پڑھنے کی مہارت میں کیسے اضافہ کر سکتے ہیں
(قاسم علی شاہ)
بخارا کے سلطان نوح بن منصور ایک پرسرار بیماری میں مبتلا تھے۔ بہت سے تجربہ کار طبیب ان کا علاج کر چکے مگر افاقہ نہیں ہوا۔ آخر ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ان کا علاج کیا اور وہ تندرست ہوگئے۔ انھوں نے اس نوجوان سے پوچھا:’’ تمھیں انعام میں کیا چاہیے؟ ‘‘نوجوان نے جواب دیا:’’ مجھے آپ کے کتب خانے تک مکمل اور ہر وقت رسائی چاہیے۔‘‘ نوح بن منصور یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ بہرحال اس نے اس نوجوان کو اپنے شاہی کتب خانے تک رسائی دی جہاں ہزاروں کتب موجود تھیں۔سلطان نوح بن منصور کو حیرت ہوئی کہ ایک سال کے عرصے میں وہ نوجوان نہ صرف اس کتب خانے کی بیشتر کتب پڑھ چکا تھا بلکہ ان کتب کے ساتھ اس کے لکھے ہوئے افادات اور نوٹس بھی موجود تھے۔اس نوجوان کے پاس پڑھنے کی حیران کن مہارت موجود تھی مگر اس کے ساتھ کتابوں کے بنیادی خیالات کو سمجھنا اور ان کے بارے میں اہم نوٹس تیار کرنا بھی اس کی حیرت انگیز قابلیت تھی۔ یہی نوجوان آگے چل کر سائنس اور طب میں مسلم تاریخ کا سب سے بڑا نام ثابت ہوا۔ جسے دنیا بوعلی سینا کے نام سے جانتی ہے۔
پڑھنے کی مہارت میں عبارت کے متن کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ کتاب کو پڑھنے کے دوران اپنے کسی استاد یا ساتھی سے اس کتاب کے موضوعات اور تصورات کے بارے میں گفتگو کرتے رہنا بہت فائدہ مند ہے۔اس سے نہ صرف کتاب پڑھنے کی رفتار اور مہارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ کتاب سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ استاد یا آپ کا ساتھی کتاب کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔ اس میں موجود اہم واقعات، اہم تصورات اور اہم نکات کے بارے میں پوچھتا ہے۔ آپ کے خیالات اور تصورات کو واضح کرنے میں مدد دیتا ہے جس سے نہ صرف آپ کتاب کے موضوع کو سمجھ لیتے ہیں بلکہ اس کتاب میں درج اہم تصورات اور نکات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔بوعلی سینا اور البیرونی اپنے زمانے کی دو عظیم شخصیات تھیں ۔ دونوں کے درمیان ارسطواور دوسرے یونانی فلاسفر کی کتابوں اور فلسفے سمیت فلکیات اور ریاضی جیسے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔اس دلچسپ گفتگو میں یہ دونوں مختلف کتابوں ، موضوعات ،تصورات اور خیالات پرایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرتے تھے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا پڑھنے کی رفتار میں اضافے کے ساتھ متن سمجھنے کی اہلیت میں کیسے اضافہ کر سکتا ہے؟
اس بارے میں مسلم اکابرین کا طریقہ بہت مفید ہے کہ وہ کتاب سمجھنے کے لئے کتاب کے حواشی تیار کیا کرتے تھے۔ آج بھی تحقیق کرنے والے کتاب کے بارے میں اہم نوٹس تیار کرتے جاتے ہیں جس سے نہ صرف انھیں کتاب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس کے حوالہ جات تیار کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔اس سلسلے میں کتاب کو سمجھنے کے لیے ہائی لائٹ کرنے کا طریقہ مفید رہتاہے۔پڑھنے والا اہم الفاظ اور موضوعات کو ہائی لائٹ کرتا جاتا ہے۔ جس سے دوسری دفعہ وہ اہم عبارت کو پڑھ کر اس کا مقصد سمجھ جاتا ہے۔
ایک صاحب علم شخصیت کا قول ہے کہ زیادہ پڑھنے سے نہ صرف یاد کرنے اورسمجھنے کی اہلیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ آپ کا ذہنی معیار بھی بڑھ جاتا ہے۔ایران کے ایک معروف عالم دین لکھتے ہیں کہ مطالعہ کرنے والوں کو رہنمائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم رہنمائی دینے والے کو دیکھنا چاہیے کہ پڑھنے والا کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ اور اسی حساب سے اسے مخصوص کتابوں کے مطالعہ کا کہا جائے۔ انھوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ مختلف شہروں میں کتابیں پڑھنے والے مہینے میں ایک دفعہ ملاقات کا اہتمام کر سکتے ہیں جہاں وہ کسی کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہاراور کتاب کے تصورات پربحث کر سکتے ہیں۔
