سیلف کنٹرول
(قاسم علی شاہ)
جنگ کا موقع تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مقابلہ ایک کافر سے تھا۔لڑائی شروع ہوئی تو آپ ؓ نے اس کافر کو گرالیا اور اس کے سینے پر بیٹھ کر قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس کافرنے آپؓ کی طرف تھوکا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کھڑے ہوگئے اور اس کافر کو چھوڑ دیا۔وہ بڑا حیران ہوا اوربولا۔”آپ نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ اب آپ کو مجھے لازمی قتل کرنا چاہیے تھا کہ میں نے آپ کو اشتعال دلایا تھا۔“ آپ ؓنے فرمایا:”تیرے ساتھ لڑائی اللہ کی رضا کے لیے تھی۔تیری اس حرکت کی وجہ سے میری انا پر زد پڑی۔مجھے غصہ آگیا اور اب اس حالت میں اگر میں تجھے قتل کرتا تو اس میں میراذاتی انتقام شامل ہوجاتاجبکہ میں خدا کا بندہ ہوں، نفس کا نہیں۔اس لیے میں نے اپنے غصے پر قابو پایا اور تجھے چھوڑ دیا۔“
”سیلف کنٹرول“ کے ضمن میں یہ واقعہ ایک شاندارمثال ہے۔جنگ کا موقع،دشمن کے ساتھ سخت مقابلے کے بعداس پر قابواور پھر اس کا ایسی حرکت کرنا کہ جس سے انسان کا غصہ انتہا پر پہنچ جائے لیکن اس کے باوجو دبھی اس کو معاف کردینا یقینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ انسان ضبط نفس کے اعلیٰ معیار ہے۔
”سیلف کنٹرول“ کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروی ہے کہ سیلف سے کیا مراد ہے۔ سیلف میں صرف انسانی دماغ ہی نہیں شامل ہوتا بلکہ مزاج، خیالات، جذبات، عادات اور خواہشات بھی شامل ہوتی ہیں۔
”سیلف کنٹرول“ ایک ایسی خوبی ہے جس میں انسان اپنی خواہشات اور فوری ردعمل کے جذبے کو اپنے قابو میں رکھتا ہے۔ ایسا انسان خود شناس، پُراعتماد اور مضبوط قوت ارادی کا مالک ہوتا ہے۔ اسے اپنی جذباتی کیفیت پر پورا قابو ہوتا ہے اور وہ صبر کے ساتھ اپنے جذبات کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یادرکھیں کہ کوئی جذبہ، رویہ اور عادت اکیلی نہیں ہوتی بلکہ ان کا ایک پورا خاندان ہوتا ہے۔ اچھے جذبات، رویوں اور عادات کی طرح بُرے جذبات، رویوں اور عادات کابھی اپنا ایک خاندان ہوتا ہے۔اگر آپ ایک اچھے جذبے، رویے یا عادت کو اپناتے ہیں تو اس کا اپنا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آپ ایک برے جذبے یا رویے کو اپناتے ہیں تو اس کا اپنا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ آپ کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
انسان کے سولہ قسم کے مزاج ہوتے ہیں۔وہ روزانہ ان سولہ قسم کے مزاجوں سے گزرتا ہے اور ان میں سے کوئی ایک مزاج انسان کی شخصیت کا نمایاں حصہ بن جاتا ہے۔کیوں کہ انسان پر اگر کوئی جذبہ طاری ہوتاہے اور وہ فوراً اُس سے اپنے آپ کو چھڑانہیں لیتابلکہ خود پر سواررہنے دیتاہے اور ایسے میں 12منٹ گزرجاتے ہیں تو وہ جذبہ اس کے مزاج میں شامل ہوجاتاہے۔
سیلف کنٹرول کی بدولت انسان اپنے بہت سارے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔وہ پریشان کن حالات اور بحرانوں سے اپنے آپ کو نکال لیتا ہے۔ یہ خوبی زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوتی ہے۔انسان کی انفرادی، اجتماعی اور پروفیشنل زندگی میں سیلف کنٹرول کی بہت اہمیت ہے۔ سیلف کنٹرول کی کمی انسان کو حقیقی خوشیوں سے محروم کر دیتی ہے۔ پریشانی اور مایوسی سے انسان ذہنی مریض بن جاتا ہے۔
