زندگی کے وہ حقائق جنھیں تسلیم کرنا چاہیے
(قاسم علی شاہ)
’’وہ شخص اندھا ہے جس کے پاس آنکھیں تو ہیں لیکن وژن نہیں ہے۔‘‘
یہ بہترین قول ’’ہیلن کیلر‘‘ کا ہے۔ہیلن کیلر وہ خاتون تھی جوکہ پیدائشی طورپر بہری اور اندھی تھی۔آپ انداز لگائیں،بچپن کی عمر جو سیکھنے کی عمر ہوتی ہے، اس میں بچہ دیکھنے اور سننے کی بدولت ہی سیکھتاہے لیکن بدقسمتی سے ہیلن کے پاس یہ دونوں نعمتیں نہیں تھیں،جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ زندگی بھر کچھ سیکھ نہیں سکے گی۔والدین اس کی طرف سے مایوس ہوگئے تھے لیکن پھر کچھ ایسا ہوگیا کہ جن پر دنیا حیران رہ گئی۔لیکن کی زندگی میں ایک ٹیچر آئی اور اس ٹیچرنے اپنا وژن بنالیا کہ اس نے ہیلن کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ پڑھ اور لکھ سکے۔لیکن سب سے مشکل کام یہ تھا کہ ہیلن کے دماغ تک یہ بات کیسے پہنچائی جائے کہ کس چیز کا کیا مطلب ہے۔ وہ لگاتامحنت کرتی رہی اور مختلف طریقوں سے ہیلن کوسمجھانے کی کوشش جاری رکھی۔شاید قدرت کو ٹیچر کی محنت پر رحم آگیا، ہیلن کے دماغ میں جھماکاہوااور وہ آہستہ آہستہ چیزوں اور الفاظ کو سمجھنا شروع ہوگئی، یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ہیلن کی کامیابی میں خود اس کی اپنی ہمت بھی شامل تھی۔سب سے پہلے اس نے اپنی معذوری کو تسلیم کیااو ر پھر اپنی محرومی پر رونے دھونے کے بجائے اس نے اس نعمت کو استعمال کرناشروع کیا جو اس کے پاس موجود تھی۔وہ لمس کی طاقت تھی۔اس نے چیزوں کو سمجھنا شروع کیا اور پھر اس قدرماہر ہوگئی کہ کسی شخص کے ہونٹوں یاگلے پر ہاتھ رکھ بتادیتی تھی کہ یہ انسان کیا بول رہاہے۔اسی حس کی بدولت انھوں نے اپنا سفر آگے بڑھایا، گریجویشن تک تعلیم مکمل کی اور ایک بہترین لیکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی بن گئی۔
میرے دفتر میں روزانہ کئی سارے لوگ آتے ہیں۔جن میں میرے دوست بھی ہوتے ہیں اور شاگرد بھی۔مجھے جوانوں کی اکثریت کی طرف سے یہ شکایت ملتی ہے کہ زندگی بہت مشکل ہے، ہمارے سامنے کئی سارے مسائل اور رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے ہم آگے نہیں بڑھ پارہے۔میں انھیں یہی کہتاہوں کہ یہ زندگی غمی اورخوشی، مواقع اور مشکلات کاایک مکمل پیکج ہے۔ان سب کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے آپ نے آگے بڑھنا ہے۔اگر آپ اپنی زندگی میں صرف مشکلات کو ہی دیکھتے رہیں گے اور ان کے حل ہونے کاانتظار کرتے رہیں گے تو پھرسالوں بعد بھی آپ اسی مقام پر ہوں گے۔
ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں 80فی صد کام اچھے ہورہے ہوتے ہیں اورصرف 20فیصد حالات ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں پریشان کردیتے ہیں لیکن ہمارا نفس ہمیں صرف یہی 20فیصد مسائل ہی دکھاتاہے اور اسی وجہ سے ہم پوری زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔
جب میں کسی فرد کو خاندان، شہر یا زمانے کی شکایت کرتے دیکھتا ہوں تو میرے سامنے تاریخ کے کئی چہرے آجاتے ہیں جو ایک معمولی جگہ، عام سے خاندان اور ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جوبنیادی سہولیات سے بھی محروم تھالیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ دنیا حیران رہ گئی۔
