واصف علی واصفؒ۔ شخصیت، فکر اور فلسفہ
(قاسم علی شاہ )
یہ دنیا ریلوے اسٹیشن کی طرح ہے جہاں کوئی مسافر آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں کسی کو بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اگر چہ یہاں سے چلے جاتے ہیں مگر ان کے افکار، ان کی باتیں اور ان کے خیالات ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ یہ لوگ خوشبو کی طرح ہوتے ہیں جو نظر تو نہیں آتے مگر دِل و دماغ کو معطر ضرور کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت آج سے 28 سال پہلے بھی گزری ہے جو’’واصف علی واصف‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے.
▪️ابتدائی زندگی
واصف علی واصف 15جنوری 1929ء کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقے سے حاصل کی۔ مڈل پاس کرنے کے بعد آپ کے والد نے انہیں جھنگ بھیجنے کا فیصلہ کیا ، جہاں ان کے نانا رہتے تھے۔ ان کے نانا ماہر تعلیم اور ایک قابل انسان تھے۔ واصف علی واصف کو ان کے پاس بھیجنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے نانا کی سرپرستی میں وہ بھی ایک قابل انسان بنیں۔ 1944ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ سے ایف۔ اے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج جھنگ سے بی ۔ اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی کے اس امتحان میں آپ نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے ایم ۔ اے انگریزی میں داخلے کا فیصلہ کیا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور آئے اور ذوق و شوق کے ساتھ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ آپ کالج کی مختلف سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اپنی قابلیت کی بناء پر 1949ء میں آپ کو ’’ایوارڈ آف آنر‘‘ سے بھی نوازا گیا.
▪️عملی زندگی
3 جون 1954ء کو آپ نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا، لیکن اپنی درویش طبیعت کی وجہ سے سرکاری عہدے کو چھوڑ کر تدریس کا میدان اختیار کرلیا۔ کچھ عرصے بعد ریگل چوک کے پاس ایک کالج میں پرائیوٹ کلاسوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ 1962ء پرانی انار کلی نابھہ روڈ کے پاس آپ نے ’’ لاہور کالج آف انگلش‘‘ کے نام سے اپنے ادارے کی بنیاد رکھی جہاں وہ اپنی تدریسی خدمات سرانجام دینے لگے۔ آپ ایک مشفق استاد تھے اور صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ آنے والے ہر انسان سے بڑے پیار و شفقت سے پیش آتے۔ اس ادارے سے آپ کا مقصد خیر بانٹنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے کبھی پیسوں اور مال و دولت کمانے کی فکر نہیں کی۔ ادارے پر کچھ سخت حالات بھی آئے مگر آپ ہمیشہ پرسکون رہے اور فرمایا کرتے:
’’ اللہ کا ولی وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی آئے یا جائے، بس دِل سے اللہ کی یاد نہ جائے۔‘‘
آپ کے اسی خلوص کا نتیجہ تھا کہ کچھ ہی عرصے میں ادارہ بچوں سے بھر گیا اور آپ کے اندر مخلوق کو دینے کا جذبہ بھی بڑھتا گیا۔ ایک دِن ایک مزدور نما انسان باہر سے گزر رہا تھا، اس نے کسی استاد کے پڑھانے کی آواز سنی تو وہ کچھ دیر کے لیے رُکا اور پھر اس کی یہ عادت بن گئی ۔وہ روزانہ آتا اور وہاں کان لگا کر کھڑا ہو جاتا۔ ایک دِن وہ دیوار کے ساتھ کان لگا کر سننے میں مصروف تھا کہ ایک مہربان ہاتھ کو اس نے اپنے کندھے پر محسوس کیا، مڑ کر دیکھا تو وہ واصف علی واصف تھے۔ اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے واصف صاحب اسے اپنے ساتھ لائے اور پڑھانا شروع کیا۔ بعد میں اس آدمی نے ایم ۔ اے کیا اور وکالت کا امتحان بھی پاس کیا۔ ایک اجنبی شخص کو راستے سے پکڑ کر کلاس میں لانا، پھر اس کو پڑھانا اور ایک قابل وکیل بنانا وہی انسان کرسکتا ہے جو مخلوقِ خدا کو کچھ دینے کا جذبہ رکھتا ہو۔
▪️کردار و شخصیت
