اوپر والا ہاتھ
(قاسم علی شاہ)
آدمی ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔ دن بھر کے کاموں نے اس کو تھکا دیا تھا۔ کندھے سے بیگ اتار کر وہ کرسی پر بیٹھا، اپنی ٹائی ڈھیلی کی، پانی کا ایک گلاس بھرا اور پھر ویٹر کو کھانا لانے کا کہا۔انتظار کرتے کرتے وہ یوں ہی ریسٹورنٹ کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک اس کی نظر سامنے شیشے کی دیوار پر پڑی۔ جہاں دو آنکھیں ریسٹورنٹ کے اندر گھور رہی تھیں۔ آدمی نے پہلے تو نظر انداز کیا لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ دیکھا تو اس کو واضح طور پر محسوس ہوا کہ ان آنکھوں میں بھوک ہے۔ وہ باہر آیا اور ریسٹورنٹ کی دیوار کے ساتھ کھڑے لڑکے کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ لڑکے کے بائیں طرف ایک بچی بھی تھی جس نے اپنے بھائی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ڈرتے ڈرتے دونوں آدمی کی ٹیبل پر آئے۔ اس نے مسکراتے ہوئے ان دونوں کو بیٹھنے کے لیے کہا اور پھر ویٹر کو مزید کھانا لانے کا آرڈر دیا۔ کھانا آگیا تو لڑکے نے اسی خاموشی کے ساتھ بہن کا ہاتھ تھاما اور واش روم جاکر ہاتھ دھوکر واپس آیا۔ بیٹھنے کے بعد آدمی نے دونوں بچوں کو تسلی دی اور اطمینان سے کھانے کا کہا لیکن وہ اب بھی جھجک رہے تھے۔ وہ جلدی سے اپنا کھانا ختم کرکے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لڑکے نے اس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہ دونوں وہاں سے چلتے بنے۔ آدمی کو بچوں کا مہذب رویہ بہت اچھا لگا۔ ساتھ ہی اس کو اپنی اس نیکی پر بھی بڑا سکون ملا، وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرنے لگا کہ اس نے دو انسانوں کی مدد کرنے کی اسے توفیق دی۔ اپنا کھانا ختم کرکے وہ کائونٹر پر بل دینے گیا لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے بل میں پیسوں کے خانے میں صفر لکھا ہوا تھا۔ اس نے حیرانی سے کاونٹر پر کھڑے شخص کو دیکھا تو وہ مسکرانے لگا اور بولا:’’سر! ہم بھی سینے میں دل رکھتے ہیں۔ آپ نے بچوں کی بھوک کا خیال رکھا۔ آپ کے اس عمل نے ہمیں بھی کچھ اچھا کرنے پر مجبور کیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ بل ہماری طرف سے آپ کے لیے گفٹ ہے۔ سر! نیکی کرتے رہیے، تاکہ یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے۔ ‘‘آدمی شکرگزار نظروں کے ساتھ ریسٹورنٹ مینیجر کو دیکھتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔
انسانیت کا رشتہ محبت اور احساس کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہی وہ رسی ہے جس نے تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جوڑا ہوا ہے۔ اگر انسانیت کے جسم سے احساس نکل جائے تو وہ مرجائے گا اور کچھ دنوں بعد سڑ کر بدبو دینے لگے گا۔ ایسے ہی معاشرے سے اگر ہمدردی اور نیکی کا جذبہ ختم ہوجائے تو پھر وہاں بے حسی، خودغرضی اور لالچ کی ایسی بدبو پیدا ہوجاتی ہے کہ انسانوں کے لیے اس تعفن زدہ ماحول میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور اپنی حرص کی وجہ سے بہت جلد وہ ایک دوسرے کا خاتمہ کر ڈالتے ہیں۔
نیکی سے نیکی پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان نیکی کرتا ہے تو دوسرے لوگ اس چیز کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ عمل ان کے اندر موجود نیکی کے احساس کو بھی جگاتا ہے۔ انھیں ایک غیر محسوس انداز میں ترغیب ملتی ہے اور پھر وہ وقت آجاتا ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے نیکی سر زد ہوہی جاتی ہے اور یوں ایک سلسلہ چل پڑتا ہے جس کا ایک زبردست اثر پورے ماحول پر پڑتا ہے۔
