مقصد کے بغیر زندگی کچھ نہیں

مقصد کے بغیر زندگی کچھ نہیں
(قاسم علی شاہ)

مرتبے کے لحاظ سے تو وہ ایک سیکیورٹی گارڈ تھا لیکن جس جذبے اور عزم کے ساتھ اس وقت وہ اپنی کرسی پر بیٹھاتھا ،وہ قابل تحسین تھا۔اچانک گیٹ پر ایک عام سے حلیے کا شخص آیا۔اُس نے ایک لمحے کے لیے سکیورٹی گارڈ کو گھورا اور پھر پوچھا: ’’تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟‘‘ نووارد کے لہجے کااعتماد اور آواز کا بھاری پن بتارہا تھا کہ وہ کوئی عام بندہ نہیں۔سکیورٹی گارڈ بولا:’’ جناب! امریکہ نے خلا ء میں اپنا شٹل بھیجنے کاپروگرام بنایا ہے ، میں اس مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہاں بیٹھا ہواہوں۔‘‘ نووارد نے یہ بات سنی تو اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔اُس نے سیکیورٹی گارڈ کے کندھوں کوتھپتھپایا اور ’’ویلڈن‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
یہ اجنبی شخص اُس وقت امریکہ کا صدر ’جان ایف کینیڈی‘ تھا۔اُس زمانے میں روس نے خلا ؤں کو تسخیر کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ بات امریکہ کو ہضم نہیں ہورہی تھی چنانچہ خلا میں سب سے پہلے پہنچنے کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے اُس نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خلائی مشن پر کام شروع کیااورپوری قوم کے دماغ میں یہ بات بٹھادی کہ یہ نہ صرف ہماری سا لمیت بلکہ ملکی وقار کابھی سوال ہے۔اِس ’ذہن سازی‘ کا اثر سکیورٹی گارڈ پر بھی پڑااور کم تر پیشے کے باوجود بھی اُس کے ذہن میں اعلیٰ مقصدکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا خواب رچ بس گیا۔

NASA
اِس وقت دنیا کاایک بڑا خلائی ادارہ بن چکا ہے جس کے دامن میں بے شمار کامیابیاں پڑی ہوئی ہیں لیکن 1969ء میں شروع کیے جانے والے پہلے مشن کے دوران ، گیٹ پر اپناکام سرانجام دینے والے اُس سکیورٹی گارڈ کو آج بھی اس نسبت سے یاد کیا جاتاہے کہ اُس نے ایک بڑے مشن کی تکمیل میں اپناحصہ ڈالا تھا۔
وژن اور مشن کے موضوع پر مطالعہ کرتے ہوئے ایک مفکر کا قول میری نظروں سے گزرا جو مجھے بہت اچھا لگا ۔وہ کہتاہے:
’’میں کسی ایسے مشن میں ناکام ہوجاؤں جس نے آخر کارکامیاب ہونا ہے،یہ اس سے بہتر ہے کہ میں کسی ایسے مشن میں کامیاب ہوجاؤں جس نے آخر کارناکام ہونا ہے۔‘‘

زندگی اللہ کی طرف سے عطاکردہ ایک بیش قیمت سرمایا ہے مگر یہ اس وقت تک ادھوری رہتی ہے جب تک اس کو کسی مشن اور مقصد کے ساتھ نہ جوڑلیا جائے ، کیوں کہ بامقصد زندگی گزارنے والا انسان مرکر بھی زندہ رہتاہے اور بے مقصد جی کر بھی مرا ہوا ہوتاہے۔دنیا میں آنے والا ہر انسان اپنے ساتھ ایک مقصد لے کر آتاہے مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ دنیا کے تماشے میں اِس قدر گم ہوجاتاہے کہ وہ اپنے مقصد کو ہی بھول جاتاہے اور بے مقصد چیزوں کو اپنی منزل بنالیتاہے۔ایسے انسان کو جب ہوش آتی ہے تو اُس کی ساری زندگی نکل چکی ہوتی ہے اور پھر اُس وقت افسوس کے ہاتھ ملنے کے سوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