واصف علی واصف شخصیت کے اعتبار سے ایک پرکشش انسان تھے۔ اپنے خیالات و افکار کی طرح لباس بھی بڑا نفیس پہنتے۔ جو بھی انہیں دیکھتا پہلی نظر میں ان کی وجاہت سے متاثر ہو جاتا۔ باتوں کی طرح ان کی عادات و اطوار سے بھی تہذیب و سلیقہ جھلکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عمدہ اخلاق میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ وہ ہر انسان سے محبت کرتے تھے۔ کسی کے ساتھ معمولی تعلق بھی ہو تو اس کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ ان کے گھر میں ایک دودھ دینے والا آتا تھا۔ ایک دفعہ واصف صاحب نے اس سے پوچھا کہ آپ کی تعلیم کیا ہے؟ لڑکا بولا:’’ میٹرک ‘‘آپ نے کہا : ’’کل سے کتابیں لے کر آجانا۔‘‘وہ آگیا، آپ نے پڑھانا شروع کر دیا اور کچھ عرصے بعد اس نے بی ۔ اے کر لیا۔ مجھے ایک الیکٹریشن ملا جو ان کے گھر کے کام کرتا تھا، اس کو جب معلوم ہو اکہ واصف صاحب کے ساتھ میرا کچھ تعلق ہے تو وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر رونے لگا ۔ میں نے وجہ پوچھی تو وہ بولا:’’میری زندگی میں واصف صاحب وہ انسان تھے جنہوں نے میرے ہاتھ پکڑ کر کہا تھا کہ یہ ہاتھ تو سونا بنانے والے ہیں، محنتی انسان کو تو اللہ نے بھی اپنا دوست کہا ہے۔‘‘
▪️جملے جو زندگی بدل دیں
بچوں کو پڑھاتے ہوئے ایک دفعہ کسی طالب علم نے سوال کیا کہ سر! شارٹ اسٹوری کیا ہوتی ہے؟ آپ نے جواب دیا: ’’وہ اسٹوری جو شارٹ ہو۔‘‘سننے والے بڑے حیران ہوئے کہ اتنے مختصر الفاظ میں کس قدر خوبصورت جواب۔ یہیں سے ان کے جملہ سازی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے جملوں میں اس قدر خوبصورتی ہوتی تھی کہ صرف مخاطب ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جو شخص اس کو سنتا، وہ الفاظ کے چناؤ اور مفہوم کی وسعت پر حیران رہ جاتا۔ اللہ نے انہیں علم و حکمت سے نوازا تھا۔ ان کا شجرہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ وہ صحابی رسول ہیں جنہیں ’’باب العلم‘‘(علم کا دروازہ) کہا جاتا ہے۔ ان کے جملوں اور اقوال سے بھی علم و حکمت کے ایسے نایاب موتی انسان کے ہاتھ آتے ہیں جن کی بدولت وہ اپنی زندگی سنوار سکتا ہے۔ اسی علوی نسبت کی بدولت واصف علی واصف کو بھی اللہ نے وہ ملکہ عطا کیا تھا کہ وہ مختصر جملہ بولتے، لیکن اس کا معنی و مفہوم بہت بڑا ہوتا۔ اللہ نے انہیں ایسی بصیرت عطا کی تھی جس کی بدولت وہ جان لیتے کہ میں ابھی جو جملہ بول رہا ہوں وہ موجودہ لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ آنے والے وقت میں کسی شخص کے لیے ہے۔ یہ جملہ کسی نہ کسی صورت اس تک پہنچے گا اور اس کی زندگی بدل دے گا۔ وہ فرماتے کہ ’’نہ سوال تمہارے ہیں، نہ جواب ہمارے ہیں یہ تو آنے والے لوگوں کے لیے آرہے ہیں۔ ‘‘
▪️فکر و فلسفہ
سچے انسان کی باتیں اور افکار اپنے زمانے سے نکل کر اگلے زمانوں میں چلے جاتے ہیں۔ اپنی بات کو دوسرے زمانے تک پہنچانا، اللہ کی کرم کی دلیل ہے۔ واصف علی واصف اس کرم سے نوازے گئے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انہیں دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے 28 سال ہوگئے لیکن ان کی باتیں اور اقوال آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور اہل دانش تو یہاں تک کہتے ہیں کہ واصف صاحب کی کتابیں کسی اکسیر سے کم نہیں۔ واصف صاحب فرماتے: ’’پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ خیالات کے بیمار انسان کے لیے آج واصف صاحب کی باتیں دوا کا کام دیتی ہیں۔
ان کی پہلی نثری کتاب ’’کرن کرن سورج‘‘ ہے جو مختصر جملوں اور اقوال پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پڑھنے والوں کو حکمت بھی دیتی ہے اور اللہ کا قرب بھی۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں: ’’اس دنیا میں انسان نہ کچھ کھوتا ہے، نہ پاتا ہے۔ وہ تو صرف آتا ہے اور جاتا ہے۔ ‘‘یہ جملہ یقینی طورپر دنیا کی بے ثباتی کا پیغام دیتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ دنیا ایک فانی چیز ہے، اصل گھر آخرت کا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب بند ہونے کو ہوتی ہے۔ ‘‘یہ جملہ اپنے اندر ایک بہترین پیغام رکھتا ہے۔ نفس و شیطان انسان کو گمراہ کرتا ہے کہ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ ابھی جو مرضی ہو کرلو بعد میں توبہ کرلینا۔ ساری عمر گزارنے کے بعد جب موت انسان کے سرپر آجاتی ہے تب اس کو توبہ یاد آتا ہے لیکن تب دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوتا ہے۔ لہٰذا نجات اسی میں ہے کہ غفلت کی چادر کو اتار لیا جائے۔ ان کے چند ایک بہترین جملے مزید بھی ملاحظہ کیجیے :
