آج کا استاد متاثر کیوں نہیں کرتا؟
(قاسم علی شاہ)
”ہارت ساسونیان “ معروف انگریزی اخبار ”کیلیفورنیاکورئیر“ کا پبلشر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تصنیف اور صحافت کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھارہا ہے۔1968ء کی بات ہے جب یہ نویں پاس کرکے میٹرک میں پہنچاتو اس کے گھریلوحالات بڑے خراب ہوگئے۔ وہ اسکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں رہاجس کی وجہ سے اسے اسکول سے نکال دیاگیا۔اس کے والدکی ٹائروں کی دکان تھی۔”ہارت“اگلے دن وہاں پہنچا اورٹائر مرمت کرنے میں لگ گیا۔ایک دن کسی خیرخواہ کی نظر اس پر پڑی، اس کو بہت افسوس ہوا کہ ایک قابل بچہ فیس نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہے۔خیرخواہ نے اپنے ذرائع سے اس کے لیے مفت ٹیوشن کابندوبست کیا۔ اگلے دن ہارت ساسونیان وہاں پہنچااور مفت ٹیوشن کی بات کی توادارے کے پرنسپل نے بڑے روکھے پن سے انکار کردیا۔شرمندگی اور پریشانی کے عالم میں وہ واپس آیا اورایک بار پھر والد کی دکان پر کام کرنے لگا۔مگر قدرت کے رنگ دیکھیے کہ ابھی دودن بھی نہیں گزرے تھے جب اس کو اسکول کی طرف سے واپسی کا پیغام ملا۔ وہ اسکول پہنچا تویہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کی اسکول فیس اداہوچکی تھی۔اس نے انتظامیہ سے معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو بتایاگیا کہ تمھارا محسن گمنام رہنا چاہتاہے۔ وہ ٹک کربیٹھنے والانہیں تھا۔اس نے کسی نہ کسی طرح اپنے اس محسن کو ڈھونڈنکالا۔اس پر یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ یہ مہربانی اس کی انگلش ٹیچر ”اولیویابالین“نے کی ہے۔اس کوبتایا گیا کہ جب تعلیمی سال شروع ہوا اور ٹیچر نے اس کی کرسی خالی دیکھی تو اس سے رہا نہ گیا۔پیریڈ مکمل کرلینے کے بعد وہ پرنسپل کے پاس گئی اور بولی:”ہارت کی جتنی فیس بنتی ہے وہ میری تنخواہ سے کاٹ دیں او ر اس کو داخلہ دے دیں۔“ٹیچر کی کرم نوازی نے اس کو سہارا دیا، اس نے تعلیم مکمل کی اورپھر امریکہ چلا گیا۔40سال بعدوہ لبنان واپس آیا۔اس کے ہاتھ میں ایک خطیر رقم تھی جو وہ لبنان کے اسکولوں کے لیے لایاتھا۔وہ اپنے اسکول بھی گیا اور پرنسپل کو کئی لاکھ کا عطیہ دیتے ہوئے عرض کیا: ”سر! کسی طالبعلم کو فیس نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے مت نکالیے،نہ معلوم کون سابچہ کل کاایک قابل ڈاکٹر،ایک اچھا سفارت کاریا ایک درددل ارب پتی بن جائے۔“ وہ اپنی انگریزی ٹیچر سے ملنے بھی گیااورپُرنم آنکھوں کے ساتھ اس کا شکریہ اداکیا۔ہارت کہتاہے کہ اگریہ عظیم عورت مجھ پراس مشکل وقت میں احسان نہ کرتی اور میری ڈوبتی ناؤ کو سہارانہ دیتی تو آج میرے ہاتھ میں دوماسٹرڈگریاں نہ ہوتیں،میں ایک کامیاب صحافی،مصنف اور ”کیلیفورنیاکورئیر“ جیسے معروف اخبارکا پبلشر نہ ہوتابلکہ بیروت میں اپنے والد کی دکان پرٹائرٹھیک کررہا ہوتا۔
انسان کا اچھا یا براکوئی بھی عمل فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔ہمارا ایک غلط قدم کسی کو بربادکرسکتاہے اور ایک اچھا فیصلہ کسی کی بھی زندگی بناسکتاہے۔انسانیت سازی میں جتنا بڑا کردارایک استاد کا ہے اتنا کسی اور فرد کا نہیں۔یہ وہ معزز طبقہ ہے جس کے ہاتھ میں نئی نسل کا خمیر ہوتا ہے اور اس سے وہ جوبھی شکل بنائے، معاشرہ بھی ویسا ہی بنتاہے۔
امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز ٹیچنگ سے کیا تھا۔وہ کہتاہے: ”اپنے اساتذہ پر انویسٹ کرو، تمھاری نسل کامیاب ہوجائے گی۔“ اسی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نئی نسل کی تربیت کا انحصار اساتذہ کی تربیت پر ہے۔اگر استاد تربیت یافتہ اور قابل ہے تو وہ نسل بھی ایسی بناکر دے گاجس پر قوم کوفخر ہولیکن اگر استاد ناہل اور قابلیت سے خالی ہو تو پھر وہ نئی نسل کے لیے تعمیر نہیں تخریب کا باعث بنے گا۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج جس طرح ہمارا نظام تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے ایسے ہی تدریس کا شعبہ بھی بہت کمزور ہے۔سسٹم موجود ہے، وزارت بھی ہے، مراعات اور تنخواہیں بھی مل رہی ہیں لیکن نتیجہ وہ نہیں مل رہاجس کی قوم کو ضرورت ہے۔امام ابوحنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا کہ استاد کیسا ہوتاہے؟ انھوں نے جواب دیا:”استادکوتب دیکھو جب وہ دوسروں کے بچوں کو پڑھارہاہو اگر تو تمھیں یوں لگے کہ جس محبت اور لگن سے وہ اپنے شاگردوں کو پڑھارہا ہے وہ اس کے ذاتی بچے ہیں، تو وہ اچھا استاد ہے۔اگر اس سے ہٹ کر کچھ کررہاہے تو وہ اچھا استاد نہیں ہے۔“
آج کے زمانے میں ”اچھااستاد“ نہ ہونے کے برابر ہے۔جبکہ ماضی پرنظردوڑائیں تو اس خطے میں ایسے باکمال اساتذہ بھی گزرے ہیں جنھوں نے وسائل نہ ہونے کے باوجود کئی نسلوں کی شاندارتربیت کی۔ان کے پاس ڈگری نہیں تھی،اعلیٰ تعلیم نہیں تھی لیکن شوق تھا، جذبہ تھا، خلوص تھا اور سکھانے کاگُر انھیں آتا تھا جس کی بدولت انھوں نے اپنے شاگردوں کو اخلاقی،علمی اور فکری اعتبار سے مثالی بنالیاتھا۔ ہم آج بھی ان اساتذہ کے نام لیواہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں۔دوسری طرف آج کے اساتذہ اپنے اندر اپنے منصب کے مطابق خوبیاں پیدا کرنے میں ناکام رہے، پھرہمارے معاشرتی رویے نے بھی انھیں مایوس کیا۔ ہم نے انھیں وہ عزت نہیں دی جس کے یہ حقدار تھے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ تدریس کا شعبہ تنزلی کا شکار ہوتاچلاگیا۔
اس مسئلے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن نے ایک مکالماتی نشست کا اہتمام کیا جس کا مقصد اس بات پر غور و خوض کرنا تھا کہ پاکستان میں تدریسی شعبے میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کو کیسے درست کیا جائے تاکہ نئی نسل کی بہترین تربیت کی جاسکے۔اس میٹنگ میں شعبہ تعلیم کی سرکردہ شخصیات اور ماہرین کو دعوت دی گئی کہ وہ تشریف لاکراس اہم موضوع پر اپنے خیالات کااظہار کریں۔چنانچہ مقررہ تاریخ پر کئی سارے خواتین و حضرات نے اس مکالماتی نشست میں شرکت کی اور اپنے تجربات کی روشنی میں اس بحث کو مفید تر بنایا۔
آج کی تحریر میں ہم اس نشست کے اہم نکات آپ کے سامنے پیش کریں گے۔
1۔زمانے کی ترقیاں اور آج کا استاد
