ذاتی زندگی(Personal Life) کے کچھ اہم اصول
(قاسم علی شاہ)
قاضی کی عدالت لگی ہوئی تھی جس میں ایک ملز م کو پیش کیا گیا۔ملزم پر الزام تھا کہ اس نے رات کواپنے گھر میں لوگوں کی دعوت کی جس میں کچھ ایسی چیزوں کا بھی اہتمام کیا گیا جن کی اجازت قانون نہیں دیتا ۔ملزم کو کٹہرے میں کھڑاکیاگیااور اس سے اس الزام کے بارے میں پوچھا گیا ۔وہ بولا:’’قاضی صاحب! میں جاننا چاہوںگا کہ مجھ پر یہ الزام کس نے لگایاہے؟ ‘‘قاضی نے کوتوال سے گواہ پیش کرنے کو کہا۔ایک شخص کمرہ عدالت میں حاضر ہواجس نے اپنا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا ۔کوتوال بولا:’’حضور یہ گواہ ہے اور اسی نے یہ کیس دائر کیا ہے۔‘‘قاضی نے گواہ سے چہرہ دکھانے کو کہا، گواہ نے کپڑا ہٹایا تو یہ دیکھ کر سب لوگ حیران رہ گئے کہ وہ اس وقت کا بادشاہ تھا۔وہ رات کو بھیس بدل کر نکلتاتھاتاکہ رعایا کے حالات معلوم کرے۔گزشتہ رات اس نے اس شخص کے گھر سے گانے بجانے کی آواز سنی تواس نے گھر میں جھانکااورپھر کان لگاکر سب سنتارہا ۔جب صبح ہوئی تو اس نے اس شخص کے خلاف رپورٹ درج کروائی۔
ملزم یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔اس نے قاضی سے کہا: ’’حضور ، میں نے خلاف قانون کام کیاہے میں اپنی غلطی تسلیم کرتاہوں لیکن ایک سوال پوچھنا چاہوں گا۔کیاہمارے بادشاہ کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں کھوج لگائے، ان کے عیب ڈھونڈے اور پھر انھیں لوگوں کے سامنے ظاہر کرے ؟سوال سن کر بادشاہ کے چہرے کا رنگ اُڑگیا ۔قاضی بھی اس سوال پر حیران رہ گیا ۔ملزم کے سوال میں وزن تھا۔ قاضی نے کچھ دیر سوچااور پھر فوری طورپرملزم کو رہا کردیا۔نیز بادشاہ کو تنبیہ کی کہ وہ اس شخص سے معافی مانگے اور آئندہ لوگوںکی ذاتی زندگیوں کے بارے میں ہرگز کھوج نہ لگائے۔
روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان ایک مستقل حیثیت رکھتاہے ۔جس طرح ہر شخص کا الگ نام ، الگ پہچان اور الگ شناخت ہوتی ہے ایسے ہی اس کی ایک الگ زندگی بھی ہوتی ہے جس کو ذاتی زندگی کہاجاتاہے۔زندگی کے اس پہلو پر ہر انسا ن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو اپنی مرضی سے گزارے ۔اس کی ترجیحات اور پسند اور ناپسند کا اختیاراس کے پاس ہوناچاہیے۔اس کے مشاغل، دلچسپیاں، رہن سہن،کھاناپینااورلباس اس کی مرضی کاہوناچاہیے۔وہ اپنے فارغ اوقات میں آزادانہ طور پر جو کچھ بھی کرتاہے ، اس کو مکمل آزادی حاصل ہو۔ اپنے گھر اور اپنی چاردیواری میں وہ کس طرح کی زندگی گزارتاہے یہ اس کا حق ہے اور یہ ا س سے کوئی نہیں لے سکتا۔اگر کوئی شخص اس کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی کوشش کرتاہے تو وہ قانونی اور اخلاقی طورپر گناہ گارہوگا۔
ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی ممانعت کس قدر شدید ہے ، احادیث مبارکہ سے اس کا اندازہ لگالیجیے۔