’’ دور سے آنے والی آواز بھی اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔‘‘
’’جس نے ماں باپ کا ادب کیا، اس کی اولاد بھی مودب ہوگی۔۔۔ نہیں تو نہیں۔‘‘
’’خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔‘‘
’’بدی کی تلاش ہو تو اپنے اندر جھانکو، نیکی کی تمنا ہو تو دوسروں میں ڈھونڈو۔‘‘
’’آسمان پر نگاہ رکھو لیکن یہ نہ بھولو کہ پاؤں زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔‘‘
ان کی دوسری کتاب ’’دِل دریا سمندر‘‘ اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو اپنے وقت کے ایک معروف اخبار میں چھپتے رہے اور قارئین کو ان کے پڑھنے کا شدید انتظار ہوتا۔ اس کتاب میں محبت، دُعا، چہرہ، سکون قلب، فیصلہ، آرزو اور حاصل آرزو، خوش نصیب اور رزق جیسے موضوعات پر بہترین مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین اس قدر مقبول ہوئے کہ سرحد پار (بھارت ) بھی چلے گئے اور وہاں بھی اس کتاب کا ایک ایڈیشن شائع ہوا۔ کسی نے واصف صاحب کو اس پر ایکشن لینے کا کہا تو ان کا جواب تھا ـ ’’ کوئی بات نہیں، وہ ہمارا ہی کام کر رہے ہیں۔ ‘‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شہرت اور معاوضے کی پروا سے آزاد ہوچکے تھے اور صرف اپنے مقصد (نفع مند ہونے) کو اہمیت دیتے تھے۔
نثر میں ان کی تیسری کتاب ’’قطرہ قطرہ قلزم ‘‘ ہے جو کہ تقرب الٰہی اور معرفتِ الٰہی کے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا ایک جملہ ملاحظہ کیجیے جو حکمت سے بھرپور ہیں:
’’کسی چیز کو چھوٹا سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو اسے دور سے دیکھا جائے یا غرور سے دیکھا جائے ۔‘‘
ان کی چوتھی کتاب ’’حرف حرف حقیقت ‘‘ ہے۔ یہ بھی ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ایک معروف روزنامے میں شائع ہوتے رہے۔ یہ کتاب ’’الفاظ، انسان اور انسان، کائنات اور کائنات، آدھا رستہ، جواز ہستی، رابطہ، ضمیر کی آواز، معلوم اور نامعلوم، آخری خواہش ‘‘ جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔
’’دریچے ‘‘وہ کتاب ہے جس میں واصف صاحب کے چھوٹے چھوٹے اور آسان جملوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ ایسے جملے ہیں جو پڑھنے والے کے دِل پر اثر ضرور کرتے ہیں۔ یہ بغیر کسی مشکل کے ہر قاری کی سمجھ میں آجاتے ہیں اور یوں ان پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پھر وہ انسان پہلے خود بہترین بنتا ہے اور بعد میں دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند بن جاتا ہے۔
ان کی دیگر کتابوں میں ’’بات سے بات ‘‘، ’’ذکرحبیب ﷺ‘، ’’شب چراغ‘‘، ’’شب راز‘‘،’’بھرے بھڑولے‘‘، ’’مکالمہ‘‘اور گفتگو کے نام پر 30 کتابوں کا ایک سلسلہ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے یہ جملے فقط الفاظ نہیں تھے بلکہ ان میں ایسی الہامی جھلک ہوتی تھی جو سننے والوں کے دِل پر لگتی اور انہیں عمل پر مجبور کرتی تھی۔
واصف علی واصف کی زندگی سے ہمیں اخلاص ، محبت ،عشق مصطفی ﷺ اور عشق خدا ، انسانوں کے لیے نفع مندہونا،خیالات کی درستی، دنیا سے بے غرضی ،آخرت کی فکر اور ایثار و ہمدردی کا بہترین سبق ملتا ہے۔آج اگرچہ دنیا نے بے تحاشا ترقی کرلی ہے لیکن معاشرے سے اجتماعیت ختم ہوگئی ہے۔احساس کمزور ہوگیا ہے ۔حرص ، لالچ اور خود غرضی بڑھ گئی ہے اور انسان کو دوسرے انسان سے بھی خوف آنے لگا ہے ۔ایسے میں اگرہم واصف علی واصف کے افکار کو اپنی زندگیوں میں لاکران پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری زندگی سنور سکتی ہے۔یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے معاشرتی زوال کا ایک بہترین حل بھی۔