خوف،آپ کے سکون کا دُشمن
(قاسم علی شاہ)
دونوں دوستوں کو دریاکی سیرکا شوق تھا، چنانچہ ایک دِن انھوں نے پروگرام بنایا ، وہ دریاکے کنارے جاپہنچے اور ایک ملاح سے کرایہ طے کرکے کشتی میں بیٹھ گئے۔کشتی چل پڑی اور وہ آپس میں گپ شپ کرتے ہوئے دریا کی روانی اور آسمان میں اُڑتے پرندوں سے لطف اندو زہونے لگے ۔ایک دوست باتونی قسم کا تھا ۔ اس نے ایک نظر اپنے کام میں مصروف ملاح پر ڈالی اور اس کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا۔’’چاچاجی آپ یہ کام کب سے کررہے ہیں؟‘‘ ملاح بولا:’’ہم خاندانی ملاح ہیں۔میرا دادا بھی ملاح تھابلکہ اُس کا توانتقال بھی اِسی دریا کے پانی میں ہوا تھا۔‘‘’’اچھا ، وہ کیسے؟‘‘ مسافر نے افسوس اور تجسس سے ملے جلے لہجے میں کہا۔’’ایک دِن پتوار ٹھیک کرتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلا اوروہ پانی میں جاگرا۔بدقسمتی سے اُس دِن طغیانی آئی ہوئی تھی ، اس نے کافی دیرتک ہاتھ پاؤں مارے لیکن بچانے والاکوئی نہیں تھا ، چنانچہ دودِن بعد اس کی لاش ملی۔‘‘ ’’اوہ، یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔‘‘ مسافر پریشان ہوالیکن اپنی باتونی طبیعت سے مجبور ہوکر ایک اور سوال پوچھ بیٹھا۔’’اور آپ کا والد؟‘‘ ’’وہ بھی ملاح تھا اور اسی دریا میں ڈوب کر فوت ہوا۔‘‘ملاح کا جواب سن کر مسافر اور بھی رنجیدہ ہوا اور پھر بولا:’’جب یہ اس قدر خطرناک پیشہ ہے تو پھر اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘
ملاح نے دور آسمان کی طرف دیکھا ، ایک لمباسانس لیا اور پھر مسافر سے مخاطب ہوکر بولا:’’اچھا مشورہ ہے مگر ایک سوال میرا بھی ہے۔‘‘ جی جی پوچھیں چاچاجی ۔‘‘ مسافر نے باچھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔’’یہ بتائو کہ تمھارے دادا کہاں فوت ہوئے تھے؟‘‘ ملاح نے پہلا سوال داغا۔مسافر نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا:’’وہ چارپائی پر فوت ہوئے تھے۔ا ن کی عمر کافی ہوچکی تھی ، آخری دِنوں میں بیماری شدت اختیار کرگئی تھی ، کافی علاج کروایا لیکن افاقہ نہ ہوااور بالآخر وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘ ’’ھممم‘‘ ملاح نے سرہلایا اوردوسرا سوال پوچھا۔’’اور تمھارے والد؟‘‘ مسافر کچھ ڈگمگایا، کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ ملاح اس کو گھیررہا ہے مگر جواب تو دینا ہی تھا ،سو وہ بولا:’’وہ بھی اپنے باپ کی طرح چارپائی پر فوت ہوئے تھے ۔‘‘ ملاح نے غصے سے کہا:’’جب چارپائی اس قدر خطرناک چیز ہے تو پھر اس کواُٹھاکر پھینک کیوں نہیں دیتے!!‘‘
یہ کہانی ہے تو کافی پرانی لیکن یہ ایک بہترین نکتے کو بیان کرتی ہے کہ اِس دنیا میں اگر کامیابی سے زندگی گزارنی ہے تو اپنے ڈر اور خوف کو نکالنا ہوگا۔ایک فطری چیز کو اس سوچ کے ساتھ چھوڑدیناکہ اس کی وجہ سے تو فلاں کی جان چلی گئی تھی،عقل مندی نہیں۔کیونکہ اگرسارے انسان اسی سوچ کے مطابق زندگی گزارنے لگ گئے تو پھر دنیاکا نظام ہی نہیں چل پائے گا۔
