تین دِن نوابوں کے شہر میں
(قاسم علی شاہ)
رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھلی، میں کچھ دیر تک لیٹا رہا، پھر خیال آیا کہ باہر کا نظارہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ تجسس سے مجبور ہوکر میں چھت پر چلا گیا۔ وہاں سرد ہوا کے جھونکے نے میرا ستقبال کیا اور ایک ٹھنڈی لہر میرے جسم میں اتر گئی۔ ہر طرف خاموشی چھائی تھی، البتہ وقفے وقفے سے کسی جانور کی آواز آجاتی۔ میں نے آسمان کی جانب دیکھا، ادھورا چاند بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا جس کی ہلکی روشنی میں آس پاس کے گھر اور فصلیں ایک خوابیدہ منظر پیش کر رہے تھے۔ فضا پر ایک عجیب طرح کا سحر طاری تھا جس نے میری روح کو سرشار کر دیا تھا۔ میری زبان سے بے اختیار سبحان اللہ نکلا۔ میں دیر تک اس منظر میں کھڑا نیم تاریک، پرسکون اور تقدس بھرے ماحول سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
ہم کہروڑپکا کے گاؤں ”نورشاہ گیلانی“ میں تھے اور اس موجودگی کا بنیادی سبب میرے بہت ہی پیارے دوست سید تنصیر ترمذی صاحب تھے۔ تنصیر ترمذی صاحب انکم ٹیکس میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں،ا نھوں نے مجھے کہا کہ اس بار سردیوں کی چھٹیوں میں کہیں اور جانے کی بجائے بچوں سمیت بہاول پور آجائیں، یہ آپ کی زندگی کا یادگار سفر ہوگا۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ ہم دن چڑھے لاہور سے روانہ ہوئے اور تقریباً چھے گھنٹے بعد لودھراں پہنچے۔ سید تنصیر ترمذی صاحب اور جعفر گیلانی صاحب نے کہروڑ پکا میں ہمارا استقبال کیا اور ہمیں نورشاہ گیلانی لے آئے۔ یہ ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔ وہاں پہنچ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میرے دونوں میزبانوں نے ہمارے استقبال کے لیے شان دار انتظام کروایا تھا۔ گاؤں کے لوگ خیر مقدم کہنے کے لیے راستے میں کھڑے تھے۔ ہم پر پھول پھینکے جارہے تھے، گھوڑے ناچ رہے تھے اور ڈھول بھی بج رہے تھے۔ میزبانوں نے پُرتکلف عشائیے کا انتظام کیا تھا۔ کھانے کے بعد جعفر گیلانی صاحب کے ڈیرے پر محفل جمی۔ یہاں میری ملاقات عمران جاوید صاحب سے ہوئی جو کہ ریڈیوپاکستان (میرپور) میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ میں ان کی قابلیت سے بہت متاثر ہوا۔ ہم چمن میں بیٹھے تھے اور درمیان میں آگ کے الاؤ روشن تھے۔ اگرچہ موسم کافی ٹھنڈا تھا لیکن دوستوں کی یہ محفل اس قدر محبت سے بھرپور تھی کہ ہم دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ میں نے یہاں مختصر سی بات چیت کی اور اس کے بعد محفل برخاست ہوگئی۔
اگلی صبح ناشتے سے فارغ ہوکر ہم نے غلام حسین صاحب سے رابطہ کیا۔ غلام حسین صاحب میرے بہت ہی پیارے دوست ہیں اور کہروڑ پکا میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ ہم ان کی معیت میں کہروڑپکا پہنچے تو یہاں بھی عجیب منظر تھا۔ بے شمار لوگ پھولوں کے ساتھ ہمارا استقبال کر رہے تھے۔ انھوں نے ہم پر اس قدر پھول نچھاور کیے کہ گاڑی پھولوں سے بھرگئی۔ کچھ لوگ ہوا میں کبوتر اڑا رہے تھے اور بہت جوش و خروش کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان کی یہ محبت اور عقیدت دیکھ کر میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے اور اس کرم نوازی پر میں نے رب کا بھرپور شکرادا کیا۔
