اَن دیکھے نتائج
(قاسم علی شاہ)
یہ9جولائی92 19کی صبح تھی ، جب گھوٹکی ریلوے اسٹیشن کے قریب دو ٹرینوں کا ایک خوفناک تصادم ہوا۔دونوں ٹرینیں پٹڑی سے اترکرالٹ گئیں، بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہو ا، 100کے قریب مسافرجاں بحق ہوگئے۔اس سانحے پر پورا پاکستان صدمے کی کیفیت میں تھا۔ایسے میں وہاں موجود لوگوں نے ایک شخص کودیکھا جواپنی ٹیم کے ہمراہ زخمیوں کو اٹھانے اور میتوں کو دفنانے کا فریضہ اِس قدر جو ش و جذبے اور اپنائیت کے ساتھ نبھارہا تھا کہ وہاں موجود لوگوں کو لگا کہ اس کا کوئی عزیز بھی اس واقعے میں زخمی یا جاں بحق ہوچکا ہے ۔ہاں ایسا ہی تھا لیکن اس کا عزیز اس واقعے میں نہیں بلکہ گھر میں فوت ہواتھا اور وہ دوطرفہ غم مناتے ہوئے اس وقت زخمیوں کو بچانے کی سر توڑ کوشش کررہاتھا۔
متاثرین کی خدمت میں مصروف یہ عظیم انسان عبد الستار ایدھی تھے۔وہ جب اس حادثے کی جگہ پر آرہے تھے تو اسی وقت انھیں اطلاع ملی کہ ان کا نواسابلال اللہ کو پیار اہوچکا ہے ۔لوگوں نے واپسی کامشورہ دیا لیکن انھوں نے انا للہ پڑھی ،اپنے خاندان والوں کوتدفین کی نصیحت کی اور گھوٹکی پہنچ گئے۔کراچی واپس آکر جب وہ اپنے نواسے کی قبر پر گئے تو دھاڑیں مارماکر روئے ، کیوں کہ یہ ان کامحبوب نواسا تھا۔عبدالستار ایدھی اس کو دِل و جان سے چاہتے تھے اور آج یہی محبت ان کی آنکھوں سے ٹوٹ کر برس رہی تھی۔ایدھی صاحب جیسے عظیم لوگوں کو ہی اللہ تعالیٰ نے یہ حوصلہ دیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشن کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کانام رہتی دنیا تک زندہ رکھتا ہے۔
روئے زمین پر موجو د ہرانسان اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے جیتے جی ایک نامور اور عزت دار انسان بن جائے۔وہ اپنا نام بنانا اور اپنی پہچان ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کی پہچان تب شروع ہوتی ہے جب وہ قبر میں اترتا ہے ۔مرنے کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ سے یاد کریں گے ، یہی آپ کی اصل شناخت اور کمائی ہے۔
کسی بھی انسان کو نام یا شہرت ملتی ہے تودراصل یہ نتائج ہوتے ہیں ،ان کاموں کے جو اس نے زندگی بھر کیے ہوتے ہیں۔یہ منفی بھی ہوسکتے ہیں اور مثبت بھی۔انھی نتائج کو حاصل کرنے کے لیے وہ دِن رات ایک کرکے محنت و مشقت کرتا ہے ۔ان نتائج کی ایک شکل تو وہ ہوتی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔جیسے ملازم پیشہ شخص پورا مہینہ کام کرتا ہے تاکہ اس کو مہینے کے اختتام پر تنخواہ ملے اور اس کو وہ اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔کاروبار کرنے والا شخص کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتا ہے اور پھر منافع کو اپنانتیجہ سمجھتا ہے ۔طلبہ محنت کرتے ہیں اور اچھے نمبر آنے کو اپنا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