سیلف کنٹرول کی صلاحیت بچپن میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ اگر بچپن میں اس صلاحیت کو نکھارنے پر توجہ نہ دی جائے تو پوری عمر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ سیلف کنٹرول کی کمی کے بارے میں بچپن یا نوعمری میں پتا چل جاتا ہے۔اگر اس وقت اس کو بڑھانے اور منفی عادات پر توجہ نہ دی جائے تو اس کے اثرات پوری عمر نظر آتے ہیں۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچے کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچہ اپنے والدین، اپنے ماحول اور گردونواح سے سیکھتا ہے۔ اس عمر میں بچہ شعوری اور لاشعوری طور پر جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ ان باتوں کو اپنے کردار کا حصہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے اس عمر میں بڑے لوگوں کو بچوں کے سامنے اپنے رویوں کے اظہار میں احتیاط اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑے لوگوں کا مزاج لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو، وہ فوری ردعمل دیں، بات بات پر غصہ کریں، غصے میں چیخیں چلائیں، درست جواب نہ دیں اوردوسروں کو جھڑکیں تو یہی عادات لاشعوری طور پر بچوں میں منتقل ہوتی ہیں اور ان کے کردار کا حصہ بن جاتی ہیں۔
ان رویوں کی وجہ سے بچہ اپنے گھر والوں سے متنفر ہو جاتا ہے اور وہ گھر کے بجائے باہر کی دنیا میں زیادہ دلچسپی لینے لگتا ہے۔یوں والدین ایک غیر محسوس طریقے سے اپنے بچوں کو خود سے دور کر لیتے ہیں اور بچہ کسی بھی نرم لہجے والے اجنبی کو اپنا ہمدرد اور دوست سمجھنے لگتا ہے۔ اب بچہ اگر غلط صحبت اختیار کرلے تو اس کے کردار کی خرابیاں پختہ ہونے لگتی ہیں اور اگر اسے کوئی اچھی صحبت مل جائے تو اس کی عادات میں درستگی ہونے لگتی ہے۔ جب والدین کو بچے کے کردار کے بارے میں پریشانی ہوتی ہے تو ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کمی کہاں ہے۔ وہ اپنے کردار اور اپنی عادات کا تجزیہ نہیں کرتے، اپنے آپ میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے لیکن اپنے بچوں میں بہتری کے لیے زیادہ سختی اور بعض اوقات تشدد اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس سے بچوں میں کوئی بہتری نہیں پیدا ہوتی بلکہ ان میں ردعمل پیدا ہوتا ہے اورپھریا تو وہ ایک اکھڑ پن، سفاک اور ضدی شخصیت میں ڈھل جاتے ہیں یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکاراور ڈرے سہمے شخص کا روپ اپنا لیتے ہیں۔
انسانی دماغ بھی دوسرے انسانی اعضاء کی طرح ہے۔ اگر کسی عضو کو کم استعمال کیا جائے تو وہ کمزور ہونے لگتا ہے جب کہ کسی عضو کا زیادہ استعمال اسے طاقت ور بناتا ہے۔ اسی طرح انسان اگرفوری ردعمل کے جذبے پر قابو پالے اور اپنی سوچ، جذبات، عادات اور اعمال کو اپنے کنٹرول میں رکھے تو وہ اپنی زندگی بہترطریقے سے بسر کرسکتا ہے۔ ہم لو گ ایک دھوکے میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان حالات اور چیزوں کو درست کرنا چاہتے ہیں جن پر ہمیں کوئی اختیار نہیں ہوتا اور ان پہلوؤں کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے جن پر ہمارا مکمل اختیار ہے۔ ہمارا اختیار ہماری شخصیت پر ہوتا ہے۔ ہم ضبط نفس (سیلف کنٹرول) کی طاقت سے اپنے مزاج، عادات، رویوں، سوچ، نظریات، خیالات، معاملات اور جذباتی ردعمل کے اظہار کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اپنی مرضی سے اپنی زندگی کے معاملات کو چلا سکتے ہیں۔ سیلف کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے انسان جذباتی، غصیلا، حاسد، بے صبرا، لالچی، خود غرض، ظالم، بد دیانت، چور، حتیٰ کہ ڈاکو اور قاتل بھی بن جاتا ہے۔ لوگ فوری ردعمل اور انتقام کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ برداشت اور درگزر کی خوبیوں سے محروم ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان خامیوں پر قابو پانے کا درست وقت کون سا ہے؟
