”وژن“ہی سب کچھ ہے
(قاسم علی شاہ)
میں ٹرین سے اترا اوراندرجانے سے پہلے،کچھ دیررُک کر اس طلسماتی دنیا کودیکھنے لگا۔ میرے سامنے دس بارہ فٹ اوپر ایک بیرئیرلگا ہو اتھا جس پر Mickeyکھڑا مسکرارہا تھا اور آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہاتھا۔Mickeyکے نام پر آپ حیران ہوئے ہوں گے تو بتاتا چلوں کہ یہ وہی مشہور زمانہ کارٹون ہے جس نے کسی زمانے میں ہمارابچپن یادگاربنایا ہوا تھا۔ ٹکٹ کنفرم ہونے کے بعد میں اندر داخل ہو ا، واقعی ایک حیرت انگیز دُنیا تھی۔سب سے پہلے جس چیز نے مجھے متاثرکیا وہ مختلف مقامات پر تکونی مینار والی بلند وبالاعمارتیں تھیں۔میں اِن محلات کو دیکھنے میں مگن تھا کہ اتنے میں میرے سامنے سڑک پر ایک قافلہ گزرا۔چھت کے بغیر ایک لمبی گاڑی تھی جس کوبہت خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ایک لڑکی تاج پہن کر تخت پر براجمان تھی او رہماری طرف ہاتھ ہلاکرمسکرارہی تھی۔پاس ہی کچھ یونیفارم میں فوجی بھی کھڑے تھے۔ گاڑی کے مختلف حصوں میں کہیں بچیاں پریوں کا لباس پہنے، ہاتھ میں جادو کی چھڑی تھامے جھک جھک کر ہمیں سلام کررہی تھیں توکہیں مشہورزمانہ کارٹون کے کاسٹیومز پہنے بچے جھوم رہے تھے۔ایک لمحے کو مجھے یوں لگا کہ میں ”الف لیلیٰ ہزارداستان“کی کسی کہانی کا کردار ہوں۔اس طلسماتی دنیا میں کہیں پتھر وں سے چشمے پھوٹ رہے تھے، کہیں رنگ برنگے پھول اپنی بہار دِکھارہے تھے۔شفاف پانی کی ایک ندی بھی تھی جس میں کشتی چل رہی تھی۔ہم بھی کشتی میں سوارہوگئے۔چلتے چلتے اچانک وہ ایک غار میں گھس گئی،اندھیرا چھا گیا لیکن کچھ ہی دیر میں لائٹس آن ہوگئیں۔کشتی آہستہ آہستہ پانی میں تیر رہی تھی اورغار کی دیواروں پر مختلف طرح کے کارٹون اپنے کرتب دکھارہے تھے۔بچوں اور بڑوں دونوں کا شوق دیدنی تھا۔اس پارک میں بچوں کے لیے مختلف سینماہال بھی موجود تھے جہاں اسکرینو ں پر مختلف ڈراؤنی اور حیرت انگیز مناظردِکھا کر شائقین کو محظوظ کیا جارہا تھا۔ایسے ہال بھی تھے جن کے اندر کا منظر مکمل طورپر جنگل کا تھا۔درخت، چرندپرند، جانور اور ان سب کے درمیان راہداریاں جن میں چھوٹی چھوٹی گاڑیاں ہمیں سیرکروارہی تھیں۔
یہ میرا Disneylandدیکھنے کاپہلا تجربہ تھا جو بہت ہی شاندار تھا۔واپس آنے کے بعد بھی کافی دیر تک میں اس کے سحر میں گرفتاررہا۔دُنیا میں اس وقت پانچ Disneylandموجود ہیں جو اپنی دلچسپی اور حیرت انگیز مناظر کی وجہ سے دنیابھر میں مقبول ہیں۔Disneylandکی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تخیلاتی دُنیا کوحقیقی شکل دی گئی ہے اور ساتھ ہی ایڈوانس ٹیکنالوجی کا ٹچ بھی دیا ہوا ہے۔کہیں آپ کو لگتا ہے کہ آ پ واقعی سیکڑوں سال پہلے کے کسی قدیم دور میں آگئے ہیں لیکن جب مختلف مقامات پر روبوٹس اور دوسری جدید چیزیں دیکھتے ہیں تو پھر آپ کو یقین ہوجاتا ہے کہ آپ واقعی اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔Disneyland کے اس جادو کا تمام کریڈٹ Walt Disneyکوجاتا ہے۔