گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میری نظروں سے گزری جس نے مجھے چونکاکررکھ دیا۔

توجہ ،ارتکاز : دنیا کی سب سے قیمتی دولت
(قاسم علی شاہ)
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میری نظروں سے گزری جس نے مجھے چونکاکررکھ دیا۔
’’Amazon‘‘
دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے جو کہ اپنی ویب سائٹ کے ذریعے روزانہ کروڑوں ، اربوں کا بزنس کرتی ہے۔یہ کمپنی اپنی ویب سائٹ کو اپنی شہ رگ سمجھتی ہے اور اس کوتیز رفتار اور فعال رکھنے کے لیے پوری توانائیاں صرف کرتی ہے۔اس رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ اگر ایک صارف ’’Amazon‘‘کی ویب سائٹ پر جاناچاہتاہے اوریہ فوراً سے نہ کھلے بلکہ کچھ سیکنڈز کی تاخیر سے کھل جائے تو Amazonکو سالانہ 1.6بلین ڈالر کا نقصان ہوجاتا ہے ۔ آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ چند سیکنڈز کی تاخیرسے بلین ڈالرز کے نقصان کاکیاتعلق ہے؟تو جواب ہے : توجہ ، اٹینشن اورارتکاز۔صارف چاہتاہے کہ ویب سائٹ جلد کھل جائے اور اس کو ویب سائٹ کی توجہ ملے اور اس عمل میں اگرکچھ سیکنڈز بھی لگتے ہیں تو وہ اس کوچھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتاہے۔

انسان نے جب سے اس کائنات میں قدم رکھا ہے یہ ترقی کے مختلف ادوارسے گزراہے ۔ایک دور تھا کہ اس کے تن پر معمولی کپڑے ہواکرتے تھے اور یہ اپنی خوراک کے لیے جانوروں کا شکار کرتا نظرآتا تھا ۔پھراس نے ترقی کی ، لوہا ایجاد ہوا۔اس نے زراعت کا طریقہ سیکھا ۔زراعت نے اس کو مہذب اور ترقی یافتہ بنایا اور اس کی زندگی میں انقلاب آگیا ۔اس کے بعد انسان نے مشین بنانا سیکھ لیا اور یہاں سے صنعتی انقلاب شروع ہوگیا۔اس انقلاب میں اس نے بے تحاشا ترقیاں کیں اور کئی شاندار چیزیں ایجاد کیں اوراب موجودہ دور اِن سب ادوار میں سب سے منفرد اور اہمیت کاحامل ہے کیوں کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں سونا ، چاندی اور پیسوں سے بھی زیادہ ایک چیزقیمتی بن گئی ہے اور وہ ہے انسان کی توجہ ۔آج ہم Attention Economyمیں جی رہے ہیں۔ہمارے چاروں طر ف ایساماحول بن چکا ہے جس میں ہر شخص ، ادارہ اور کمپنی ہمیں اپنی طرف متوجہ کررہاہے ۔غریب سے لے کر امیر تک اور محلے کے یونین کاونسلر سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک ہر ایک کو ہماری اٹینشن اور توجہ درکارہے ۔ہماری توجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگلاانسان اپنے مقصد کے پہلے قدم میں کامیا ب ہوگیا اور اب وہ جوچیز بھی ہمیں پیش کرے گا وہ ہمارے ذہن پر اثر اندازہوگی اور نتیجتاً ہم اس کے موقف کو تسلیم کرلیں گے یا پھر اس کی پراڈکٹ کو خریدلیں گے۔

’’کرس بیلی‘‘ ایک امریکی مصنف ہے ۔اس کی زندگی صبح سے شام تک اسکرینز سے بھر گئی تھی ۔یہ آفس میں ہوتا تو سامنے لیپ ٹاپ کی اسکرین ہوتی ۔ دوستوں کے پاس بیٹھتا تو موبائل اسکرین نظروں کے سامنے رہتی ۔ہاتھ کی طرف دیکھتاتو گھڑی کی اسکرین ہوتی اور گاڑی میں جارہا ہوتا تو بل بورڈز کی اسکرین پر اس کا دھیان رہتا۔وہ اپنی زندگی میں اسکرینوں کی اس غیر معمولی دخل اندازی سے پریشان ہوگیااورسب سے پہلے اس نے ان چیزوں کی دخل اندازی کم کی اور پھر اس نے انسانی ارتکاز اور فوکس پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ سالوں تک کئی ملکوں میں گھوما۔ اس دوران یہ مختلف سائنس دانوں اور ماہرین سے بھی ملا اور ان سے اس موضوع پر کھل کر بات چیت کی ۔جب وہ اپناتحقیقی سفر مکمل کرچکا تو 2018ء میں اس نے ان تمام تجربات اور تحقیقات کو ایک کتابی شکل دی ، جس کا نام اس نے Hyper Focusرکھا۔یہ ایک بیسٹ سیلر کتاب ہے جو بتاتی ہے کہ توجہ کو منتشر کرنے والی اس دنیا میں موثر کام کیسے کیا جائے ۔آج ہم اسی کتاب کے اہم پوائنٹس آپ کے سامنے پیش کریں گے۔

