پچھتاوؤں سے بچیں!
(قاسم علی شاہ)
اس کی موت کا وقت قریب تھا ۔سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور کچھ ہی وقت میں وہ دنیا سے جانے والا تھا ۔ایسے میں ا س کے سامنے ایک اسکرین چلی ، جس پر زندگی کے اہم ترین حالات وواقعات چلنے لگے ۔انہیں دیکھ کرکبھی تو وہ خوش ہوتا ، کبھی غمگین ہوجاتا ، کبھی فخر محسوس کرتا تو کبھی پچھتاوا۔اچانک اسکرین بجھ گئی۔ اس نے دیکھا تو اس کے سامنے تین افراد کھڑے تھے جن کے چہروں پر سنجیدگی بھرا غصہ تھا۔ان میں سے ایک نے کہا:’’میں تیری زندگی کی وہ نعمت ہوں جس کا کوئی مول نہیں ، لیکن تو نے مجھے بڑی بے دردی کے ساتھ استعمال کیا ۔میں ’’وقت‘‘ ہوں اور آج تجھ سے اپنا جواب مانگنے آیاہوں ۔بتا تو نے مجھے ضائع کیوں کیا؟‘‘ سوال سن کر وہ گھبرایا ،اسکرین ایک بار پھر چلی اور اس کے سامنے وہ تمام حالات آگئے جن میں اس نے وقت کا گلہ گھونٹا تھا۔
اس کوبائیں شانے سے کسی نے ہلایا ، اس نے دیکھا تووہاں دوسرا فرد کھڑا تھا۔
’’میں وہ وسائل ہوں جو تجھے زندگی میں ملے ۔جن کی بدولت تو نے تعلقات بنائے ، عیش وآرام کیا لیکن جہاں میری ضرورت تھی وہاں تونے مجھے استعمال نہیں کیا۔تجھے جس مقصد کے لیے میں ملا تھا ،وہ تو نے پورانہیں کیا ۔بتاتو نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
بے بسی سے اس کے پسینے چھوٹنے لگے، بڑی مشکل سے اس نے تھوک نگلا۔اچانک ایک اور تیز آواز آئی۔
’’ میں بھی تیری زندگی کی ایک بہت بڑی نعمت تھی ۔جب تو پید اہوا تو اس وقت سے مجھے تیرے اندر رکھا گیا ۔تو بڑھتا گیا تو مجھے بھی بڑھایا گیا تاکہ تو میری وجہ سے اپنی زندگی کو آسان بناسکے ۔میں ’’توانائی‘‘ ہوں ۔تجھے یہ نعمت اس لیے ملی تھی تاکہ تو اس کو کام میں لاکر خود کو بہتر بنائے۔جذبات کی توانائی کے ذریعے تو دوسروں کے جذبات کا خیال رکھے ۔روحانی توانائی کے ذریعے تو اپنے رب سے قریب ہو اور دوسروں کو بھی اس راہ پر لانے کی کوشش کرے ۔جسمانی توانائی کے ذریعے تومحنت سے کام لے اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے لیکن افسوس! صد افسوس! تو نے مجھے بری طرح ضائع کیا ۔تو نے میری قدر ہی نہیں کی ۔مجھے وہا ں وہاں خرچ کیا جہاں میری ناقدری ہوئی ۔آج میں جواب لینے آئی ہوں ۔بتا! تو نے میرا استحصال کیوں کیا؟‘‘
گھبراہٹ ، پریشانی اورپشیمانی سے اس کی حالت غیر ہونے لگی۔اس کو یوں لگا جیسے مرنے سے پہلے ہی منوں مٹی تلے وہ دب گیا ہو۔آہستہ آہستہ اس کی شہہ رگ بھی مدھم پڑھ رہی تھی۔پھر اس کو یوں لگا جیسے آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا گیا ہو۔دِل دھڑکنا چھوڑ چکا تھااوربند ہوتے ہوتے اس میں ایک ہی احساس تھا۔
پچھتا وا۔۔۔حسرت۔۔۔اے کاش ۔۔۔
انسان کا مقصد
اس کائنات کی سب سے قیمتی اور بے مثل مخلوق’’انسان‘‘ہے ،لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سارے لوگ دنیا میں آتے ہیں ، بڑے ہوتے ہیں ، شادی ہوجاتی ہے ، بچے ہوجاتے ہیں اور دس مرلے کا مکان بناکر فوت ہوجاتے ہیں۔معاشرے کی عمومی سوچ ہی یہ بنی ہے کہ ہم اچھی ڈگری حاصل کریں ، اچھی نوکری پائیں اور اپنا گھر لے لیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی زندگی کا یہی مقصد ہے؟جواب ہے:’’ہرگز نہیں‘‘
خالق کائنات انسان کی پیدائش کا مقصد بتاتے ہوئے فرماتا ہے:
’’ہم نے جن و انس کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘(سورۃ الذاریات:56)