یہ وہ منفرد انسان تھا جس کواپنے تخیل کی دنیا میں رہنے کا جنون تھا۔بچپن میں اس نے سخت حالات کاسامنا کیا اور اسی چیز سے فرار اختیارکرتے ہوئے وہ مختلف طرح کی چیزوں کے خاکے بناکر اپناغم بھلانے کی کوشش کرتا۔اسی کوشش میں اس نے اخبار میں نوکری کی کوشش کی لیکن روکھا ساجواب ملا کہ ہمیں کسی کارٹونسٹ کی ضرورت نہیں،لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔ایک کمپنی میں اس کوکام ملا اور اس کو ہیٹ پہنے ایک آدمی کاپوسٹر بنانے کوکہاگیا۔ڈزنی نے پوسٹر توبنادیا لیکن ناک کی جگہ پراس نے بلب لگادیا۔جب یہ پوسٹر اسکرین پر پیش ہو اتو ناظرین نے اس انوکھے انداز کو بہت پسند کیا۔دراصل ڈزنی کی خاصیت ہی یہ تھی کہ وہ چیزوں کومختلف انداز میں سوچتااور اپنے تخیل کو حقیقی شکل دیتا۔اس کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ان تصاویر کو Animatedشکل دی جائے۔اس کویہ بھی معلوم ہوا کہ اگر وہ اپنے آئیڈیاز پر محنت کرلے تو بہت ترقی کرسکتا ہے لیکن اس کے پاس وسائل نہیں تھے۔ اس نے اپنے باس سے منت سماجت کرکے یہ اجازت حاصل کرلی کہ چھٹی کے بعد وہ کمپنی کا کیمرہ استعمال کرسکتاہے۔اس نے گھر کے گیراج کو سٹوڈیو بناکر Animatedفلمزپر کام شروع کیا۔اب اس کے کام نے واقعی رنگ جمانا شروع کرلیا تھا۔ اس کاجنون بھی بڑھنے لگا۔لگن، محنت اور چیزوں کو مختلف انداز میں پیش کرنے کی بھرپور قابلیت نے اس پر کامیابیوں کے دروازے کھول دیے اورپھر وہ وقت بھی آیاکہ ”والٹ ڈزنی“ اپنے زمانے کا مقبول ترین فلم میکر، Animatorاور بزنس مین بن گیا۔اس کو اِن شاندار خدمات کی بدولت 32آسکرایوارڈز، پانچ ایمی ایوارڈزاورڈاکٹریٹ کی پانچ اعزازی ڈگریاں ملیں۔ اس کے بنائے گئے کردار ”Micky Mouse“اور ”Donald Duck“ آج تک لوگوں کے پسندیدہ کارٹون ہیں۔ اس کی کمپنی ”Walt Disney World“ اینی میشن انڈسٹری کی سب سے بڑی کمپنی ہے، جس نے کئی ساریSuperhitموویز اور کارٹون بنانے کااعزازحاصل کیا ہے۔دنیا بھر میں موجود Disneyland پارکس بھی”والٹ ڈزنی“ کے اسی وژن کے مطابق بنائے گئے ہیں جو آج کی ساری دُنیا کو اپنی منفرد تخلیقات سے لطف اندوز کررہے ہیں۔
”پرسنل ڈیویلپمنٹ“ انڈسٹری میں Visionپر بہت زوردیا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر کسی انسان کی زندگی میں وژن نہیں ہے تو پھر اس کی زندگی بے سمت گزرے گی جو کہ ایک خسارے کا سودا ہے۔شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھررہاہوکہ ”وژن“ کیا چیزہے تو بتاتا چلوں کہ وژن کا مطلب ”آج میں رہتے ہوئے کل کی تصویر کشی کرنا“ہے۔ہر وہ انسان جس کی زندگی میں وژن ہوتا ہے تو اس کاجوش و جذبہ اور حوصلہ دوسرے لوگوں سے زیادہ تازہ دم ہوتاہے۔یوں سمجھیں کہ زندگی کی مثال ایک شاہراہ کی طرح ہے اور ”وژن“ہی اس شاہراہ کی منزل ہے۔آپ زندگی کی اس شاہراہ پر رواں دواں ہیں۔ راستے میں کچھ رُکاوٹیں آتی ہیں۔