ظاہری آنکھ سے دیکھے جانے والے اورجلد حاصل ہونے والے ان نتائج کے لیے آج دُنیا کا ہر انسان محنت اور بھرپور کوشش کررہا ہے ،کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی ان ہی نتائج پر منحصر ہے ۔اس کا کھانا پینا ، رہائش ، گھر کے اخراجات اور دیگر اشیائے ضروریہ ان ہی نتائج کی بدولت مکمل ہو پاتی ہیں۔چوں کہ انسان کی فطرت میں جلد بازی ہے اس لیے وہ ان نتائج کو حاصل کرنے میں دیر نہیں چاہتا، مثلاً ایک ملازم کو اگر مہینہ بھرکا م کرنے کے بعد کہہ دیا جائے کہ اس کو تنخواہ اگلے مہینے ملے گی تو وہ پریشان ہوجائے گااور اس کاجوش و خروش بھی کمزور پڑجائے گاکیونکہ اب اس کے اور اس کے نتائج کے درمیان فاصلہ آگیا ہے۔
دوسری قسم کے نتائج وہ ہیں جو جلد نہیں ملتے ۔یہ ایک جگہ پر جمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر اکھٹے ملتے ہیں۔اس کی عام مثال ہمارے معاشرے میں کمیٹی سسٹم ہے ، جس میں ایک فرد ہفتے یا مہینے بعد کچھ رقم جمع کرتا رہتاہے اور پھر کچھ عرصے بعد یکمشت اس کو وہ ساری رقم مل جاتی ہے ۔دیرسے ملنے والے نتائج کوانسان اپنی ترجیح میں نہیں رکھتا ،وہ صبر اور انتظار کو ذہن میں رکھ کر اس طرح کی کسی سرگرمی میں شامل ہوتا ہے۔آج کل بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریوں کابڑھنا بھی اس کی ایک مثال ہے۔چالیس سال کے بعد شوگر ، بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کے کیسز بڑھ جاتے ہیں ۔یہ تمام چیزیں ایک مہینے یا ہفتے میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کی 20،25سال کی بدخوراکی کا نتیجہ ہوتا ہے۔اس نے جو بدپرہیزی کی ہوتی ہے وہ جمع ہوتی ہوتی یکدم ایک بڑی بیماری کی صورت میں ظاہر ہوجاتی ہے۔
آج کی ماڈرن دنیا میں اس عادت کو The Compound Effectکانام دیا جاتا ہے جو ایک تھیوری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔اس تھیوری کے مطابق ہر وہ عمل جو مستقل مزاجی کے ساتھ کیا جائے تو اس کا نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔یہ تھیوری سیلف ہیلپ کے میدان میں بڑی اہمیت حاصل کرچکی ہے اور اسی کو بنیاد بناکر انسانی اپنی شخصیت سازی کرسکتا ہے اور خود کو کامیاب بناسکتا ہے۔