عبادت کی خوبصورت شکل سجدہ ہے ۔سجدے میں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہ ہمار ا رب ہے ۔وہ پاک ہے اور عظیم ہے۔اس بات کا یقین کہ فقط اللہ ہی میرا خالق ہے ، وہی میری عبادت کے لائق ہے اور میری تمام تر جسمانی اور روحانی صلاحیتیں فقط اسی کے لیے ہیں،بندگی کہلاتا ہے۔وہ میرا رب ہے اور رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کی مرحلہ وار پرورش کرتا ہے ۔انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے ہر ہر لمحے اور موڑپر وہ پالتا ہے۔جب یہ یقین ہوگا تو پھر انسان رزق کے خوف سے گمراہی میں نہیں پڑے گااور نہ ہی وہ اپنے رب کے علاوہ کسی اور کے خوف میں مبتلا ہوگا۔
دوسرا لفظ پاک ہے ، جس کا اقرار کرتے ہوئے بندے پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ بھی پاکی اختیار کرے ۔جسمانی پاکی کے ساتھ ساتھ روحانی پاکی بھی۔وہ ہر اس کام سے بچے جو اس کوگندگی( گمراہی) کی طرف لے کر جاتا ہو اور دوسروں کو بھی اس سے بچائے ۔وہ خود بھی پاک اور مثبت سوچ کا حامل ہوا ور معاشرے میں بھی اس چیز کو پروان چڑھائے ۔وہ منفیت نہ پھیلا ئے ۔وہ لوگوں کو امید دے اور ان کی مایوسیاں ختم کرنے کی کوشش کرے۔
تیسرا لفظ اعلیٰ ہے۔سجدے میں اس بات کا اقرار کہ میر ارب عظیم ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے،ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اپنی تمام ضروریات بھی صرف اسی سے مانگنی چاہییں ۔اپنی امید یں انسانوں سے نہیں لگانی چاہییں ، کیونکہ انسان مانگنے سے ناراض جبکہ رب خوش ہوتا ہے ۔
رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر جن باتوں کا ہم اقرار کرتے ہیں جب وہ چیزیں عملی زندگی میں آجاتی ہیں تو پھر انسان کی پیدائش کا اصل مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
خود سے سوال
’’خودشناسی‘‘ کے ایک پروگرام میں میں نے پہلی لائن میں بیٹھے ایک صاحب سے پوچھا:’’آپ کا نام کیاہے؟‘‘’’ میرا نام طیب ہے۔‘‘دو سیکنڈ سے بھی کم وقفے میں جواب آگیا۔’’طیب صاحب! کیا آپ اپنے اندر موجود طیب کو جانتے ہیں؟‘‘میں نے ایک اور سوال پوچھا لیکن جواب میں خاموشی تھی۔
ہم سب کا حال تقریباً یہی ہے۔ہم ساری دنیا کو جاننے کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن کبھی خود کو نہیں جانا ہوتا اور نہ ہی کبھی اپنے ساتھ وقت گزارا ہوتا ہے۔جبکہ یہ زندگی کا سب سے اہم ترین کام ہے ،کیونکہ اپنے ساتھ سوال و جواب میں آپ خود کو پکڑ سکتے ہیں۔اپنا راستہ ٹھیک کرسکتے ہیں۔اگر کسی غلط بس میں بیٹھے ہوں توجلدی سے اترسکتے ہیں۔خود سے یہ سوال کرنا بڑا ضروری ہے کہ میں جو کام کررہا ہوں ، یہ واقعی میرے لیے اہم ہے ؟ میں جو قدم اٹھارہا ہوں کیا یہ مجھے منزل کے قریب لے کر جارہا ہے یا منزل سے دور؟میرا جن لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا ہے یا جن لوگوں کو میں اپنی زندگی میں نظر انداز کررہا ہوں ، یہ میری زندگی میں اہمیت رکھتاہے یا نہیں؟جب بھی آپ خود سے یہ سوال کریں گے تو آپ کے سامنے حقیقت آشکار ہوجائے گی۔آپ کو معلوم ہوگا کہ کون سے کام میری ترجیحات میں شامل ہیں اور کون سے نہیں۔اس کے بعد آپ کے لیے ترجیحات متعین کرنا آسان ہوجائے گااور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی زندگی کی تین اہم ترین چیزیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی۔وقت ، وسائل اور انرجی
