ایک آئیڈیا زندگی بدل سکتا ہے
(قاسم علی شاہ)
یہ 2009 ء کی ایک یخ بستہ رات تھی ۔موسم ابر آلود تھا ۔وہ اپنے دوست کے ساتھ کافی دیرسے بس اسٹاپ پر اس انتظار میں کھڑا تھا کہ کوئی ٹیکسی آجائے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کوئی ٹیکسی والا اس طرف نہیں آیا تھا۔بارش آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی اور ان کی فکر بھی بڑھ رہی تھی ۔اسی پریشان کن صورت حال میں اس کے ذہن میں ایک آئیڈیاآیا۔اس نے سوچا کہ یہ مسئلہ صرف میرا نہیں بلکہ اور بھی بہت سارے لوگ اس کا شکار ہیں تو کیوں نہ کچھ ایسا کیا جائے کہ لوگوں کا یہ مسئلہ بھی حل ہواور اس کو بزنس بھی بنالیا جائے ۔اتنے میں ٹیکسی آگئی ، وہ دونوں بیٹھ گئے اوراپنی منزل کی جانب بڑھنے لگے ،لیکن وہ رات اس نے اسی سوچ میں گزاردی ۔
انسان کی فطرت ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والے مسائل کی وجہ سے وہ پریشان ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات تو پریشانی اتنی بڑی نہیں ہوتی جتنا اس کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ اپنے آپ کو ہلکان کردیتا ہے ۔جبکہ عقل مند کہتے ہیں کہ زندگی میں آنے والے بحران ہی انسان کو مضبوط بناتے ہیں ۔یہ دراصل ’’مواقع‘‘(Opportunities) ہوتے ہیں جنہیں استعمال میں لاکر انسان بے پناہ ترقی کرسکتاہے ۔بس شرط یہ ہے کہ اس بحران کو سمجھ لیا جائے اور اپنی تخلیقی صلاحیت کااستعمال کرتے ہوئے اس کو ایک خوب صورت ’’موقع‘‘ بنالیا جائے۔
ہم اپنی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں ۔
اگلی صبح وہ اپنے دوست کے پاس آیا اور اپنا آئیڈیا اس کو بتایا۔دوست اس کی جانب کچھ دیر تک دیکھتا رہا ، پھرجوشیلی آواز میں بولا :’’ زبردست ، شان دار آئیڈیا ہے۔‘‘اور اسی وقت دونوں نے اس پر کام شرو ع کرنے کافیصلہ کرلیااور پھر اس آئیڈیا نے ایک نئی انڈسٹری کی بنیاد رکھی جس کو آج Ridesharing Industryکہا جاتا ہے۔
انھوں نے ایک ایسی کمپنی کاآغاز کیا جواپنے صارفین کو ٹیکسی کی سہولت دیتی تھی۔کچھ عرصہ انھوں نے اس پر کام کیا مگر یہ کمپنی زیادہ کامیاب نہ ہوسکی،کیونکہ اس کے ٹیکسیوں کے ریٹ دوسروں سے کافی زیادہ تھے ۔وہ دونوں ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے ،چنانچہ انھوں نے اپنی کمپنی کی ایک موبائل اپلی کیشن بنائی ۔یہ ایک ایسی ایپلی کیشن تھی جس کو کوئی بھی شخص اپنے موبائل میں انسٹال کرکے اس کے ذریعے اپنے لیے ٹیکسی منگواسکتا تھا۔ کمپنی GPSسسٹم کی بدولت صارف کی لوکیشن معلوم کرتی اور کچھ ہی وقت میں گاڑی اس کے گھر کے دروازے پر موجود ہوتی ،چونکہ اس وقت ہر دوسرا شخص اس مسئلے کا شکار تھا ، چنانچہ اس نئے آئیڈیے نے مختصر عرصے میں بھرپورمقبولیت حاصل کی اور دِن بہ دِن ترقی کرتی گئی۔
کچھ ہی عرصے میں اس کمپنی نے یہ سہولت بھی متعارف کرائی کہ کوئی بھی شخص اپنی گاڑی اس کمپنی میں رجسٹر کرواکر ٹیکسی کے طورپر چلا سکتا ہے۔یہ آئیڈیا بھی لوگوں کو پسند آیااور وہ تمام ٹیکسی ڈرائیورز جوپہلے سواری کے لیے جگہ جگہ انتظار کرتے رہتے ، اب اس کمپنی میں شامل ہوگئے اور یوں انھیں بڑی آسانی کے ساتھ سواریاں ملنے لگیں۔رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں اور ڈرائیورز کی تعداد میں روزبروزاضافہ ہورہا تھا اور یوں کمپنی ترقی کی منازل طے کررہی تھی ۔اس کمپنی نے اپنا آغاز ٹیکسی سے کیا تھا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ موٹر بائیک ، فوڈ ڈیلیوری ، منی کار ، بڑی کارحتیٰ کہ لگژری کار کی سہولیات بھی متعارف کراتی گئی اور پھر دنیا حیران رہ گئی جب یہ ’’ہیلی کاپٹررائڈ ‘‘کی سہولت بھی منظرعام پر لائی۔
