کرومہربانی تم اہل زمین پر
(قاسم علی شاہ)
اپنے زمانے میں اُن کے علم اور قابلیت کا چرچا تھا۔وہ محدث تھے۔ساری عمر حدیث کی خدمت کرتے گزاری اوربے شمارشاگردتیار کیے لیکن زندگی چوں کہ ایک محدود سفر ہے اور ایک دِن اس نے ختم ہوجانا ہے، وہ بھی اپنی سانسیں پوری کرکے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔انتقال کے بعد ان کے چاہنے والوں میں سے کسی ایک نے انھیں خواب میں دیکھا اور پوچھا:حضرت! اللہ تعالیٰ نے کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب ملا:”بڑا عجیب معاملہ ہوا، میں نے تو ساری زندگی علم اور حدیث کی خدمت میں گزار دی۔میراخیال تھا کہ ان اعمال پربہترین اجر ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا:”ہمیں تمھارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی اور روشنائی چوسنے لگی، تمھیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے اور پیاسی ہے، یہ روشنائی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر روشنائی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمھاری مغفرت کردی اور جنت الفردوس عطا کردی۔“
ہم اسباب کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں جہاں ہم انسانوں کے ظاہری اعمال کو دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں لیکن اللہ کے ہاں قبولیت کا پیمانہ کچھ اور ہے۔وہاں اعمال کو اخلاص کے ترازو میں تولاجاتاہے اور ہر وہ عمل جو اخلاص اور احساس سے بھرپور ہو توپھر وہ ایک چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو اس پراتنا درجہ ملتاہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
قلم کی نوک پر لگنے والی روشنائی کی مقدار کیا ہوگی اور اس کی قیمت کتنی ہوگی لیکن چوں کہ دیکھنے والے کے دل میں رحم کاجذبہ تھااور اس نے رب کی پیدا کی ہوئی مخلوق کا احساس کیا تو پھر وہ ذات بھی غفور الرحیم بن گئی اور اس کی ساری عمرکی دینی خدمات پر ایک چھوٹے سے عمل کو ترجیح دے کر اس کی مغفرت فرمادی۔
رحم کا معنی ہے نرمی، مہربانی اور بہترین برتاؤ کرنا۔ہر وہ انسان اور جاندار جو آپ کے سامنے ایسی حالت میں ہو جس میں اُسے آ پ کی مدد کی ضرورت ہو اور آپ اپنی خواہش کو قربان کرکے اس کی مدد کردیتے ہیں۔
”رحم“ ایک ایسی صفت ہے جو انسان کی تمام خوبیوں میں سب سے بڑھ کر ہے۔یہ جب آپ کے اندر آجاتی ہے تو پھر اس کا اظہار آپ کی زبان سے بھی ہوتاہے، آپ کے ہاتھ پاؤں،آنکھوں حتیٰ کہ دل کے خیالات اور جذبات بھی اسی صفت میں رنگ جاتے ہیں۔لیکن انسان سے اگر یہ صفت نکل جائے توپھر اس کو انسان سے شیطان بننے میں دیر نہیں لگتی۔ایسے انسان کی ساری قابلیت اور سارے کمالات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔وہ ایک سفاک شخص بن جاتاہے اوریہ سفاکیت پھر اس کو خودغرض، انا پرست اور خواہشات کی پیروی کرنے والابنادیتی ہے۔وہ انسانوں میں ناپسندیدہ ہوجاتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی مخلوقا ت میں بھی۔تاریخ اُٹھاکر دیکھیں تومعلوم ہوگاکہ اس صفت سے محروم جابر اور ظالم لوگوں نے انسانیت پر کیا کچھ مظالم نہیں کیے۔اسی وجہ سے آج تک ان کا تذکرہ برے القابات کے ساتھ کیا جاتاہے۔
”رحم اور مہربانی“ ایک ایساعنصر ہے جس نے کائنات کے پورے نظام کو ہم آہنگ رکھا ہواہے۔کائنات میں موجود کیڑے مکوڑے، چوپائے،بھاری بھرکم مخلوقات،آسمان میں اڑنے والے پرندے اور چیرپھاڑکرنے والے درندے، سب کے اندر کسی نہ کسی انداز میں یہ جذبہ پایاجاتاہے۔شیر اور بھیڑیااگر چہ دوسروں کے لیے دہشت کی علامت ہے لیکن اپنے بچوں کے لیے ان کادل رحم سے لبریزہوتاہے۔اسی وجہ سے تسلیم کرناپڑے گاکہ یہ ایک فطری جذبہ ہے اور جو بھی انسان اس جذبے سے محروم ہوگا وہ اس نظام میں Misfitہوگا اور یہ نظام اس کو قبول نہیں کرے گا۔دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جوانسان اس جذبے کاجس قدر زیادہ مظاہرہ کرے گا اسی انداز میں اس نظام سے ہم آہنگ ہوگا۔اللہ کی رحمت اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوگی اور اسی وجہ سے اس کی زندگی میں نعمتوں اور سکون کی فراوانی ہوگی۔
”رحم“وہ صفت ہے جو ہمارے رب کو بہت پسند ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام صفاتی ناموں میں الرحمن اور الرحیم کو پہلے رکھا ہے۔رحمن کا مطلب دنیا میں رحم کرنے اور رحیم کا مطلب آخرت میں اپنی مخلوق پر رحم کرنے والاہے۔قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ذکرکیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے:
”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔“(سورۃ الزمر:53)
”تمھارے رب نے اپنے اوپر رحمت کا معاملہ لازم کرلیا ہے۔“(سورۃالانعام:54)
”میری رحمت ہر چیز کو محیط ہے۔“(سورۃالاعراف:156)
”تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔“ (سورۃ یوسف:87)
”تمہارا رب بہت بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔“(سورۃالکہف:58)