انسان جن جذبات و احساسات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ان میں ایک خوف بھی ہے،لیکن ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ انسان فطری طورپر صرف دوچیزوں تیزآواز اوراونچائی سے خوفزدہ ہوتا ہے ، اس کے علاوہ باقی خوف والدین ، ماحول اور لوگوں کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔خوف اس قدر خطرناک چیز ہے کہ یہ انسان کی ساری شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے ۔یہ سب سے پہلے انسان کے اعتماد کو دبوچ لیتاہے اور پھراچھا بھلا ، مضبوط انسان بھی اعتماد سے محروم ہوجاتا ہے۔یہ انسان کی عزت نفس کو بھی ختم کردیتا ہے ۔یہ اس کے اندر پلتے حوصلوں اور عزائم کو ماند کردیتا ہے اور انسان نے اپنی زندگی کو شان دار بنانے کے لیے جوبڑے بڑے خواب دیکھے ہوتے ہیں ، ان کوپانے میں ایک بڑی رُکاوٹ بن جاتا ہے۔
انسان کے اندر موجود چند خوف تو وہ ہوتے ہیں جو والدین اپنی لاعلمی کی بناء پر بچپن میں اس میں پیدا کردیتے ہیں۔جیسے کسی جاندار، درندے ، مخصوص نام یا پھر کوئی فرضی کردار۔بچپن کا یہ خوف انسان کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک رہتا ہے اوراگر اس پر بروقت قابو نہ پالیاجائے تو پھر بڑی عمر کا ہوکر بھی انسان اعتماد اور دلیری سے محروم ہوتا ہے۔انسان کی اسی کمزوری کا فائدہ پھر دوسرے لوگ بھی اٹھاتے ہیں۔آپ کو مارکیٹ میں کسی ’’دوغلے‘‘ بندے سے کوئی کام پڑجائے یا پھر کسی نیم حکیم قسم کے ڈاکٹر سے کوئی مسئلہ ، وہ آپ کو ایسے ایسے اندیشوں میں ڈال دیں گے کہ پھر آپ کو اپنا مستقبل دھندلانظر آنے لگ جائے گا اور یہی ہیرا پھیری کرکے وہ آپ سے پیسے بٹورنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔اسی انسانی کمزوری کی وجہ سے پوری ایک انڈسٹری چل رہی ہے ۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے اشتہاروں میں بالوں کی خشکی سے لے کر لائف انشورنس تک ، ہر جگہ غیر محسوس انداز میں دیکھنے والے کے ذہن میں ’’عدم تحفظ ‘‘کا احساس پیدا کیا جاتا ہے اور اس کو اپنی پراڈکٹ خریدنے کی ترغیب دے کر اس ’’مصیبت‘‘ سے بچنے کامشورہ دیا جاتاہے۔
’’درد‘‘ انسان کو اتنا نہیں تڑپاتا جتنا اس درد کا خوف انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔آپ نے کبھی انجکشن لگوانے کاتجربہ کیا ہوگا ۔سوئی جسم میں داخل ہونے کی تکلیف اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ جب ڈاکٹر دوائی کاڈھکن کھولتا ہے ، سرنج کو بھرتا ہے اور پھر تین انگلیوں میں تھام کر آپ کی طرف بڑھتا ہے تو لاشعوری طورپرآپ کے جسم سے جھرجھری نکل جاتی ہے۔امریکہ اور دیگر ممالک میں سزائے موت کی سزا پھانسی سے بدل کر انجکشن کے ذریعے موت کردی گئی ہے لیکن وہاں کے ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ یہ زیادہ اذیت ناک عمل ہے، کیونکہ اس کے لیے قیدی کو ایک خاص قسم کے بیڈ پر لٹاکر اس کے پورے جسم کو باندھنا پڑتاہے۔اس وقت قیدی پورازور لگاکر خودکو آزاد کرناچاہتا ہے ۔موت کا خوف اس کے سرپرسوارہوتا ہے اور اسی دہشت کے عالم میں اس کا جسمانی نظام بھی گڑبڑاجاتا ہے اورپھر ڈاکٹرز کوانجکشن لگانے کے لیے آدھے آدھے گھنٹے تک قیدی کی نس ہی نہیں ملتی ۔
