بچوں کو اپنا دوست بنائیں !!
(قاسم علی شاہ)
’’ ہم بچوں کے فطری شوق کو کیسے پہچان سکتے ہیں ؟‘‘اس نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔میں نے اپنی چائے کے کپ سے گھونٹ بھرااور سامنے پھیلے وسیع سمندر کی لہروں کودیکھ کر کہا :’’ان کو دوست بناکر ، ان کے من کی گہرائی میں اتر کر اور ان کے شوق کو جان کر، اگر ہم ان کو سمجھ لیں گے تو ان کے لیے زندگی میں آگے بڑھنا اور ترقی کرنا آسان ہوجائے گا۔‘‘اس کی سوالیہ نظریں ایک بار پھر میری طرف اٹھیں ،’’مگرآج کل کے والدین تو بچوں کو اپنی پسند کے مطابق بناناچاہتے ہیں ؟‘‘ میں نے فضا ء میں دیکھا ، خوبصورت بگلوں کا ایک غول چکر کاٹ کر واپس ہوا،ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ ماحول کو خوش گوار بنارہی تھی اور ساحلِ سمندر واقع ہوٹل کے اس بالکونی میں ،میں اورمیرا یونیورسٹی کا دوست اس سے بھرپورانداز میں لطف اندوز ہورہے تھے ۔
’’دیکھ بھیا! دراصل یہ والدین کی غلط فہمی ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی سوچ کے مطابق بچو ں کا مستقبل بناسکتے ہیں اور عموماً بچوں سے یہی تقاضہ بھی کیا جاتاہے کہ ہماری توقعات پر پورا اترنا ہے، مگر یہ سوچ درست نہیں۔کیونکہ جب بچہ دنیا میں آتاہے تو وہ اپنے ساتھ ذہن ، آنکھیں اور دل لے کر آتاہے۔وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے ،دِل سے محسوس کرتاہے اور اپنے مشاہدے کے مطابق ذہن میں خیالات ترتیب دیتاہے۔گھر ، سکول ،والدین اور بڑوں کا رویہ اور اِردگِرد کا ماحول یہ سب عوامل مل کر اس کی شخصیت بناتے ہیں ۔جب وہ ایک منفردسوچ کا مالک بن جاتاہے تو اس کے دِل میں موجود شوق اس کو کچھ کرنے پر اُکساتاہے،اس کونئی راہوں پر چلنے اور کچھ حاصل کرنے کی ترغیب دیتاہے۔وہ ابھی چل ہی رہا ہوتاہے یا چلنا چاہ رہا ہوتاہے کہ والدین اور معاشرہ اس کو ڈاکٹر ، انجنئیریا پھر سرکاری نوکری حاصل کرنے پر مجبورکرنا شروع کردیتے ہیں ۔وہ بچے کی خودشناسی ، فطری دلچسپیوں اور ایسی خوبیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو اگر بَروقت پالش کی جائیں اور بچے کے لیے ماحول اور مواقع پید اکیے جائیں تو وہ اپنے زمانے کا کامیاب ترین انسان بن سکتاہے ۔‘‘
میرے رفیقِ محفل نے چائے ختم کرلی تھی ،اس نے اگلے سوال کے لیے لب کھولے :’’والدین بچے کی فطری خوبیوں کوجانتے بوجھتے نظر انداز کیوں کردیتے ہیں؟‘‘ میں مسکراکراٹھا اور بالکونی کے گرِل سے ٹیک لگاکر بولا:’’ٹرینڈ!!والدین زمانے کے ٹرینڈ کے پیچھے چلتے ہیں ۔وہ مارکیٹ ویلیو کو دیکھ کر بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرلیتے ہیں ، جو کہ اکثروبیشتر بچے کے شوق کے مطابق نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود ہمارے پاس بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج موجودہوتی ہے ۔
دنیامیں انسان کی بنیادی ضرورت پیسہ ہے جو وہ کمانا چاہتا ہے۔ہمارے معاشرے میں پیسہ کمانے کے چار مختلف مائنڈ(اذہان) ہیں۔پہلے نمبر پر نوکری والا مائنڈ ہے۔جو ہر وقت ایک اچھی نوکری کا متلاشی ہوتاہے۔ایسے افراد کی زندگی کی سب سے بڑی جیت ’’نوکری‘‘ہوتی ہے ۔ان لوگوں میں رِسک لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ان کی کل کائنات صبح 9سے شام5بجے تک کی نوکری ہوتی ہے۔ایسے افراد کی نظرہمیشہ گھڑی کی سوئیوں پر ہوتی ہے کہ کب پانچ بج جائیں اور وہ دفتر سے نکلیں ۔یہ ہر وہ نوکری کرلیتے ہیں جس میں تحفظ اور ہمیشگی ہو،اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ پرائیوٹ نوکری میں 80ہزار تنخواہ لینے والا ،35ہزارکی سرکاری نوکری کے لیے اپنی پرائیوٹ جاب چھوڑدیتا ہے کیونکہ سرکاری نوکری میں تحفظ اورضمانت ہے۔ان کی زندگی ہمیشہ ایک ہی لیول پر گزرتی ہے اگر خدانخواستہ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔نوکری کرنا بری بات نہیں ، سیکھنے اور تجربے کی حد تک ضرور کرنی چاہئے مگر اس کو زندگی کا مقصد بنانایا اسی پر اکتفاء کرلینا اپنے ساتھ زیادتی ہے ۔