”تمہارا رب بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے۔“(سورۃالانعام:147)
فرشتوں کا یہ قول بھی قرآن میں نقل ہوا ہے:”اے ہمارے رب! آپ کی رحمت اور علم ہرچیز پر بھاری ہے۔“ (سورۃ الغافر:7)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے:”میری رحمت میرے غضب پر غالب رہتی ہے۔“ (صحیح المسلم:حدیث نمبر:6969)
بحیثیت مسلمان ہمیں ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ جب ایک انسان یہ کلمہ پڑھ کر اپنا کام شروع کرے گا کہ ’میں اس ذات کے نام سے آغاز کرتاہوں جوبڑامہربان نہایت رحم کرنے والا ہے‘تواس کو یہ سبق مل جائے گا کہ اس کے بعد جتنے بھی معاملات طے کرنے ہیں ان سب میں رحم اور مہربانی کا مظاہرہ کرنا ہے۔گھر میں کوئی فرد ایساکام کرجائے جو آپ کی طبعیت کو ناگوار گزرے یادفتر میں آپ کے دوست یا ماتحت کو آپ کی مدد کی ضرورت ہو تو آپ ان کے ساتھ مہربانی کامظاہرہ کریں اوران کی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کریں۔
حدیث شریف میں بھی ایک شخص کاواقعہ موجو دہے جو ایک تاجر تھا اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں نرمی کیاکرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس ایک صفت پر اس کی مغفرت کردی۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا (قبر میں) اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا تھا۔ (اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کر دیا کرتا تھا اس پر اس کی بخشش ہو گئی۔(صحیح البخاری:حدیث نمبر: 2391)
انسان میں فطرتی طورپر رحم کا مادہ پایاجاتاہے لیکن یہ اس کی اپنی بدقسمتی ہوتی ہے کہ وہ برے حالات اور بری صحبتوں کی وجہ سے اس صفت کو کھودیتاہے۔فطرتی طورپر انسان رحم سے مزین اس طرح ہوتاہے کہ ماں کے پیٹ میں جہاں وہ پلتاہے اس جگہ کو بھی رحم کہاجاتاہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر اللہ کارحم بھرپور انداز میں اپنے کرم کامظاہرہ کرتا ہے۔وہاں جو بچہ پل رہاہوتاہے وہ مختلف قسم کی کیفیات میں ہوتاہے۔اس کے پاس مانگنے کا شعور نہیں ہوتالیکن پھر بھی اس کی ساری ضروریات کو پورا کیا جاتاہے۔اُس کو بغیر مانگے غذاملتی ہے او ر غذا بھی ایسی جو اس کی جسمانی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔ایک اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس بچے کو کب کیاچاہیے اور کس طرح چاہیے،ان تمام چیزوں کا بندوبست یہاں موجود ہوتا ہے۔یہاں پر بچہ مکمل طورپر محفوظ ہوتا ہے اوراس کوکسی بھی چیز کاخطرہ نہیں ہوتا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رحم مادر میں رب کی ربوبیت مکمل انداز میں اپنا جلوہ دکھارہی ہوتی ہے۔
یہ بات یاد رکھیں ہر وہ انسان جو دوسروں پر رحم نہیں کرتاتو اس پر بھی رحم نہیں کیاجاتا۔اس کی وجہ یہ کہ یہاں موجود ہر مخلوق اللہ کی پیدا کردہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات سے پیارکرتاہے۔اسی وجہ سے وہ ان کو رزق سمیت بے شمار نعمتیں دے رہا ہوتاہے۔اب اگر کوئی شخص اس کی مخلوق کا دل دکھاتارہے اور اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتا رہے تو اس پر کیسے رحم کیا جاسکتاہے۔
انسان دوطرح کے تعلقات میں بندھاہواہے۔ایک تعلق مخلوق کے ساتھ ہے اور ایک خالق کے ساتھ۔ہر شخص خالق کے ساتھ تعلق کو بہتر بنانا چاہتاہے تاکہ اس کی دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی۔البتہ اگر انسانوں کے ساتھ کسی کا تعلق ٹھیک نہیں ہے، اس کے دل میں رب کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے رحم اور مہربانی کے جذبات نہیں ہیں تو پھر اس کی عبادتیں اور ریاضتیں بھی لاحاصل ہیں۔
جب ایک انسان رحم کی صفت اپنالیتا ہے تو پھر اس کو اُمید کی صورت میں ایک بہترین انعام ملتاہے۔وہ بدترین حالات میں بھی اُمید کی بدولت مطمئن نظرآتاہے۔وہ کبھی حوصلہ نہیں ہارتا، کبھی مایوس نہیں ہوتااور پھر یہ اُمید بڑھ کر یقین کی صورت اختیارکرلیتی ہے۔اس کا رب کی ذات پر یقین کامل ہوتاہے کیوں کہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ میرے رب نے میرے اوپر اس وقت رحم کیا تھا جب میں دنیا میں بھی نہیں آیا تھا اور جب میرے پاس وسائل بھی نہیں تھے جبکہ اب تومیں جسمانی سلامتی کے ساتھ ہوں اور ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہوں تو کیسے وہ مجھ پر اپنا رحم و کرم نہیں کرے گا۔یہ یقین اس کی دنیا وی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابیوں سے بھی نوازتاہے۔
وطن عزیز میں حالیہ سیلاب نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور لاکھوں لوگ اس وقت شدید مشکل میں ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارا یہ فرض بنتاہے کہ ہم اپنے متاثرہ بھائیوں کا سہارا بنیں اور جس قدر ہوسکے ان کی مدد کریں اور ان کی زندگیوں کو آسان سے آسان بنانے کی کوشش کریں۔