دوسرے لوگوں کو کتاب کے مطالعہ میں شریک کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے ،آپ فیس بک میں کتاب پر تبصرہ لکھ سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کتاب کے حوالے سے وٹس ایپ گروپ بنایا جا سکتا ہے جہاں کتاب کے بارے میں بات کی جائے۔ فیس بک کے بانی ’’مارک زکربرگ‘‘ کہتے ہیں کہ وہ دو ہفتے میں ایک کتاب کا مطالعہ مکمل کرتے ہیں ۔وہ جو کتاب پڑھتے ہیں اس کے بارے میں اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر اپ ڈیٹ دے دیتے ہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کےCO’’جیک پیٹرڈورسی‘‘ اپنی کامیابی کا راز اپنے مطالعہ کرنے کی عادت کو گردانتے ہیں۔ وہ اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ پر اپنی پسندیدہ کتابوں کے عنوانات اور موضوعات شیئر کرتے رہتے ہیں۔
یہاں میں بعض لوگوں کی ایک عادت کا ذکر کرنا چاہوں گا جس سے پڑھنے کی رفتار میں نہ صرف کمی آتی ہے بلکہ پڑھنے والا جلد تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ یہ لوگ جب کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ اپنے دماغ اور آنکھوں کے ساتھ بولنے کا بھی استعمال کرتے ہیں ،وہ اسے زیر لب دہراتے ہیں۔ یہ عادت کتاب کو سمجھنے میں تو شایدمدد دیتی ہے مگر کتاب کو پڑھنے کی مہارت کے لیے نقصان دہ ہے۔بولنے کی رفتار، دماغ اور آنکھوں کی رفتار سے کہیں کم ہوتی ہے۔ اس لیے پڑھنے کی رفتار میں اضافے کے لیے سب سے پہلے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پڑھنے والا اسے زیرلب پڑھنے کی کوشش نہ کرے۔ اس سے شروع میں یہ نقصان ہوتا ہے کہ پڑھنے والا لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھ کر گزرجاتا ہے وہ ان کو سمجھ نہیں پاتا۔ مگر آہستہ آہستہ اس کا ذہن ان الفاظ کو دیکھنے کے ساتھ سمجھنے کی مہارت بھی حاصل کر لیتا ہے۔
پڑھنے کی عادت اور مہارت کے لیے دلچسپی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر دلچسپی ہو تو انسان کسی بھی مشکل پر قابو پا سکتا ہے ۔ابو نصرفارابی کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ان کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے ،اس وجہ سے رات کو چوکیداروں کے پاس بیٹھ کر ان کی روشن کی گئیں مشعلوں کی روشنی میں پڑھا کرتے تھے۔
پڑھنے کی مہارت میں ایک اہم بات ذخیرہ الفاظ ہے۔ اگر آپ پڑھنے کی رفتار بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اس زبان میں اپنے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کرنا پڑے گا جس زبان میں آپ پڑھنا چاہتے ہیں۔عموماً کسی بھی زبان میں دو سے اڑھائی ہزار الفاظ کا ذخیرۂ الفاظ بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔ مشہو ر برطانوی مفکر ’’جان برائٹ‘‘ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے لیے پیراڈائزلاسٹ (Paradise Lost) کا متعدد بار مطالعہ کیا تھا۔ اتنی باریک بینی سے مطالعہ کرنے سے ان کے ذخیرۂ الفاظ میں کافی اضافہ ہوا، جس سے ان کے پڑھنے کی رفتار غیر معمولی حد تک بڑھ گئی۔
پڑھنے کی مہارت میں ایک اور اہم بات بیٹھنے کی عادت ہے ۔پیر مہر علی شاہ صاحب کی عادت تھی کہ عشاء کی نماز کے بعد پڑھنے کے لیے بیٹھتے اور کئی دفعہ پڑھنے میں اتنے محو ہو جاتے تھے کہ فجر کی اذان ہوتی تو انھیں وقت کے گزرنے کا احساس ہوتا ۔