روس اور چین کے درمیان منگولیانامی ایک ملک ہے جو کہ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہے۔یہاں سال کے بیشتر اوقات درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے رہتا ہے اورپورا سال برفانی طوفان آتے رہتے ہیں۔اسی ملک میں آج سے نو سوسال پہلے ایک منگول سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام تموجن رکھا گیا۔آنے والے وقتوں میں اس بچے نے تاریخ کا دھارابدل کررکھ دیا۔ گیارہ سال کی عمر میں اس کے باپ کو قتل اور اس کو قیدی بنالیا گیا۔لیکن وہ نہ صرف اس قید سے فرار ہوا بلکہ اس نے آپس میں لڑنے والے قبیلوں کو متحد کیا اور ایک مضبوط فوج کی بنیاد رکھی جس نے دنیا کی بڑی افواج کو شکست دیتے ہوئے اس وقت کے تہذیبی اور علمی مراکز سمرقند، بخارا اور بغداد کوبھی فتح کرڈالا۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ دشوار گزار مقام اورمشکل حالات انسان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتے۔اگرکوئی کچھ کرنا چاہتاہے تو وہ کرگزرتاہے۔
زندگی کی دوسری بڑی حقیقت ہماراجسم ہے جس کو ہمیں قبول کرنا ہوگا۔آپ کی صحت اچھی ہے یا بری۔آپ کا رنگ کالا ہے یا گورا۔آپ کا قد لمباہے یا چھوٹا۔ان چیزوں پر آپ کا اختیار نہیں۔آپ جیسے بھی ہیں آپ نے خود کو قبول کرناہوگااور اسی جسم کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھناہوگا۔جیسے ہیلن کیلر نے کردکھایا۔اسی طرح نک وائے چچ نے اپنے بونے پن کو مجبوری نہیں بنایااور آج دنیا کا بہترین موٹیویشنل اسپیکر، کئی کتابوں کامصنف اور ایک مالدارترین انسان ہے۔تیمور لنگ نے ٹانگ کی معذوری کے ساتھ دنیا کے بہترین افواج کامقابلہ کیا۔نپولین نے اپنے چھوٹے قد کو اپنے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اور جدید فرانسیسی ریاست کی بنیاد رکھی۔
زندگی کی تیسری بڑی حقیقت ناموافق حالات کو قبول کرناہے۔اگرہم اسی انتظار میں بیٹھے رہیں گے کہ حالات ٹھیک ہوں گے پھر میں کچھ کروں گاتویقین کیجیے کہ آپ کا انتظار کبھی ختم نہیں ہوگا۔کیوں کہ زندگی کبھی انسان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتی۔اچھے دنوں کاانتظار اکثر ضائع چلاجاتاہے۔جو بھی ہے ابھی کرنے کاہے۔مشہور کہاوت ہے کہ ’’ابھی نہیں توپھر کبھی نہیں‘‘۔
دشوارگزار حالات کے باوجودخود کوکامیاب ثابت کرنے والے لوگوں میں سے ایک بڑانام ’’اسٹیوجابز‘‘ کاہے۔بچپن میں اس کا باپ اسے چھوڑ گیا تھا، اس کی ماں اسے پال نہیں سکتی تھی لہٰذا اس نے بھی اسٹیوکوچھوڑدیااور ایک اورخاندان نے اس کو گود لیالیکن ان ساری محرومیوں اور مشکلات کے باوجود بھی اسٹیوجابز نے اپنے شوق کو ماند نہیں ہونے دیا۔وہ اپنے مقصد میں لگارہا۔دن بدن اس کا جنون بڑھتاجارہا تھا اورپھر ا س نے ایسی ایمپائر کھڑی کردی کہ آ ج وہ دنیا بھرکے لیے ایک مثال ہے۔
زندگی کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ لگے بندھے اصولوں پر نہیں گزاری جا سکتی۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص نے اس طرح کیا تومیں بھی ایساہی کروں گا۔زندگی میں ہمیشہ اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔انسان کو ہمیشہ لچک کامظاہرہ کرنا چاہیے۔بہت ساری چیزوں کو برداشت کرناپڑتاہے۔اکثر اوقات جواب دینے کے بجائے خاموش رہناپڑتاہے۔درگزر سے کام لینا ہوتاہے اور کبھی کبھار چیزوں کو چھوڑنا بھی پڑتاہے۔