(1)حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے (اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپ ﷺ تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔(سنن الترمذی:2708)
(2)آپ ﷺ نے فرمایا:اگر کوئی شخص تمھاری اجازت کے بغیر تمھیں(جب کہ تم گھر کے اندر ہو) جھانک کر دیکھے اور تم اس کو کنکری ماردو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘(صحیح البخاری:6902)
اپنی ذاتی زندگی پر مکمل حق رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ انسان دوسروں کی ذاتی زندگی کا بھی خیال رکھے۔اگر وہ اپنی زندگی میں دوسروں کی بے جا آمد کوپسند نہیں کرتاتو ایسے ہی اس کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے۔اگر کسی شخص کا بے وقت آنا اس کو تکلیف دیتاہے توایسے ہی وہ خود بھی دوسروں کے آرا م کا خیال رکھے۔اگر اس کوذاتی زندگی کے بارے میں لوگو ں کے سوالات اچھے نہیں لگتے تو اس کو بھی چاہیے کہ نجی معاملات پر لوگوں کی ٹوہ نہ لگائے۔
ذہنی سکون اور اطمینان کے لیے یہ چیز ضروری ہے کہ انسان ذاتی زندگی کے اصولوں سے واقف ہو اور اپنی زندگی کے بارے میں کچھ حدود متعین کرے ۔ تاکہ کوئی بھی شخص جب ان حدود کو پار کرنے کی کوشش کرے تو اس کو بتایا جاسکے کہ آپ اخلاقیات کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
آج کی تحریری نشست میں ذاتی زندگی کے کچھ ایسے ہی اہم اصولوں پر روشنی ڈالی جائے گی۔
(1) زندگی کا کنٹرول
آپ کواس بات کا یقین ہوناچاہیے کہ آپ کی ذاتی زندگی پر صرف آپ ہی کا کنٹرول ہے۔اگر کہیں آپ اپنی ذاتی زندگی پر اپنا کنٹرول کھوچکے ہیں تو جلد سے جلد اپنے معاملات کو درست کریں۔ورنہ آپ کی مثال ایک پتلے کی سی رہ جائے گی ، جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔آپ کو اس بات پر بھی غورکرنا چاہیے کہ آپ نے کسی انسان کو اپنی زندگی میں اس قدر اہمیت تونہیں دی جس کی وجہ سے آپ کی اپنی اہمیت کہیں کھوگئی ہے؟اگرایساہے تواس تعلق کو جلد سے جلد اپنی حدودمیں لے آئیں اور اللہ نے آپ کو اختیار کی جو آزادی دی ہے اس کوکام میں لائیں۔
(2) زندگی کی تفصیل
آپ کی ذاتی زندگی آپ کی اپنی زندگی ہے اوریہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی زندگی کی کن باتوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا ہے اور کن کو نہیں۔اپنی فیملی کی بات ، نوکری کے معاملات ، غمی خوشی کے واقعات اور دیگر حالات آپ نے کن افراد سے بیان کرنے ہیں،یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیجیے۔آپ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے ہرانسان کو اپنی زندگی کی ساری باتیں بتائیں ۔بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ جب بھی آپ سے ملتے ہیں ، اپنے دکھڑے سناناشروع کردیتے ہیں اور پھر اس بات کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں کہ آپ بھی انھیں اپنے نجی حالات بتائیں۔ایسے لوگوںکومناسب طریقے سے سمجھاناچاہیے کہ اول تو آپ کو مجھ سے اپنی ذاتی نوعیت کی باتیں نہیں کرنی چاہییں،لیکن آپ نے کربھی دیں اور میں نے سن لیں تو اب میں اس چیز کاپابند نہیں ہوں کہ اپنی پرسنل لائف کے بارے میں آپ کو بتاؤں۔
