کامیاب لوگ تنہاکیوں رہ جاتے ہیں؟
(قاسم علی شاہ)
کمرے کی کھڑکی سے آتی روشنی آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جارہی تھی ۔شام کے سائے پھیلتے جارہے تھے ۔کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ میرے سامنے ایک باقار شخص براجمان تھا۔ ایک وقت تھا کہ یہ اپنے زمانے کا ایک کامیاب ترین انسان تھا۔عزت ، شہرت ، دولت اور رتبہ اس کے گھر کے ملازم تھے۔ایک کے بعد ایک کامیابی اور کامرانی اس کی منتظر تھی ۔اس نے بھی جی جان سے محنت کی اورانڈسٹری میں چاروں طرف اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گھاڑے۔ بے تحاشاکامیابیاں سمیٹنے کے بعد جب اس نے باقی زندگی آرام سے گزارنی چاہی تو تب اس پر یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ اس کے پاس کوئی ایسا انسان توہے ہی نہیں،جس کے ساتھ وہ اپنا دکھ سکھ شیئر کرے ،جس کے ساتھ جی بھر کر باتیں کرے او ر جس سے اپناحال دل کہہ دے۔اس کی آنکھیں جن میں کبھی کامیاب ہونے کا اعتماد تھاآج ویرانیوں کاپیغام دے رہی تھیں ۔اس کاچہرہ جو مال و دولت اور نعمتوں کی فراوانی سے ہشاش بشاش تھا ،آج اکیلے پن کی اذیتوں سے بھراہواتھااورجھریوں نے اس پرقبضہ کررکھاتھا۔اس نے ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اورپھر بولا:پوچھو ، جو بھی پوچھنا ہے۔‘‘ میں نے اپنے اندرحوصلہ پیدا کیا اوربڑے ادب کے ساتھ ان سے پوچھا:’’ کامیاب لوگ اتنی شاندار کامیابیاں سمیٹنے کے بعد بالآخر تنہا کیوں رہ جاتے ہیں؟‘‘اس نے سگار کا ایک بھرپور کش لیا ،اپنا سرکرسی کی پشت سے ٹکایااور کچھ دیرخلا میں گھورنے کے بعد بولا:’’کیوں کہ ہم پر خبط سوار ہوتاہے۔ہم نے اپنے ساتھ ضد لگارکھی ہوتی ہے کہ ہم نے ہر حال میں کامیاب ہونا ہے۔اپنی کامیابی ہم کو اس قدر عزیز ہوتی ہے کہ اس کے لیے ہم اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے بیوی بچوں کا وقت بھی قربان کردیتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہم اپنے چاہنے والوں کے لیے کررہے ہیں لیکن جب ہم کامیابی کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں اور اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ اب ہمیں کوئی کندھوں پراٹھائے گا، ہمارے نام کا جشن منائے گالیکن یہ دیکھ کر ہمیں دھچکالگ جاتاہے کہ ہمیں پھولوں کے ہار پہنانے والااور ہماری کامیابی پر تالیاں بجانے والاکوئی نہیں ہوتا۔‘‘
اس نے سگارکاایک کش لیا اور ایش ٹرے میں رکھ کر دوبارہ بولا:
’’نکولاٹسلا کا نام سنا ہوگا آپ نے ،یہ شخص دنیا کا ایک عظیم سائنس دان تھا۔ اس کے نام پر تین سو سے زائد ایجادات تھیں۔وہ نو زبانوں پر مہارت رکھتاتھا۔ٹسلا کمپنی اسی کے نام سے ہے۔ آج دنیا میں جتنی بھی موٹرز چل رہی ہیں اس کاکریڈٹ اسی کو جاتاہے لیکن وہ کئی سالوں سے ایک ہوٹل میں تنہا زندگی گزارتا رہا۔وہ شخص جس نے بیسویں صدی کو تخلیق کیا اورجو اپنے زمانے سے سو سال آگے تھا، ایک دن تنہائی اور اداسی کادُکھ برداشت نہ کرتے ہوئے نیویارک کے ایک ہوٹل میں مراپایا گیا۔