رابرٹ اینگرسل کہتا ہے: ـ’’ انسان عروج تب حاصل کرتا ہے جب وہ دوسرے انسانوں کو اٹھانا شروع کر لیتا ہے۔‘‘
انسانوں سے بھری اس کائنات میں بہترین لوگ دراصل یہی ہیں جو دوسروں کا ہاتھ تھامتے ہیں، انھیں اوپر اٹھاتے ہیں اور اپنی نعمتوں میں انھیں شریک کرتے ہیں۔ ایسے مہربان لوگوں کارویہ انسانوں کی روح تک پہنچتا ہے اور ان کے زخمی دلوں پر مرہم لگاتا ہے۔ یہ لوگ اگر نہ ہوں تو انسانیت کی روح سسک سسک کر مرجائے گی، نیکی کا حوصلہ ماند پڑجائے گا، ہمدردی، احساس اور رواداری کا جذبہ ختم ہوجائے گا اور پھر کائنات کے حسن او ر فطرت کی خوب صورتی کو بھی زنگ لگنا شروع ہوجائے گا۔
ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں موجود انسانوں کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو دوسروں میں بانٹنے والے اور اپنی نعمتوں میں انھیں شامل کرنے والے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو صرف دوسروں سے لینے کی سوچ رکھتے ہیں۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دوسروں کا فائدہ تب کرتے ہیں جب اس میں ان کا اپنا بھی فائدہ ہو۔
بانٹنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ جڑے لوگوں کو کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ یہ سو چ ہوتی ہے کہ ان کی ذات سے کسی کو فائدہ کیسے مل سکتا ہے؟ ان لوگوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنی کامیابی کوصرف اپنی کامیابی نہیں سمجھتے بلکہ اس کا کریڈٹ ان لوگوں کو بھی دیتے ہیں جو اس کامیابی میں ان کے ساتھ تھے اور انھوں نے کسی نہ کسی شکل میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری اس کامیابی میں ایک ایک فرد بہت اہم تھا، حتیٰ کہ وہ اپنے اوپر تنقید کرنے والے لوگوں کو بھی اس کامیابی میں شامل سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین، ٹانگ کھینچنے والے اور پراپیگنڈہ کرنے والوں کو بھی اپنے لیے نعمت سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بادمخالف اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آپ اڑان بھر رہے ہیں اور کسی سمت میں جارہے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ آپ پر کی جانے والی تنقید اس بات کی نشانی ہے کہ آپ اچھا کام کررہے ہیں اور زندگی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
لالچی اور فائدہ سمیٹنے کی سوچ رکھنے والے لوگ وہ ہیں جودینے کے بجائے لینے کی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ ہمیشہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ مجھے فائدہ کیسے ملے گا چاہے اس میں کسی کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ آسان الفاظ میں یہ لالچی اور بے فیض لوگ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے فائدے کے لیے کسی کا بھی نقصان کرسکتے ہیں۔ یہ ایک تکہ حاصل کرنے کے لیے پوری بکری ذبح کرڈالتے ہیں ۔یہ کسی اخلاقی اور دینی اصول کو خاطر میں نہیں لاتے ۔یہ سوچتے ہیں کہ میرے پاس جو فلاں بندہ آیا ہے اس کو میں اپنے مقصد کے لیے کیسے استعمال کروں۔یہ کسی بھی جگہ اپنا کوئی فائدہ دیکھتے ہیں تو اس انسان کی تعریف شروع کرلیتے ہیں اور فائدہ ختم تو اس سے تعلق بھی ختم کرڈالتے ہیں۔یہ صحیح معنوں میں احسان فرامو ش ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ کوئی اچھائی کرلے تو یہ فائدہ ضرور اٹھائیں گے لیکن بہت جلد اس کو بھول بھی جائیں گے۔