ہم معاشرے میں اکثر یہ بات سنتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا عقل مند ہے یافلاں بڑا بے وقوف ہے۔دراصل انسانوں کے متعلق یہ رائے ان کی ترجیحات کی وجہ سے قائم کی جاتی ہے ۔آپ کی زندگی کی ترجیحات ہی اس بات کا فیصلہ کرتی ہیں کہ لوگوں کی نظروں میں آپ کا کیا مقام ہے۔جب آپ درست ٹریک پر چل رہے ہوتے ہیں تو باقی لوگوں کو بھی معلوم ہوجاتا ہے اور وہ خواہ مخواہ آپ کو ڈسٹرب نہیں کرتے لیکن جب آپ کی کوئی ترجیح ہی نہ ہو تو پھر آپ کی ترجیحات دوسرے لوگ بناتے ہیں ۔وہ آپ کو اپنی ترجیحات میں استعمال کرنا شروع کرلیتے ہیں۔پھر کوئی بھی آپ کو ہاتھ سے پکڑ کر کہیں بھی لے جاسکتا ہے کیونکہ آپ کی مثال کٹی پتنگ کی طرح ہے۔
ترجیح اول
انسان جب پیدا ہوتا ہے تواس کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں ۔جب وہ بڑا ہوتا ہے تو ضروریات بھی مختلف ہوجاتی ہیں ۔ایسے ہی زندگی کے ہر موڑ پر ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں اور عقل مند وہی ہے جوبدلتی ترجیحات کے ساتھ خود کو بھی بدلے ۔البتہ بعض ترجیحات ایسی ہوتی ہیں جو کبھی نہیں بدلتی اور انہیں ہمیشہ ترجیح اول کی حیثیت دینی ضروری ہوتی ہے۔بحیثیت مسلمان ہمارا ترجیح اول ، رب کی ذات ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام پروٹوکولز ہیں جو دین اسلام نے ہمارے لیے متعین کیے ہیں، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ دینی اقدار انسان کی دنیاوی ترقی میں رُکاوٹ بنیں بلکہ دین تو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی کامیابی اور خوبصورتی بھی اللہ سے مانگو۔
آپ ﷺ کاروزمرہ معمول :ایک بہترین مثال
احادیث اور سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے 24گھنٹوں کے دورانیے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا ۔8گھنٹوں میں وہ مختلف طرح کے معاشرتی اور پیغمبرانہ ذمہ داریاں نبھاتے ۔دوسرے آٹھ گھنٹوں میں اہل خانہ کی ضروریات پوری فرماتے اور انہیں وقت دیتے ۔جبکہ تیسرے آٹھ گھنٹوں میں آرام اور اللہ کے ساتھ مناجات فرماتے۔
آپ ﷺ کا یہ معمول ’’ورک لائف بیلنس‘‘ کی عمدہ ترین مثال ہے۔دراصل ہم ’’کام ، فیملی، آرام ‘‘کے مثلث میں گھوم رہے ہوتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ہم اس توازن کو کھودیتے ہیں۔زیادہ سے زیاد ہ پیسہ بنانے کے چکر میں فیملی اور آرام تک کو نظر انداز کردیتے ہیں،جس سے بڑے مسائل بنتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کے پاس کوئی معقول کام نہیں ہوتا اور وہ ہر وقت آرام اور انجوائے منٹ کی فکر میں ہی رہتے ہیں ،یہ طرزِعمل بھی ٹھیک نہیں۔ایک بہترین انسان وہی ہے جو ہر کام کواپنے وقت پر کرے اور زندگی میں اعتدال لائے ۔
وقت ہمارے ہاتھ میں ہے
آج ہم زندہ ہیں۔ہمارے پاس اپنی زندگی جینے کا اختیار ہے ۔اللہ نے ہمیں وقت ، توانائی اوروسائل کی نعمتیں دے کر مالامال کیا ہوا ہے۔ان بیش قیمت نعمتوں کااستعمال کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کی ترجیحات متعین کرے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے ۔جب ترجیحات متعین ہوتی ہیں تو پھر انسان اپنے اہداف کو آسانی کے ساتھ پالیتا ہے اور یہی اہداف اس کو ایک کامیاب اور نفع مند انسان بنادیتے ہیں۔ترجیحات کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا انسان موت کے وقت بھی پرسکون اور مطمئن ہوتا ہے لیکن وہ شخص جو بے سمت کے سفر میں اپنی زندگی گزاردیتا ہے توپھرمرتے وقت اس کے پا س پچھتاوے ہی پچھتاوے ہوں گے۔