی اور مدینۃ الحکمت جیسا علمی شہر آباد کرنے والے معمار قوم تھے،لیکن جب آنکھوں پر جہالت کے پردے پڑ جائیں اور جب دِل حسد ، بغض اور کینہ سے بھرجائے تو پھر انسان کو روشنی بھی تاریکی نظر آتی ہے اور آج یہ عظیم ہستی کچھ ایسے ہی لوگوں کے نشانے پر تھی ۔ٹریگر دب گیا ،گولیاں نکلیں اورایک انسان کے جسم میں پیوست ہوگئیں لیکن اُس دِن انسانیت مرگئی۔یہ گولیاں حکیم محمد سعید کی آواز شاید خاموش کر گئیں لیکن ان کے مشن اور نظریے کو نہ دباسکیں۔
وہ جو سعید ملت تھا ، اب شہید پاکستان ہوچکا تھا۔

Related Posts