تیسری قسم کے لوگ معاملہ سا ز ہوتے ہیں۔یہ دوسروں کو فائدہ تو دیتے ہیں لیکن اس میں اپنا فائدہ بھی دیکھتے ہیں۔یہ کسی کا نقصان نہیں کرتے لیکن بغیر اپنے فائدے کے دوسروں کابھلابھی نہیں کرتے۔یہ ایک طرح سے ڈیل کرنے والے اورکاروباری لوگ ہوتے ہیں جو اپنا فائدہ دیکھ کر دوسروں کافائدہ کرتے ہیں۔البتہ یہ لوگ زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانوں میں سب سے زیادہ کامیاب ، مطمئن اور پرسکون لوگ وہی ہوتے ہیں جو دوسروں کو عطاکرنے والے ہوتے ہیں۔یہ لوگ انسانیت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔یہ لوگ اپنے عمل سے ایک ’’ایکوسسٹم‘‘ بناتے ہیں اور اس سسٹم کا اثر پورے ماحول ، معاشرے اور ملک پر ہوتاہے۔ ’’ایکوسسٹم‘‘سمجھنے کے لیے ایک آسان مثال پانی ہے۔پانی سمندر میں ایک کثیرتعداد میں موجود ہوتاہے۔وہاں سورج کی گرمی پڑتی ہے جس سے پانی بخارات میں تبدیل ہوجاتاہے اور وہ آسمان کی طرف اٹھناشروع ہوجاتاہے۔وہاں پر یہ بادلوں میں منتقل ہوجاتاہے۔بادل سفر کرناشروع کرلیتے ہیں اور پہاڑوں پر جاکر برف کی صورت میں برستے ہیں۔پہاڑ اس برف سے ڈھک جاتے ہیں۔کچھ وقت کے بعد جب اس برف پر سورج کی گرمی پڑتی ہے تویہ پگھلناشروع ہوجاتی ہے اور پانی کی صورت میں پہاڑ سے اترنا شروع ہوجاتی ہے۔اس پانی سے آبشار، جھرنے، ندی اور نالے بنتے ہیں اورنشیبی علاقوں کی طرف آناشروع ہوجاتے ہیں اورمیدانی علاقوں کو سیراب کرتے ہوئے یہ پانی واپس سمندر میں جاگرتاہے ۔وہاں سے پھریہ بخارات بنتاہے ، پھربادل ، برف اور پانی ۔یہ کائنات کا نظام ہے۔اس نظام سے ہر قسم کی مخلوقات مستفید ہوتی ہیں۔چرند، پرند اور انسان اس پانی کو استعمال میں لاتے ہیں۔اسی سے سیلاب بھی بنتاہے جو بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیتاہے۔اسی سے زندگی بھی شروع ہوتی ہے۔جب یہ پانی پودوں کولگتاہے تو ان کے اندر جان آجاتی ہے۔سوکھے باغوں میں بہار آجاتی ہے۔اسی پانی کا ایک قطرہ سیپ کے منہ میں جاکر موتی بن جاتاہے توسانپ کے منہ میں جاکر زہر بنتاہے۔
ایکوسسٹم کی اور مثال Butterfly Effectہے۔تحقیق کے مطابق ایک تتلی جب اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہے تو اس عمل کا اثر بھی کائنات پر پڑتاہے۔پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے بننے والی لہر کہیں نہ کہیں موسم پر اثرانداز ہوتی ہے اورماحولیاتی تبدیلی کاسبب بنتی ہے۔تتلی جو ایک معمولی مخلوق ہے ۔جو اس قدر کمزور ہے کہ اگر اس کو انگلی میں مسلا جائے تو وہ مرجاتی ہے لیکن وہ بھی فطرت کی تبدیلی میں اپنا اثر رکھتی ہے۔
دوسروں کو عطاکرنے والے لوگ دراصل فطرت کے اس ’’ایکوسسٹم‘‘ کو متحرک کردیتے ہیں۔ اس طرح کہ جب وہ کسی کے ساتھ نیکی کرتے ہیں توا س عمل کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔جو بھی اس کودیکھتا ہے تو اس کے دل میں غیر محسوس طریقے سے نیکی پنپنے لگتی ہے۔جس کے ساتھ نیکی کی جائے وہ اس قرض کو اتارتاہے اور کسی دوسرے انسان کی مدد کرتاہے۔وہ انسان آگے کسی اور انسان کے کام آتاہے اور یوں احساس ، ہمدردی اور خیرخواہی کا ایک شاندار نظام وجو دمیں آجاتاہے۔چلتے چلتے یہ نیکی واپس پہلے شخص کے پاس آجاتی ہے۔بانٹنا اور عطا کرنا یہ رب کائنات کی سنت ہے اور مخلوق میں سے جو بھی اس عمل کو اپناتا ہے تو اس ایکوسسٹم کی وجہ سے اس کی زندگی میں موجود ہر چیز بڑھنے لگ جاتی ہے۔اسی وجہ سے آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا:
