خود اور خود شناسی
(قاسم علی شاہ)
’’کسی دوسرے سے محبت میں سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ ہوتا ہے کہ جب آدمی یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی سب سے زیادہ محبت اورعزت کا مستحق وہ خود ہے!‘‘(ارنسٹ ہیمنگوے)
ہماری ذات خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جو خوبی ہماری شناخت بنتی ہے، اس سے دوام ملتا ہے۔ یہ قدرت کا انعام ہوتا ہے۔ اس خوبی کو ہمیں لے کر چلنا ہوتا ہے۔ قدرت اپنے کارخانے کو چلانے کیلئے ہر انسان میں کچھ ایسی صفات رکھ دیتی ہے کہ کائنات میں جو کمی ہوتی ہے، وہ اس سے پوری ہوجاتی ہے۔ کائنات کا یہ نظام چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ ہم نے پچھلے لوگوں کی جگہ لی، پھر ہماری جگہ اور لوگ لے لیں گے۔ لیکن آج کے وقت میں ہمار ا موجود ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس نظام میں ہماری ضرورت ہے اور اس ضرور ت کو پور ا کرنے کیلئے ہمیں یہ زندگی عطا کی گئی ہے۔
انسان میں یہ تجسس رہتا ہے کہ میں خود کو جانوں،مجھے جاناجائے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ مجھ میں ابھی جو کمی ہے، ابھی جو کچھ باقی ہے اسے مکمل کرنا ہے۔ یہ تجسس ’’خودشناسی‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ تجسس عمر کے کسی بھی حصے میں کسی کے دل میں بھی سما سکتا ہے۔ یہ سوال کبھی بھی اٹھ سکتا ہے کہ میں کون ہوں، میں کدھر جا رہا ہوں اور مجھے جانا کہاں ہے۔ تاریخ میں جن لوگوں نے خود کو جانا، وہ صوفیا ئے کرام ہوسکتے ہیں، وہ اولیائے کرام ہو سکتے ہیں، وہ نیک لوگ ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لو گ بھی ہو سکتے ہیں جنھوں نے معاشر ے کیلئے کوئی کام کیا۔ مثا ل کے طور پر، اگر آئنسٹائن کا نام لیا جائے تو اس کی دریافتیں معاشرے کیلئے بہت فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ اس کی شناخت علم سے جڑی ہے۔ یہ اُس کے اندر کی خودی تھی۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میری دریافت کا عمل اس طرح ہے کہ جب میں کسی چیز کی دریافت کے پیچھے پڑ جاتا ہوں اور وہ ہوجاتی ہے تو اگلے کام کی طرح پچھلا کام بھول جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے ذہن میں یہ خیال آتا بھی نہیں ہے۔ میں جو کام کر رہا ہوتا ہوں، وہ میرے لیے نیا کام ہوتا ہے۔ میں اپنی پوری توانائی اس میں لگا دیتا ہوں۔
مشکلات و مصائب نعمت ہیں
جن لوگوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے خود کو جان لیا، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے خود کو جان لینے کے بعد وہ کام کیا جس کیلئے وہ پیدا کیے گئے تھے۔ عام طور پر خود کو جاننے والا شخص خود کو اس وقت جانتا ہے کہ جب وہ مصیبت و آلام میں مبتلا ہوتا ہے۔ جتنی خود شناسی انسان کو تکلیف میں ہوتی ہے، اتنی خود شناسی تو خوشی اور راحت میں نہیں ہوتی۔ غم، تکلیف اور مشکلات کا دَور انسان کو اپنے آپ سے آگاہ کرتا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’جس کی آنکھ میں آنسو ہیں وہ خدا کی راہ میں رحمت سے محروم نہیںہو سکتا۔‘‘ خدا کی رحمت سب سے پہلے اس شخص کیلئے ہوتی ہے جس کی آنکھ میں آنسو ہوں، کیو نکہ اس وقت دل شکستہ اورٹوٹا ہوا ہوتا ہے اور شکستہ دل نرم ہوتا ہے۔
