ٹائم مینجمنٹ
’’آپ یہ واضح نہیں کرسکتے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ البتہ آپ اپنے بڑے اہداف
اور بڑی منزلوںکا فیصلہ کرسکتے ہیں!‘‘(کلیمنٹ اسٹون)
لوگوں کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وقت کتنا قیمتی ہے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ زندگی ایک بار ملی ہے اور اس میں بھی آدھی زندگی گزرنے کے بعد جا کر شعور ملا اور یہ شعورملنے کے بعد بھی یہ نہیں دیکھا کہ وقت کو کہاں استعمال کرنا ہے۔ انسان جس طرح پیسے کے متعلق سوچتا ہے کہ اسے کہاں خرچ کرنا ہے، اس کا بہتر استعمال کیسے کرنا ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھانا ہے، اسی طرح اسے چاہیے کہ وقت کی اہمیت کو بھی جانے۔
سید قاسم محمود مرحوم ادب کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ انھوں نے لٹریچر پر بہت کام کیا۔ ان کے آخری ایام میں ایوانِ اقبال، لاہور میں ان کے کام کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس میں ان کی کتابیں اور رسائل رکھے گئے۔ ایک بڑا ذخیرہ تھا جس نے خاصی جگہ گھیر لی۔ ایک شخص کا اتنا کام؟ کسی نے ان سے پوچھا کہ قاسم صاحب، آپ ایک فرد ہیں۔ آپ نے اداروں جتنا کام کیسے کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے توکچھ نہیں کیا، بس میں نے وقت کو صحیح استعمال کیا ہے۔ شہید حکیم محمد سعید اُن کے گہرے دوست تھے۔ حکیم صاحب سید صاحب کی مثال دے کر کہا کرتے تھے کہ دیکھو، یہ جن ہے جن!
اگر ایک شخص ٹھان لے کہ اسے اپنا وقت قابو کرنا ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے تو وہ کم وقت میں زیادہ کام کرنے کا ہنر سیکھ سکتا ہے۔
ہر انسان کو برابر کا وقت ملتا ہے
قدرت ہر شخص کو دن بھر میں 1440 منٹ، ہفتے میں سات دن، مہینے میں تیس دن اور سال میں 365 دن دیتی ہے، یعنی ہر ایک کو برابر کا وقت ملتا ہے۔ لیکن ہر ایک کا استعمال مختلف ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ ہے جو بہت مصروف ہوتا ہے۔ وہ بہت خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کا وقت گزرتا ہی نہیں۔ ایسے لوگ اپنا وقت ٹی وی دیکھ کر، سوکر، سوشل میڈیا پر یا آوارہ گردی میں گزار دیتے ہیں۔
جو شخص تنظیم وقت کرنا چاہتا ہے، وہ سب سے پہلے یہ دیکھے کہ مجھ سے اپنا وقت کیوں قابو نہیں ہو رہا۔ سب سے پہلے وہ اس کی فہرست بنائے۔ جب فہرست بنے گی تو بہت سے ایسے کام نکلیں گے جو اس کے وقت کے ضیاع کا باعث بن رہے ہوں گے۔
پرائم ٹائم
ہر شخص کے چوبیس گھنٹوں میں کچھ وقت اس کا ’’پرائم ٹائم‘‘ ہوتا ہے۔ پرائم ٹائم وہ وقت کہلاتا ہے کہ جب آدمی کم وقت میں زیادہ معیار اور زیادہ مقدار کا کام کرسکتا ہے۔ مختلف افراد کیلئے پرائم ٹائم مختلف ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کیلئے صبح سویرے کا وقت بہتر ہوتا ہے تو بعض لوگوں کیلئے رات کا۔ تاہم، اسلامی فلسفے کے مطابق، کام کرنے کا بہترین وقت تہجد سے لے کر زوال تک کا وقت ہے۔ قرآن میں بھی ہے کہ ہم دن کو کام کرنے کیلئے اور رات کو آرام کیلئے بنایا ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے کامیاب ترین اور امیر ترین افراد کی زندگی کا مطالعہ کیا گیا تو پتا چلا کہ وہ لوگ دیر سے سوتے ہیں اور جلد اٹھتے ہیں۔ امریکا میں کی گئی تحقیقات کے مطابق، عموماً دنیا کے امیر ترین افراد صبح تین سے چار بجے اٹھ جاتے ہیں اور پھر نہیں سوتے۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہی فطری طریقہ ہے۔
