لمبا راستہ
’’آگے بڑھنے کے کئی طریقے ہیں، مگر سیدھا کھڑا ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے!‘‘
فرینکلن ڈی روزویلٹ
کوئی نیا مقام تلاش کرنے کیلئے وہاں کے مقامی افراد سے پوچھنا اور مدد لینا پڑتی ہے۔ اس سے منزل پرپہنچنے میں آسانی ہو تی ہے۔ لیکن جب راستے کا پتا نہ ہو تو اس کیلئے تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ بعض اوقات انسان اس راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو منزل کی طرف نہیں جا رہا ہوتا یا اس راستے پر چل پڑتا ہے جو بہت لمبا ہوتا ہے۔ جب ایسی صورتِ حال ہو تو جذبات، توقع اور امید پر فرق پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔
زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بعض طالب علم یہ گمان کرتے ہیں کہ میری تیاری اتنی ہے کہ میں آسانی سے ٹاپ کرجائوں گا۔ لیکن وہ ٹاپ نہیں کرپاتے۔ ان کی توقع کچھ اور ہوتی ہے اور نتیجہ کچھ اور نکلتا ہے۔ انسان زندگی میں بے شمار پلان بناتا ہے، لیکن وہ پلان دَھرے رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا سفر خراب ہو جاتا ہے۔ پھر اسے پتا چلتا ہے کہ میں نے جتنی توانائی اور وسائل لگائے ہیں، وہ غلط لگے ہیں اور میں نے اپنے سفر کی زیادہ قیمت ادا کردی ہے۔
ہر شے کی قیمت ہے
بچپن میں ہر بچہ ا پنا کھلونا ٹوٹنے پر روتا ہے اور پھر اپنی ضد کو منوا کر دوبارہ نیا کھلونالینا چاہتا ہے۔ کھلونے کیلئے ’’ضد کرنا‘‘ قیمت ہے جو بچہ ادا کرتا ہے۔آپ اپنی زندگی پر غور کیجیے اور دیکھئے کہ جو خواہشیں پوری ہوئیں، اْس کی کتنی قیمت آپ نے ادا کی۔ آیا، یہ قیمت زیادہ تھی یا کم۔
بہت سے لوگ اپنی خواہشیں پورا کرنے کیلئے لمبے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کئی لوگ پیسہ بنانے کیلئے سمت گنوا دیتے ہیں۔ کئی لوگ پیسے کیلئے اپنی صحت خراب کرلیتے ہیں۔ پھر اس پیسے کو دوبارہ صحت ٹھیک کرنے کیلئے خرچ کرڈالتے ہیں۔ زندگی میں یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آپ کو لمبا راستہ کس چیز کیلئے طے کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ کو جو شے جان کے بل بوتے پر حاصل کرنا ہے، عین ممکن ہے وہ کسی کو ویسے ہی مل گئی ہو۔ ہم پیسہ اس لیے کماتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سکون آجائے۔ پیسہ تو آجاتا ہے، لیکن سکون نہیں آتا۔ آج ماہر نفسیات کے پاس جانے والوں کی زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے جن کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے پاس پیسہ تو ہے، لیکن سکون نہیں ہے۔
لمبے راستے کا انتخاب ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ یہ غلط فہمی عام ہے کہ مختصر راستے سے ہم کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیںکرسکتے۔ اگر کسی کو لمبے راستے پر ڈال دیا جائے تو وہ بہت خوش ہوگا۔ مثلاً، جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیںکہ مہنگی فیس والے ڈاکٹر کے پاس جاکر مہنگی دوا خرید کر کھائیں گے تو ہمیں شفا ملے گی۔ حالانکہ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو مفت کے گھریلو ٹوٹکوں سے دور ہو سکتی ہیں۔ لیکن لوگ ان کیلئے بھی لمبے چوڑے نسخہ جات کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر انھیں یہ کہہ دے کہ اگر تم روزانہ پندرہ منٹ دھوپ میں بیٹھو تو تمہار ا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، تو وہ کہیں گے، یہ ڈاکٹر ٹھیک نہیں ہے، ہمیں کوئی مشکل سا عمل چاہیے۔ ہم لمبے راستے کی وجہ سے دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ زندگی میں ہمیں بے شمار لوگ ایسے ملتے ہیں جو دوسروں کی باتوں میں آنے کی وجہ لمبے راستے پر پڑے ہوتے ہیں اور پھر اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتے۔ حضرت علامہ اقبالؒفرماتے ہیں:
یہ ایک سجدہ جسے تْو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ایک سجدہ ایسا تلاش کیجیے کہ ہزار سجدوں سے نجات مل جائے۔ بہت سے لوگوں کے پاس مقبول حج کرنے کاموقع ہوتا ہے، لیکن وہ یہ حج نہیں ادا کرپاتے۔ مقبول حج کا مطلب اپنے والد ین کو مسکرا کر دیکھنا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’خاک میں ملے اس کا سر جس نے والدین کو بوڑھا دیکھا اور جنت حاصل نہ کی اور بدبختی اس کیلئے ہے جس نے والدین کو بوڑھا دیکھا، لیکن ان کی خدمت نہ کی۔‘‘ اگر حج کے لوازمات پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں کتنی مشقت ہے۔ لوگ اس مشقت کا انتخاب کر تے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حج صرف اہل استطاعت پر فرض ہے، مگر وہ لوگ جن کے والدین ان کے پاس ہیں وہ ان پر توجہ ہی نہیں دیتے اور لمبے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ زکام کا بھی اپریشن ہونا چاہیے۔ ا س میں کوئی تکلیف ہونی چاہیے۔ آسان اور مختصر راستے پر چلنا دشوار لگتا ہے۔
ان چیزوں کی فہرست بنائیے جن کی وجہ سے لمبے راستے کا انتخاب کرنا پڑا۔ اپنے آپ سے سوال پوچھئے کہ کیا میرا لمبا راستہ طے کرنا ضروری تھا؟ کیا اتنی تگ و دَو کی ضرورت تھی؟ کیا اتنی توانائی لگانی چاہیے تھی؟ کیا اتنا وقت صرف کرنا چاہیے تھا؟
غفلت کی زندگی؛ زیاں کا احساس
زندگی میں سنجیدگی اس وقت آتی ہے کہ جب یہ احساس ہونے لگے کہ میرا وقت ضائع ہورہا ہے۔ جب وقت ضائع ہونے پر تکلیف ہونے لگے تو اس وقت شکر ادا کیجیے، کیونکہ آپ کا شمار دنیا کے خوش قسمت ترین انسانوں میں ہونے لگاہے۔ جس انسان کو اپنے وقت کی قدر ہو، وہ بہت ہی خوش قسمت انسان ہے۔ اس بات کا شکر ادا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندگی کی قدر مناسب وقت میں دے دی، کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ احساس عمر کے آخری حصے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت احساس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’غافل کی آنکھ تب کھلتی ہے جب بند ہوتی ہے۔‘‘ اگر آپ کی آنکھ ابھی سے کھل گئی ہے تو پھر آپ خوش قسمت ہیں اور آپ لمبے راستے سے بچ گئے ہیں۔
لمباراستہ اس وقت اختیار کیجیے کہ جب اسے اختیار کرنا ضروری ہوجائے۔ یہ طے کیجیے کہ اپنے وسائل کہاں کہاں استعمال میں لانا ہیں۔ طے کیجیے کہ میرا کیریرکیا ہے۔ طے کیجیے کہ میرا مستقبل کیا ہونا چاہیے۔ طے کیجیے کہ میرا ویژن کیا ہے۔ جو آدمی اپنی زندگی کے معاملے میں صاف گو ہوجاتا ہے، اس کیلئے زندگی کے اہم فیصلے کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ وقت ضائع کرنے والا اصل میں اپنی زندگی ضائع کر تا ہے۔ ’’مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘ اس کا تعین جتنی جلد ممکن ہوسکے، کرلینا چاہیے تاکہ زندگی آسان ہو جا ئے۔ آپ جو لینے جا رہے ہیں، یہ دیکھئے کہ آنے والی چیز اس سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ جب انسان کو پتا ہوتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے تو بہت سے غیر ضروری کاموں سے وہ بچ جاتا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ پیسہ کمالیا، حالانکہ انھیں اتنے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر وہ اس مال کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’کنجوس اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مرجاتا ہے۔‘‘