یہ کہانی’’رائد شیئرنگ انڈسٹری ‘‘ کی مقبول ترین کمپنی UBERکی ہے جو کہ15بلین ڈالرزکی مالیت ہونے کے ساتھ آج 83ممالک کے 633سے زیادہ شہروں میں اپنی خدمات دے رہی ہے۔
فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگ کہتا ہے کہ’’ دنیا میں اتنی طاقت ور اور کوئی چیز نہیں ، جتنا کہ وہ آئیڈیا جس کی اس وقت واقعی ضرورت ہو۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ ایک بہترین آئیڈیا انسان کی زندگی بدل کر رکھ سکتا ہے۔دنیا کی جتنی بھی بڑی ایجادات ہوئیں وہ سب سوچ و خیال کی بدولت وجود میں آئیں ۔نیا سوچنا انسان کے لیے ترقی کی راہیں کھول دیتا ہے۔ایسا شخص بڑے سے بڑے مسئلے کی صورت میں بھی اپنے لیے کوئی ایسا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے جس کے ذریعے وہ اس آزمائش سے بآسانی نکل آتا ہے۔خیال و فکر کی اسی طاقت کو علامہ اقبال ؒ نے افکارِ تازہ سے کچھ یوں تعبیر کیا ہے :
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
(ضرب کلیم)
افکارِ تازہ وہ دولت ہے جو اس دنیا میں صرف انسان کو حاصل ہے۔انسان کو وہ فطرتی صلاحیتیں میسر نہیں جو دوسرے جانداروں کو ہیں ۔یہ چیتے کی طرح تیز دوڑ نہیں سکتا ۔شاہین کی طرح دور تک دیکھ نہیں سکتا۔بندر کی طرح پھرتیلا نہیں ہے لیکن ایک نعمت اس کے پاس ایسی ہے جس کی بدولت اس کو باقی تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے او روہ ہے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت۔
منزلیں فقط لوہے ، سریے اور سیمنٹ سے نہیں بناکرتیں بلکہ افکارِ تازہ سے بنتی ہیں۔دنیا اسی کے نقش قدم پر چلتی ہے جو نئی سوچ ، نیا خیال اور فکرِتازہ رکھتا ہو۔جس کو اللہ نے یہ شعور دیا ہو کہ کس وقت میں کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ۔یہی لوگ آگے جاکر زمانے کے لیڈرز بنتے ہیں اور ان کے وژن سے بڑی بڑی امپائرز وجو دمیں آتی ہیں۔
میں جب بھی کسی سیشن میں نوجوانوں کو کچھ نیا کرنے کا کہتا ہوں تو اکثر اوقات مجھ سے سوال ہوتا ہے کہ نیا آئیڈیا ہمارے ذہن میں کیسے آئے؟ یعنی ہم نیا آئیڈیا کیسے سوچیں ؟
یادرکھیں کہ نیا آئیڈیا اللہ کی ایک بڑ ی نعمت ہے۔یہ خواب میں نہیں آیا کرتا بلکہ اس کے لیے اپنے آس پاس دیکھنا او رزمانے کے حالات کو سمجھناپڑتا ہے۔جس انسان کا مشاہدہ وسیع اور گہرا ہوتا ہے اور وہ ہر چیز کی جزئیات کے متعلق سوچتا ہے ، اس کے ذہن میں مختلف طرح کے آئیڈیاز آتے ہیں۔
بعض لو گ اس غلط فہمی کا بھی شکار ہوتے ہیں کہ ایک آئیڈیا مکمل طورپر اپنے تمام جزئیات کے ساتھ ہمارے ذہن میں آجائے گا۔ایسا نہیں ہوتا۔کوئی بھی بڑا آئیڈیا چھوٹے چھوٹے آئیڈیاز سے بنتا ہے ۔آپ نے بس چھوٹے سے ایک خیال کو پکڑنا ہے ، اس کو اپنے پاس نوٹ کر لینا ہے ،اس پر مزید سوچ و بچار کرنا ہے اور پھر پہلی فرصت میں اس کو عملی صورت میں لانا ہے۔
