تڑپ کی آگ جلائے رکھو
(قاسم علی شاہ)
سوچیرو جاپان کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’کومیو‘‘ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اس نے دیکھا کہ اس کا باپ لوہے کے پرزوں کے ساتھ ہروقت مصروف رہتاہے۔وہ کچھ بڑ ا ہواتو اس کو معلوم ہوا کہ مختلف پرزوں سے بنی یہ چیز سائیکل ہے اور اس کا باپ ایک سائیکل مکینک ہے۔رفتہ رفتہ اس کے دل میں بھی دلچسپی پیدا ہوتی گئی اورایک دن وہ بھی باپ کے ساتھ کام پر لگ گیا۔وقت گزرتاگیا،گراریوں اور پہیوں نے اس کے دل میں ایسی جگہ بنالی کہ اسکول کی پڑھائی سے وہ بیزار ہوگیا۔ وہ ٹوکیو آگیا جہاں اس نے ایک گیراج میں نوکری شروع کی اورہرطرح کی مشکلات کے باوجود اس قدر محنت کی کہ ایک ماہر مکینک بن گیا۔23نومبر1924ء کوجاپان میں کاروں کی ایک ریس منعقد ہوئی ،جس کار نے چیمپئن شپ جیتی اس کا مکینک ’’سوچیرو‘‘تھا۔بس پھر کیا تھا ، لوگ اس کی مہارت کو مان گئے اور اس کے نام کی دھوم مچ گئی۔ورکشاپ چھوڑکر وہ گاڑیوں کے لیے’’ پسٹن رِنگ‘‘ بنانے لگا۔اسی سلسلے میں ٹویوٹا نے اس کے ساتھ کنٹریکٹ کیا اور اس سے پسٹن رنگز خریدنے شروع کرلیے لیکن یہاں اس کی زندگی میں ایک خطرناک موڑآیا۔اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اوروہ ایک لمبے عرصے کے لیے بستر پر جاپڑا۔اسی دوران اس کویہ بری خبربھی ملی کہ ٹویوٹا نے اپنا معاہدہ منسوخ کرلیا ہے۔سوچیرو کو کافی صدمہ پہنچا لیکن یہ سب کچھ اس نے برداشت کیا۔کچھ مہینوں بعد وہ صحت یاب ہواتو ایک بارپھر اس نے اپنا سفر شروع کیالیکن اب کی بار وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ حالات نے ایسا پلٹاکھایا کہ وہ سر کے بل زمین پر آرہا۔ہوایوں کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی اورشدید بمباری کی زد میں اس کی فیکٹری بھی آگئی، سب کچھ جل گیااوروہ حقیقی معنوں میں کنگال ہوگیا۔اس کے پاس کھوٹا سکہ بھی نہیں بچالیکن اس کے دل میں ایک آگ سلگ رہی تھی اور یہ’’ جلتی لَو‘‘ اس کوہمت دے رہی تھی کہ آگے بڑھو اور کچھ کردکھاؤ۔ وہ ایک مضبوط عزم کے ساتھ اُٹھا۔اب کی بار اس نے سائیکل کے ساتھ انجن لگاکر ایک نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں پیش کی۔لوگوں کویہ سستی سائیکل بہت پسند آئی اور وہ دھڑادھڑ خریدنے لگے۔کچھ عرصہ بعد اس نے ’’ہونڈاموٹرز‘‘ کے نام سے ایک کمپنی کاآغاز کیا اور ’’2سٹروک‘‘ موٹرسائیکل متعارف کرائی۔یہ پراڈکٹ بھی لوگوں کو پسند آئی۔’’ہونڈاکمپنی‘‘ترقی کی منازل طے کرنے لگی اورکرتے کرتے1961ء میں اس کی ماہانہ پیداوار ایک لاکھ موٹرسائیکلوں تک جاپہنچی جبکہ1968ء میں یہ تعداد د س لاکھ تک پہنچ گئی۔ Hondaکمپنی مشینوں کی صنعت پر راج کرنے لگی۔
