بچوں کے لیے دُعا کیجیے
(قاسم علی شاہ)
’’اپنے ماں باپ سے محبت کیجیے۔ آپ پر اُن کا بہت قرض ہے؛آپ نے کبھی انھیں حاصل کرنے کیلئے دعا نہیں کی، لیکن انھوں نے آپ کو حاصل کرنے کیلئے بہت دعائیں کی ہیں!‘‘مفتی اسماعیل مینک
بچے کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو اُس کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی تربیت شروع کرنا ہوگی۔ آپ اس بات پر حیران ہوسکتے ہیں کہ پیدا ئش سے پہلے تر بیت کی فکر کیسی کی جا ئے؟لیکن یہ بڑی غلطی فہمی ہے جو اکثر والدین میں پائی جاتی ہے کہ وہ بچے کی تربیت اور تعلیم کیلئے اس کے ہوش سنبھالنے کا انتظار کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اولاد ہونے کے منتظر نہیں رہتے،بلکہ نیک اولاد کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں شروع کردیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی کہ اے رب، مجھے نیک اولاد عطا کر۔ پس، ہم نے انھیں نہایت صبر والے لڑکے کی خوش خبری دی۔(سورہ الصفت، آیت 100، 101)
چنانچہ اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل جیسا عظیم بیٹا دیا۔
ایسے ہی حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کیلئے دعا کی:
ترجمہ: اس موقع پر زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی۔ کہنے لگے، یا رب، مجھے خاص اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔ (آلِ عمران، آیت 38)
حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ ماجدہ حضرت حنہ جب حاملہ ہوئیں تو انھوںنے اسی وقت یہ کہا تھا کہ وہ ہونے والی اولاد کو اللہ کے نام پر بیت المقدس کی خدمت کیلئے وقف کردیں گی۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ سورہ آلِ عمران میں یوں درج ہے:
’’جب عمران کی بیوی نے کہا تھا، یا رب، میں نے نذر مانی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے،میں اسے ہر کام سے آزاد کرکے تیرے لیے وقف کروں گی۔ میری اس نذر کو قبول فرما۔ بے شک، تو سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ پھر جب ان سے لڑکی پیدا ہوئی تو وہ (حسرت سے) کہنے لگیں، یا رب، یہ تو مجھ سے لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔… حالانکہ اللہ کو خوب معلوم تھا کہ ان کے یہاں کیا پیدا ہوا ہے۔… اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا۔ میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے۔ اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے حفاظت کیلئے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ چنانچہ اس کے رب نے اس (مریم) کو بہ طریق احسن قبول کیا اور اسے بہترین طریقے سے پروان چڑھایا۔‘‘
مفسرین نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمان والدین کو ان آیات سے درج ذیل ہدایات ملتی ہیں۔
1 بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہو، تبھی سے اپنے بچے کیلئے زبانی اور قلبی نیک تمنائیں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کیلئے اللہ تعالیٰ سے اہتمام سے دعائیں مانگنی چاہئیں۔
2 ماں اور باپ دو نو ں کا حق ہے کہ وہ با ہمی مشور ے سے بچے کا نا م رکھیں۔
3 جو والدین بچے کی پیدائش سے پہلیہی اپنے بچوں کے نیک اور صالح ہونے کی دعائیں کرتے رہتیہیں، پیدائش کے بعد ان دعائوں کے اثرات ان کے بچوں کی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں۔
4 اولاد صرف اللہ دیتا ہے۔ اس لیے، اللہ ہی سے اولاد مانگنی چاہیے۔
5 او لا د اللہ کا انعام اور فضل ہے لہٰذا اللہ کے احکا م کی اطاعت کے ساتھ تربیت کرنی چاہیے۔
6 اولاد کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اسے دین کی محنت کیلئے تیار کیا جائے۔
آپ سو فیصد ذمے دار ہیں
عبد اللہ بن عمر رضی ی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کفرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’تم سب ذمے دار ہو، اور تم سب سے تمہاری ذمے داری اور رعایا ککے بارے میں پوچھا جائیگا۔ تم اس ککے جواب دہ ہو۔ حکمران اپنے رعایا کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ وہ اس کا جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا ذمے دار ہے۔ اس سے اس ذمے داری کا پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمے دار ہے۔ اس سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔اور خادم ذمے دار ہے اپنے مالک کے مال کا، اس سے اس مال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘(صحیح بخاری، 853؛ صحیح مسلم، 1823)
