یقین اور کامیابی
(قاسم علی شاہ)
کامیابی کے لیے یقینِ کامل چاہیے اور یقینِ کامل کا ہونا اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ تمام موسم ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی تمام دن ایک جیسے ہو تے ہیں۔رات کے بعددن آتا ہے اور دن کے بعد رات ۔ رات جتنی بھی طویل کیوں نہ ہو جائے بالآخر صبح ہوجاتی ہے۔زندگی میں اچھے بُرے دن آتے رہتے ہیں۔ زندگی کا سرکل کبھی خوشی کبھی غمی پر مشتمل ہے۔لٰہذااِنہیں زندگی کا حصّہ سمجھتے ہوئے اُس پاک ذات سے کبھی بد گمان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنا یقین کم کرنا چاہیے ۔ ٹونی رابنزکے مطابق:
’’ جس طرح میز کی ٹانگیں ہوتی ہیں اس طرح یقین کی بھی ٹانگیں ہوتی ہیں۔‘‘
یقین ماضی کے واقعات سے بنتا ہے اگر واقعات اچھے ہوں تو یقین اچھا ہوتا ہے، واقعات اچھے نہ ہوں تویقین بھی اچھا نہیں ہوتا۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک مولانا صاحب مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ جو شخص یقین کے ساتھ بسم اللہ پڑھ کر پانی پرچلے وہ پانی میں نہیں ڈوبے گا۔اس مسجد میں ایک سادہ لو ح دیہاتی بیٹھا یہ خطبہ سن رہا تھا۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعدوہ دیہاتی دوبارہ اس مسجد میں گیا تو اتفاق سے مولانا صاحب وہی بات ارشاد فرما رہے تھے کہ یقین کے ساتھ بسم اللہ پڑھنے سے بندہ پانی میں نہیں ڈوبتا۔ جب دیہاتی نے یہ بات سنی تو کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ آپ سچ فرما رہے ہیں۔ مولانا صاحب بہت حیران ہوئے اور پوچھنے لگے وہ کیسے۔ اس نے جواب دیا دو سال پہلے جب آپ نے یہ بات کہی تھی اِس دن سے آج تک میں دریا کے قریب جا کر بسم اللہ پڑھتا ہوں اور دریا پار کر لیتا ہوں۔ مولانا صاحب نے کہا مجھے بھی پانی پر چل کر دکھائو۔ وہ دیہاتی مولانا صاحب کو دریا پرلے گیا،بسم اللہ پڑھی اور پانی پر چلنا شروع کر دیا۔ اس نے مولانا صاحب کو بھی پانی پر چلنے کو کہا۔ مولاناصاحب جیسے ہی بسم اللہ پڑھ کر پانی میں اُتر ے تو ڈوب گئے۔ معلوم ہوا کہ مولانا صاحب نے بسم اللہ تو پڑھی تھی لیکن ان کے پاس یقین نہیں تھا۔ جس کے پاس پختہ یقین ہو وہ پار چلا جاتا ہے اور یقین کے بغیر والا درمیان میں ہی رہتا ہے۔ جو یقین سے قدم اٹھاتا ہے منزلیں اس کو سلام کرتی ہیں۔ ولیم جیمزکہتا ہے:
’’ ہماری زندگی میں توقعات کا بہت کردار ہے۔ توقعات سے روّیے جنم لیتے ہیں اور رویوں سے نتائج بنتے ہیں۔‘‘
جیسے ایک مثال مشہور ہے کہ دس دوست ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے۔ کھانے کی میز پر انہیں خیال آیا کہ آنے والے سال میں جو ہماری توقعات ہیں انہیں لکھنا چاہیے۔ سب نے اپنی توقعات اپنے اپنے کاغذ پر لکھیں اور انہیں ہوٹل کے منیجر کو دیتے ہوئے کہا کہ’’ ہم ایک سال بعددوبارہ یہاں آئیں گے آپ ہمارے کاغذات محفوظ کر لیں۔‘‘ جب وہ سب دوست ایک سال بعد دوبارہ اسی تاریخ پر اکھٹے ہوئے تو دس کی بجائے نو تھے۔ انہوں نے منیجرکو بلایا کاغذات لیے اور اپنی اپنی توقعا ت کو پڑھا۔ ان سب نے جو توقعات لکھی تھیں ان میں اکثر پوری ہو چکی تھیں۔ ایک شخص جونہیں آیا تھا اُنہوں نے اس کے کاغذ کوپڑھا تو اس میں لکھا تھا کہــ’’ میرے خاندان میں زیادہ تر لوگوں کا جوانی میں ہی انتقال ہو جاتا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے میں اگلے سال تک زندہ نہیں رہوں گا۔ ‘‘جب انہوں نے اس کے بارے میں معلوم کیا توحقیقت میں اُس کا انتقال ہو چکا تھا۔اِسی طرح انسان جیسا یقین بناتا ہے ویسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح یقین کے متعلق ایک ’’فائر واک‘‘ ایکٹیوٹی بھی کرائی جاتی ہے۔ایک دفعہ یہ تجربہ حاملہ عورتوں پر کیا گیا۔ جو عورتیں اپنے پختہ یقین کی وجہ سے اس تجربے سے کامیاب گزریں ان سے پیدا ہونے والے بچے زندگی میں زیادہ کامیاب ہو ئے۔