جب آپ کو اپنی منفی عادات کے بارے میں معلوم ہو جائے اور آپ اپنی شخصیت کو سنوارنے اور بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کریں تو وہی سیلف کنٹرول حاصل کرنے اور بڑھانے کا درست وقت ہے۔ اس کے لیے پختہ ارادے اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ذیل میں وہ طریقے دیے گئے ہیں جن کی بدولت انسان اپنے اندر سیلف کنٹرول پیدا کرسکتاہے۔
(1) آپ اپنی ذات سے واقفیت حاصل کریں۔ آپ کو اپنی عادات، مزاج، رویوں اور خیالات کا علم ہوناچاہیے۔ اپنی جذباتی کیفیت، مزاج اور سوچ کے انداز کو جانے بغیر سیلف کنٹرول پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
2۔ کسی بھی بات یا حرکت پر فوری ردعمل نہ دیں۔ پانچ، دس منٹ تک خاموش رہیں تاکہ آپ کا فوری اُبال کم ہو سکے۔ ایک جذبے کا اُبال عموماً بارہ منٹ تک ہوتا ہے۔ آپ کو بارہ منٹ تک اپنے آپ پر قابو رکھنا ہے۔ فوری طور پراگر خاموش نہیں رہ سکتے تو اپنی پوزیشن تبدیل کر لیں۔ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں۔ بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں۔ دوسرے کمرے میں چلے جائیں۔ کسی دوسرے کام یا کسی دوسری بات پر توجہ دیں۔ روزانہ رات کو غور کریں کہ کتنی دفعہ آپ نے فوری اور غیر ضروری ردعمل دیا ہے اور آپ کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے تھا۔
(3) زندگی میں اپنے مقاصد کے بارے میں جانیے۔ اپنی زندگی کے بڑے مقصد کا تعین کریں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے اہداف مقرر کریں۔ اس سے آپ کا فوکس ان اہداف کے حصول کی طرف رہے گا اور آپ غیر متعلقہ باتوں کو نظر انداز کرنے کے قابل رہیں گے۔
(4) بڑے کام کرنے کی کوشش میں ناکامی پر ہمت نہ ہاریئے۔ زندگی میں چھوٹے اور قابل عمل اہداف کا تعین کریں انھیں پانے کی کوشش کریں۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ ملتا ہے۔ روزانہ تجزیہ کریں اور ایسی باتوں کو منصوبے سے نکالیں جن کو پورا کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں۔ ایک قابل عمل منصوبہ بنانے کی صلاحیت پیدا کریں۔ روزانہ کی بنیاد پر معلوم کریں کہ آپ اپنے منصوبے کیوں مکمل نہیں کر سکے۔ اس میں ایسی چیزیں تو نہیں تھیں جو آپ کی صلاحیت سے زیادہ تھیں یاپھر یہ آپ کی ذاتی سستی تھی جس کی وجہ سے آپ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکے۔ اس سے آپ کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کون سی ایسی باتیں ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے آپ کو اپنی صلاحیت بڑھانے پر الگ سے کام کرنا ہوگا۔ دوسرا پہلوسستی کا ہے جس پر آپ کو قابو پانا ہوگا،ایسا کرنے سے آپ کو اپنے آپ پر بہتر اختیار حاصل ہوگا۔ آپ کے اعتماد اور قوت ارادی میں اضافہ ہوگا۔
(5) اگر آپ کچھ بری اور منفی عادات کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے سیلف کنٹرول کو مضبوط بنانا ہوگا۔ بعض لوگ کسی منفی عادت کو اپنے پختہ ارادے سے شکست دے دیتے ہیں مگر اکثریت ایسا نہیں کر پاتی۔ اس کے لیے آپ کو یہ سوچنے کے بجائے کہ میں یہ منفی عادت چھوڑ رہا ہوں روزانہ یہ مشق کرنے کی ضرورت ہے کہ میں اگلے دس منٹ تک اس عادت کو چھوڑے رکھوں گا۔ روزانہ آہستہ آہستہ یہ دورانیہ بڑھاتے جائیں اور پینتالیس منٹ تک لے جائیں۔ پھر یہ مشق دو وقت شروع کریں۔ آہستہ آہستہ آپ کے لاشعور کو پیغام پہنچنا شروع ہو جائے گا کہ آپ نے یہ عادت چھوڑنی ہے اور پھر آپ خود بخود لاشعوری طو ر پر یہ عادت چھوڑ دیں گے۔
(6) انسان کو اپنے شخصی بہتری کے پروگرام میں دو عادات ضرور اپنانا ہوں گی۔شکرگزاری اور معافی۔شکرگزاری اس لیے کہ جو شخص دوسرے انسان کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے رب کا شکر گزار بھی نہیں ہو سکتا اور معافی اس لیے کہ جو دوسرے شخص سے اپنی غلطی پر معذرت نہیں کرتا وہ اپنی غلطیوں پر اپنے رب کے سامنے بھی شرمندگی کا اظہار نہیں کر سکتا۔