جوازِ ہستی
زندگی کی سب سے اعلا تعریف یہ ہے کہ زندگی کا جواز مل جائے۔ جب جوازِ ہستی پاس ہو تو پھر زندگی گزارنا اور اگلی منزل پر جانا آسان ہوجاتا ہے۔ مثا ل کے طور پر، موبائل ہو لیکن اس کے فنکشنز کا پتا ہی نہ ہو اور صرف یہی سمجھا ہو کہ اسے صرف جیب میں ہی ڈالا جاتا ہے توپھر اس سے پور ا فائد ہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ زندگی بھی اس طرح ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کو اس کے فنکشنز کا پتا ہی نہیں ہوتا۔ جب یہ جانے لگتی ہے، تب اس کے فنکشنز کا پتا چلتا ہے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ زندگی کا سراغ تلاش کیجیے۔ اس کا جواب باہر سے نہیں ملے گا، اس کا جواب صرف اندر سے ملے گا، اپنے اندر سے جواب آئے گا۔ یہ جواب، جیسا بھی ہو، سننے کیلئے ہمیشہ تیار رہیے۔ خبر نہیں کہ کب اندر کا سچا انسان خیال کی شکل میں بول پڑے۔
جس دن جوازِ ہستی مل جائے، زندگی اسی دن شروع ہوجاتی ہے۔ زندگی اس دن کا نام ہے جس دن یہ احساس آئے کہ یہ زندگی ہے۔ اس سے پہلے زندگی نہیں تھی، دن تھے جو گزارے جاتے تھے۔ جس دن احسا س آجائے تو سمجھ جائیے کہ آپ کو جوازِ ہستی مل گیا۔ جب جوازِ ہستی مل جاتا ہے تو انسان بامقصد چیزوں کے قریب جانے لگتا ہے اوراسے اپنی منزل سامنے نظر آنے لگتی ہے۔
آج سے اپنا سب سے اچھا کام تلاش کیجیے اور اللہ تعالیٰ سے دعاکیجیے کہ مالک، میرے سب سے اچھے کام کو اپنی راہ میں لگا۔ میرا بولنا، میرا سننا، میرا لکھنا، میرا پڑھنا، میری توانائی، میرا مال، میرے تمام تر وسائل میرے مقصد حیات پر لگ جائیں۔ یہ بھی شعور ہے کہ اپنے ساتھ جڑی ہوئی زندگیوں کی قدر کرنے لگیں۔انھیں شعور دینے لگیں۔ فہم دینے لگیں۔ اس سے بڑا مقصد اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اللہ کا بندہ نقصان دہ نہ رہے، بلکہ فائدہ مند ہوجائے۔ اگر آدمی نے دوسروں کو نقصان پہنچانا بند کردیا اور فائدہ پہنچانا شروع کردیا تو سمجھئے کہ وہ مقصد حیات کی طرف چل پڑا ہے۔ یہ سب سے نمایاں علامت ہے۔ پھر وہ اگر سائنسداں ہے تو وہ کوئی دریافت کرے گا، استاد ہے تو نسلیں سنوارے گا، قلم کار ہے تو لوگوں کیلئے ہدایت لکھے گا۔ پھر ہر فن کا ماہر اپنے فن کے ذریعے معاشرے کی اصلا ح کا کام کرے گا۔
معمولی واقعات، غیر معمولی نہیں
جس مالک نے آپ کو تخلیق کیا ہے، اس مالک نے آپ کے مقصد کی بھی تخلیق کی ہے۔ قدرت اتنی مہربان ہے کہ وہ کسی نہ کسی کی زبان سے بولتی ہے اور آپ کو پیغام دیتی رہتی ہے۔ کہیں خیال ڈال دیتی ہے تو کہیں کوئی کتاب کھل جاتی ہے۔ کہیں ریڈیو غلطی سے لگ جاتا ہے، کہیں حادثہ ہوجاتا ہے۔ کہیں کوئی کسی کو سمجھا رہا ہوتا ہے۔ البتہ، قدرت کے ان پیغامات کو چند ہی سمجھ پاتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ’’دے کر احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے‘‘ احساسِ زیاں کا مطلب ہے کہ آپ کے اند ر یہ احساس کہ زندگی ضائع ہو رہی ہے، میں ڈوب رہا ہوں، میں کام کی تکمیل کے بغیر جا رہا ہوں۔ جب آنکھو ں سے بے سبب آنسو آنا شروع ہوجائیں تو وہ دعا مانگنے کا بہترین وقت ہوتاہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد کیا ہوتا ہے۔ اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے، وہ جوازِ ہستی بن جاتی ہے۔