آج کا زمانہ جہاں ہر چیز میں ترقی کرگیا ہے وہیں تعلیم اور تدریس کے میدان میں بھی شاندارترقیاں ہوئی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں تدریس کے انداز اور ٹرینڈز بدل چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی پرانے طریقوں کواپنائے ہوئے ہیں اور رٹہ سسٹم کو بڑھاوادے رہے ہیں۔آج کے استاد کویہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ نئے زمانے کے نئے ٹرینڈز کے مطابق خود کو اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔”ریسرچ بیسڈ“ ان تمام نئی تکنیک کو سیکھنا اور پھر ان کے مطابق اپنی تدریسی ذمہ داریاں انجام دینی چاہییں، اس سے نہ صرف طلبہ کی بہترین تربیت ہوگی بلکہ اساتذہ کا وقت اور توانائی بھی بچ جائے گی۔
2۔عمومی کمزوریاں
آج کے اساتذہ میں کئی ساری عمومی کمزوریاں پائی جارہی ہیں جن کی وجہ سے نتائج متاثر ہورہے ہیں۔آج کااستاد ان”جدید تدریسی طریقہ کار“سے نابلد ہے جن کی بدولت ٹیچنگ کو موثر بنایاجاسکتاہے۔آج کا استاد پوری کلاس کوایک ہی فرد سمجھ کر پڑھارہاہے حالانکہ کلاس میں ہر بچہ مختلف شخصیت کا مالک ہے اور اس کو پڑھانے کے لیے اس کی شخصیت کی سطح پر آنا ضروری ہے۔آج کااستاد خودشناس نہیں ہے اور اس طاقت سے بے خبر ہے جو اس کے اندر موجو دہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو بھی خودشناس نہیں بناپارہا۔آج کے استادکی کمیونیکیشن اسکلزاور پریزنٹیشن اسکلز کمزور ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ اس کے پڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔آج کااستاد باڈی لینگویج کے اصولوں سے بھی ناواقف ہے۔آج کے استاد میں شخصیت سازی کافقدان ہے اور اسی وجہ سے وہ نئی نسل کی شخصیت سازی بھی نہیں کرپارہا۔ آج کے استادکا لباس بھی متاثر کن نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ باوقار نہیں لگ رہا اور اپنی ذات سے کسی کو متاثر نہیں کررہا،حالانکہ استاد کامطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو متاثر کرے۔ولیم آرتھر کہتاہے: ”معمولی استاد بناتاہے۔اچھا استاد سمجھاتاہے۔اعلیٰ استاد ظاہر کرتاہے جبکہ عظیم استاد متاثر کرتاہے۔“
3۔اساتذہ کی تقرری(Hiring)
یونیورسٹی سطح پر جب اساتذہ کی تقرری ہوتی ہے تو وہاں ایک ہی چیز پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور وہ ہے پبلی کیشن۔حالانکہ ایک ریسرچر اورٹیچر میں بڑا فرق ہوتاہے لیکن بدقسمتی سے یہاں تدریسی قابلیت سے زیادہ ا س بات کو دیکھاجاتاہے کہ امیدوار نے ریسرچ کتنی کی ہے۔جس کانقصان یہ ہوتاہے کہ ایسافرد جب کلاس روم میں آتاہے تو اس کو پڑھانا نہیں آتا اور نتیجہ طلبہ اور والدین کو بھگتنا پڑتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبہ کو پڑھانے کے لیے ریسرچر کی نہیں بلکہ ٹیچر کی تقرر ی کی جائے اور ریسرچر کے لیے الگ آسامی بنادی جائے۔اسی طرح اسکول لیول پر ہائرنگ کرتے وقت اساتذہ کی کمیونیکیشن اسکلز اور پریزنٹیشن اسکلز کو بھی دیکھنا چاہیے۔
4۔ٹیچنگ ٹریننگ
