آپ کی آمدنی کیوں نہیں بڑھ رہی؟
(قاسم علی شاہ)
انسان فطری طور پر اس وقت بہت خوش ہوتا ہے جب اس کو کسی چیز کابہترین نتیجہ اور ثمرملے. بچپن میں وہ کھلونے کے لیے ضد کرتا ہے ،روتا ہے اور جب اس کو کھلونا مل جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے. اسکول کے زمانے میں وہ اس لیے محنت کرتا ہے تاکہ اچھے نمبروں سے امتحان میں پاس ہو ۔کھیل میں اس لیے جان لگاتا ہے تاکہ وہ ٹرافی جیت سکے ۔کالج یونیورسٹی میں وہ اس لیے محنت سے کام کرتاہے تاکہ اس کو ڈگری ملے اور اس ڈگری پر کوئی اچھی نوکری مل جائے ۔عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد وہ نوکری یا کاروبار کی صورت میں پھر سے محنت شروع کرلیتا ہے تاکہ اس کے بدلے اس کو کچھ پیسے ملیں اور وہ ان سے اپنی ضروریاتِ زندگی پورے کرے۔
▪️آمدنی کی اہمیت
دنیا میں انسان کی آمد کے ساتھ ہی اس کی احتیاجی بھی شروع ہوجاتی ہے۔وہ کھانے پینے ،پہننے اور زندگی بسر کرنے کے لیے مختلف طرح کی چیزوں کا محتاج ہوتا ہے اور یہ محتاجی اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے لیے مستقل طورپر کچھ رقم کا بندوبست کرے تاکہ اس کی یہ ضروریات پوری ہوتی رہیں۔اس لحاظ سے ہر انسان کی زندگی میں ’’آمدن‘‘ بہت اہمیت رکھتی ہے ، کیونکہ ایک تو اس کے لیے اس نے ایک لمبا عرصہ تعلیم حاصل کی ہوتی ہے، پھرجب روزگار مل جائے تو اس میں بھی وہ بھرپور محنت اور مشقت سے کام لیتا ہے اور تب جاکر اس کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
’’آمدن‘‘ کے پیچھے کوئی نہ کوئی قابلیت ہوتی ہے ،جو اللہ نے انسان کو دی ہوتی ہے اور اس کو استعمال میں لاکروہ پیسے کماتا ہے۔اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔کبھی تو ایک انسان اپنا وقت دیتا ہے اور اس کے عوض اس کو اجرت ملتی ہے۔بعض لوگوں کا رزق ان کے جسم میں رکھا ہوتا ہے ۔وہ محنت، مشقت اور مزدوری کرتے ہیں اور انہیں رزق ملتا ہے۔ بعض اوقات کسی کا رزق اس کے آئیڈیاز اور خیال میں رکھا ہوتا ہے ۔جیسے ایک شخص کسی علاقے کا جائزہ لیتا ہے اور وہاں کسی چیز کی کمی محسوس کرکے مطلوبہ چیز کی سپلائی شروع کردیتا ہے اور یوں اس کا رزق بننے لگ جاتا ہے ۔بعض اوقات کسی کا رویہ اور اخلاق ہی اس کا رزق بنتاہے ،جیسے کسٹمر کیئرٹیکر کی جاب ۔بعض لوگوں کی آواز ، لہجہ اور بولنے کا انداز ان کا رزق بنتا ہے۔اسی طرح بعض لوگوں کا فن ان کا رزق بن جاتا ہے جیسے ایک جوکراپنے کرتب دکھاکر اپنا رزق کماتا ہے۔کوئی شاعر اپنی شاعری سے رزق کماتا ہے۔
▪️دوطرح کی آمدنی
پوری دنیا میں آمدنی کے لحاظ سے دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک قسم وہ ہے جن کی آمدن مخصوص ہوتی ہے ۔وہ کام پر جاتے ہیں تب انہیں معاوضہ ملتا ہے ۔جیسے ڈاکٹرمریضوں کو چیک کرتا ہے تب اس کو فیس ملتی ہے ۔وکیل کوئی کیس لڑتا ہے تب اس کو فیس ملتی ہے وغیرہ. دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو کام پر موجود نہ بھی ہوں تب بھی ان کی آمدنی جاری رہتی ہے ۔جیسے کہ بزنس مین یا انٹرپرینور، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی آئیڈیے کو عملی شکل پہناتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں ، چاہے آرام کریں یا کام ،ان کی آمدنی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یوٹیوب چینل بھی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔
آپ کی آمدن مندرجہ بالا کسی بھی صورت کے ساتھ ہے ، لیکن اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ کافی عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی اس میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا، آپ کی آمدن رُکی ہوئی ہے اور اس وجہ سے آپ معاشی تنگی کا شکار ہیں توآج کے مضمون میں ہم اس اہم مسئلے کی وجوہات بیان کرنے کی کوشش کریں گے.