میں اپنی چوالیس سالہ زندگی میں یہ بات جان چکا ہوں کہ انسان کے پاس موجود طاقت دو طرح کی ہوتی ہے۔ Hard Power اور Soft Power۔ ’ہارڈ پاور‘ وہ ہے جس میں انسان کے پاس ایسا عہدہ یا اختیار ہو جس کی بدولت وہ دوسروں کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہو۔ ایسے انسان سے لوگ خوف زدہ رہتے ہیں اور ڈر کی وجہ سے اس کی عزت کرتے ہیں جب کہ ’سافٹ پاور‘ وہ ہے جس میں آپ کے پاس عہدہ نہیں ہوتا لیکن آپ دل جیتنے کا فن جانتے ہیں اور اس کی بدولت لوگ آپ کو چاہتے ہیں، آپ کی عزت کرتے ہیں اور آپ کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ میں اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے ’سافٹ پاور‘ کی نعمت سے نوازا ہے۔ کہروڑ پکا پہنچنے کے بعد ہم 1122 کے دفتر آگئے۔ یہاں بھی ہمیں پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔ میں نے جوانوں سے مختصر گفت گو کی اور اس کے بعد ہم ڈگری کالج پہنچے۔ وہاں بھی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے میں نے خطاب کیا۔ اس کے بعد ہم غلام حسین صاحب کے دفتر آئے، انھوں نے ہمارے لیے چائے کا اہتمام کیا تھا۔
غلام حسین صاحب سے اجازت لے کر ہم باغات کی سرزمین ”بہاول پور“کی طرف روانہ ہوئے۔مجھے اس خطے سے عشق ہے۔ یہاں کی خوب صورتی، سبزہ، امن سکون اور برکت انسان کو اپنا دیوانہ بنا دیتی ہے۔ بہاول پور کو نوابوں اور محلات کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں نور محل، دربار محل، نشاط محل اور صادق گڑھ پیلس اپنی خوب صورتی کے جلوے بکھیر رہے ہیں جب کہ اس کے ساتھ قلعہ دراوڑ، قلعہ موج گڑھ، قلعہ اسلام گڑھ، قلعہ ولر، قلعہ پھولڑہ، قلعہ مٹو اور قلعہ بجنوٹ بھی اپنی تاریخی اہمیت کے باعث ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ بہاول پور کا نام سنتے ہی میرے ذہن میں نواب صادق محمد خان پنجم کی تصویر آجاتی ہے۔ نواب صاحب وہ عظیم انسان تھے جنھوں نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی معاشی حالت انتہائی کمزور تھی۔ نواب صادق محمد خان نے پاکستان کو ستر کروڑ روپے کا تحفہ دیا جس کی بدولت ایک سال تک ملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔ نواب صاحب کو پاکستان سے اس قدر محبت تھی کہ غیر ملکی سربراہان کی آمد پر بہاول پور سے سونے اور چاندی کے برتن بھیجتے تاکہ پاکستان کی ساکھ خراب نہ ہو۔ ان خدمات کی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے انھیں ”محسن پاکستان“ کا لقب عطا کیا تھا۔
بہاول پور کی طرف جاتے ہوئے ہم نے پہلا قیام”لال سوہانرا نیشنل پارک“ میں کیا۔ یہ بہاول پور سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور 153000 ایکڑ پرپھیلا ہوا جنوبی ایشیا کا وسیع ترین پارک ہے۔ یہاں صحرا، پانی اور جنگل کا خوب صورت امتزاج ہے جو اس کی زمین کو زرخیز بنا دیتا ہے۔ یہاں پر مصنوعی جھیل اور چڑیا گھر بھی ہے۔ اس پارک میں 30ہزار آبی پرندوں کی آمدو رفت جاری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگلی بلیاں، خرگوش، الو، ہرن اور عقاب بھی پائے جاتے ہیں۔ ”لال سوہانرا نیشنل پارک“ کی خاص با ت یہاں کے کالے ہرن ہیں۔ تیکھے نین نقش، منفرد رنگت اور دلکش رنگ و روپ والے یہ ہرن انتہائی خوب صورت نظر آتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا کے مطابق1947ء سے 1964کے درمیان یہاں کالے ہرن کی تعداد انتہائی کم ہوکر صرف آٹھ ہزاررہ گئی تھی۔ کافی عرصہ پہلے چولستان سے کچھ ہرن امریکا بھجوائے گئے جہاں ان کی افزائش کی گئی۔اس دوران پاکستان میں یہ ہرن نایاب ہوگئے تو امریکا نے دس جوڑے ’لال سوہانرا پارک‘ کو دیے، جن کے لیے 70 ایکڑ پر مشتمل ایک خطہ بنایا گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا اور نیدرلینڈ کے بچوں نے اپنے جیب خرچ سے ہرنوں کے لیے جنگلا بنوایا۔ لال سوہانرا پارک میں ان کی افزائش کی گئی اور اب ان کی تعداد تقریباً پچیس ہزار ہوچکی ہے۔ ہم نے یہاں کچھ وقت ہرنوں کے ساتھ گزارا اور پارک کے خوب صورت مقامات سے لطف اندو ہوئے۔
یہاں سے نکل کر ہم اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور پہنچے۔ یونی ورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر شازیہ صاحبہ نے ہمیں پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا۔ ہال میں طلبہ اور اساتذہ ہمارے منتظر تھے۔ میں نے طلبہ سے اُمید کے موضوع پر گفت گو کی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی طرف سے یونی ورسٹی کے طلبہ کے لیے 10 اسکالرشپ کا اعلان بھی کیا۔ تقریب ختم ہوئی تو شام ہوچکی تھی۔ کچھ دیر بعد ہم نور محل کا لائٹ شو دیکھنے کے لیے چلے گئے۔ پورا محل برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھااور محل کی دیواروں اور گنبدوں پر روشنی سانپ کی طرح انگڑائیاں لے رہی تھی۔ یہ انتہائی شان دار اور دل فریب منظر تھا۔ اگر آپ کبھی بہاول پور گئے تو نور محل کے برقی نظارے سے لطف اندوز ہونا نہ بھولیے۔ گورنر صاحب کی اہلیہ نے ہمارے لیے خاص اہتمام کیا تھا جس پر میں ان کا ممنون ہوں۔
نورمحل کے جگمگاتے جلوؤں سے فارغ ہوکر Fletti’s Grand ہوٹل آئے۔ یہاں میرے دوست منیب بلال صاحب جو کہ اس ہوٹل میں ہیڈ کے طورپر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہوٹل میں غیر ملکی لوگ بھی بہ کثرت موجود تھے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ قلعہ دراوڑ دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ یہ چیز مجھے بہت اچھی لگی۔ ہمارے پاکستانی بھائی موسم سرما میں مری اور کاغان کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہاں کی برف باری سے لطف اندوز ہوسکیں، لیکن ہزاروں لوگوں کی بہ یک وقت آمدکی وجہ سے اکثر اوقات سڑکیں بند ہوجاتی ہیں اور سیاحت کے دن اسی کے نذر ہوجاتے ہیں۔ میرے خیال میں سردی کے موسم میں صحرا کی طرف نکلنا چاہیے اور اس کے لیے بہترین انتخاب چولستان ہے۔ رات کو تنصیرترمذی صاحب نے مجھے کافی پینے کی پیش کش کی۔ میں انکار نہ کرسکا اور ہم کافی پینے کے لیے باہر آئے۔ میں راستے میں کافی کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن حیرت تب ہوئی جب ہم اچانک دھوم دھام والی شادی میں پہنچے۔ ہم نے شادی میں شرکت کی اور دولہاصاحب کو مبارک باد دی، لوگ میرے ساتھ سیلفیاں لینے لگے، میں انتہائی تھکا ہوا تھا لیکن محبت کی وجہ سے کسی کو انکار نہ کرسکا۔ بعد میں تنصیر صاحب نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے آپ کے ساتھ ساڑھے چھے سو سے زیادہ تصاویر لیں۔