نتیجے کی ایک تیسری قسم بھی ہے اور یہ وہ نتیجہ ہے جو اس دُنیا میں نہیں ملتا۔یوں سمجھیں کہ یہ ایک ’’بِن دیکھے ‘‘کا سودا ہے اور یہ وہی انسان کرسکتا ہے جس کا یقین مضبوط ہو لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ یہی اصل کامیابی ہے۔اسی کامیابی کے لیے ہم نماز میں دُعا مانگتے ہیں کہ اے ہمار ے رب! ہماری دُنیا بھی اچھی فرما اور آخرت بھی اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔الفاظ پر غور کریں تودُنیا وی نتیجے کے لیے صرف ایک دعا ہے جبکہ آخرت والے نتیجے کے لیے دو دُعائیں کہ وہاں کی زندگی بھی اچھی کردے اور ہمیں آگ سے بھی بچادے۔اسی بنیاد پر آخرت والی زندگی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ایک مردِ مومن کے لیے اس کا’’ لانگ ٹرم گول‘‘ آخرت ہی ہے کہ بالآخر اس نے وہیں جانا ہے۔وہ دُنیا میں رہتا ہے ، یہاں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن اپنے ہر عمل کو اسی ’’لانگ ٹرم گول‘‘ کی بنیاد پر ہی سرانجام دیتا ہے ۔یہی چیز اس کے اندر خلوص بھردیتی ہے اور اُس کے دِل سے حرص و لالچ نکل جاتا ہے۔پھر وہ صرف دنیاوی نتیجے کے لیے کام نہیں کرتا بلکہ اپنے آخرت کا اکاؤنٹ بھی بھرتا رہتا ہے۔
سیلف ہیلپ کی دنیا میں ایک اصطلاح ’’کیوں‘‘ (Why) کی استعمال ہوتی ہے۔جس کامطلب یہ ہے کہ آپ جو زندگی گزاررہے ہیں اس کی وجہ ڈھونڈیں ۔آپ کسی چیز کاانتخاب کرتے ہیں تو اس کے پیچھے آپ کی وجہ کیا ہے۔جو بھی انسان اپنے’’کیوں‘‘کو دریافت کرلیتا ہے تو اس کی زندگی بامقصد بن جاتی ہے اور وہ کامیابی کی منزل پر جلد پہنچ جاتا ہے۔اسی نظریے کو اگر دین کے پیرائے میں دیکھا جائے تو کہاجاسکتا ہے کہ ایک مومن کے لیے اپنا’’کیوں‘‘تلاش کرنا بہت ضروری ہے اوروہ ’’ اللہ کی رضا‘‘ ہے۔یہ ’’کیوں‘‘ جب زندگی میں آجاتا ہے تو انسان کی نظر بھی وسیع ہوجاتی ہے اور پھروہ دُنیا وی زندگی کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتا۔وہ کچھ ایسے کام ضرور کرکے جاتا ہے جن کا نتیجہ اسے آخرت میں ملنا ہوتا ہے۔اُس کا یقین مضبوط ہوجاتا ہے اور اس کو احساس ہوجاتا ہے کہ دُنیا میں کی گئی کوئی بھی محنت ضائع نہیں جاتی بلکہ اس کانتیجہ کہیں نہ کہیں ضرور ملتا ہے۔پھر وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ مجھے ملنے والا اصل نتیجہ وہ نہیں جو پہلی تاریخ کو تنخواہ کی صورت میں ملتا ہے بلکہ یہ رب کے نظام میں محفوظ ہوچکا ہے او ر ایک دِن یہ ضرور ملے گا۔
موبائل فون کے ماہرین کہتے ہیں کہ موبائل میں ایک بار محفوظ کیا جانے والا ڈیٹا اگر انسان ڈیلیٹ بھی کردے تو وہ واپس لایاجاسکتا ہے اور کسی بھی انسان کے موبائل فون سے اس کاتمام ریکارڈ نکالاجاسکتا ہے ۔جب ایک چھوٹی سی انسانی ایجاد کے بارے میں انسان کا یہ یقین ہے تو پھر رب کے نظام پر یہ یقین کیوں نہیں کہ وہاں بھی انسان کاسب کچھ محفوظ ہوتا ہے ،اگرکوئی انسان اس دنیا میں محنت کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ کسی کام کوسرانجام دیتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ضائع ہوجائے !!