گاؤں میں پیدا ہونے والے ایک پینڈو لڑکے نے اپنے شوق، محنت اور تڑپ کی بدولت دنیا کوایک ایسی موٹر کمپنی دی جو آج بھی دنیا کی جدیدترین، دلکش ترین اور قیمتی ترین موٹربائیک او ر کار بنانے کااعزاز رکھتی ہے۔
برسوں پہلے میں نے ایک جملہ کہیں پڑھاتھا:’’ناکامی کو دل میں اورکامیابی کو دماغ میں مت بٹھاؤ۔‘‘میں جیسے جیسے زندگی میں آگے بڑھتا رہا مجھے اس جملے کی گہرائی اور سچائی کایقین ہونے لگا۔میں نے دیکھا کہ ہر وہ شخص جو ناکامی کو دل میں جگہ دے دیتاہے تو یہ ناکامی اس کے حوصلوں کے ساتھ کھیلناشروع کردیتی ہے۔یہ اس کو بار بار ڈراتی ہے،اس کو احساس کمتری میں ڈال دیتی ہے او ر جب بھی وہ کچھ کرنا چاہتاہے تو یہ اس کو باورکراتی ہے کہ پہلے بھی تم ناکام ہوئے تھے اب کی بار بھی ہوناہے توپھرفائدہ کیا ہے اور نتیجتاً وہ مایوس ہوکر بیٹھ جاتاہے۔اسی طرح جوانسان زندگی کے کسی مرحلے پر کامیاب ہوجاتاہے اور وہ اس کامیابی کو دماغ پر سوار کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں تو اس دنیا کاکامیاب انسان ہوں تو پھر اس کی عقل پر پردہ پڑ جاتاہے۔اس کو اپنی خامیاں نظر نہیں آتیں اور یہی غرور اس کو لے ڈوبتاہے۔اس کے برعکس ہر وہ شخص جو ناکامی کو دل میں نہیں بٹھاتا بلکہ اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتا ہے اور اگر کامیاب ہوجائے تو کامیابی کے اس نشے کو دماغ پر سوار نہیں کرتابلکہ اپنے جنون اور تڑپ کو مزید بڑھادیتاہے تو پھر ایک کے بعد کئی ساری کامیابیاں اس کی منتظرہوتی ہیں۔
جنون، تڑپ، پاگل پن اور خبط وہ چیز ہے جس کی بدولت انسان وہ منزل بھی حاصل کرسکتاہے جوعام انسان کے لیے ناممکن ہوتی ہے۔آپ دنیا کے کسی بھی نابغہ روزگار شخصیت کے حالات زندگی پڑھیں، آپ کومعلوم ہوگا کہ اس نے اپنے وژن اور منزل کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی ہوتی ہے۔اس کے دل میں ایک ایسی آگ دہک رہی ہوتی ہے جس کے آگے کوئی پریشانی،کوئی غم اور کوئی مسئلہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتااور پھر وہ واقعی اس دنیا کے لیے مثال بن جاتاہے۔
سقراط کے ایک شاگرد نے اس سے پوچھا کہ علم کہاں سے ملتاہے؟ سقراط بولا:’’ کل صبح فلاں تالاب پر آجانا۔‘‘اگلے دن شاگرد آیا تو سقراط گردن تک پانی میں تھا۔اس نے شاگرد کو اپنے پاس بلایا۔شاگردسمجھاشاید یہ راز کی بات ہے اس لیے قریب بلاکر بتارہاہے۔وہ جب پاس آیاتو سقراط نے اس کو گردن سے پکڑا اوراس کو پانی میں ڈبودیا۔کچھ دیرتک توشاگرد برداشت کرتارہا لیکن جب اس کی ہمت جواب دے گئی تو اس نے جسم کاپورازورلگایااور ایک جھٹکے سے اپنا سر باہر نکالا۔سانس بحال ہونے کے بعد اس نے سوال پوچھنے پرسقراط سے معافی مانگی تو سقراط نے کہا۔مجھے ہرگز برا نہیں لگا، میں توتمھیں جواب دے رہاتھا۔شاگرد نے حیرت سے اپنے استاد کی طرف دیکھا تو وہ بولا: ’’جب تمھارا سر پانی میں تھا تب تمھاری سب سے بڑی خواہش کیا تھی؟‘‘ وہ بولا:’’سانس، میں چاہ رہا تھا کہ بس میں سانس لے سکوں۔‘‘ سقراط بولا: ’’میری سیکھنے کی خواہش میں بھی ایسی ہی ایک تڑپ ہے اور علم اسی طرح حاصل کیاجاسکتاہے۔‘‘