دوسرا مائنڈ وہ ہے جس کو ہم ’’فری لانسر‘‘ کہتے ہیں۔یہ لوگ کسی کے ماتحت ہوکر کام نہیں کرتے ،یہ خود اپنے باس ہوتے ہیں۔ان کو ٹیم بناکر کام کرنے سے خوف آتاہے۔اسی لیے ان میں انسانوں کو ہائر(تقرری) کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔یہ لوگ کسی کو فالو نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے مفاد اور تجربے کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ممکن ہے کہ ان کی آمدن اچھی ہو مگر یہ لوگ بھی زندگی میں زیادہ ترقی نہیں کرسکتے ۔
تیسرا مائنڈ ’’بزنس‘‘ کا ہے۔اس کے حامل افراد قائدانہ صلاحیتوں سے مزین ہوتے ہیں ۔یہ انسانی نفسیات کو سمجھتے ہیں ،اسی لیے یہ ہرشخص سے اس کی طبعیت کے مطابق کام لینے کافن جانتے ہیں ۔چونکہ یہ انسانی مزاج کو سمجھتے ہیں اس لیے یہ لوگوں کو ہائرکرنے کاہنر جانتے ہیں ۔یہ ہمیشہ بہترین ٹیم بناکر کام کرتے ہیں ۔اچھی کارکردگی پر بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔یہ اپنے ماتحتوں کو خوش حال رکھتے ہیں اور یہی ان کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔
چوتھا مائنڈ’’سرمایہ کاری‘‘ یعنی انویسٹرکا ہے ۔یہ لوگ پیسے سے پیسہ کمانا جانتے ہیں ۔یہ خود کونہیں بلکہ پیسے کو استعمال کرتے ہیں، ان کو کاموں سے دلچسپی نہیں ہوتی ۔یہ آزادی کے خواہاں ہوتے ہیں اور ہر چیز کو مالی نفع و نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں ۔ایسے لوگ بھی زندگی میں زیادہ ترقی نہیں کرسکتے ۔
بھائی! ان تمام مائنڈز میں بزنس مائنڈ ہی ایسا ہے جو مسلسل ترقی کرتاہے۔کیونکہ ایسے لوگ خود کو ہمیشہ مصروف رکھتے ہیں۔یہ اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی یہ 9سے5کام کرنے کے قائل ہوتے ہیں بلکہ ان کا کام پوری زندگی کا ہوتاہے۔‘‘
میں واپس کرسی پر آکر بیٹھ گیا،’’ہمارے معاشرے میں یہی چاروں مائنڈ رائج ہیں اور ان کے ذریعے ہر انسان اپنے لیے رزق کمارہا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ صرف بزنس مائنڈ ہی ترقی کرسکتاہے اس لیے ہمیں اس ٹرینڈ کے مطابق بچوں کوتیار کرنا چاہئے اور یہ مائنڈ تب بنے گا جب ہم بچوں کی خودشناسی اور فطرتی رجحان کو سمجھیں کہ جو بچہ جس کام میں دِلی رغبت رکھتاہے اس کے مطابق اس کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی کریں ، اس موضوع پر کتابیں لے کردیں ،اس فیلڈ کی مشہور شخصیات سے ملوائیں اور عملی طورپر ان کو مشاہدہ کروائیں تاکہ وہ اپنا پروفیشن ، اپنے پیشن کے مطابق بناکرایک کامیاب انسان بنے اور معاشرے کے دیگر افراد کو بھی کامیاب کرے۔رہ گئی پیسے ، عزت اوررزق کی بات ،تو اس کا وعدہ اللہ نے کیا ہوا ہے جو کہ تمام کائنات کارازق ہے۔انسان کے ذمے صرف اپنی محنت اور کوشش کرنی ہے۔‘‘
شام کا دھندلکا آہستہ آہستہ پھیل تھا ، سورج بھی مغرب کی بانہوں میں خود کو چھپانے کی کوشش رہا تھا ۔میں نے میز پر موجود اپنی کتابیں،قلم اور موبائل فون سمیٹتے ہوئے اپنے ہم نشین سے کہا:: ’’رزق کا موضوع بہت وسیع ہے ،جس پر اگلی نشست میں تفصیلی بات چیت کریںگے ۔‘‘ ان شاء اللہ ،،وہ سرہلاکرمسکرایا ،اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی بشاشت سے لگ رہا تھا کہ آج کی محفل سے اس کو تمام سوالات کے جوابات مل گئے ہیں ۔اس نے گر م جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور شکریہ اداکرتا ہوا رخصت ہوگیا.