کچھ ایسے حالات و واقعات رونماہوتے ہیں یا لوگوں کے ایسے طعنے کہ”تم نہیں کرسکتے“،”تم نے پہلے کون ساتیرمارا ہے“،وغیرہ وغیرہ سننے کو ملتے ہیں اور یہ سب چیزیں آپ کو اس شاہراہ سے بھٹکادیتی ہیں لیکن اس کے باوجو دبھی ایک چیزایسی ہے جو آپ کو حوصلہ دیتی ہے اور دوبارہ آپ کواس شاہراہ کا مسافر بنادیتی ہے۔یہ چیز آپ کا وژن ہے لیکن اگرآپ کی زندگی میں وژن نہیں ہے اور ایسے میں آپ”ڈی ٹریک“ ہوگئے تو پھر عمر بھربھٹکتے ہی رہیں گے۔
وژن کا تعلق انسان کے ذہن کی ایک قابلیت کے ساتھ ہے، جس کو Imagination(تصورنگاری) کہاجاتا ہے۔انسان دنیا کی وہ خوش قسمت مخلوق ہے جس کو یہ نعمت حاصل ہے۔ایک انسان کی زندگی میں Imaginationجس قدر زیادہ ہوتی ہے اسی قدر اس کے کامیابی کے چانسز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ کامیابی مستقبل میں پڑی ہوتی ہے اور Imaginationکا تعلق بھی مستقبل کے ساتھ ہوتا ہے۔قانون کشش ہمیں بتاتاہے کہ انسان کا ذہن جو کچھ بھی Perceive(ادراک)کرتا ہے،و ہی وہ Achieve(حاصل)کرتاہے۔
آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں جتنے بھی کامیاب لوگ گزرے ہیں وہ اسی Imaginationکی طاقت سے ہوئے ہیں۔دنیا میں ہرنئی ایجاد کے پیچھے تصور کی طاقت ہے۔آج انسان چاند پر پہنچ چکا ہے، خلاؤں کو تسخیر کررہا ہے اور مریخ پرزمین کی پلاٹنگ بھی شروع کررہا ہے۔یہ سب تصور کی طاقت سے ہی ممکن ہوا ہے۔آپ اس وقت جو میری تحریر پڑھ رہے ہیں، یہ قلم سے لکھی گئی ہے۔قلم کا تصور پہلے کسی کے ذہن میں آیا، اس کو وجود ملا پھر ہر زمانے کے ساتھ یہ اپ ڈیٹ ہوتاگیا۔اگر آپ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تویہ دورجدید کی وہ شاندار ایجادات ہیں جو تصور ہی کی بدولت ممکن ہوئی ہیں۔
بدقسمتی سے ہم Imaginationکی اس طاقت کو استعمال ہی نہیں کرتے،حالانکہ یہ ہر انسان کے پاس موجو دہے اور اگر انسان چاہے تو اس کی بدولت وہ اپنی زندگی بدل سکتا ہے۔ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی Imaginationکی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔بچہ اگر کسی خلاف واقعہ چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اول ہمارے پاس اس کو مطمئن کرنے کے لیے جواب نہیں ہوتا،کیوں کہ ہم نے خود بھی کبھی Out of the boxنہیں سوچا ہوتا، پھر بھی اگر وہ بار بار اصرار کرے تو ڈانٹ کر اسے خاموش کرایاجاتا ہے اور اگر وہ اپنے والدین یا اُستاد کی کسی بات سے اختلاف کرے تو ”بے ادب“ کالیبل توکہیں گیا نہیں، جلدہی اس پر لگادیاجاتاہے۔
آپ کواس معاشرے میں اکثر لوگ ایسے ملیں گے جووژن کے بغیر زندگی گزاررہے ہیں۔بالفرض وہ اگر اپنے بچوں کو وژن دیں بھی تووہ ایسا ہوتا ہے جووژن کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہوتا۔وژن کے طورپراُنھیں بتایاجاتا ہے کہ”ڈاکٹر، انجینئر اورپائلٹ بنو۔“ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے زیادہ نمبروں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے بچے نمبروں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔زیادہ نمبر حاصل کرنے کی کوشش کرتے کرتے وہ بھول ہی جاتے ہیں کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لییفقط نمبرنہیں بلکہ Skills،مہارت اوراچھا رویہ چاہیے ہوتا ہے۔ان تینوں خصوصیات سے محروم آج کی نسل جب اعلیٰ نمبر لے کر حقیقی زندگی کے میدان میں اترتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔جبکہ اس کے برعکس آپ دیکھیے تو یہاں کتنے سارے ایسے کھرب پتی موجود ہیں جنھوں نے نمبرتو زیادہ حاصل نہیں کیے لیکن لوگوں کے ساتھ ڈیلنگ اور بزنس کے اصول سیکھ لیے اور اسی کی بدولت آج ملک کے قابل ترین دماغ اُن کے پاس نوکری کررہے ہیں۔
اس معاملے میں اکثر لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ”کامیابی قسمت کاکھیل ہے۔“میں قسمت کے عمل دخل سے انکارنہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قسمت کو بھی آپ نے ایک فارمولے میں لانا پڑتا ہے۔محنت، استقامت اور بہترین اخلاق وہ فارمولاہے جو کسی کالے، گورے یاامیر وغریب کو نہیں دیکھتابلکہ جوبھی اس کے مطابق چلتا ہے،یہ اُسے کامیابی سے نوازدیتا ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کابھی یہ مسئلہ ہے کہ یہاں بچوں کی Imaginationکودبادیا جاتاہے اور ساری تان اسی بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ اچھے نمبر لو، نوکری حاصل کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ۔فرض کرلیں کہ ہم تعلیم اور نمبروں میں دُنیا کی نمبر ون قوم بن بھی گئے تو اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ ہم نئی چیزیں ایجاد کرکے دُنیا میں انقلاب بھی برپاکرلیں گے۔ہر سال ہزاروں کی تعداد میں انجینئرز، ڈاکٹرز اور ڈگری یافتہ طلبہ پاس آؤٹ ہونے کے باوجود ہم دوسرے ممالک کی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔اُن کی دوائیاں،علاج یہاں تک کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی اُن ہی کی استعمال کررہے ہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے کہ ہمارے اسکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کارواج تھا۔تقریری وتحریر ی مقابلے، بیت بازی اور اس طرح کی دوسری سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ان کا سب سے بڑافائدہ یہ تھا کہ بچوں کی Imaginationبڑھ جاتی تھی اور ان کی اخلاقی تربیت بھی ہوتی تھی۔اب موبائل کا دورآگیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بچوں کی Imaginationکمزور ہوگئی ہے بلکہ ان میں تربیت کا فقدان بھی ہیجبکہ ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں کی اگر بات کی جائے تووہاں تعلیم کے ساتھ تربیت ایک لازمی امر ہے۔میرے ایک جاننے والے امریکہ میں ہوتے ہیں اُنھوں نے مجھے اپنے بچوں کاہوم ورک کارڈ بھیجا جس میں والدین کے لیے ایکٹیویٹی دی گئی تھی جو کچھ یوں تھی کہ بچے کو بٹھاکر پوچھنا ہے کہ آج اسکول میں دِن کیسا گزرا؟ وہ جب بتانے لگ جائے تو آپ اس کی بات کاٹ کردوسرا سوال پوچھیں۔جب وہ اس کا جواب دینے لگے توپھر اس کی بات کاٹیں اور تیسرا سوال پوچھیں۔جب وہ بات مکمل کرلے تو آپ اس سے پوچھیں کہ میراآپ کی بات کاٹنا، آپ کو کیسا لگا؟ وہ یقیناکہے گاکہ مجھے برا لگاتو آپ اس کو بتائیں کہ تم نے بھی کسی کی بات نہیں کاٹنی،کیوں کہ ا س سے دوسرے انسان کو تکلیف ملتی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بچوں کی تربیت میں ہم فرسودہ خیالات کو چھوڑکر ان حقائق کو تسلیم کرلیں جس کا تقاضا آج کی دُنیاکررہی ہے۔اپنے بچوں میں Imagination کی قابلیت بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جائے۔یادرکھیں کہ جس چیز اور عادت کی انسان تعریف کرتا ہے تو وہ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو آزادی دیجیے۔سوچنے کی آزادی اور کوئی نیاقدم اٹھانے کی آزادی۔ان کے خیالات کو مقیدکرنے کی کوشش نہ کیجیے،کیوں کہ روئے زمین پر موجود ہر انسان اپناتخیل اپنے ساتھ لاتا ہے۔جب اس کے تخیل کو آپ کھلاچھوڑدیں گے توہوسکتا ہے کہ وہ ایسے آئیڈیاز اور خیالات لے کر آئے جو نہ صرف اس کی ذات کے لیے بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کے لیے بھی فائدہ مند ہو ں۔تیسری چیز بچے کی خودشناسی ہے۔آپ اپنے بچے کو جاننے کی کوشش کیجیے، اس کامزاج،اس کی فطرت اور اس کے رجحان کونوٹ کیجیے اور اس سلسلے میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیجیے۔وہ جس کام کارجحان رکھتا ہے اس کے متعلق نئی معلومات اُنھیں فراہم کریں اور اُنھیں اپنے ہیروز سے ملوانے کی کوشش کیجیے۔
آپ کی زندگی کا وژن کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہی آپ کی زندگی کو اہم بناتا ہے۔وژن والاانسان قربانی دیتاہے۔وہ روکھی سوکھی کھاکر بھی گزارا کرلیتا ہے۔وہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں نہیں پڑتا،وہ اپنی زندگی کا ہر قدم اپنے وژن کے مطابق اٹھاتا ہے۔وہ اپنے اندر کی دُنیا کو بڑا کرتا ہے تو باہر کی دُنیا بھی اس کے لیے وسیع ہوجاتی ہے۔وژن کی طاقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ہم جس آزاد مملکت میں رہ رہے ہیں یہ بھی ایک وژن کے تحت وجودمیں آیا تھا۔آج ہم مسائل کا شکار ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہمارے پاس انفرادی اور اجتماعی طورپر وژن نہیں ہے۔اگر وژن کا تعین ہوجائے تو ہم ایک بہترین انسان اور ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں لیکن وژن سے پہلے اپنی Imaginationکوجگاناہوگا۔
ایڈیسن کو دنیا کا سب سے بڑا موجد شمار کیاجاتا ہے۔اس نے تقریباً 1249ایجادات دنیا کو دی ہیں۔اس سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی اس شاندار قابلیت کے پیچھے کون سی وجہ تھی؟اس کاجواب تھا:”Imagination، اگر آپ Imaginativeنہیں ہیں توزندگی میں کوئی بڑاکام نہیں کرسکتے۔“