عبدالستار ایدھی جب پیدا ہوئے تو ابتدائی ایام ہی میں ان کی والدہ کو طلاق ہوگئی جس کی وجہ سے اُن پر غربت اور غم کے سائے رہتے تھے۔ اسی کسمپرسی کی حالت میں وہ والدہ کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں گولیاں ٹافیاں بیچنا شروع کردیں۔ لیکن اندر یہ جذبہ تھا کہ جس محرومی کا مجھے سامنا رہا، اس کا ازالہ مجھے دوسروں کیلئے کرنا ہے۔ لہٰذا، انھوں نے اپنی ریڑھی سے کام شروع کردیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوا۔ اُن کے بچپن کی محرومی اُن کی طاقت بن گئی۔ انھوں نے خود کو جان لیا کہ میں دوسروں کی خدمت کیلئے پیدا ہوا ہوں۔
جو خود کو جان لیتا ہے، اس سے معاشرے کو فائدہ ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اپنے لیے نہیں جیتا، بلکہ دوسروں کیلئے جیتا ہے۔
حقیقی محبت
بعض لوگ مجازی محبت میں گرفتا ر ہو تے ہیں، لیکن وہ محبت انھیں نہیں ملتی۔ البتہ اس محبت کی دوری میں وہ خود کو تلاش کرلیتے ہیں۔ خواجہ غلام فریدؒ کو پڑھا جائے یا حضرت داتا گنج بخش کو پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان لوگوں کی خودشناسی کا سفر عشق مجازی سے شروع ہوا تھا۔ تاریخ میں بے شمار ایسے صوفیا کرام ملتے ہیں جن کا مجاز، حقیقت میں بدل گیا۔ انھوں نے ماسوا سے ماورا کی محبت کرلی۔ وہ ایک سے کل کی محبت پر چلے گئے۔
انسان جب اپنا آپ کسی کو دیتا ہے تو اس کو سمجھ آتا ہے کہ اصل زندگی تو یہ زندگی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اب میرا دام انسان نہیں لگا سکتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ کسی انسا ن کیلئے فنا ہونے سے بدرجہا بہتر ہے کہ میں مالک کائنات کیلئے فنا ہوجاؤں۔
بے شمار لوگ ایسے ہیں جنھو ں نے خود کو تب جانا کہ جب ان کو نیک لوگوں کی صحبت ملی۔ اس کی بہترین مثال اگر کوئی ہے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ نبوت ہے جس کے فیض یافتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب منبر پر بیٹھے تھے تو اپنی داڑھی کو پکڑ کر کہتے تھے کہ میں وہ شخص ہوں جو بکریاں اور اونٹ نہیں چرا سکتا تھا۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تھی جس نے مجھے اس قابل بنایا۔
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی جماعت تھی۔ یہ بہ ظاہر عام لوگ تھے جن میں تہذیب کی بھی کمی تھی، تمیز کی بھی کمی تھی اور علم کی بھی کمی تھی، مگرکمال یہ ہوا کہ انھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کی صحبت میسر آگئی۔ بعض اوقات تاریخ نے کچھ لوگوں کو ایک ایسا آئینہ دیا کہ ان لوگوں نے اپنی شناخت اس کے ذریعے کرلی اور ان کے اندرکی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا اظہار ہونے لگا۔ وہ تلوار جوحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لے کر نکلے، وہ تہذیب جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لے کر نکل رہے ہیں ، وہ سخاوت جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ لے کر نکلے اور وہ علم جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ لے کر نکلے، اس سے پوری دنیا کو فیض ملا۔ یہ سب اس وجہ سے ممکن ہوا کہ اُن شخصیات کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر آئی۔