(3)خود کوذمہ دار ٹھہرانا
معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں یا پھر ایسے کام جو آپ کے بس سے باہر ہیں ، ان سب کے لیے اگر آپ اپنے آپ کو الزام دے رہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔مثال کے طورپرکسی نے آپ سے گاڑی مانگی لیکن آپ نے خودکہیں جاناہے اور آپ نے اس کو انکار کردیا۔یااپنے دوستوں کے سرکل میں آپ نے مخصوص دوستوں کو کھانے پرمدعو کیا او ر دوچار کو نہیں کیا، کیوں کہ ان کے ساتھ آپ کی بے تکلفی نہیں ہے تو اس بات پر بعد میں خود کوبرابھلامت کہیے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ آپ دوسروں کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزارسکتے۔اس سلسلے میں آپ دوسروں کی پریشانی کی پروا نہ کیجیے کیوں کہ اس چیزپراگر آپ خود مورد الزام ٹھہرائیں گے تو یہ ایک اضافی بوجھ ہوگا جو آپ کی زندگی کے معاملات کو متاثر کرے گا۔بعض اوقات ہم مروت میں لوگوں سے ایسے کام کے کرنے کا وعدہ کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارااچھاخاصا وقت اور انرجی لگ جاتی ہے،یہ رویہ بھی درست نہیں۔آپ کو بہرحال اپنا مقصد اور اپنی روٹین مقدم رکھنی چاہیے۔
(4)فیصلہ سازی
زندگی میں اہم معاملات میں دوستوں اور لوگوں سے مشورہ کرلیناچاہیے لیکن حتمی فیصلہ آپ خود کریں۔ اگر آپ ہر بندے کی نصیحت اور رائے کو اہمیت دیں گے تو آپ کے لیے کسی فیصلے تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ آپ لوگوں کی باتوں میں آکر اپنافیصلہ کریں گے تو عین ممکن ہے کہ آپ کونقصان ہو۔پھر آپ کے بارے میں مشہور ہوجائے گا کہ کوئی بھی شخص آپ کوکسی بھی سمت لے کرجاسکتاہے۔یوں فیصلہ سازی کا جو اختیار آپ کے پاس ہے وہ مفلوج ہوجائے گا اور آپ خودکو بے بس ولاچارمحسوس کریں گے۔فیصلہ کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھیے اور جو بھی فیصلہ کریں جرات کے ساتھ اس کے نفع نقصان کی ذمہ داری بھی خود لیں۔
(5)فیملی ٹائم
پیشہ ورانہ کاموں سے فراغت کے بعد گھر آکر خود کو مکمل طورپر اپنی فیملی کے لیے دستیاب کریں ۔موبائل فون اور دوسرے معاملات کو موقوف کریں اور فیملی ٹائم میںاگر کوئی شخص کسی کام پر اصرارکرتاہے تو صاف معذرت کرلیںکیوں کہ آ پ کے گھروالوں اوربچوں کا آپ پر حق ہے۔
(6)دوسروں سے توقعات
لوگوں سے توقعات وابستہ نہ کریں اور نہ ہی دوسروں کو یہ موقع دیں کہ وہ آپ سے کچھ توقعات رکھیں۔وگرنہ یہ صورت حال آپ کے لیے مشکل ثابت ہوگی۔ہر انسان میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے کسی شخص سے کوئی امید لگائی لیکن وہ کام اس کی استطاعت میں ہی نہ ہو۔اب اگر آپ کی توقع پوری نہ ہوئی تو آپ ضرو ر دلبرداشتہ ہوں گے اور ہوسکتاہے کہ اس شخص کے ساتھ آپ کے تعلقات بھی خراب ہوجائیں۔