آج سے کچھ عرصہ قبل کسی بھی استاد کو ٹریننگ کے بغیر نوکری نہیں ملتی تھی لیکن پھر یہ چیز ختم ہوتی چلی گئی،اور آج یہ عالم ہے کہ اساتذہ کی ایک کثیرتعداد ایسی ہے جو بغیر کسی پروفیشنل تربیت کے بچوں کو پڑھارہی ہے، حالانکہ ٹریننگ کے بغیرکسی بھی استاد کی کارکردگی معیاری نہیں ہوسکتی۔نشست کے شرکا نے اس با ت پر زور دیاکہ پرائیوٹ اور پبلک سیکٹر میں ایسے ادارے بنانے چاہییں جو اساتذہ کو تربیت دیں اور صرف ایک دفعہ تربیت دے کر اساتذہ کو آزاد نہ چھوڑیں بلکہ سال، چھ مہینے کے وقفے سے انھیں دوبارہ تربیت دیں اور ٹریننگ کی بنیاد پر ہی ان کو ترقی دی جائے۔ان ٹریننگ پروگرامز میں ان کی پرسنالٹی ڈیویلپمنٹ کی جائے، باڈی لینگویج، لباس، بول چال،شائستگی، صبر و تحمل،مسائل کا حل، سمجھانے کا انداز، طلبہ کو موٹیویٹ کرنے،ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو باہر لانے اورانھیں انسپائر کرنے کی تربیت دی جائے۔
5۔حقوق و فرائض
شرکا میں سے جن حضرات نے ٹیچرز کو ٹریننگ دی تھی ان کا کہنا تھا:”ٹریننگ کے دوران اساتذہ کا رویہ افسوسناک ہوتا تھا۔وہ موضوع کے متعلق سوالات کم جبکہ اپنی نوکری کی شکایات زیادہ کرتے نظر آتے تھے۔“مانا کہ آج کا استاد کئی سارے مسائل کا شکار ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی بنسبت آج کے اساتذہ کو زیادہ مراعات اور تنخواہیں مل رہی ہیں۔ان کے پاس سہولیات کی بھی فراوانی ہے لیکن کیا وہ اپنے فرائض بھی احسن انداز میں پورے کررہے ہیں؟
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر آج کے استاد کو سوچناچاہیے۔
6۔تین بنیادی چیزیں
معلومات، قابلیت اور رویہ، وہ تین بنیادی چیزیں ہیں جو کسی بھی استاد کے لیے بہت ضروری ہیں۔ایک ٹیچر کو اپنے مضمون پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ اضافی چیزوں کاعلم بھی ہوناچاہیے اورپھراپنے علم کے مطابق اس کے پاس قابلیت بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ عملی طورپر اس کام کو انجام دے سکے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ بھی ایسا ہوناچاہیے جواس کی شایان شان ہو۔رویہ ایک بنیادی چیز ہے۔اگر کسی استاد کا رویہ ٹھیک نہیں اور وہ اپنے رویے سے ٹیچر لگ ہی نہیں رہا تواس کامطلب یہ ہے کہ وہ دل سے ٹیچنگ نہیں کررہا۔ایسے میں وہ طلبہ کی تربیت بھی درست سمت میں نہیں کرسکتا۔
7۔ٹیچنگ لائسنس
ٹریفک قوانین کااحترام کرتے ہوئے اگر ایک ڈرائیور آلٹو کار بھی بغیر لائسنس کے نہیں چلاسکتاتو بغیرلائسنس کے ایک استاد کو بھی نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری نہیں دی جانی چاہیے۔لائسنس لازمی ہونے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس شعبے میں غیر تربیت یافتہ شخص نہیں آسکے گا۔ہماراالمیہ یہ بھی ہے یہاں جو کچھ نہیں بن پاتا وہ ٹیچر بن جاتاہے۔حادثاتی ٹیچرز کی فراوانی میں تربیت کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اب ہم صرف نمبروں کی دوڑ میں لگ چکے ہیں۔لائسنس یافتہ ٹیچر کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ شخص تدریسی میدان کے لیے درکار تربیت حاصل کرچکا ہے اور ہم پورے اعتماد کے ساتھ اس کو نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری دے سکتے ہیں۔