’’تڑپ‘‘ انسان کے ارادوں اور عزائم کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔انسان کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اگر اس کے اندر تڑپ نہیں ہے تو پھر اس کی مثال اس مرسٹڈیز گاڑی کی طرح ہے جس میں پٹرول نہیں ہے۔اب اگرچہ وہ قیمت اورخوب صورتی میں دنیا کی اعلیٰ ترین گاڑی ہے لیکن ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی کام کی نہیں۔’’تڑپ‘‘نہ ہونے کی وجہ سے میں نے بڑے قابل لوگوںکو ناکام ہوتے دیکھا ہے۔وہ انسان جس کی زندگی میں تڑپ شامل ہوجاتی ہے پھر وہ روز ایک مقصد کے ساتھ اٹھتاہے اور نئے سورج کو دیکھ کر اپنے رب کا شکر ادا کرتاہے کہ اپنی توانائیوں کواستعمال کرنے کے لیے ایک اور خوب صورت دن کا موقع ملا۔وہ منزل تک پہنچنے کے لیے پوری کوشش لگاتاہے۔اس کے ہاں ناکامی کا لفظ نہیں ہوتا، وہ Do or die(کرو یا مرو) کی پوزیشن میں ہوتاہے اور اسی مضبوط عزم کی وجہ سے منزل تک پہنچنے والے سارے راستے اس کے لیے کھل جاتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ ہیروآرنلڈ شوارزنیگرسے ایک انٹرویو کے دوران جب پوچھا گیا کہ وہ ایک زبردست باڈی بلڈر اور مقبول ترین ہالی ووڈ اداکار کیسے بنے تو آرنلڈ کا جواب بھی یہی تھا:’’تڑپ، جنون اور سلگتی آگ‘‘۔
دراصل دنیا میں جتنی بھی بڑی بڑی کامیابیاں انسانوں نے حاصل کی ہیں وہ ایک خیال سے شروع ہوئی ہیں اوراس خیال کوطاقت فراہم کرنے والی چیز کانام ’’تڑپ‘‘ ہے۔’’یہ جلتی لَو‘‘ اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ انسان اور منزل کے درمیان آنے والی تمام رُکاوٹوں کوجلاکررکھ دیتی ہے۔
ہر وہ انسان جو کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کشتیاں جلادیتاہے اور ان کی خاک ہوا میں اُڑادیتاہے توپھراس کو’’تڑپ‘‘ کی دولت نصیب ہوتی ہے۔اس عمل سے انسان اپنے تحت الشعور کو یہ پیغام دیتاہے کہ میرے نزدیک سب سے اہم چیز میری منزل ہے جس کے لیے میں ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔جب تحت الشعور کو یہ یقین ہوجاتاہے کہ ہر حال میں منزل حاصل کرنی ہے توپھر وہ بھی انسان کی مدد پر اترآتا ہے اور انسان کا سفر آسان ہوجاتاہے۔جنگی فوجیوں پرکی گئی ایک تحقیق میں بتایاگیا کہ اگرسپاہیوں کویہ یقین دلایاجائے کہ ان کا مقابلہ موت سے ہے اوراس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تووہ زیادہ جانفشانی سے لڑیں گے۔