اسی طرح جب آپ کو محسوس ہوکہ دوسرے لوگ آپ سے کچھ توقعات لگائے بیٹھے ہیں تو پہلی فرصت میں اپنی پوزیشن واضح کردیں کہ یہ چیزیں میرے دائرہ کار سے باہر ہیں ، میں آپ کی ان توقعات پر پورانہیں اتر سکتا۔اس وضاحت سے لوگوں کوحقیقت معلوم ہوجائے گی اوروہ توقعات پورانہ ہونے کے دُکھ سے بچ جائیں گے۔
(7)ہرسوال کا جواب دینا ضروری نہیں
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بغیر کسی جان پہچان کے آپ سے انتہائی ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھناشروع کردیتے ہیں۔مثال کے طورپر آپ بس میں بیٹھے سفر کررہے ہیں ، پاس کی سیٹ پر ایک مسافر براجمان ہے۔وہ آپ سے بات چیت کرتاہے اور دوچارباتوں کے بعد سیدھایہ سوال پوچھتاہے۔آپ کی شادی ہوگئی ہے؟ کتنے بچے ہیں ؟ تعلیم کتنی ہے؟ سیلری کتنی ہے ؟ گھرکس محلے میں ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے تمام سوالات کے جوابات دینا آپ کے لیے ضروری نہیں ۔آپ صاف معذرت کرسکتے ہیں اور انھیں بتاسکتے ہیں کہ آپ میرے قریبی جان پہچان کے آدمی نہیں ، پھر میں کیسے آپ کو ذاتی زندگی کے بارے میں بتائوں؟اسی طرح اگر کوئی شخص آپ کی ذات اور آپ کے کام پر اعتراض کرتاہے تواس کو جواب دینابھی ضروری نہیں۔اگر آپ واقعی زندگی میں کچھ موثر کام کررہے ہیں تو یہ بات یادرکھیں کہ آپ پر تنقید ہوگی ۔ایسے میں اگر آپ جواب دینے لگ جائیں تو اپناکام آپ سے رہ جائے گا۔دوسری بات یہ کہ معترضین آپ کے ایک جواب سے مطمئن نہیں ہوں گے ۔وہ ایک سوال کے بعد دوسرا، پھر تیسرا اور چوتھا سوال کریں گے اوریوں آپ کا قیمتی وقت ضائع ہوگا۔
(8)بلااجازت ملاقات
اپنے لیے ہمیشہ یہ اصول بنائیں کہ کسی بھی شخص سے پیشگی اجازت کے بغیر ملاقات نہ کریں ۔اسی طرح کوئی شخص اطلاع دیے بغیر آپ کے ذاتی وقت میں آجائے تو مہمان نوازی ضرور کیجیے لیکن ساتھ میں اس بات کااحساس بھی دلائیے کہ آپ کو اطلاع دے کر آناچاہیے کیوں کہ بغیر اجازت ملنے سے دوسرے انسان کے کئی سارے کام متاثر ہوجاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان تمام اصولوں کوبیان کرنے کامقصد انسان کو خودغرض بنانانہیں ہے ۔آپ سب کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھیے ، ہر ایک کو عزت دیجیے ، ہر ایک کی مدد کیجیے اور اگر مدد نہیں کرسکتے تو دعاضرور کیجیے لیکن اپنی زندگی کے لیے کچھ اصول ضرور طے کیجیے کیوں کہ آپ اپنے آپ کے نگہبان ہیں اور اس بارے میں آپ سے حساب لیاجائے گا۔نیز یہ بات بھی یاد رکھیے کہ چیزوں کی خوب صورتی تب تک برقرار رہتی ہے جب وہ ضرورت کے مطابق ہوں ۔جب بھی کوئی چیز ضرورت سے تجاوز کرجائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔اسی طرح زندگی اور تعلقات کے لیے بھی حدود متعین کرنا اور ہر ایک تعلق کو اپنی اسی حد میں رکھ کر نبھاناہی دراصل اس رشتے کاحسن ہے اور ایک پرسکون زندگی کا راز بھی ۔