ایک افسانوی کہانی ہے کہ ایک بزرگ درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ اتنے میں سامنے سے طاعون کی وبا گزری ۔بزرگ نے اس سے پوچھا :’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ وبا نے کہا:’’نزدیکی شہر جارہی ہوں ، وہاں میں نے 100بندوں کو اپنی لپیٹ میں لینا ہے۔‘‘ کچھ مہینوں بعد وہ بزرگ اسی درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ طاعون کی وبا ایک بار پھر وہاں سے گزری ۔بزرگ نے شکوہ بھری نظروں سے وبا کو دیکھا اور بولا:’’تم نے تو کہا تھا کہ میں نے 100آدمیوں کی جان لینی ہے ، وہاں تو ہزار لوگ مرگئے ہیں۔‘‘طاعون کی وبابولی:’’میں نے 100ہی آدمیوں کومارا ، باقی تو میرے خوف سے مرگئے۔‘‘
خوف کی بہت ساری اقسام ہوسکتی ہیں ۔بعض اوقات انسان ایسی چیز یا صورت حال سے خوفزدہ ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہوتی ہے ۔جیسے رات کے اندھیرے میں انسان پیدل گھرآرہا ہو اور اس کے سامنے کوئی خوفناک درندہ آجائے ۔اب یا تو انسان اس کامقابلہ کرے گا یا پھر کوئی تدبیرنکال کروہاں سے بھاگنے کی کوشش کرے گا۔ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان کے سامنے کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن پھربھی وہ خوفزدہ ہوتا ہے۔جیسے وہ انسان جو ڈراؤنی فلمیں یا ویڈیوز کثرت سے دیکھتا ہے تو اکثر اوقات اکیلے میں اس کو لگتا ہے کہ میرے پیچھے کوئی چڑیل یا دیو کھڑا ہے لیکن جب وہ پیچھے مڑکردیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔پھر اس کو اپنے اوپر ہنسی آتی ہے کہ چڑیل کوتو آج تک کسی انسان نے نہیں دیکھا پھر ایک فرضی چیز سے میں کیسے ڈرگیا۔
کبھی انسان مستقبل کے خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔یہ خوف کی بڑی خطرناک قسم ہے۔ یقین کی کمزوری انسان کواس خوف میں مبتلا کردیتی ہے ۔ایسے شخص کا ’حال‘ کتنا ہی شان دار اور نعمتوں سے بھرپور ہو لیکن یہ سوچ سوچ کر اس کی راتوں کی نیند اُڑجاتی ہے کہ معلوم نہیں میرامستقبل کیسا ہوگا؟ یہ خوف اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا کردیتی ہے اور وہ نفس کا غلام بن جاتا ہے۔آج کی نئی نسل کو یہ فکر ہے کہ ڈگری تو لے لی لیکن نوکری کاکیا ہوگا؟جس جوان کی شادی نہیں ہوئی ، وہ سوچتا ہے کہ شادی کے بعد بچوں کا اوران کی فیسوں کاخرچہ کیسے اٹھاپاؤں گا؟یہ سب خوف کی وہ اقسام ہیں جو انسان کو ذہنی طورپر بے حد متاثر کردیتی ہیں۔
خوف کے اسباب کی اگر بات کی جائے تودوسروں کے ساتھ موازنہ ایک بڑا سبب ہے۔آج کل ہر شخص اپنے معیارِ زندگی کو بہترکرنااور دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اسی ریس نے انسان کواس خوف میں مبتلا کرلیا ہے کہ اگر دوسرے لوگ مجھ سے آگے بڑھ گئے تو معاشرے میں میری حیثیت کا کیاہوگا؟
جب انسان کا اپنے رب پر توکل کمزورہو تو وہ پھر انسانوں سے توقعات وابستہ کرلیتا ہے ۔یہ ایک اور عامل ہے جو انسان کو خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ ڈرتاہے اور ہر وقت اس فکر میں مبتلا ہوتاہے کہ اگر فلاں شخص نے میری توقعات کے مطابق میرے ساتھ معاملہ نہ کیا تومیرا کیا ہوگا؟ایک اورچیز جس کا سامنا انسان کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کرنا پڑتاہے وہ ہے کاموں کو ٹالتے رہنا۔جب آج کا کام کل کے دِن پر منتقل ہوتا ہے تو وہ انسان میں تنائو بھی پیدا کردیتا ہے۔انسان سمجھتا ہے کہ آج کے دِن میں نے اس کام سے جان چھڑالی لیکن درحقیقت وہ خود کو خوف کے حصار میں قید کرلیتا ہے ۔