بہ ہر کیف، اپنے پرائم ٹائم کو جانچ کر اس کے مطابق اپنے کاموں کو ترتیب دیجیے۔ آپ کا جو بھی پرائم ٹائم ہے، اس میں وہ کام کیجیے جو آپ کی زیادہ توجہ مانگتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے کام جو نسبتاً کم توانائی اور توجہ کے طالب ہیں۔اگر آپ پرائم ٹائم میں کم تر توجہ کا کام کریں گے تو باقی وقت میں زیادہ توجہ کا طالب کام کرنا پڑے گا۔ یوں، آپ کا وقت زیادہ لگے گا، مگر نتیجہ کم تر ہوگا۔
بڑی تعداد میں لوگ اپنی دفتر زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ اس کے برخلاف، ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف اپنی ذاتی زندگی کو زندگی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی فیملی کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ جس قسم کی زندگی کو اصل سمجھتے ہیں، وہ اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ اس میں گزارتے ہیں۔
جو نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ہم جیسے ہی تعلیم سے فارغ ہوں گے، ہمیں فوراً جاب مل جائے گی، پھر ہمیں زیادہ وقت مل پائے گا۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ جاب ملنے میں کچھ عرصہ لگتا ہے۔ ڈگری لینے کے بعد جو نوجوان جاب کا انتظار کرتے ہیں، ان میں نوے فیصد جاب ملنے تک فارغ رہتے ہیں، حالانکہ انھیں چاہیے کہ اس دوران وہ کوئی ایسا کام کر یں جس میں بے شک تنخوا ہ کم ہو، معیار بھی وہ نہ ہو، مگر اس سے انھیں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا۔ انسان بنیاد کو نہیں دیکھتا، وہ بلندی کو دیکھتا ہے جبکہ بلندی کیلئے بنیاد کی مضبوطی ضروری ہے۔
سات ٹوکریاں
ہماری زندگی کے سات حصے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ زندگی کی سات ٹوکریاں ہیں اوراپنے وقت کو ان ساتوں ٹوکریوں میں رکھنا ضروری ہے۔ کسی ایک ٹوکری کو بھی نظر انداز کردیا گیا تو زندگی متوازن نہیں ہے۔ جب زندگی متوازن نہیں ہوگی تو پریشانیاں جنم لیں گی۔ زندگی کی یہ سات ٹوکریاں کچھ یوں ہیں:
1 پہلی ٹوکری: اپنی ذات ختمہ نہ لگایا جائے
اس میں دیکھا جاتا ہے کہ صحت کی طرف توجہ کتنی ہے، کیا سیلف ایمپروومنٹ ہورہی ہے۔
2 دوسری ٹوکری:اپنی فیملی
اس میں دیکھا جاتا ہے کہ آپ کتنا وقت اپنی فیملی کو دے رہے ہیں اور اس میں کتنی بہتری ممکن ہے۔
3 تیسری ٹوکری: پروفیشن
اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ پروفیشن کیساہے اور پروفیشنل زندگی کیسی ہے۔
4 چوتھی ٹوکری: سوسائٹی
یہ سوشل سرکل ہے۔ اس میں دیکھا جاتا ہے کہ زندگی میں حلقہ احباب کتنے ہیں۔ کون سے مفید ہیں اور کون سے مضر ہیں۔ کتنوں کو رکھنا ہے، کتنوں کو نہیں رکھنا۔کیا درکار وقت دیا جارہا ہے یا ضرورت سے زیادہ وقت یہاں صرف ہورہا ہے۔
5 پانچویں ٹوکری:خدمت
اس میں دیکھا جاتا ہے کہ دوسروں کی خدمت کی حوالے سے بھی کوئی کردار ادا ہورہا ہے کہ نہیں۔ یا انسانیت کی خدمت کیلئے کوئی وقت مختص ہے۔
6 چھٹی ٹوکری:مذہب