زندگی کی اس حقیقت کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی کام کوشروع کرنے کا کوئی بہترین وقت نہیں ہوتا۔ اکثرلوگ کسی کام کو شروع کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جس وقت آ پ کوئی فیصلہ کرلیتے ہیں تووہی اس کام کے کرنے کابہترین وقت ہوتاہے۔اگر آپ اپنے کاموں کو پیچھے دھکیلتے رہیں گے تو وہ کبھی پورے نہیں ہوں گے۔
بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے اردگرد منافق لوگ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں زندگی میں دھوکا بازی اور منافقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن آپ نے ایسے لوگوں کے درمیان رہ کر خود کو ایمان دار ثابت کرنا ہے تب ہی آپ ان سے ممتاز بنیں گے اوراسی میں آپ کی کامیابی ہے۔
ایک اصول یہ بھی یادرکھیں کہ جیت ہمیشہ آپ کی نہیں ہوتی، کبھی کبھار آپ کو ہارنا بھی پڑتاہے۔شاہراہ زندگی پر چلتے ہوئے کبھی کبھار انسان گربھی جاتاہے لیکن گرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ کھیل ختم ہوگیا بلکہ یہ تو کھیل کاحصہ ہے۔آپ نے اٹھنا ہے، خود کو جھاڑنا ہے اورمستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب آگے بڑھنا ہے۔
زندگی کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر انسان کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ہم چاہے جتنے بھی جتن کرلیں سب کوراضی نہیں کرسکتے۔کوئی نہ کوئی شخص ہم سے ضرور گلہ رکھے گا اور ناراض ہوگا۔اسی لیے سب کو راضی کرنے کی فکر چھوڑئیے اور رب کو راضی کرنے کی فکرشروع کیجیے۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ دوسروں کی ناراضی کے ڈر سے ہم انھیں انکار نہیں کرسکتے لیکن انکار نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے اپنے کئی سارے کام تاخیر کاشکار ہوجاتے ہیں۔آپ کواپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہونا پڑے گااورانکار کرناسیکھناہوگا۔وگرنہ آپ کی ترجیحات دوسرے لوگ طے کریں گے اور آپ اپنی منزل سے بہت دورچلے جائیں گے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم وہی زندگی بسر کرتے ہیں جو اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔اسی منتخب شدہ زندگی میں اگرہم کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں تو ناکامیاں بھی ہمیں تسلیم کرنی ہوں گی اور اور دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے ان کابوجھ خود ہی اٹھانا ہوگا۔ہمیں یہ قبول کرنا ہو گا کہ زندگی کا یہ راستہ ہم نے خود منتخب کیاہے اور ہم ہی اس کے مکمل طورپر ذمہ دار ہیں۔
یہ زندگی کے وہ حقائق ہیں جس سے ہر انسان کو واسطہ پڑتاہے۔آپ نے زندگی کی شاہراہ پر چلنا ہے تو ان سپیڈ بریکرز کا سامنا کرناہوگا اور ان حقائق کو جواز بناکر آپ اپنی ناکامیوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے کیوں کہ ماضی میں جولوگ کامیا ب ہوئے ہیں وہ آپ سے زیادہ مشکل حالات میں تھے۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ان حقائق کو ہنسی خوشی قبول کیاجائے اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے خود کو منفرد اور ممتاز بنایاجائے۔تب ہی آپ کی زندگی ایک کامیاب اور خوش حال زندگی بن سکتی ہے۔