خوف انسان کی توانائیوں کا دُشمن ہے ۔ہر وہ شخص جو اس کو اپنے دِل و دماغ میں لیے پھرتا ہے ، وہ اپنی معمولی مشکلات کو بھی بہت بڑی بنالیتا ہے۔وہ رِسک لینے سے ڈرتا ہے ، وہ دوسروں پراعتماد نہیں کرسکتا، وہ کچھ بڑا نہیں سوچ سکتااور پھر ظاہر ہے کہ کچھ بڑاکربھی نہیں سکتا۔یہ ایسا زہر ہے جو انسان کے قوت ارادی اور اعتماد کوماردیتا ہے۔
یاد رکھیں کہ زندگی میں ترقی وہی انسان کرسکتا ہے جو اپنے اوپر اعتماد رکھتا ہے، جو یقین سے بھرپورہے اورجس کے اندر بہادری ہے۔جبکہ ڈر اور خوف میں مبتلا انسان کو خوش قسمتی سے اگر کوئی اچھا منصب مل بھی جائے تو وہ اس کو برقرارنہیں رکھ پاتا اور بہت جلد تنزلی کا شکار ہوجاتاہے۔
خوشی کی بات مگر یہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح کے خوف میں مبتلا ہو، اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات نے اس کے لیے کچھ تدابیر بتائی ہیں ۔خوف کے وقت اگر اپنے پانچوں حواس کو متحرک کیا جائے تو انسان بڑی حدتک اس پر قابو پالیتا ہے۔مثلاً کسی صورت حال میں اگرآپ خوف کے مارے بالکل ساکت ہوجاتے ہیں تو اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر ماریں۔اپنی گردن کو سہلائیں۔آپ کے ہاتھ میں موبائل یا کی چین موجود ہو تو اس کے ساتھ ہلکے انداز میں کھیلیں۔خوف سے نکلنے کا ایک اور بہترین طریقہ اپنی پسندیدہ خوشبو یا پرفیوم سونگھنا ہے۔آپ اپنے کالر یاکف پر خوشبو لگائے رکھیں اور جب کسی صورت حال سے ڈرنے لگیں تو اس کو سونگھیں۔ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس چیز سے آپ کو خوف آتا ہے اس کی طرف اپنا ذہن متوجہ نہ کریں۔مثلاًآپ کولفٹ میں چڑھنے سے ڈرلگتا ہے تو لفٹ میں داخل ہونے کے بعد آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھیں ، ان سے بات چیت کریں ، یا پھر لفٹ کے اندر لگی چیزوں پر غورکریں۔خوف سے نکلنے کے لیے آپ اپنی سننے کی حس کو بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔اپناپسندیدہ نغمہ ، قوالی ، تلاوت یا کوئی بھی آواز سن کر آپ خود کو خوف کی حالت سے باہر لاسکتے ہیں۔ایک اور ترکیب جو اکثر کھلاڑی استعمال کرتے ہیں وہ چیونگم چبانا ہے۔یہ دراصل انسانی اعصاب پر تناؤکے حملے کو روکتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے۔
خوش حال ، مطمئن اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اپنے اندر کے غیر ضروی خوف اور ڈرکا خول توڑنا اور اس سے باہر آنا بہت ضروری ہے۔یہ یاد رکھیں کہ یہ تمام خوف آپ کی فطرت کالازمی حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ آپ کے دِل میں ڈالے گئے ہیں اور آپ اگرتھوڑی سی ہمت کا مظاہرہ کریں تو ان سب پر قابو پاسکتے ہیں۔ اس خطرناک چنگل سے بچنے کے لیے ایک بہترین ہتھیار اللہ پر توکل ہے۔جب انسان اپنی تمام فکروں ، اندیشوں اور خوفوں کو رب کے آگے رکھ دیتا ہے اور اپنے دِ ل میں صرف اس کی محبت اور توکل کو جگہ دے دیتا ہے توپھراس کی دنیا بھی بہترین ہوجاتی ہے اور آخرت بھی۔