لمبے راستے کا اندازہ انسان کو اس راستے پر چلنے سے ہی محسو س ہوجاتا ہے۔ آدمی کوئی کام غلط کر رہا ہو، اسے پتا بھی ہو لیکن پھر بھی کرتا جا ئے تو یہ بہت زیادتی ہے۔ لمبے راستے کے ساتھی بھی بولنے لگتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تم غلط راستے پر ہو۔ جگہ جگہ پریشانیاں محسوس کراتی ہیں کہ تم غلط کر رہے ہو۔چیزوں میں سے آوازیں آتی ہیں۔آدمی اپنے راستے اور اپنی منزل پر جتنا آسانی سے جاتا ہے، کسی اور راستے پر نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اس میں سر شاری ہوتی ہے۔ اس راستے کی تکالیف میں بھی راحت محسوس ہوتی ہے۔
اس دنیا میں آپ کا منفرد کردار
ہم سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ ہماری نفسیات، ہماری چاہتیں، ہماری تلاش، ہمارے راستے، ہمارے انداز، ہمارے مزاج، ہماری انسپائریشن اور ہم سب کا پس منظر مختلف ہے۔ جب سب کچھ مختلف ہے تو پھر سب کا مقصد بھی ایک نہیں ہوسکتا۔ سب کی چوائس ایک نہیں ہو سکتی۔ کائنات میں ہر انسان کا مختلف ہونا خالق کا بہت بڑا حْسن ہے۔ ہر شخص اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ کبھی معاشرے کے ایک کردار کو نکال کر دیکھئے، سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ مثلا، صرف ایک ماہ کیلئے دنیا سے حجام نکل جا ئے تو لوگوں کے حلیے بدل جائیں گے۔
اس دنیا میں کس نے پریت نباہی
اپنی ذات میں گم ہیں سارے، کیا پربت، کیا رائی
پہاڑ بھی اپنی ذات میں گم ہے اور ریت کا ذرہ بھی اپنی ذات میں گم ہے۔ دنیا کی ایک ایک چیز اپنے وجود کے بارے میں بتا رہی ہے کہ میں ہوں۔ آپ بھی اپنے وجود کو تلاش کیجیے کہ یہ وجود کیوں ہے، اس کے ہونے کا جواز کیا ہے، کیا ہمارا دنیا میں آنا ضروری تھا اور کیا جانا ضروری ہے؟ تکمیل کا نہ ہونا ہی ہمیں لگا رہنے دیتا ہے۔ جس فرد کو یہ احساس ہوجائے کہ مجھے سب کچھ مل گیا ہے تو وہ فارغ ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف، اگر بہت کچھ کرکے لگتا ہے کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا تو یہ خوش قسمتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ سے کوئی بڑا کام لینا ہے۔ خوب علم کے بعد محسوس ہو کہ ابھی بھی لا علم ہوں تو یہ احساس ’’علم‘‘ کی علامت ہے۔
جس سفر سے کوئی کمائی کی ہے، اس سفر کو سلام کیجیے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’اس گناہ کا شکریہ ادا کیجیے جس گناہ نے توبہ کرادی۔‘‘ ایک ایسی ڈیل جس کے بعد پتا لگ جائے کہ زندگی میں یہ ڈیل کبھی نہیں کرنی تو اس ڈیل کا شکریہ ادا کیجیے۔
ایک دعا، خلوص کے ساتھ
کم از کم ایک خواہش تو ایسی رکھیے کہ جس میں آدمی سچا ہو، مخلص ہو۔ وہ کہے کہ مالک، میری یہ دعا سچی دعا ہے۔ اس میں میرا کوئی لالچ نہیں ہے۔ مجھے اپنے آپ سے ملوا دے۔ میرا اپنے آپ سے رابطہ نہیں ہوا، میں اپنے من میں نہیں ڈوبا۔ مجھے توفیق دے کہ میں اپنے آپ کو تلاش کرلوں۔ جب آدمی اپنے آپ کو تلاش کرلیتا ہے تو اس کی زندگی اللہ کی مخلوق کیلئے مفید بن جاتی ہے۔ اس کے ہاتھ اور زبان سے انسانوں کو فائدہ پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