اگلی صبح محترمہ تہمینہ صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ انتہائی قابل خاتون ہیں جو بیگم نصرت بھٹو ویمن یونی ورسٹی (سکھر) کی وائس چانسلر ہیں۔ ہم نے طالبات کی بہتری کے لیے مختلف منصوبہ بندیاں کیں اور یہ بھی طے کیا کہ فروری میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ’ویمن ایمپاورمنٹ‘ کے عنوان سے تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ہم احمد پور کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں ”عبقری حویلی“ میں حکیم طارق محمود عبقری صاحب نے ہمیں خوش آمدیدکہا۔ حکیم صاحب کے ساتھ میرا تعلق کئی حوالوں سے ہیں۔ وہ ایک بہترین استاد اور شفیق بھائی ہیں۔ میں ان سے زندگی کے مختلف امور کے متعلق رہنمائی لیتا ہوں۔ حکیم صاحب میری فاؤنڈیشن میں بھی تشریف لاتے رہتے ہیں جہاں ہم مختلف موضوعات پرپروگرامز کی ریکارڈنگ کرواتے ہیں۔’عبقری حویلی‘ 90 کنال پر مشتمل اپنی نوعیت کی منفرد اور خوب صورت حویلی ہے جو حکیم صاحب نے اپنے مریدوں کی سہولت کے لیے بنوائی ہے۔ اس میں قیام و طعام کا مکمل انتظام موجو دہے۔ عبقری حویلی مختلف طرح کے درخت اور پودوں سے بھرپور ہے، اس کے ساتھ یہاں خوب صورت یادگار عمارتیں بھی موجو دہیں۔ یہاں پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہم چولستان کی طرف روانہ ہوگئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ گاڑی چلانے کی ذمہ داری ڈرائیور کو دے دیتے ہیں لیکن میں اس ایڈونچر سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا چنانچہ اسٹیرنگ میں نے سنبھال لیا اور اللہ کا نام لے کر چل پڑا۔ قلعہ دراوڑ تک سڑک اچھی تھی اس کے بعد کچے راستے شروع ہوگئے۔ صحرا میں گاڑی دوڑانے کا لطف ہی کچھ اور ہے، البتہ یہ انتہائی احتیاط بھرا کام ہے۔ اونچ نیچ کی وجہ سے گاڑی مسلسل ہلتی رہتی ہے جسے قابو میں کرنا ضروری ہوتا ہے، دوسری طرف مسلسل یہ خطرہ بھی رہتا ہے کہ گاڑی کے سامنے کوئی جانور نہ آجائے۔ چنانچہ آپ کو ذہنی اور جسمانی طورپر مکمل انہماک کے ساتھ ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے۔ 90 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم صحرائے چولستان کے سینے میں پہنچ گئے۔ وہاں حکیم صاحب کے بے شمار معتقدین موجود تھے جنھوں نے پر جوش انداز میں ہمیں خوش آمدید کہا، حکیم صاحب نے انھیں وعظ و نصیحت کی۔ ہم نے حکیم صاحب کی امامت میں یہاں دو نمازیں پڑھیں۔ گاؤں والوں نے دیسی کھانوں، چوری، اونٹ کے دودھ، اونٹ کے دہی اور دال سبزی کے ساتھ مہمان نوازی کی۔ دور تک پھیلا لق و دق صحرا اور ریتلی ٹیلوں کے درمیان ہم نے کافی وقت گزارا اور صحرائی زندگی اور یہاں کے لوگوں کے بود و باش کو قریب سے دیکھا۔ انتہائی غربت کا ماحول تھا اور بنیادی سہولیات ناپید تھیں۔ ایسے علاقے میں آکر احساس ہوجاتا ہے کہ ہم شہر میں کس قدر سہولیات سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی شکر اد انہیں کرتے۔
صحرائی سفر کی تھکا دینے والی اور خو ش گوار یادوں کے ساتھ ہم واپس لوٹے، حکیم صاحب نے ہمیں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور ہم سرکٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ رات ہوچکی تھی۔ میری بہت ہی پیاری بہن مصباح بتول صاحبہ نے ہمارے لیے عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ مصباح بتول صاحبہ انتہائی محنتی اور قابل خاتون ہیں۔ انھوں نے فاؤنڈیشن کے مختلف پروگراموں سے ٹریننگ لی ہے اور اس وقت بہاول پور میں ایجوکیشنل ٹرینر اور کاؤنسلر کے طورپر شان دار خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اگلی صبح وہ مجھے ڈسٹرکٹ جیل لے گئی جہاں بچوں کے ساتھ ایک تقریب رکھی گئی تھی۔ میں نے اپنی گفت گو میں بچوں کو دنیا کی سات خطرناک جیلوں سے متعارف کروایا اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ان سات جیلوں سے بھی زیادہ ایک خطرناک جیل ہے جو کہ انسان کی ”ذہنی قید“ ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس جیل سے آزادی کیسے ممکن ہے اور اس حوالے سے کئی کہانیاں بھی سنائیں۔ میرے بڑے بیٹے محسن علی شاہ نے تمام سفر میں جہاں میرے پرسنل اسسٹنٹ کے فرائض نبھائے، وہیں تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی ذمہ داری بھی بہترین انداز میں پوری کی۔
یہاں سے فارغ ہوکر ہم ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جام آفتاب صاحب سے ملاقات کے لیے گئے۔ ناشتے کا انتظام کیپٹن کامران صاحب نے کیا تھا جو DHA بہاول پورمیں تعمیراتی منصوبے کے ہیڈ ہیں۔ وہ مجھے DHA لے گئے۔ وہاں جو بریگیڈئیر صاحب تھے ان سے ملاقات ہوئی۔ یہاں بھی ایک لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھاجس میں میں نے Ownership کے موضوع پر بات چیت کی۔ تقریب سے فارغ ہونے کے بعد ہم عمیر صاحب کے دفتر گئے جو کہ ہاؤسنگ کا وسیع کاروبار کرتے ہیں۔ اس کے بعد تنصیر ترمذی صاحب کے دفتر گئے، وہاں ساتھیوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ یہ ہمارا آخری پڑاؤ تھا ۔یہیں پر ہمارا دورہ بہاول پور اختتام کو پہنچا۔ ہم نے تمام میزبانوں کا بھرپور شکریہ ادا کیا، ان سے رخصت لی اور بھرپور محبتیں سمیٹنے کے بعد لاہور کی طرف واپس ہوئے۔
اس یادگار سفر میں جہاں ہم گاؤں، جنگل، جھیل، دریا،صحرا اور محلات کے خوب صورت نظاروں سے لطف اندو ز ہوئے، وہیں خیر بانٹنے کی کوشش بھی کی۔ جہاں بھی کسی نے گفت گو کے لیے مدعو کیا میں نے انھیں مکمل وقت دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی حضرات کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی۔ ہم نے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن ”بہاول پور چیپٹر“ بنانے اور خواتین کی ترقی کے لیے کلب بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔
بہاول پور کے ساتھ میری محبت پہلے بھی تھی لیکن اس سفر کے بعد میں بہاول پور کا عاشق ہوگیا۔ جیسے اس خطے کی مٹی زرخیز ہے، اس کی زبان میٹھی ہے ویسے یہاں کے باسی بھی اپنائیت سے بھرپور ہیں۔ میرے نزدیک خوش قسمتی دو طرح کی ہے۔ ایک یہ کہ آپ کو کسی سرائیکی سے محبت ہوجائے اور دوسری یہ کہ کسی سرائیکی کو آپ سے محبت ہوجائے، پھر آپ کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ آپ محل میں بھی ہوں تو اس کے بغیر نہیں جی سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے خمیر میں محبت اور وفاداری رکھی ہے۔ یہ ٹوٹ کر محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ اظہارِ محبت میں شاید کمزور واقع ہوں لیکن محبت نبھانے پر آجائیں تو اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ ان کی اسی محبت کو دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کہ اگر مجھے بڑھاپا نصیب ہوا تو وہ میں بہاول پور میں گزارنا چاہوں گا۔ یہ میری دلی خواہش ہے۔