پیدائش کادرست اندراج ؛ بچو ں کا پیدائشی حق
(قاسم علی شاہ)
کائنات میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اپنے حصے کا رزق ، سانسیں اور قسمت لے کر آتاہے۔یہ تینوں نعمتیں اس کو خدا کی طرف سے ملتی ہیں ۔البتہ ایک بنیادی چیز اور ہے جو اس کو معاشرہ اورسرکاردیتاہے اور وہ ہے شناخت ،کہ وہ معاشرے میں کس شناخت کے ساتھ زندگی گزارے گا ۔یہی و ہ شناخت ہے جس کی بنیاد پر لوگ اس کے ساتھ معاملات کرتے ہیں اور اسی بناء پر اس کو اہمیت دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں پیدائش کے بعد بچے کو معاشرتی شناخت تو مل جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو قانونی شناخت نہیں مل پاتی۔قانونی شناخت سے مراد بچے کی رجسٹریشن ہے جو کہ لوکل گورنمنٹ کے پاس کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر بچے کو ’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘ ملتاہے۔یہ بچے کا بنیادی حق ہے ۔ یہ چیز مستقبل میں اس کے لیے بڑی اہمیت اختیار کرجاتی ہے اور بے شمار قانونی معاملات میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔اب اگر بچے کی رجسٹریشن ہوئی ہوگی تو اس کو ان قانونی معاملات میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گالیکن اگر اس کے پاس’’ برتھ سرٹیفکیٹ‘‘ نہ ہو تو اس صورت میں کئی سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔
برتھ سرٹیفیکیٹ کی اہمیت
عام طورپر یہ سمجھاجاتاہے کہ ’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘کی ضرورت نہیں پڑتی تو پھر اس کو بنوانے کا تکلف کیوں کیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ ’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘انسان کو کئی سارے فوائد دیتاہے۔یہ ایک اہم دستاویزی ریکارڈ ہے جس کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔اگربچپن میں بچے کی رجسٹریشن نہ کروائی جائے اورسولہ سال کی عمر میں جاکراس کاشناختی کارڈ بنے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس بچے نے سولہ سال بغیر کسی شہریت کے گزارے ۔ خدانخواستہ اس دوران اس بچے کے ساتھ کوئی بھی واقعہ پیش آتاہے تو سرکاری محکموں کوعلم ہی نہیں ہوگا کہ کسی پاکستانی بچے کے ساتھ کچھ ہواہے۔جب بچوں کی رجسٹریشن کروائی جائے گی اور حکومت کے پاس ان کا ریکارڈ ہوگا تو گورنمنٹ اسی حساب سے ان کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندی بھی کرسکے گی۔
برتھ سرٹیفیکیٹ نہ بنوانے کے نقصانات
غیر رجسٹرڈ بچے کامطلب ہے :غیر رجسٹر ڈزندگی۔ بچہ جب سرکاری ریکارڈ میں نہیں ہوتاتو وہ ان تمام حقوق اور پیکجز سے بھی محروم رہتاہے جو حکومت کی طرف سے اس کوحاصل ہیں۔اس کو طبی سہولت میں رعایت نہیں مل سکتی ، وہ تعلیم اور دوسرے بے شمار فوائد سے بھی محروم رہتاہے۔حالیہ ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اغواء ہونے والے بچے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بچے زیادہ تر وہی ہیں جو کہ غیر رجسٹرڈ ہیں۔
زمانہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہاہے ۔جیسے جیسے ہم ایک Informal(غیرمنظم)زندگی سے Formal(منظم)زندگی کی طرف آرہے ہیں تو قانونی دستاویزات کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔یہ ہر انسان کی زندگی کا وہ پہلوہوتاہے جو کہ مستند اور بروقت ہونا ضروری ہوتاہے کیوں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے معاملات مشکل اور گراں قیمت ہوتے جاتے ہیں۔مثال کے طورپر ایک بچے کا ’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘نہیں بنا،یابناتوہے لیکن اس میں معلومات درست نہیں ہیں اور ایم اے میں جاکر اس کو احسا س ہوجاتاہے کہ ان معلومات کو ٹھیک کرنا چاہیے تو اب وہ پرائمری اسکول سرٹیفکیٹ سے لے کر ایم اے تک کی ایک ایک سند میں ترمیم کروائے گااور اس عمل میں اس کا کتنا خرچا آئے گا اور اس کو کس قدر خواری ہوگی ، ایک پاکستانی کی حیثیت سے آپ اس کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔
ہمارامعاشرہ ترقی کررہا ہے لیکن کچھ معاملات میں آج بھی ہم کافی پیچھے ہیں،جن میں سرفہرت بچوں کی رجسٹریشن ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈہونے والے بچوں کی شرح صرف 30سے40فی صد ہے جبکہ 60ملین بچے آج بھی ایسے ہیں جو کہ غیررجسٹرڈ ہیں۔پاکستان کے کچھ علاقوں میں آج تک بچیوں کے ناموں کا انداج نہیں کروایا جاتا اور اس کو عزت و غیرت کا مسئلہ سمجھاجاتاہے۔خواتین کا شناختی کارڈ بھی اصل نام کے علاوہ ’’زوجہ فلاں‘‘ کے نام سے بنوایاجاتاہے۔واضح رہے کہ بچیوں کے نام ضرورت کے تحت آشکار کرنے میں کوئی شرم و حیاوالی بات نہیں ہے ۔ہم سب اسلام کے ماننے والے ہیں اور اسلام تمام معاملات میں مکمل وضاحت کا حکم دیتاہے ،یہاں تک کہ نکاح میں دلہن کانام بھی ’’دخترفلاں‘‘یا’’ہمشیرفلاں‘‘ کے بجائے پورانام لکھنے کا حکم دیتاہے۔
پیدائش ریکارڈکی اہمیت
بچوں کی پیدائش کا ریکارڈ رکھنا کس قد ر اہم ہے۔اس کا ثبوت ہمیں سیرت النبی ﷺ سے ملتاہے ۔جب مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کرکے آگئے تو آپﷺ نے حضرت ابوالدرداء ؓ کو انصار اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مہاجرین کے بچوں کاریکارڈ رکھنے کی ذمہ داری دی کہ جو بھی بچہ پید ا ہوتو اس کا نام ، ولدیت اور پیدائش کی تاریخ لکھی جائے۔حضرت علی ؓ کی فہرست میں پہلا نام عبد اللہ بن زبیر ؓ کاتھا ، یہ مہاجرین میں پیداہونے والا پہلا بچہ تھااور اسی فہرست کی بنیاد پر حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں مردم شماری کی روایت ڈالی جس پر آج کی ساری دنیاعمل پیراہے۔
بچوں سے زیادہ بچیوں کے ریکارڈکوحساس سمجھنا بھی ہمیں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے ملتاہے ۔اس وقت عام طورپر لکھنے کے لیے دو چیزیں استعمال کی جاتی تھیں ۔عام تحریر کے لیے کھجور کے پتے اورخاص تحریر کے لیے لکڑے کاتختہ۔چنانچہ اس وقت بچوں کے ریکارڈکے لیے کھجورکے پتے جبکہ لڑکیوں کے ریکارڈ کے لیے لکڑی کے تختے استعمال کیے جاتے تاکہ ان کا ریکارڈ پختہ رہے اورمیراث و جائیداد کے معاملات میں انھیں نظر انداز نہ کیاجائے ۔(کتاب:الرسول الرحمہ،مصنف:ڈاکٹر طٰہٰ یاسین اسماعیل )
افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بھی جائیداد کے معاملات میں بہنوں کو محروم کرنے کے لیے نئے حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ایسے میں اگر بچیوں کا’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘موجود ہوتو انھیں قانونی حقوق سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔
یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ نادرا کے پاس ’’ب فارم‘‘ یا’’شناختی کارڈ‘‘ کا جو ریکارڈ ہوتاہے وہ آپ کی Family Treeبتاتاہے کہ آپ کس کے بیٹے یا بیٹی ہیں لیکن ’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘ وہ اہم دستاویز ہے جو یہ بتاتی ہے کہ آپ ایک پاکستانی شہری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شہری باہر کے کسی ملک میں امیگریشن یاویزے کے لیے اپلائی کرتاہے تو متعلقہ ملک کاسفارت خانہ اس کے یونین کونسل سے رابطہ کرتاہے اور اس کا برتھ سرٹیفیکیٹ چیک کرتاہے ۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ’’برتھ سرٹیفکیٹ‘‘ کی کیااہمیت ہے۔
برتھ سرٹیفیکیٹ بنوانے کاطریقہ
بچے کی پیدائش سے لے کر اگلے 60دنوں تک آپ اپنے متعلقہ یونین کونسل سے بچے کاسرٹیفیکیٹ بڑی آسانی کے ساتھ بنواسکتے ہیں۔61ویں دن سے لے کر سات سال کی عمر تک بھی بنوایاجاسکتاہے لیکن اس میں کچھ اہم افراد کے دستخط درکار ہوں گے ۔البتہ سات سال کے بعد یہ طریقہ کار مشکل ہوجاتاہے اور پھر میڈیکل سپرنڈنٹ لیول کے آفیسر سے بچے کا معائنہ کرایاجاتاہے اس کے بعد ’’برتھ سرٹیفیکیٹ‘‘ بن پاتاہے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کی پیدائش کا ریکارڈ رکھنے اور اُنھیں رجسٹرڈ کروانے کا شعور بہت ہی کم ہے۔ایسے میں معاشرے کی بااثر شخصیات اور سوشل میڈیا پر فین فالونگ رکھنے والوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس اہم ترین ایشو کو زیر بحث لائیں ، اس کی قانون سازی کے لیے آواز اٹھائیں اور اس آگاہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں تاکہ معاشرے میں پیداہونے والے بچے سرکاری ریکارڈ میں آجائیں جس کی بدولت نہ صرف وہ سرکاری سہولیات کے حقدار بنیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے تمام قانونی حقوق سے بھی مستفید ہوسکیں۔