مایوسی کی یہ کیفیت انسان پر زیادہ تر اس وقت طاری ہوتی ہے جب وہ نوکری کررہاہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ مجھے محنت اوراخلاص کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ مجھے تنخواہ صرف کام کرنے کی ملتی ہے محنت اور اخلاص کی نہیں۔اس طرح کے خیالات اس کو سست بنادیتے ہیں ، وہ اپنے کام میں محنت کرسکتا ہے، وہ اس کام کو مزید بھی اچھا کرسکتا ہے ، لیکن نہیں کرتا۔یادرکھیے کہ آپ کے کام کامعاوضہ پہلی تاریخ کو آپ کو مل جاتا ہے ، البتہ جس محنت اور خلوص کے بارے میں آپ کا گمان ہے کہ اس کا کوئی بدلہ آپ کونہیں ملتا تو ایسا نہیں ۔آپ کی یہ محنت اورخلوص آپ کے اسی نظر نہ آنے والے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتا ہے۔
اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میں الیگزینڈرفلیمنگ سے ملا ، جس نے پینسلین ایجاد کی تھی ۔میں نے اس کے ہاتھ چومے تواس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔میں نے اس کوبتایا کہ ہمارے ہاں جو آدمی معاشرے کی خیر کے لیے کام کرے ہم اس کے ہاتھ چوم کر اس کو عزت دیتے ہیں۔فلیمنگ نے کہا،مانتا ہوں کہ میں نے ایک بڑی خدمت سرانجام دی ہے لیکن اس میں میرا کوئی کمال نہیں، سارا کمال تو اوپر والے کا ہے۔اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کرمجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے دِل پر گھونساماراہو کہ یہ غیرمسلم ہوکر اللہ پر کتنا یقین رکھتا ہے۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم اُس (اللہ)کو جانتے ہو؟ فلیمنگ بولا:’’ہاں ، میں اپنے تخیل میں سوچتاہوں کہ وہ آسمان پر رحمت کی پوٹلیاں لگائے بیٹھا ہے۔وہ کاٹ کاٹ کر پھینک رہا ہے اورحق نہ ہوتے ہوئے بھی وہ ہماری جھولیوں میں گررہی ہیں۔‘‘
آپ ذرا دِل کی آنکھ سے دیکھیں تو ہم پر اللہ کا کرم کس کس شکل میں ہورہا ہے ۔ہم میں اگر کوئی قابلیت ہے ، ہمیں اچھی نوکری اور پرسکون گھر ملاہے،دوچارلوگوں میں عزت ہے تویقین کریں کہ ہم پر اللہ کی رحمت ہے۔نہیں تو اپنے آس پاس دیکھیں ،ہم سے زیادہ قابل ، ہم سے زیادہ ذہین و فطین اور ہم سے زیادہ اعلیٰ ڈگریوں والے لوگ رُل رہے ہیں لیکن ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجوداللہ کے کرم سے کس قدر بہترین انداز میں مستفید ہورہے ہیں۔ہم زندہ ہیں اسی لیے دنیا کی نعمتوں کوانجوائے کررہے ہیں ،وگرنہ تو زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک رگ کا فاصلہ ہے ،وہ کٹ جائے تو پھرہرطرف گھپ اندھیرااور زندگی ختم۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک انسان لگن کے ساتھ محنت کررہا ہے اور بظاہر اس کو ایک معمولی تنخواہ مل رہی ہے لیکن اللہ اس کی بڑی بڑی ضروریات کہیں سے پوری کررہاہے۔وہ اپناذاتی مکان چاہتا ہے جو کہ تنخواہ میں ممکن نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کسی اور کو کام میں لگاکر اس کے لیے گھر تیار کررہا ہوتا ہے اور پھر اچانک زندگی کے کسی موڑپر جب وہ اپنے پاس اتنی نعمتو ں کو دیکھتا ہے تو شکر گزاری سے اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
میں نے دیکھاہے کہ رزق کو حلال کرکے گھرلوٹنے والا شخص پرسکون نیند سوتا ہے۔اس کی اولاد تابعدارہوتی ہے ۔کسی بھی ماں باپ کے لیے بچوں کی نافرمانی سے بڑھ کر تکلیف اور کوئی نہیں ہوتی۔اولاد کی فرماں برداری ACسے زیادہ ٹھنڈک دیتی ہے اور نافرمانی انسان کو ایسی آگ میں جھونک دیتی ہے جو چولہے کی آگ سے زیادہ بھڑکیلی ہوتی ہے۔
دُنیا کی زندگی دو چاردِن کا میلہ ہے۔انسان اگر محنتی ، مخلص ،یقین رکھنے والا اور مخلوقِ خدا کادرداپنے دِل میں رکھنے والا ہو تواس کو زندگی میں بہترین نتائج ملناشروع ہوجاتے ہیں جبکہ آخرت کے حقیقی نتائج ان کے علاوہ ہیں۔