اس کا تعلق روحانی نمو سے ہے۔ اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کتنا تعلق ہے۔ کیا مادہ پرست ہوکر تو نہیں رہ گئے۔ کیا اللہ کے حقوق ادا کیے جارہے ہیں۔ اللہ کیلئے کتنا وقت رکھا ہے۔
7 ساتویں ٹوکری:تنہائی
اس میں دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنے ساتھ کتنا وقت گزارتا ہے۔ انسان اپنے سے کتنی دیر ملاقات کرتا ہے۔ وہ خود سے باتیں کرتا ہے یا نہیں۔ وہ اپنے حقوق کو جانتا ہے کہ نہیں۔
یہ زندگی کے سات رنگ ہیں۔ خوش قسمت انسان وہ ہے جس کے اندر یہ سارے رنگ پائے جاتے ہیں۔ انھی سات رنگو ں میں اپنے وقت کو متوازن طور پر تقسیم کرنا دراصل ٹائم مینجمنٹ ہے۔ عین ممکن ہے، کسی دن فیملی کو زیادہ وقت کی ضرورت ہو۔ اس دن دفتر سے چھٹی کرنا ہوگی۔ عین ممکن ہے، کسی دن آفس میں کام زیاد ہ ہو جس کی وجہ سے گھر والوں کو پورا وقت دینا مشکل ہوجائے گا۔ عین ممکن ہے، دوست تکلیف میں ہو۔ اس کو زیادہ وقت کی ضرورت ہو۔ عین ممکن ہے، آ پ بیمار ہوں اس لیے اپنی صحت کیلئے زیادہ وقت چاہیے۔ عین ممکن ہے، آپ اپنے تئیں کُڑھ رہے ہوں اور ایسا لگ رہا ہو کہ زندگی میں کسی شے کی کمی ہے حالانکہ بہ ظاہر کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اس وقت آپ کو تنہائی کیلئے زیادہ وقت چاہیے۔
یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ وقت کہاں کہاں تقسیم کرنا ہے اور ابھی کہاں کہاں لگ رہا ہے۔ ترجیحات کا تعین بہت ضروری ہے۔
وقت کی کمی کا مسئلہ کن لوگوں کیلئے نہیں ہے؟
ایک خاص روٹین کے ساتھ کام کرنے والوں کیلئے ٹائم مینجمنٹ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ نو اور پانچ کے پھیرے میں رہتے ہیں۔ انھیں اپنے وقت کو ترتیب اور تنظیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ واضح رہے، ٹائم مینجمنٹ اُن افراد کا مسئلہ ہے جو وقت کی کمی کا احساس رکھتے ہیں، جو اپنی ایک زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے معمولی اوقات کو غیر معمولی نتائج میں بدلنے کیلئے پاگل ہوئے جاتے ہیں۔ جو اپنے اندر سوئے جن کو جگا چکے ہیں اور اب اس جن سے کام لینا چاہتے ہیں۔
جب یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو پھر کام زیادہ ہوتا ہے اور وقت بہت کم۔
پروایکٹو کردار
دنیا کے کامیاب لوگوں کی عادات میں سے ایک عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ پروایکٹیو (Proactive) ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں والدین کو اپنے بچوں کا بیمہ کرانے کی بہت فکر ہوتی ہے، لیکن ان کی تربیت کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ حالانکہ یہ اصل بیمہ ہے۔پروایکٹیو کا مطلب ہے کہ آپ عمل کیلئے کتنے تیار ہیں؟ آنے والے اوقات کو کتنا پلان کیا؟ وقت کو ضائع ہونے سے کتنا بچایا؟ ایسے لوگ ہر وقت، ہر لمحہ اپنے آپ سے سیکھتے رہتے ہیں۔ جو آدمی اپنے روزو شب سے سیکھتا نہیں، وہ اپنے وقت سے زیادہ پاتا بھی نہیں۔