دراصل ہر انسان کو کامیابی کی ایک قیمت چکاناپڑتی ہے۔یہ قیمت آپ پیسے سے نہیں اداکرسکتے بلکہ اپنے جذباتی ،ذہنی اور معاشرتی تعلقات کو قربان کرکے ہی آپ یہ قیمت چکاسکتے ہیں لیکن سب سے بھاری قیمت تنہائی کی ہوتی ہے۔تنہائی انسان کی تکلیف کو دگنا کردیتی ہے۔وہ مایوسی اور ناامید ی کا غلام بن جاتاہے۔منفی خیالات، وسوسے اور اندیشے اس پر یلغار کردیتے ہیں۔اس کی مثال ایسے شخص کی طرح ہوتی ہے جو روز اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے قبر کھود رہاہوتاہے اورپھرایک دن تھک ہارکر اسی قبر میں گرجاتاہے اور دنیا کو خبر تک نہیں ہوتی۔‘‘
اس نے سامنے پڑے کافی کے کپ سے ایک گھونٹ بھرا اور پھر بولا:
’’ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کامیابی کے لیے تخلیقی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سوچ انسان کو تنہائی میں لے جانے پرمجبور کرتی ہے،تب ہی وہ اپنے مستقبل کے لیے پلاننگ کرسکتاہے ، اپنے لیے بڑے بڑے خواب دیکھ سکتاہے اور ان میں رنگ بھرسکتاہے۔ٹسلا بھی یہی کہتاتھا کہ کچھ نیا کرنے کارازیہی ہے کہ آپ فوکسڈ کتنے ہیں لیکن اپنی سوچ اور اپنے آئیڈیاز پر چلتے چلتے ایک وقت آتاہے کہ وہ مکمل طورپر خود انحصار بن جاتاہے۔اس کو دوسروں کی ضرورت نہیں رہتی۔اس نے اپنے دم پر سب کچھ حاصل کیا ہوتاہے اور جب اس کو یہ احساس ہوناشروع ہوتاہے تو وہ سمجھتاہے کہ مجھے دوسرے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں ،یوں وہ تنہائی کاشکارہوجاتاہے۔
کامیاب لوگوں کی تنہائی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترقی کے سفرمیں ان کے قریبی لوگ ان کے عزائم پر بھروسا کم اور شک زیادہ کرتے ہیں۔وہ ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھتے ہیں اور بعض دفعہ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپ سے نہیں ہوپائے گا۔ایسے میں یہ لوگ خود کو ان لوگوں سے دور کرتے ہیں تاکہ وہ ان مایوسانہ آوازوں کونہ سنیںاور کامیاب ہوجائیں ۔انھیں کامیابی مل جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ تنہائی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
کامیاب لوگوں کے تنہا رہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مستقبل کاسوچتے ہیں اور بڑی دور کے سوچتے ہیں،جس کی وجہ سے عام لو گ ان سے ذہنی مطابقت نہیں رکھتے۔یہ لوگ اپنے وژن اور خواب کوپورا کرنے کے لیے اس قدر جنونی ہوتے ہیں کہ زماں ومکاں کی قیدسے آزاد ہوجاتے ہیں ۔وہ لگاتارکئی گھنٹو ں تک کام کرتے ہیں۔اس غیر معمولی محنت کی وجہ سے وہ اپنے میدان کے شہسوار تو بن جاتے ہیں مگر اس عمل میں وہ بہت کچھ کھو دیتے ہیں۔وہ اپنے دوستوں کو وقت نہیں دے پاتے اوران کے پاس اپنے خاندان کے لیے وقت نہیں بچتا۔اپنے شعبے میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرناایک بڑا رسک ہے ۔ اگر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں توپھر جان لیں کہ آپ کے پاس اپنے کام کے علاوہ وقت نہیں بچے گا۔آپ اپنی فیملی ، دوستوں اور زندگی کی خوب صورتیوں سے لطف اندو ز نہیں ہوسکیں گے۔زندگی میں اپنے لیے الگ راستہ تلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس پر اکیلے چلنا ہوگااوراس وجہ سے دوسرے لوگوں سے رشتہ بنانا آپ کے لیے مشکل ہو گا۔ چارلیس بوکوسکی کہتاہے:’’جب صبح آپ کو کوئی بیدار نہ کرے، رات کو کوئی آپ کا انتظار نہ کرے اورآپ اپنی مرضی سے جو چاہو کرتے ہو تو آپ اس کیفیت کو کیا کہیں گے۔ آزادی یا تنہائی؟‘‘