’’صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی۔‘‘(مسند احمد:9190)
دنیا کا کیلکولیٹر اس چیز کو نہیں مانتا۔ظاہری آنکھ سے ہمیں لگ رہاہوتاہے کہ مال کم ہوگیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔دوسروں کو بانٹنے سے انسان کا دل نرم ہوجاتاہے۔اس کے اندر وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔وہ بڑاسوچتاہے۔وہ ایک وقت میں چیزوں کے کئی زاویو ں کو دیکھ سکتاہے۔اس کاCritical Mindتیز ہوجاتاہے۔وہ چیزوں کی جانچ پرکھ بہترین انداز میں کرسکتاہے۔اس کے ذہن میں نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں۔بانٹنا دراصل اپنے رب پر بھروسے کا نام ہے ۔وہی انسان بانٹ سکتاہے جس کا اپنے رب پر یقین ہوتاہے کہ اگر میں کسی کو کچھ دے رہا ہوں توکل کو میرارب مجھے مزید عطا کردے گا۔جو انسان بانٹتاہے اس کے سامنے زندگی کے چیلنجز اور مشکلات کچھ معنی نہیں رکھتی۔وہ بہت اچھے انداز میں ان سب کو ہینڈل کرلیتاہے۔
بانٹنے والے لوگ ،دوسروں کے اندرچھپے ٹیلنٹ کو بہت جلد پہچان لیتے ہیں۔یہ اس قابلیت کی قدر کرتے ہیں اور اس کو اپنی کامیابی میں شامل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ جڑا ہر شخص کامیاب ہوتاہے۔یہ لوگ رشتے بنانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں اور لوگ بھی ان سے ملنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔یہ لوگ معافی مانگنے اور مسکراکرسلام کرنے میں پہل کرتے ہیں۔یہ اپنی غلطی کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں۔یہ اپنے عمل اور سوچ سے دوسروں کو انسپائر کرتے ہیں۔لوگ ان کے ساتھ تعلق کوایک بہترین حوالے کے طورپریادرکھتے ہیں۔ا ن خوبیوں کی بدولت ان کی زندگی میں مواقع پیدا ہوناشروع ہوجاتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔
جولوگ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں، وہ سخت مزاج بن جاتے ہیں۔ان کالہجہ روکھا بن جاتاہے جس کی وجہ سے لوگ انھیں چھوڑدیتے ہیں۔یہ لوگ اس وجہ سے نہیں بانٹتے کہ اس سے ہماری نعمتیں کم ہوں گی۔یہ دوسروں کی مدداس وجہ سے نہیں کرتے کہ پھر وہ ان سے آگے بڑھ جائیں گے۔یہ دوسروں کو مضبوط اس لیے نہیں کرتے کہ پھر وہ ان کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔اس سوچ کی وجہ سے یہ لوگ شدید عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان کی خوداعتمادی کمزور ہوجاتی ہے۔یہ لاشعوری طورپر مقابلے کی فضامیں ہوتے ہیں۔ان کے اندر شدید قسم کا حسد پایاجاتاہے۔ان کاسفر لمبا نہیں ہوتا۔یہ بار بار اپنی جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ان لوگوں کے حوالے نہیں بنتے ۔مال سمیٹتے سمیٹے یہ عبرت کی مثال بن جاتے ہیں۔یہ لوگ اپنی حاصل شدہ نعمتوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اسی سوچ سے ان کا زوال شروع ہوجاتاہے۔ایسے لوگوں کا جمع کیا ہوامال ان کے اپنے کام نہیں آتا بلکہ ان کی نااہل اولاد اس مال کو اڑا کر رکھ دیتی ہیں۔
سخی انسان کا ہاتھ کھلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل بھی کشادہ ہو جاتا ہے۔ جب دل بڑا ہوجائے تو اس میں رب کی رحمت اور ایمان کا نور بسیرا کرلیتے ہیں اور ایسا شخص دین و دنیا کی کامیابیاں سمیٹ لیتا ہے۔