فطرت کے پورے نظام میں مقصدیت کا پیغا م پوشیدہ ہے ۔سور ج طلوع ہوتاہے تواُ س کا مقصد زمین کو روشن کرنا اور اپنی تپش سے انسانوں کوفائدہ دیناہوتاہے۔چاندنکلتاہے تو وہ اپنا مقصد مکمل ہونے تک روز رات کو جگمگاتاہے ۔پرندے صبح اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں تو اپنا مقصدپوراہونے تک واپس نہیں آتے۔بس انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو اپنے مقصدحیات سے اکثر غافل ہوتی ہے۔

یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ ہمیں اِس زمین پر ایک مقصد کے لیے بھیجاگیا ہے۔ہم ایک بڑی تصویر کا حصہ ہیں۔ ہر وہ شخص جو ایک عام سی زندگی پر سمجھوتاکرلیتا ہے تو پھر وہ بلندیاں بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ہم میں سے اکثر لوگ دنیا میں آکر بھی صرف زندہ رہتے ہیں اوراپنی زندگی کے دن گنتے گنتے قبر تک پہنچ جاتے ہیں۔ آئن سٹائن کہتاہے :’’ہمیں کیوں پیداکیا گیا؟اگر کائنات حادثہ ہے تو ہم بھی حادثہ ہیں لیکن کائنات کے کوئی معنی ہیں توہم میں بھی معنی ہیں۔میں فزکس کاجتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا ہی میٹافزکس (مابعد الطبیعیات)کی طرف کھنچاجاتاہوں۔‘‘

مقصد کی اہمیت اِس کہانی سے اچھے انداز میں سمجھ آجاتی ہے۔
’’بھوک نے شیر کو ستایاہوا تھا ۔صبح سے کوئی شکاراُس کے ہاتھ نہیں آیا تھا۔اچانک قدرت مہربان ہوگئی اور اس کی نظر ایک ہرنی پرپڑی ۔بس پھر کیا تھا۔اُس کے حواس بیدار ہوگئے ، رگیں تن گئیں اور وہ ہرنی پر جھپٹنے کے لیے تیار ہوگیا۔ہرنی کوبھی احساس ہوگیا کہ مجھے شکارکیاجارہا ہے ۔وہ چوکنی ہوگئی اور پھر انتہائی تیزی سے بھاگی۔شیر اس کے پیچھے پیچھے اوروہ آگے آگے۔شیر اپنی پوری قوت سے دوڑ رہا تھا لیکن ہرنی نے بھی آج جان بچانے کاپوراعزم کیا ہواتھا ۔شیر کے پسینے چھوٹنے لگے لیکن پوری کوشش کے باوجود بھی وہ ہرنی کو نہ دبوچ سکااور ہرنی اس کو چکمہ دے کر نکل گئی۔قریب ہی پہاڑ پر ایک نوجوان شیر بیٹھا ہوا تھا ۔اُس نے یہ سارا ماجرادیکھا تو وہ اتر آیا اور شیر سے بولا: ’’اب تم بوڑھے ہوگئے ہو، تمھاری رگوں میں اب وہ دم خم نہیں رہا ، بہترہے کہ اب تم جنگل کی سرداری سے دستبردار ہوجاؤاورکسی غار میں جاکر زندگی کے دن پورے کرو۔‘‘بوڑھا شیر بولا: ’’تم میری طاقت کا موازنہ ہرنی کی تیزرفتاری سے مت کرو، میرارُعب و دبدبہ آج بھی قائم ہے ۔ہرنی میرے ہاتھ سے نکل گئی تو اُس کی وجہ مقصد ہے۔میں اِس لیے اُس کو نہ دبوچ سکاکہ میرا مقصد صرف پیٹ تھا جبکہ وہ اِس لیے بچ کرنکل گئی کہ اُس کا مقصد جان بچانا تھا جو کہ میرے مقصد سے بہرحال بہتر تھا۔‘‘

انسان کی زندگی کا مقصد جس قدر عظیم ہوگا اُسی قدر ہی اُس کی نظروں میں وسعت اور جذبوں میں طاقت ہوگی اور وہ ہر طرح کے مشکل حالات سے خودکو نکال لے گا۔مقصدکی عظمت انسان کو عظیم بنادیتی ہے۔جیسے ایک پیچ کی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں لیکن جب یہ کسی جہاز میں فٹ ہوجاتاہے توپھر اس کی قیمت اوراہمیت ہزارگنابڑھ جاتی ہے۔مقصد کی عظمت انسان میں یکسوئی پیدا کردیتی ہے پھر وہ اُس بات سے بے نیاز ہوجاتاہے کہ لوگ کیاکہہ رہے ہیں اور میرے اردگرد کیاہورہاہے۔پھر راستے کی چھوٹی چھوٹی چیزیں اُس کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتیں اور نہ ہی وہ بے مقصد کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتاہے۔