پڑھنے کی مہارت میں اضافے کے لیے ایک اہم بات پڑھنے والے کا فوکس رہنا ہے۔ اس کے لیے لائبریری میں پڑھنے سے بھی مدد ملتی ہے جہاں مکمل خاموشی ہوتی ہے اور پڑھنے والا پوری توجہ سے پڑھتا ہے۔ مشہور مسلمان ماہر فلکیات اور ریاضی دان ابومعشر بلخی خراسان سے مکہ کے لیے نکلے ۔ راستے میں بغداد پہنچے تو وہاں کے کتب خانے ’’خزانہ الحکمت‘‘ کی شہرت سنی ۔ ابو معشر اس کتب خانے میں گئے تو وہاں ان کے پسندیدہ موضوعات پر ہزاروں کتب موجود تھیں۔ کتب خانہ ہروقت کھلا رہتا اور اتنا زبردست ماحول تھا کہ ابو معشر کووہاں کئی برس گزر گئے ۔وہ دن رات مطالعہ میں مصروف رہے اور یہ بھی بھول گئے کہ وہ خراسان سے کس مقصد کے لیے نکلے تھے۔انھیں عباسی دور کا عظیم ترین ماہر فلکیات اور ریاضی دان سمجھا جاتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ بچپن میں کہانیاں سنتے ہیں وہ بچے پڑھنے میں بھی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یہاں ایک اہم پہلو کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے کہ ہمارے ہاں رٹنے کا ایک نظام ہے۔ بچے کو زبانی سنایا جاتا ہے اور اس سے زبانی سنا جاتا ہے ۔ اس سے بچے کی یادداشت میں بہتری آسکتی ہے ،اس کا حافظہ تیز ہوجاتا ہے مگر تصورات کو سمجھنے اور چیزوں کی گہرائی میں جاننے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس میں پڑھنے کی وہ مہارت پیدا نہیں ہوتی جو وسیع مطالعے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
ایک مخصوص مضمون میں پڑھنے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے الگ حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے لیے سب سے اہم بات بچے میں مضمون کے بارے میں سنجیدگی پیدا کرنا ہے۔بچے کو اپنے مضمون کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے اپنی ترجیحات میں اہم ترجیح کے طور پر شامل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد کسی اچھے استاد سے اس مضمون کے اہم اور بنیادی تصورات کو سمجھنا پڑتا ہے۔
یاد رکھیں جب تک کسی مضمون کے بنیادی تصورات کو اچھی طرح سمجھ نہ لیا جائے، اس میں اچھی طرح مہارت پیدانہ کر لی جائے، پڑھنے والا اس کی کتابوں کو روانی سے پڑھنے میں دلچسپی نہ لے، اس میں پڑھنے کی مہارت میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔
جامعہ ملیہ دہلی کے ایک استاد جناب ڈاکٹر مشتاق تجاوری لکھتے ہیں کہ ایک مخصوص موضوع پر مطالعہ کرنے والوں کو درخت کی مثال ذہن میں رکھنی چاہیے۔ جیسے درخت کا ایک تنا، شاخیں اور پتیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح آپ کو اپنے خاص موضوع پر گہرائی سے پڑھنا چاہیے، جیسے درخت کی جڑوں کو پانی دیا جاتا ہے، ان کو مضبوط اور توانا بنایا جاتا ہے۔اسی طرح آپ کو بھی اپنے متعلقہ موضوع پر زیادہ سے زیادہ اچھی کتابیں پڑھنی چاہییں۔ مگر تنا مضبوط کرنے کے ساتھ آپ کو شاخوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے شاخوں کے بغیر درخت بدصورت ہوتاہے۔ یہاں شاخوں سے مراد اس موضوع پر مختلف اہل علم کی آرا سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ درخت کے پتے بھی ہیں ۔یہ اس موضوع سے جڑے ضمنی موضوعات کے بارے میں پڑھنا ہے۔ اس کے بعد آپ کی اپنی رائے اور تبصرہ آتا ہے جس کی مثال درخت کے پھل کی طرح ہے۔
ملٹن کا قول ہے کہ جس طرح بیج بونے سے زمین زرخیز ہوتی ہے اسی طرح مطالعہ آپ کے ذہن کو منور کردیتا ہے۔
مطالعہ کی عادت مستقل طورپراپناکر اپنے پڑھنے کی رفتار بڑھائیے تاکہ آپ کم وقت میں زیادہ پڑھ سکیں اور مطالعہ کی بدولت اپنی زندگی سنوارسکیں۔