جب آپ ایک چھوٹے سے خیال کو عملی روپ دے دیتے ہیں تو پھر کچھ ہی دِنوں میں مزید نئی چیزیں آپ کے سامنے آشکار ہوجائیں گی۔وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنی غلطیوں کا علم بھی ہوتا جائے گا اور جیسے جیسے آپ اپنے آئیڈیا کو لوگوں کی ضرورت کے مطابق ڈھالتے جائیں گے ، آپ کا آئیڈیا زمانے میں مقبول ہوتا جائے گا۔
اس موضوع پرایک معروف محقق ’’ کیون ڈن بار‘‘ نے ایک ریسرچ کی ۔اس نے سائنسدانوں کے تجربہ گاہ میں کیمرے لگائے اور ا ن کے معمولات کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔دراصل وہ یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ ایک سائنسدان جو کہ سب سے زیادہ سوچنے والا انسان ہوتا ہے اور اپنی سوچ سے انسانیت کے لیے نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے ، اس کے ذہن میں کس وقت بہترین آئیڈیاز آتے ہیں۔اس نے ان سائنس دانوں کولیب میں کام کرتے ہوئے بھی ریکارڈ کیا۔کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ، کھانا کھاتے ہوئے اور آپس میں گپ شپ کرتے ہوئے بھی ۔اس تحقیق کا نتیجہ جب نکلا تو وہ بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ کیون کو معلوم ہوا کہ بہترین آئیڈیاز نے اس وقت جنم لیا جب وہ لوگ آپس میں بیٹھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کرتے تھے ۔
انسان جب دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے اور اپنے خیالات ان کے ساتھ شیئر کرتا ہے تو ایسے وقت میں زیادہ بہتر آئیڈیاز اس کے ذہن میں آتے ہیں۔یہی چیز نپولین ہل نے اپنے مشہور زمانہ کتاب Think & Grow Richمیں بھی بتائی ہے کہ دنیا کی کامیاب ترین شخصیات میں ایک عادت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنا ایک ایڈوائزری بورڈ رکھتے ہیں ۔ایک دوسرے کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔وہ موجودہ زمانے کے حالات اور مستقبل کے امکانات کو زیر بحث لاتے ہیں اور یہ عادت ان کی افکار کو تازہ کردیتی ہے جس کی بدولت ان کا شماردنیا کی کامیاب شخصیات میں ہوتا ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ ہر زمانہ کچھ عرصے بعد کروٹ لیتا ہے اور نئے حالات کے ساتھ نئی ضروریات اور نئے تقاضے جنم لیتے ہیں ۔آج کے دور کے تقاضوں کے ساتھ خو د کو ہم آہنگ کرنا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی صرف ایک ایجاد نہیں رہی بلکہ اب یہ ہمارا لائف اسٹائل بن چکی ہے۔آج کے دور میں اگر ہم گاڑی لینا چاہیں توہم فوکسی(Foxy) نہیں لے سکتے ۔آئی فون کے زمانے میں ہم 3310ماڈل استعمال نہیں کرسکتے اور نہ ہی آڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے کیسٹ پلیئر استعمال کرسکتے ہیں۔
کورونا کے بعد کی دنیا میں چیزیں بہت تیزی سے آگے بڑھی ہیں اور بڑھ رہی ہیں۔اس انقلاب نے اپنے ساتھ بہت سارے مواقع بھی پیداکئے ہیں، جنھیں استعمال میں لاکر کوئی بھی انسان ترقی کرسکتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس قدر بے تحاشا مواقع کے باوجود آج ہمارا نوجوان بے روزگاری کا شکار ہے جس نے اس کو ڈیپریشن میں مبتلا رکھا ہے ۔ہر جوان نوکری چاہتا ہے تاکہ مہینے بعد اس کو لگی بندھی تنخواہ ملتی رہی لیکن اگر اس سے کہا جائے کہ بھائی اللہ نے آپ کو اڑنے کے لیے بنایا ہے، تم رینگتے کیوں ہو؟ کیوں معمولی تنخواہ پر کمپرومائز کررہے ہو، اپنی قابلیت کو استعمال میں لاؤ اور کچھ نیا کروتووہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی نیا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔
آج کا نوجوان نیا قدم اٹھانے سے اس لیے بھی ڈرتاہے کہ کہیں ناکام نہ ہوجاؤں ، کیوں کہ پھر جگ ہنسائی ہوگی۔اس میں قصورہمارے معاشرتی رویے کا بھی ہے۔ یہاں اگر کوئی نیا قدم اٹھانا چاہتا ہے تولوگوں کا پہلا کمنٹ ہی یہی ہوتا ہے ’’تونہیں کرسکتا‘‘ ،لیکن پھربھی وہ انسان اگراپنے پختہ ارادے کے بل پر وہ کام کرنے کی کوشش شروع کرے اور بدقسمتی سے اس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچاسکے تو پھر طعنے مار مارکر اس کی رہی سہی ہمت کو بھی ختم کرلیا جاتا ہے۔
حوصلہ شکنی کی یہ روایت بہت ہی خطرناک ہے۔نہ معلوم ہماری اس عادت سے کتنے حوصلہ مندوں کے حوصلے ٹوٹے ، کتنوں کے ارادے خاک ہوئے ،کتنوں کے عزائم پارہ پارہ ہوئے اور کتنے ایسے لوگ تھے جو اپنی قابلیت کوسینے میں ہی سنبھال کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اس رَوِش کو چھوڑدیں اور ہر وہ شخص جو اپنی ذات کی بہتری کے لیے یا پھر ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے ،اس کے دست وبازو بنیں ، اگر یہ نہیں کرسکتے توکم از کم اس کی حوصلہ افزائی تو کریں۔
مارٹن لوتھر کہتا ہے کہ ’’آپ اڑنہیں سکتے تو دوڑو ،اگر دوڑ نہیں سکتے تو چلو اگر چل نہیں سکتے تو رینگو لیکن آگے بڑھتے رہو۔‘‘
یہ بات یاد رکھیں کہ زندگی کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے۔پانی کا قطرہ بھی اگرسنگلاخ پتھر پر مسلسل پر پڑتا رہے تو ایک نہ ایک دن اس میں سوراخ کرلیتا ہے۔انسان کی محنت کبھی بھی ضائع نہیں جاتی ، لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کو سمت دی جائے او رمستقل مزاجی کے ساتھ کی جائے۔آج ہمارے ملک و قوم کو نئے آئیڈیاز کی زیادہ ضرورت ہے ، کیونکہ ہم عرصہ دراز سے ایک ہی دائرے میں سفر کررہے ہیں اور ایک دائرے میں گھومتے ہوئے قومیں نہیں بنتیں ، بلکہ ترقی کے لیے Out of the boxسوچنا او ر کرنا پڑتا ہے۔’’آؤٹ آف دی بکس‘‘سوچنے اور کچھ کردکھانے کے مواقع جس قدر آج کا زمانہ دے رہا ہے ، شاید ہی کسی زمانے نے دیے ہوں۔
اپنے اردگر د غور کریں ، ا س یقین کے ساتھ کہ لاتعداد نئے آئیڈیاز آپ کے گرد بکھرے پڑے ہیں ۔انھیں سمیٹنے کی کوشش کریں ۔کوئی بھی نیا آئیڈیا اور فکر تازہ کا کوئی بھی جھونکا آپ کے ذہن پر دستک دے تو اس کو فوری طورپرکاغذ کے حوالے کریں ۔اس پر مزید سوچیں اور جلدسے جلد اس کو عمل میں لانے کی کوشش کریں۔
اپنے آئیڈیا کو تشکیل دینے میں ناکامی آپ کے سامنے آسکتی ہے ۔آپ مایوس بھی ہوسکتے ہیں ، آپ کا جذبہ بھی ماند پڑسکتا ہے، آپ کو ٹھوکر بھی لگ سکتی ہے اور آپ گر بھی سکتے ہیں لیکن آپ نے اٹھنا ہے ، خود کو جھاڑنا ہے ، اپنی منزل کی جانب دیکھنا ہے اور لڑکھڑاتے ہی سہی ، اپنا سفرجاری رکھنا ہے۔
اپنی ناکامی کو ویلکم کرنا اور اسے گلے لگانا سیکھیں ،کیونکہ یہی وہ آغاز ہے جہاں سے آپ کامیابی کے زینے پر قدم رکھتے ہیں۔