زندگی کو ایک مقصد اور مشن سے جوڑنا اِسی لیے بھی ضروری ہے کہ اِس سے انسان کو درست سمت مل جاتی ہے اورپھر وہ بھٹکتانہیں ہے۔سمت کی درستی سے انسان کی ترجیحات بھی متعین ہوجاتی ہیں ۔اُس کو معلوم ہوتاہے کہ کون ساکام میں نے کرنا ہے اور کون ساچھوڑنا ہے۔جب انسان کی سمت درست نہ ہو تو پھر وہ اپنی ترجیحات بھی طے نہیں کرسکتا اور نہ ہی اُس کو معلوم ہوتاہے کہ میرے لیے کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ہاں اور ناں کرنا تب بہت آسان ہوتا ہے کہ جب ترجیحات کا پتا ہوتا ہے۔ یادرکھیں کہ زندگی گزارنا اہم نہیں ہے بلکہ ترجیحات کے ساتھ گزارنا بہت اہم ہے۔

بحیثیت مسلمان ہم پر فرض کی گئیں عبادات کا مقصد بھی ہمیں ہمارے Long Term Goal(آخرت) کی یاددہانی ہے۔نماز میں ہماری پہلی دعاہی یہ ہوتی ہے : ’’ ہم تجھ سے سیدھاراستہ مانگتے ہیں ۔‘‘سیدھا راستہ ہی دراصل انسان کا مقصد اور مشن ہے۔ایک ایسا راستہ جس میں وہ دنیا کی کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی کا بھی حق دار ہوتاہے اورتمام انسانیت کے لیے نفع مند مخلوق بنتاہے۔

مائیکل اینجلیو کہتاہے کہ’’ ایک انسان نے اعلیٰ مقصد بنایا اور پھر اس کو حاصل نہ کرسکایہ کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ بڑا نقصان تو یہ ہے کہ انسان کا مقصد بہت چھوٹا ہو اور وہ اس کو حاصل کرلے۔‘‘

ایک اعلیٰ مشن اور مقصد سے وابستہ انسان اپنی زندگی کی قدر کرتاہے۔اُس کو اِس بات کا ادراک ہوجاتاہے کہ دنیا میں بار بار نہیں آنا ، میر ے پاس اُس وقت تک ’چانس‘ ہے جب تک ’ سانس‘ ہے ۔ اِسی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنی پوری توانائیاں اپنے مشن اور مقصد کے لیے لگادیتا ہے ۔زندگی کو قیمتی تصور کرنے کا یہ جذبہ انسان میں شکر گزاری کا احساس پیدا کردیتاہے۔ اپنی جسمانی نعمتوں کے ساتھ ساتھ وہ خیال کی اُس دولت پربھی شکرگزارہوتاہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نوازاہوتاہے۔شکرگزاری کایہ جذبہ اُس پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتاہے ۔وہ دلی سکون سے نوازدیاجاتاہے اوروہ پوری لگن کے ساتھ اپنی منزل کو پانے میں لگ جاتاہے۔

مشن کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزارنے والا شخص اپنی زندگی میں آنے والے ہرنئے دن کو ایک نیا موقع سمجھتاہے۔وہ اِس سوچ کے ساتھ دن کا آغاز کرتاہے کہ آج کا دن میرے پاس ایک شاندار موقع ہے جس کی بدولت میں اپنی منزل کی جانب کئی سارے قدم اٹھا سکتاہوں۔یہ سوچ جس انسان کی بھی ہوتی ہے تو اُس کی توانائی کی سطح بڑھتی جاتی ہے اور وہ پھر مشکل اور ناموافق حالات سے بھی دلبرداشتہ نہیں ہوتا۔ایسے شخص کو اپنے کام سے محبت ہوجاتی ہے اورپھر وہ محبت کے ساتھ کام کرنا سیکھ جاتاہے۔ایسے میں پھر وہ تھکتابھی نہیں ، اگر تھک جائے تو یہ تھکاوٹ اُس کو مزہ دیتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اُس کی جذباتی اور ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرات چھوڑتی ہے۔