بہتر شخصیت
کہا جاتا ہے کہ خودشناسی تب بھی ممکن ہوتی ہے اگر اپنے سے بہتر شخصیت مل جائے۔ کیونکہ اپنے سے بہتر کا ساتھ سب سے پہلے یہ خیال پیدا کر تا ہے کہ میں اپنی ذات کی نفی کر رہا ہوں، مجھ سے بہتر بھی کوئی ہے، مجھ میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ ایک شیر کا بچہ گھومتے گھومتے بھیڑوں کے ریوڑ میں چلا گیا اور وہاں پر رہنے لگا۔ ان میں رہتے رہتے اس نے زندگی گزار دی۔ وہ بھول گیا کہ میں شیر ہوں۔ وقت گزرا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ شیروں کا لشکر جا رہا ہے۔ جیسے ہی اس نے شیروں کے لشکر کو دیکھاتو اسے خیال آیا کہ یہ تو مجھ سے ملتے جلتے لگتے ہیں۔ان کے انداز، ان کے اطوار، ان کا طور طریقہ، ان کے اندر جھلک میری ہے۔ اس نے دیکھا کہ شیر نے ایک دَم بھیڑ کو شکار کرلیا اور کھا گیا۔ یہ دیکھ کر اس کے اندر کا شیر جا گ گیا۔ انسان کا اندر تب جاگتا ہے کہ جب وہ اپنے جیسے کو دیکھتا ہے۔ اگر کوئی درندگی کر رہا ہے اور اگر اس کے اندر درندگی ہے تو وہ اس کو اچھا لگے گا۔ جس کے اندر گنا ہ ہے اور وہ کسی کو گناہ کرتے دیکھے گا تو اسے ترغیب ملے گی۔ اور اگر اندر نیکی ہے تو پھر نیکی کی ترغیب اندر کی سوئی ہوئی نیکی کو جگا دیتی ہے۔
جب حق جاگتا ہے
پرانے وقتوں میں شالامار باغ کے علاقے میں زیادہ تر ہندو اور سکھ لوگ رہا کرتے تھے۔ شام کے کسی پہر میں شالامار باغ میں ایک اللہ کے نیک بندے ٹہل رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا مرید تھا۔ مغرب کا وقت ہوگیا۔ انھوں نے مرید سے اذان دینے کو کہا۔ مرید نے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد کہا کہ اذان کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے وجہ پوچھی تو مرید نے جواب دیا کہ میں جدھر دیکھتا ہوں، مجھے سکھوں کی پگڑیاں نظر آتی ہیں یا ہندوئوں کی کلنگ نظر آتی ہیں، اس لیے یہاں پر اذان دینے کی کیا ضرور ت ہے۔ اللہ کے ولی نے کہا، بیٹا آپ اذان دے دیجیے۔ جب اذان دی اور پیر و مرید نے نماز شروع کی تو پیچھے تین صفیں بن چکی تھیں۔ مرید نے پوچھا، حضور یہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے جواب دیا، حق کی بات کرنے سے سویا ہوا حق خود جاگ جاتا ہے۔ایک کا حق بولنا بہت سوں کے سوئے ہوئے ’’حق‘‘ کو جگا دیتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ ان ایام میں جن لوگوں کی خودی بیدارہوئی انھیں تاریخ نے سقراط اور ارسطو کہا اور بعض ان میں سے برگزیدہ درویش ہوئے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسان کے مقصدحیات کو جگادیتے ہیں کہ جس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجا ہے۔ ان کی حق کی پکار اندر کے حق کو جگا دیتی ہے۔ اُن کی باتیں اگرچہ عام باتیں ہوتی ہیں، لیکن اپنی ذات کی گہرائی سے نکلنے کے باعث دوسروں کے دلوں میںگھر کرجاتی ہیں۔ بعض اوقات کسی کا گناہ بھی اس کو خودی سے آشنا کر دیتا ہے، کیو نکہ گناہ گا ر جب توبہ کی طرف جاتا ہے تو سب سے بڑا انعام یہ ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اسی سے آشنا کر دے۔ گناہ گار کے آنسوئوں میں اتنی عاجزی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
محرومی کا احساس