ایک دفعہ قائداعظم کے بھائی نے ان کو خط لکھا جس میں انہوں نے کہا: ’’بھائی یاد کریں وہ وقت جب آپ چھوٹے تھے اور ہماری ماں کہا کرتی تھیں کہ میرا یقین ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر بے تاج بادشاہ بنے گا۔ دیکھیے بھیا ہماری ماں کی جو توقع تھی اس نے آپ کو کتنا بڑا انسان بنادیا۔‘‘ ماں کی سوچ اور یقین بھی بچے پر کافی اثر انداز ہوتا ہے۔آج کی ماں اپنے بچوں میں بے یقینی پیدا کر رہی ہے۔ بچوں کو عجیب عجیب ناموں سے پکارا جاتا ہے حالانکہ نام کے ساتھ یقین کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ جو نام بار بار بولا جائے اس نام کا معنی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے ناموں سے منع فرمایا گیا ہے جو عزت نفس کو کم کریں۔حضرت جنید بغدادی ؒ کے پاس ایک شخص گیا اور کہا آپ اللہ اللہ کہتے ہیں یہ آپ پرکیسے اثرانداز ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا تم گدھے کے بچے ہو۔ جیسے ہی اس شخص نے یہ سنا اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آپؒنے اس سے فرمایا میں نے ابھی تمہیں صرف گدھے کا بچہ کہا ہے اور تمہاری یہ حالت ہو گئی ہے جب میں اللہ تعالیٰ کا نام لوں گا تو کیا میر ی حالت نہیں بدلے گی۔
والدین کے ساتھ اساتذہ کو چاہیے کہ نصابی مضامین پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلباء میں یقین بھی پیدا کریں۔ اگرطلباء میں یہ یقین پیدا ہو جائے کہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں تو انقلاب آ سکتا ہے۔ 1960ء میںامریکہ کے شہر سان فرانسسکو کے ایک سکول میں تین نئے ٹیچرز رکھے گئے۔ ایک ٹیچر سے کہا گیا کہ آپ کو جو کلاس دی جارہی ہے وہ اس سکول کے سب سے زیادہ نالائق بچوں پر مشتمل ہے ،اس کو ٹھیک کرنے کے لیے آپ کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے سے کہا گیا کہ آپ کو اوسط درجے کے بچوں کی کلاس دی جارہی ہے، آپ کو تھوڑا منظم کرنا پڑے گا۔ تیسرے سے کہا گیا کہ آپ کو سکول کے سب سے زیادہ لائق بچوں کی کلاس دی جارہی ہے، ان کو مزید بہتر بنانے کے لیے آپ کی توجہ کی ضرورت ہوگی۔ ایک سا ل کے بعدجب ان تینوں ٹیچرز کے نتائج آئے ان میں پہلی کلاس کا سب سے بُرا رزلٹ آیا، دوسری کا اوسط درجے کا جبکہ تیسری کا نہایت شاندار رہا۔ جس ٹیچر کو کہا گیاتھا کہ تمہاری کلاس بہت نالائق ہے اصل میں وہ لائق بچے تھے۔ لیکن نالائق کہنے کی وجہ سے اس ٹیچر کے ذہن میں یہ یقین بیٹھ گیا کہ یہ نالائق ہیں۔ وہ ٹیچر جب بھی کلاس کو پڑھاتا تو طالب علموں کو نالائق کہتا ، عجیب و غریب القابات سے نوازتا اورطرح طرح کی باتیں کرتا جس کی وجہ سے نتیجہ بھی اسی طرح کا آیا۔ دوسرے ٹیچر کی کلاس اوسط درجہ کی تھی اس نے اس طرح ہی کلاس کو پڑھایا جس کی وجہ سے اس کا نتیجہ بھی اوسط درجے کا رہا۔ جبکہ تیسرے ٹیچر کو جو کلاس دی گئی وہ نالائق بچوں پر مشتمل تھی لیکن ٹیچر کو کہا گیا کہ یہ لائق بچے ہیں۔وہ ٹیچر جب کلاس میں جاتا ان کی تعریف کرتا ، ان کو موٹیویٹ کرتا اور ان کو محنت سے پڑھاتا جس کی وجہ سے اس کلا س کا نتیجہ بھی شاندار رہا۔ 1960ء کے اس تجربے نے یہ فلسفہ دیا کہ اگر ٹیچر پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلباء کے متعلق مثبت اپروچ رکھے ، مثبت الفاظ کا استعمال کرے، مثبت باتیں کرے او ر ا نہیں کامیابی کا یقین دلائے تو بچے زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطا بق وہ لوگ جو جرائم کی دنیا میں چلے جاتے ہیں انہوں نے بچپن سے جرائم کے متعلق زیادہ سُنا اور دیکھا ہو تا ہے۔ اسی طرح کے یقین کے لوگوں کی بیٹھک سے اِن کے یقین طاقت پکڑنا شروع کر د یتے ہیں۔ سوچ اور یقین کے آپس میں تانے بانے جڑے ہوتے ہیں۔ جس چیز کو طویل عرصہ تک سوچا اور سنا جائے وہ یقین بن جاتا ہے۔ جس طرح پودے کو پانی اور توجہ دی جاتی ہے اسی طرح کچھ یقین ایسے ہوتے ہیں جن کو لاشعوری طور پر پانی اور توجہ دی جارہی ہوتی ہے۔ان سے بننے والے نتائج بعض اوقات موافق نہیں ہوتے۔ہم میں سے ہر کسی کو منفی یقین کے مقابلے میں مثبت یقین کاراستہ اپنانا چاہیے اور یہ طے کرلینا چاہیے کہ کس کس بات پر یقین کرنا ہے اور کس پر نہیں۔ کیونکہ خواہشات ، رائے اورمشاہدہ یقین کو جنم دیتے ہیں اوراوّل نمبر ذہین کا نہیں بلکہ پختہ یقین رکھنے والے کا ہوتا ہے۔ پختہ یقین ہو تو کامیابی یقینی ہے۔