اس نے اپنے دونوں ہاتھ سامنے میز پررکھے اور سلسلہ کلام کو جوڑتے ہوئے بولا:
’’ہم جیسے لوگ گاؤں دیہات سے اٹھ کر آئے ہوتے ہیں۔ہماری یہ سوچ ہوتی ہے کہ شہر جاکر ہی ہم ترقی کرسکیں گے ۔ہاں ہم ترقی کرلیتے ہیں ۔ہم انسانوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن بہت سی چیزوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔شہری زندگی ہمیں اپنی ذات کے لیے سوچناسکھادیتی ہے۔یہاں ہم دن رات محنت کرتے ہیں۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کئی کئی کام کرتے ہیں۔جن کی وجہ سے اپنے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی فیملی کے لیے بھی وقت نکالنا مشکل ہوجاتاہے۔ یوں ہم کامیاب ہوکر بھی ناکام رہتے ہیں۔ ’’جیک ما‘‘ کہتا ہے کہ مجھے اس بات پر پچھتاواہے کہ میں نے زندگی میں کام تو بہت کیا لیکن اپنی فیملی کو زیادہ وقت نہیں دے پایااور اگر مجھے ایک اور زندگی ملی تو میں ایسابالکل نہیں کروں گا۔
تنہا رہ جانے کی ایک اور وجہ ہم انسانوں میں جذباتی ذہانت کی کمی بھی ہے۔ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا ہوتاکہ ہم نے دوسروں سے کامیاب تعلق کیسے بناناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فرد اپنے شعبے میں جیسے جیسے کامیاب ہوتاجاتا ہے تو وہ دوسرے انسانوں سے کٹتاجاتاہے۔ وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ دوسروں سے کام کروانے کے کامیاب طریقے کون سے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو نہایت تجربہ کار اور کامیاب خیال کرتا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ تعلقا ت بنانے سے گریزکرتا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں اس کے بہت سارے دوست اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب اس کواپنے برابر کا دوست ملنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ تنہارہ جاتاہے۔
تنہائی کی اذیت کس قدر تلخ ہے اس کاثبوت میں آپ کو دیتاہوں۔گزشتہ دنوں جاپانی معاشرے کی ایک تحقیق نے دنیا کو چونکا دیا۔آپ کوتو معلوم ہے کہ جاپان ایک ایسا معاشرہ ہے جو قانون کا بہت احترام کرتا ہے لیکن وہاں اچانک 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں قانون شکنی کا رحجان بڑھ گیا اور وہ جیل جانے لگے۔ جب اس کی وجہ معلوم کی گئی تو پتا چلا کہ معاشرے میں ریٹائرڈ ہونے والے افراد اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ اس تنہائی کو ختم کرنے کے لیے یہ بوڑھے افراد جرم کرتے ہیں تاکہ جیل جاکر انسانوں کی سنگت حاصل کریں۔