وہ نیکی جو آپ کو سلا دے، اس سے بہتر وہ گنا ہ ہے جو جگا دے۔ جاگنے کے بعد گناہ نہیں ہوتا، توبہ ہو سکتی ہے۔ یہ شعور کہ میں بیدار ہوں، میرا خیال کس طرف جا رہا ہے، اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ ہمیشہ انسان کو غم نے، صالح صحبت نے، تو بہ نے یا نیک شخص کی صحبت نے بیدا ر کیا ہے۔ انسان کی محرومی اس کی طاقت بنتی ہے، بشرطیکہ محرومی کا احساس ہوجائے۔ اگر محرومی کا احساس ہی نہ ہو تو محرومی کو دور نہیں کیا جاسکتا۔ کینسر ، ہارٹ اٹیک اور ہپاٹائٹس سی بہت خطرناک بیماریاں ہیں۔ یہ اس لیے خطرناک ہیں کہ ان کا پتا اس وقت لگتا ہے کہ جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے بھی خطرناک بات یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو پتاہی نہ ہو کہ میں زندگی میںکس طرف جا رہا ہوں۔ انسان پر سب سے بڑی رحمت یہ ہے کہ انسان کی آنکھ کھل جائے اور اسے پتا چل جائے کہ وہ کہاں ہے، کہاں جارہا ہے۔ جب اپنی آنکھ خود پر کھلتی ہے تو اپنی غلطیاں، اپنی کوتاہیاں، اپنے اندر کے موسی ٰ اور اپنے اندر کے فرعون کا پتا لگ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرے والی بات تب ہو تی ہے کہ جب غلطیوں کا پتا نہ لگے۔ آدمی کو یہ شعور اور احساس ہی نہ ہو کہ وہ کیا کررہا ہے اور کس لیے جی رہا ہے۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ اے میرے مالک، مجھے میری غلطیوں سے آشنا کردے۔ کہیں ایسا تو نہیںکہ میرے اندر کینسر پلتے رہیں… نفرت کا کینسر، بغض کا کینسر، لالچ اور حرص کا کینسر، خود ستائشی کا کینسر وغیرہ وغیرہ۔
انسان دو تاریخیں کبھی نہیں بھولتا۔ ایک اْس کی تاریخ پیدائش (اگر اسے معلوم ہو) اور دوسری جس دن اس کو یہ پتا لگتا ہے کہ مجھے مالک نے کیوں پیدا کیا۔ اگر یہ پتا لگ جائے کہ مجھے کیوں پیدا کیاگیا ہے ، میرایہاں آنے کا کیا مقصد ہے تو پھر سمجھئے کہ خود ستائشی کی بجائے خودشناسی کا سفر شروع ہوگیا ہے۔
خودی کا احساس
آج بھی بے شمار نوجوانوں میں خودی کا احساس پایا جاتا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن سے معاشرے کو فائدہ ہو رہا ہے۔ آج فلاح و بہبود کے کاموں میں جتنے نوجوان نظر آتے ہیں، پہلے اتنے نہیں ہوتے تھے۔ آج بے شمار تحریکیں نوجوانوں کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ کتنے ہی نوجوان پاکستان پر مر مٹنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔
ہم یہ گلہ کرتے رہتے ہیںکہ نیکی کا زمانہ نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت بھی یاد رکھیے کہ ایک ہی وقت میں دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ نہ کسی دَور میں نیکی مری ہے اور نہ کسی دور میں بدی ختم ہوئی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہیں۔ ہماری لائن کون سی ہے۔ ہمارے عمل سے کتنے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر واقعی ہمارا خلوص ہے تو پھر بے شمار لوگوں کو اس سے راستہ مل جائے گا۔ ہماری نصیحتیں دوسروں کو تبدیل نہیں کرتیں، معاملہ فہمی یا حسن ِ اخلاق تبدیل کر دیتا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ’’مومن کے نامہ اعمال میں قیامت کے روز سب سے وزنی شے اس کے اخلاقِ حسنہ ہوں گے۔‘‘ کیونکہ حسن اخلاق سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شے ہے، دوسروں کے دلوں کو بدلنے والی چیز ہے۔