اپنا مقصد ہمیشہ بڑا رکھنا چاہیے لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں توپھر کسی بڑے مشن کا ایک چھوٹاساحصہ ہی بن جائیے۔ آپ جب بھی اپنے وژن اور مشن کے راستے پر گامزن ہوں گے تو آپ کو سب سے بڑا انعام ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کا ملے گا۔آپ کادل تنگ نہیں ہوگا ۔اعلیٰ ظرفی کاایک بھرپور فائدہ یہ ہوگاکہ زندگی کے معمولی حالات اور مشکلات پھر آپ کے راستے کی رُکاوٹ نہیں بن پائیں گی اور نہ ہی آپ جلدحوصلہ اور ہمت ہاریں گے۔آپ کا دل دوسرے انسانوں کے لیے بھی تنگ نہیں ہوگا۔اس مشن میں آنے والے ہر انسان کو آپ کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے اور حسد و کینہ کے بجائے اس کے لیے خلوص کے جذبات رکھیں گے کیوں کہ آپ کے ذہن میں ہوتاہے کہ یہ شخص بالآخر میرے مشن کوہی فائدہ دے رہا ہے۔

وژن او ر مشن آ پ کو مثبت سوچنے کی دولت سے بھی نواز دیتاہے۔اپنے ساتھ ساتھ آپ دوسروں کے لیے بھی اچھا سوچتے ہیں۔یہ آپ کو ماضی کے منفی سوچوں سے آزاد کردیتاہے۔آپ کی نظر صرف مستقبل پرہوتی ہے اور آپ مکمل طورپر فوکس رہتے ہیں۔پھرآپ صرف پیسے اور شہرت کے لیے کام نہیں کرتے اور نہ ہی یہ چیزیں آپ کے پائوں کی زنجیر بنتی ہیں۔آپ کامقصد اِن چیزوں سے بہت اعلیٰ ہوتاہے اور اسی وجہ سے آپ درست سمت میں اپنا سفر جاری رکھ پاتے ہیں۔

مشن ووژن آپ کو مقابلے اور موازنے کی جنگ سے بھی نکال دیتاہے۔پھر آپ ہر چیز میں دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کرتے اور اسی وجہ سے آپ کی بہت ساری مثبت توانائی ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں۔اپنے مشن پر گامزن رہنے کا سب سے بڑا انعام آپ کو خلوص کی صورت میں ملتاہے۔آپ نہ صرف اپنے وژن کے ساتھ بلکہ اُس سے متعلقہ تمام افراد اور چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی مخلص ہوجاتے ہیں۔اخلاص وہ نایاب چیز ہے جو آپ کو دوسرے انسانوں سے ممتاز بنادیتی ہے اور آپ ہزارو ں میں ایک ہوجاتے ہیں۔

سمندر کے ساحل پر بیٹھاایک شخص بڑی محویت اور شوق کے ساتھ ریت سے پہاڑ بنارہا تھا۔جب وہ مکمل ہوگیا تو اُس کی خوشی دیدنی تھی ۔وہ بار بار اُس کو دیکھ رہا تھا اور اپنی کارکردگی پر خود کو داد دے رہا تھا۔اچانک سمندر کی طر ف سے ایک زور دار لہرآئی اور چند سیکنڈ میں اس کا بنایاگیا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا۔وہ شخص حیرانی سے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں چند لمحے قبل ریت کا ایک خوبصورت پہاڑ کھڑاتھا۔اپنی محنت ضائع ہونے کی وجہ سے اس کے چہرے پر دُکھ کے شدید اثرات ظاہر ہوگئے۔

یہی مثال اس شخص کی ہے جس کو زندگی کی نعمت ملی لیکن اس نے کائنات کی اس عظیم دولت کو بے مقصد چیزوں میں گنوادیا اور جب آخرت میں اس کے ہاتھ نامہ اعمال آیاتویہ دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ اُڑگیا کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔
زندگی کو ضائع کرکے خسارہ پانے والے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتاہے:
’’وہ لوگ جن کی ساری کوششیں دنیا کی زندگی میں کھوگئیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بے شک اچھے کام کررہے ہیں۔‘‘(سورۃ الکہف:104)

Related Posts