یہ بات یادرکھیں کہ انسان اپنی جذباتی خوراک مادی چیزوں سے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں سے حاصل کرتاہے۔دوسرے انسانوں سے ہی اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ایک انسان صحت مند ہے ، اس کے پاس فیملی کی محبت اور دوستوں کا پیار ہے۔کتاب پڑھنے اور دنیا گھومنے کے لیے وقت ہے اور ساتھ میں اچھاذریعہ آمدن بھی ہے تو وہ ایک خوش قسمت انسان ہے۔اس کے برعکس اگر کسی انسان کی زندگی میں یہ چیزیں نہیں ہیں تو اس کے گھر کی الماریاں گولڈمیڈلز اوراعزازات سے بھرے ہوئے کیوں نہ ہوں ، اس کے پاس دولت کی ریل پیل کیوں نہ ہو درحقیقت وہ ایک کھوکھلا انسان ہے۔
زندگی میں کامیاب ہونا ضروی ہے کہ اس سے نہ صرف آپ اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی بہتر بناسکتے ہیں ۔لیکن اس سفر پر روانہ ہوتے وقت یہ بات پلے سے باندھ لینی چاہیے کہ زندگی کامقصد صرف کامیاب ہوناہی نہیں ہے۔پیسا، شہرت ، دولت اور عزت ہی زندگی کی حقیقت نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں اللہ نے دی ہیں اور وہ بے مثال ہیں۔پیسا دوبارہ آسکتاہے، شہرت بھی مل سکتی ہے لیکن لوگ دوبارہ نہیں ملتے ۔رشتوں کی محبت اور اپنائیت کا کوئی نعم البدل ہی نہیں ۔ شہرت کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اگر ہم نے ان نعمتوں کو نظرانداز کیا توپھر یہ ہم سے چھین لی جائیں گی اورپھر جب زندگی سے تھک ہارکر ہم بیٹھیں گے تو دوگھڑی کے لیے بھی ہماراکوئی غم خوار نہیں ہوگااور نہ ہی ہمیں کوئی ایسا کندھا میسر ہوگا جس پر سر رکھ کر ہم اپنی تھکن اتارسکیں۔‘‘
’’توپھر کامیابی کے سفر میں انسانی تعلق کو کیسے برقرار رکھیں۔‘‘میرا ان سے دوسرا سوال تھا۔
’’ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جب کامیابی کے سفر پر چل رہے ہوتے ہیں تو اہم چیزوں کونظرانداز کردیتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہماراوقت بہت قیمتی ہے اورلوگوں کے ساتھ ملنے سے میرا وقت ضائع ہوجائے گا لیکن یہ ایک غلط سوچ ہے۔ہم اپنی زندگی سے انسانوں کو مائنس کرہی نہیں سکتے۔ہمیں یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ خوشی اور غمی اپنوں کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے۔اگر کوئی کامیاب ہوناچاہتاہے تو وہ اپنے خواب ، اپنے عزائم اپنی فیملی کو بتائے ۔انھیں بتائے کہ یہ میری زندگی کا مقصدہے جس کو میں نے پوراکرنا ہے اور اس کے لیے مجھے آپ لوگوں کی مدد درکارہے۔جب آپ اپنے مقصد کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی اور اپنے دوستوں کو اہمیت دیں گے اور ان سے نظریں نہیں پھیریں گے تو وہ بھی آپ کو سپورٹ کرناشروع ہوجائیں گے اورپھر جب آپ کامیابی کی منزل پر پہنچ جائیں گے تویہی لوگ پھول لے کر آپ کا استقبال کررہے ہوں گے اور سب سے بڑھ کریہ کہ آپ کوزندگی میں تنہائی کا عذاب بھی نہیں جھیلنا ہوگا۔‘‘
کمرہ مکمل تاریک ہوچکاتھا۔میں اٹھا ،کھڑکیوں کے پردے برابر کیے، پھر لائٹ آن کردی۔اس کے چہرے پر دُکھ کی وہی کیفیت تھی۔میں نے اس کو مزید ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھااور ان کا شکریہ اداکرکے وہاں سے نکل آیا۔