(1) خود کوسنوارنا(اپ گریڈنگ)
کسی انسان کی معاشی ترقی نہیں ہورہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان خود کو اپ گریڈ نہیں کررہا اوروہ اپنی صلاحیتوں کو مزید نہیں نکھار رہا ۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس انسان نے خود کو قیمتی نہیں بنایا جس کی وجہ سے وہ سستا ہوگیا۔اگرو ہ مہنگا ہونا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی ویلیو بڑھائے اور اپنی ویلیو بڑھانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ خود پر محنت کرکے اپنی قابلیت بڑھائے ۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ بازار میں ایک درزی بیٹھتا ہے جو ایک سوٹ سینے کے پانچ سو روپے لیتا ہے ۔اس طرح ایک اور درزی ہے جس کاکام پہلے والے سے بہترہے اور وہ ایک سوٹ سینے کے پندرہ سو روپے لیتا ہے۔اس کے ساتھ ایک اور درزی بھی ہے جو وہی کام کرتا ہے جو باقی دونوں کرتے ہیں لیکن اگراس سے کپڑے سلوانے ہوں تو آپ کوکچھ دِنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ باری آنے پرآپ کا ناپ لیا جاتا ہے ۔وہ آپ کو یہ بھی بتاتا ہے کہ آپ پر کون سا کپڑا جچے گا۔وہ کپڑوں کے رنگ منتخب کرنے کے بارے میں آپ کو مفید مشورہ دیتا ہے اور ساری کاروائی مکمل ہونے کے بعدبڑے ہی ماہرانہ انداز میں کپڑے تیار کرکے آپ کے حوالے کردیتا ہے۔اب ایسا ممکن ہے کہ اس درزی کا ریٹ پانچ ہزار روپے ہو اور آپ بخوشی اسے مطلوبہ رقم دے دیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک جوڑا سینے کے وہ پانچ ہزار کیوں لے رہا ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اس درزی نے اپنی قابلیت اتنی بڑھائی کہ وہ مہنگا ہوگیا۔اب اگر پانچ سو روپے والا اور یہ پانچ ہزار روپے والا درزی آپس میں بیٹھیں اور پانچ سووالا اس سے پوچھے کہ آپ ایک جوڑے کا اس قدر زیادہ معاوضہ کیسے لے رہے ہیں تو پانچ ہزار والا درزی بتائے گا کہ ’’پہلے میں بھی پانچ سو روپے لیتا تھا لیکن میں نے آہستہ آہستہ اپنی قابلیت بڑھائی اور اپنی محنت سے آج اس مقام پر پہنچا ہوں۔ میں اپنے کسٹمر کو اچھے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔میں ان کی ضروریات اور خواہش کے مطابق کام کرکے دیتا ہوں۔میں دِل و جان سے اپنی سروس دیتا ہوں اس وجہ سے میں مارکیٹ کامہنگا درزی بن گیا ہوں۔‘‘
(2) سخاوت
یہ بات ہر اہل ایمان کو سمجھنی چاہیے کہ رزق کا بڑھنا اللہ نے سخاوت اور صدقے میں رکھا ہے۔ہمارے معاشرے میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ ہم خیرات نہیں کرتے اور اگرکریں بھی تو وہ اصل روح سے خالی ہوتی ہے ۔صدقہ اورخیرات کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہ کسی محروم کی محرومی کو دور کردے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ یہاں معمولی صدقہ اور خیرات کوبھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا جاتا ہے۔
صدقہ اور خیرات اتنی زبردست چیز ہے کہ کوئی بھی انسان جب اس کو اپناتا ہے تو یہ چیز اس کے لیے گارنٹی کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے کہ اس کا رزق بڑھے گا۔ظاہری آنکھ سے دیکھا جائے تو اس سے مال میں کمی ہوتی ہے ۔دنیا کے تمام کیلکولیٹرز بھی یہی کہتے ہیں کہ صدقے سے مال گھٹ جاتا ہے لیکن رب کا نظام یہ ہے کہ جب بھی انسان خیرات کرتا ہے تواس کا رزق بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔
(3)صلہ رحمی
ہمارے رزق کا بڑا گہرا تعلق رشتے داروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے ساتھ بھی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی سے انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔رشتوں میں خاص طورپر خواتین رشتے دار جیسے کہ خالہ اور پھوپھی وغیرہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور خاص طورپر بہنوں کے ساتھ بہتر رویہ اپنانے سے انسان کے رزق میں ترقی شروع ہوجاتی ہے۔
(4)دوست احباب
انسان جن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ان کی وجہ سے بھی اس کے رزق پراثر پڑتا ہے۔جیک کین فیلڈ اپنی کتاب ’’دی سکسیس پرنسپلز‘‘ میں بتاتے ہیں کہ انسان جن پانچ لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ، ان کی آمدن کا اگر اوسط نکالا جائے تو وہی اس انسان کی بھی آمدنی ہوگی ۔اس بات کو میں نے بڑی حد تک درست پایا ہے ۔
انسانی نفسیات اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ جیسے وہ خود ہے ،وہ اپنے طرح کے لوگوں کے ساتھ تعلق رکھے۔چنانچہ ایک کمزور انسان ،کمزور بندوں کے ساتھ ہی خود کومحفوظ تصورکرتا ہے ۔ایک بیلو ایوریج(Below Average) انسان اپنے جیسے ہی لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند کرتا ہے۔اس کے برعکس اعلیٰ اقدار کا مالک انسان بڑے لوگوں کے ساتھ تعلق بنانے کو ترجیح دیتا ہے۔جب بھی انسان اپنا تعلق اور صحبت بہتر بناتا ہے توان اچھے لوگوں کی اچھی صفات بھی اس کے اندر آجاتی ہیں۔مثلا اگر آپ کسی اعلیٰ حلقہ احباب کے ساتھ اپنا تعلق رکھیں گے تو ان میں آپ کو اخلاقیات زیادہ ملیں گی۔وہاں آپ کو خیرات،سخاوت ،رسم و رواج ، طور طریقے اور نباہ ، زیادہ ملے گااور یہ چیزیں یقینی طورپر آپ کے اندر بھی پیدا ہوں گی ۔
لہٰذا اس بات کی کوشش کیجیے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق رکھیے جو معاشی اور اخلاقی اعتبار سے بہترین ہوں، یوں آپ کے اخلاق و عادات بہترین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی آمدنی بھی بڑھنا شروع ہوجائے گی۔