یہ حدیث بہت واضح کرتی ہے کہ اولاد کے برتائو، کردار اور شخصیت سازی کی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ عموماً والدین اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ یہ ذمے داری اُن کے اسکول کے اساتذہ پر ہے۔لیکن، یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بچوں کی شخصیت سازی اور کردار سازی کے نوے فیصد ذمے دار بچوں کے والدین ہوتے ہیں۔
ذمے دار ماں اور باپ کی حیثیت سے آپ کو درج ذیل کام کرنے ہوں گے۔
1 بچوں کو عملی مثالوں سے سمجھائیے
بچے بڑوں سے کہیں زیادہ گہرا مشاہدہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور الفاظ کی بجائے تجربات سے بہت سیکھتے ہیں۔ ذمے دار والدین اپنے بچوں کیلئے ایسی کرداری مثال بنتے ہیں جن کے ذریعے ان کے بچے درست برتاؤ سیکھتے اور اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ بچوں میں تحمل اور صبر کی خوبی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس کے بارے میں بتانے کی بجائے خود روزمرہ کاموں میں تحمل اور صبر سے کام لیجیے۔ یوں، آپ کے بچے عملی طور پر مضبوط بنیادوں پر یہ خوبی سیکھ پائیں گے۔
2 تنقید کی بجائے حوصلہ افزائی کیجیے
والدین کی ایک بڑی ذمے داری یہ بھی ہے کہ بچے کچھ بھی کریں تو ان کے عمل پر اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر کوئی کام نامکمل رہ گیاہے تو اس کیلئے انھیں برا بھلا کہنے کی بجائے جو انھوں نے کرلیا ہے اس کے ذر یعے سکھا ئیے ان میں جو خوبی نہیں، اس پر برا کہنے کی بجائے جو خوبی وہ رکھتے ہیں، اس پر ان کی ستائش کیجیے۔ جو والدین اپنے بچوںپر مستقل تنقید کرتے رہتے ہیں، ان کی خود توقیری مجروح ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی کا برتاؤ بچے میں مثبت اور پُراعتماد شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو زندگی میں کامیاب ہونے کیلئے لازمی ہے۔
3 مصروفیت کے باوجود بچوں کے ساتھ روزانہ وقت گزاریے
بچوں کے ساتھ جو والدین معیاری وقت گزارتے ہیں، ان کے بچے کہیں زیادہ خوش اور پُراعتماد ہوتے ہیں۔ ہم سب کتنے ہی بڑے ہوجائیں، اپنوں کے ساتھ گزارے لمحات ہمیں سب سے زیادہ خوشی دیتے ہیں۔ یہ خوشی، محض خوش کن جذبات ہی نہیں ہوتے، اس خوشی سے شخصیت میں اعتماد اور محبت کی آب یاری بھی ہوتی ہے۔
والدین اکثر یہ شکا یت کرتے ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ یہاں وقت کی مقدار سے زیادہ معیار اہم ہے۔ آپ غور کریں تو آ پ کو پتا چلے گاکہ آپ بہت سا وقت ایسا گزاردیتے ہیں جس میں آ پ وقت کے منظم نہ ہونے کی وجہ سے غیر اہم کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ کچھ غور و فکر کرنے اور اوقات کو منظم کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
4 بچے کے ساتھ گفتگوکیجیے
معیاری وقت کے علاوہ بھی گاہے گاہے بچے کے ساتھ گفتگو کرنا ضروری ہے۔ بچے سے گھر کے عمومی معاملات کیلئے مشورہ کیجیے۔ جس سے اسے یہ احساس ہوگا کہ وہ اہم ہے۔ نیز، اس کی خودتوقیری میں اضافہ ہوگا۔ وسیع القلبی کے ساتھ منطقی انداز میں گفتگو کرکے بہت سے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ذمے دار والدین اپنے بچوں کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی کم عمر ہوں۔ پھر، ان سے سوال جواب بھی کرتے ہیں۔
5 میاں بیوی کی حیثیت سے رشتے کو قوی کیجیے
بچے کی نفسیات اور شخصیت پر اُس کے والدین کا آپس میں تعلق بہت گہرے اثرات رکھتا ہے۔ میاں بیوی اپنے بچے کو تو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، مگر وہ خود کامیاب زند گی گزارنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ یوں، ماں باپ کے درمیان ہونے والی کشید گی بچے کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پھر، جب وقت گزر جاتا ہے پھر وہ ایک دو سر ے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ذمہ دار والدین میاں بیوی کی حیثیت سے خوش گوار تعلقات رکھتے ہیں اور اس کی عملی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔
6 بچے کے اشاروں کو سمجھئے
بچہ ابتدا میں اشاروں میں بات کرتا ہے۔ ذمے دار والدین اپنے بچے کے ان اشاروں کو سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ بچہ جب درست بولنے کے قابل ہوجاتا ہے، تب بھی وہ اپنے والدین سے ہر بات کہنے میں جھجکتا ہے۔ ایسے میں، باشعور اور ذمے دار والدین کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کی جذباتی کیفیات سے آگاہ ہوں اور جاننے کی کوشش کریں کہ بچہ اُن سے اس وقت کیا چاہ رہا ہے۔
7 بچے کو اپنا فیصلہ خود کرنے دیجیے
ذمے دار والدین کی یہ ایک بڑی ذمے داری ہے۔ جو والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے ابھی فیصلہ کرنے کے اہل نہیں۔ آپ بچے کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے فیصلے انہیں کرنے کا اختیار دیجیے۔ یوں، ان میں اعتماد بڑھے گا اور فیصلے کی مہارت میں اضافہ ہوگا۔ فیصلہ کرنا ایسی ہی ایک مہارت ہے جیسے دیگر مہارتیں ہیں۔ مہارت عمل سے بڑھتی ہے۔ بچے کو فیصلہ کرنے کی اجازت دیجیے۔
8 بچوں کیلئے دعا کیجیے
امام غزالیؒ نے مکاشفۃ القلوب میں حضرت عبداللہ بن مبارک کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنے بیٹے کے نافرمان ہونے کی شکایت کی۔ حضرت عبداللہ بن مبارک نے پوچھا کہ کیا تم نے اسے کبھی بددعا دی ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ تم نے تو خودہی اپنے بیٹے کو برباد کردیا۔ بچے کے ساتھ نرمی اختیار کرتے تو اچھا تھا۔
حضرت انسؓ کی والدہ اُمِ سلیمؓ نے اپنے بیٹے انس کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، آپ کا خادم انسؓ ہے، اس کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ، اس کے مال و اولاد کو بڑھادے اور جو کچھ تو نے اسے دے رکھا ہے، اس میں برکت عطا فرمادے۔
صحیح البخاری میں یہ روایت اس طرح آتی ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں، میری والدہ اُمِ سلیم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔ میری والدہ نے مجھے آدھے دوپٹے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ پھر انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ، میں آپ کے پاس اسے لائی ہوں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے دعا فرمائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ، اس کے مال اور اولاد میں اضافہ فرما!
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، خدا شاہد ہے کہ (اس دعا کی برکت سے) میرا مال بھی کثیر مقدار میں ہے اور آج میرے بچے اور بچوں کے بچے تقریباً سو سے زائد ہوچکے ہیں۔
امام ترمذیؒ نے ابوخلدہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں، میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ کیا حضرت انس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث مبارک سنی ہے؟ انھوں نے کہا کہ حضرت انسؓ نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیس برس تک خدمت انجام دی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعا بھی دی ہے۔
حضرت انسؓ کا ایک باغ تھا جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا۔ اس باغ میں ایک خوش بو دار پودا تھا جس سے مشک کی خوش بو آتی تھی۔ عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ان کی والدہ انھیں سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔ وہ اس وقت بچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پردست مبارک رکھا اور انھیں بیعت نہیں فرمایا۔ پھر انھیں دعا دی۔ وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے۔
یہ احادیث بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کیلئے دعا کرنی چاہیے۔
یاد رکھیے، بچے کی تربیت میں سختی اور شدت کی اجازت ہے اور نہ اس میں سستی اور کوتاہی کی اجازت ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس میں میانہ روی اختیار کی جائے۔