’’تڑپ‘‘بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان مثبت خیالات والے لوگوں سے ملے۔ان افراد سے خاص طورپر ملے جواس کے حوصلوں کو بڑھاوا اور اس کی ہمت کوداد دیتے ہیں۔اپنے خواب ہر انسان کو نہ بتائے۔اس کی زندگی میں جتنے منفی لوگ موجود ہیں ان سے رابطہ کم رکھے کیوں کہ یہ لوگ اس کے حوصلوں کوبہت جلد پست کردیں گے اور اس کے اندر موجود تڑپ آہستہ آہستہ ماند پڑتی جائے گی۔
اپنے اندر مثبت خیالات کومضبوط کریں ۔ آپ کے اندر جس چیز کی ’’تڑپ‘‘ہے،اپنے خیالات کے ذریعے اس کوسوچیں۔تخیل کی دنیا میں اپنی ’’تڑپ‘‘کو ایک بڑی تصویر کی شکل میں دیکھیں۔یہ بھی تصور کریں کہ یہ تصویر روشنی سے دمک رہی ہے اور ساری دنیا اس کی طرف دیکھ کر آپ کوداد دے رہی ہے کہ آپ نے ایک شاندار چیز کا انتخاب کیا ہے۔
اپنی ’’تڑپ‘‘کے لیے آپ جو بھی لائحہ عمل اختیار کریں تو عملی قدم جلدی اٹھائیں۔آپ کے ذہن میں جو نئے آئیڈیاز آتے ہیں انھیں عملی شکل دیں۔اگر آپ یہ سوچتے رہیں کہ میں یہ قدم اٹھائوں یا نہ اٹھائوں تو آپ کا حوصلہ کمزور ہوسکتاہے۔اپنی زندگی میں آ پ جتنے زیادہ فیصلے کریں گے اور قدم اٹھائیں گے آپ کی موٹیویشن بڑھتی جائے گی لیکن اگر آپ سستی کامظاہرہ کریں گے تو آپ کی موٹیویشن اپنی موت آپ مرجائے گی۔
انسان کے اندر جس چیز کے لیے ’’تڑپ‘‘پیداہوجا تی ہے تو یہ اس کو پہلا تحفہ جنون کا دیتی ہے۔اس کے دل میں اپنی منزل سے شدید محبت پیداہوجاتی ہے، جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
’’تڑپ‘‘انسان کے اندر مشکلات کاسامنا کرنے کی ہمت پیدا کرتی ہے۔پھروہ معمولی مسائل سے خوف زدہ نہیں ہوتااور نہ ہی چھوٹے جھگڑوں میں پڑتاہے۔اس کے سامنے بڑی سے بڑی مشکل بھی آجائے تو وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہتاہے:’’توچھوٹاہے اور میرا رب بڑاہے۔‘‘
’’تڑپ‘‘انسان کے قدم مضبوط کرتی ہے۔بڑی آزمائش اور ناموافق حالات کے باوجود بھی وہ اپنی جگہ پر کھڑا رہتاہے اور اس کے ارادوں اور حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔
’’تڑپ‘‘انسان کوزندگی کی پچ پر کھڑارکھتی ہے اورخطرناک بائونسرز کو کھیلنا سکھاتی ہے۔اور جب میچ مکمل ہوتاہے تو پھر ’’مین آف دی میچ‘‘ کااعزاز بھی اسی کو ملتاہے۔
’’تڑپ‘‘ انسان کو گرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنے کی ہمت دیتی ہے۔راستہ کتناہی مشکل کیوں نہ ہو ، ٹھوکرکتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ،اس کا جسم زخموں سے کتنا ہی چور چور کیوں نہ ہو ، لیکن وہ دوبارہ اٹھتا ہے ۔اس کی ’’تڑپ‘‘ اس کو چلائے رکھتی ہے ، بڑھائے رکھتی ہے۔
بڑا سوچیے ، بڑی منزل کی آرزو کیجیے اور بڑے خواب سجائیے۔ بس خواہش کرنے اور فیصلہ کرنے کی دیر ہے ۔ آپ کی خواہش آپ کے لیے راستے بنائے گی اور آپ کو منزل تک پہنچائے گی۔بس شرط یہ ہے کہ آپ کے دل میں تڑپ کی آگ سلگ رہی ہو۔