جو لوگ سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں اور اپنے اندر تبدیلی کی لچک پیدا کرلیتے ہیں، ان کی ٹائم مینجمنٹ اچھی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے بہ حیثیت ِ قوم، ہم سیکھنے کو اہم نہیں سمجھتے۔ سیکھنے کیلئے کتاب کا مطالعہ اور حالات کا مشاہدہ اہم ذرائع ہیں۔ دنیا کے ذہین لوگ اپنی زندگی کی بدقسمتی اور خوش قسمتی کو معنی دیتے ہیں۔ جن لوگوں کی زبانوں پر ہر وقت گلہ شکوہ اور پچھتاوا رہتا ہے، یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ وقت کا استعمال صحیح نہیں ہوا۔ مجھے ایک یونانی کہانی یاد آگئی جس میں ہے کہ ایک شخص جب مرنے لگا تو اس کے سامنے تین لوگ آگئے اور چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ تم ہمارے مجر م ہو۔ مرنے والے نے کہا، تم کون ہو، میں تمہیں نہیں جانتا۔ ان تینوں نے جواب دینا شروع کیا۔ ان میں سے پہلے نے کہا، میں وہ وقت ہوں جو تمہیں ملا تھا لیکن تم نے مجھے ضائع کردیا۔ دوسرے نے کہا، میں وہ توا نائی ہوں جو تمہیں ملی تھی لیکن تم نے مجھے ضائع کر دیا۔ تیسرے نے کہا، ہم وہ ذرائع ہیں جو مالک نے بہانے بہانے سے تمہیں دیئے مگر تم نے ہمیں ضائع کیا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مرنے کے بعد انسان سے دنیا کے بارے میں پانچ سوال کیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ اپنے وقت کو کیسے استعمال کیا۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مواقعوں کو ضائع کرتا ہے تو پھر یہی مواقع اس کے آخری وقت پر عذاب کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا، وقت کو درست طریقے سے استعمال کرنا بہت ضروری ہے اور اس کیلئے ٹائم مینجمنٹ کی مہارت کا سیکھنا لازمی ہے۔
فطرت کے ہاں چھٹی نہیں
ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی چھٹی کو بھی پلان کرتے ہیں جبکہ ہم چھٹی والے دن لمبی تان کر سوجاتے ہیں اور پھر پورا دن برباد ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیے، زندگی میں قانونِ قدرت کے تحت ’’چھٹی‘‘ کبھی نہیں ہے، صرف کاموںکی تبدیلی ہے۔
یہ زندگی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے۔ اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا درست استعمال کرناچاہیے۔ وقت اللہ تعا لیٰ کا تحفہ اور انعام ہے۔ اس کو صحیح طریقے سے مینج کرنا چاہیے تاکہ زندگی میں آسانی پیدا ہو۔
نیویارک میں پارکنگ پلازا انیس سو پچیس میں بننا شروع ہوگئے تھے، حالانکہ اس وقت پورے نیو یارک میں صرف پچیس گاڑیاں تھیں لیکن ان کی سوچ پروایکٹیو تھی۔ اس لیے انھوں نے یہ سوچ کر پارکنگ پلازا بنائے کہ آنے والے وقت میں یہاں پر گاڑیاں آئیں گی۔ چنیوٹ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں ہزاروں ارب پتی ہیں۔ ایک جگہ پر اتنے امیر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تمام لوگ پروایکٹو لوگ تھے۔
اگر سیکھنے کی جستجو ہے تو انسان کی شخصیت ترو تازہ ہے۔ اگر سیکھنے کی جستجو ہے تو انسان کی شخصیت میں چمک ہے۔ سیکھنے والا ہر وقت کھوج اور تلاش میں رہتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو سیکھنے کا شوق ہوتا ہے ، ان کی عمر لمبی ہوتی ہے۔ جب انسان یہ کہتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا تو پھر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب اس کا جینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ کہتا ہے کہ اگر آدمی نے کچھ کرکے دکھانا ہوتو اس کیلئے ایک زندگی کافی ہے، وگرنہ پانچ سو زندگیاں بھی مل جائیں تو وہ کچھ کرکے نہیں دکھا سکے گا۔