اس کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک حصے میں Hyper Focusاور دوسرے میںScatter Focusپرروشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’ہائپرفوکس‘‘ انسان کی وہ ذہنی کیفیت ہے جس میں وہ بھرپور توجہ اور فوکس کے ساتھ ایک کام میں مصروف ہوتاہے۔’’سکیٹر فوکس‘‘ وہ ہے جس میں انسان کسی خاص چیز پر توجہ نہیں دیتا بلکہ معمول کے انداز میں کام کررہا ہوتاہے۔

Attentional Space(مقام ارتکاز)
اس کتاب میں ’’اٹینشنل سپیس‘‘پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔انسان جب ایک چیز پر فوکس کرکے اس کے بارے میں سوچتایا عمل کرتاہے تو اس کو ’’اٹینشنل فوکس‘‘ کہاجاتاہے۔اس کی مثال کمپیوٹرRAMکی طرح ہے۔ جس طرح کسی کمپیوٹر میں RAMجس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر کمپیوٹر کی کارکردگی تیز ہوگی ، ایسے ہی انسان کیAttantional Spaceبھی جس قدر زیادہ ہوگی اس کی فوکس کرنے کی قابلیت بہترین ہوگی۔

اٹینشل سپیس کو کیسے بڑھایاجائے؟
’’مقام ارتکاز‘‘ کو بڑھانے میں نیندکا بڑااہم کردار ہے۔نیند پوری ہوتو انسان کی ’’اٹینشنل سپیس‘‘58فی صد تک بڑھ جاتی ہے۔کرس بیلی بتاتاہے کہ اگر کسی انسان کی نیند ایک گھنٹہ کم ہو تو اگلے دن اس کی دوگھنٹے کی پراڈکٹیویٹی کم ہوجاتی ہے۔’’مقام ارتکاز‘‘ کے وسیع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ذہن جب بھی منتشر ہوگاتوآپ فوراً سے اپنے کام کی طرف واپس آئیں گے۔’’مقام ارتکاز‘‘ کو بڑھانے کا ایک مفید طریقہ مراقبہ ہے۔سانس والے مراقبے کے دوران انسان کی توجہ سانس پر ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کاذہن کہیں بھٹک جاتاہے اور وہ اپنے ذہن کو واپس لاتاہے۔اس مشق سےAttentional Spaceمضبوط ہوتی ہے۔دوسرا طریقہ ’’مائنڈ فلنیس‘‘کاہے۔اس میں انسان ایک چیز کی طرف اپنا پورا ذہن متوجہ کرتاہے اور پھرروزانہ کی بنیاد پر اپنی توجہ کو بڑھاتارہتاہے اور اسی سے اس کا’’مقام ارتکاز‘‘ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ہائپر فوکس (Hyperfocus)والی کیفیت میں کیسے داخل ہواجائے؟
اس کیفیت میں داخل ہونے کے کئی طریقے ہیں:
(1)اپنے لیے ایک مفید کا م کا انتخاب کریں جس پر آپ اپنی پوری توجہ دے سکیںاور جیسے ہی آپ کا ذہن منتشر ہو تو فوراً اپنے کام کی طرف واپس آئیں۔
(2)ان تمام چیزوںکو بند کردیں جواندرونی اور بیرونی طورپر آپ کے ذہن کو منتشر کرتی ہیں۔
(3)اپنے لیے ایک وقت متعین کریں کہ میں نے اتنے سے اتنے بجے تک بھرپور توجہ کے ساتھ یہ کام کرنا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔

منتشر کرنے والی چیزوں پر قابو پائیں
ہمارے اردگرد جتنی بھی چیزیں ہیں ،وہ دو طرح کی ہیں۔
(1)ہمیں ان پر کنٹرول حاصل ہے یانہیں؟تحقیق کے مطابق منتشرکرنے والی چیزوں میں اکثر پر ہمیں کنٹرول ہوتاہے ۔جیسے موبائل فون ، وٹس ایپ اورفیس بک وغیرہ اور اگرہم چاہیں تو انھیں فوراً بندکرکے اپنے کام کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔
(2)وہ ہمیں پسند ہیں یا نہیں؟تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اکثر منتشر کرنے والی چیزیں ہمیں پسند ہوتی ہیں اور وہ ہمارے من کو خوش کرتی ہیں۔

(1)ہائپر فوکس (Hyperfocus)میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے ایک Distraction free mood(منتشر کرنے والی چیزوں سے خالی ماحول) بنائیں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب آپ اپنا کام شروع کریں گے تو کوئی چیز آپ کے کام میںدخل انداز نہیں ہوگی اور آپ مکمل توجہ کے ساتھ اپنا کام کرسکیں گے۔

(2)اپنا موبائل فون دوسرے کمرے میں رکھ دیں ۔انسان اگر کسی چیز کو خود سے بیس سیکنڈ ز کے فاصلے پر رکھ لے تو وہ اس کے کاموں میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتی۔

(3)آپ جب کہیں فارغ بیٹھے ہوں اورموبائل استعمال کرناہوتومسلسل نہ کریں بلکہ وقفے وقفے سے کیا کریں اور اس وقفے کے دوران اپنے بارے میں سوچیں کہ میں اپنی زندگی کو بہتر کیسے بناسکتاہوں، میری زندگی کا مقصد کیا ہے اور میں نے کہاں پہنچناہے۔

(4)جب بھی کسی کے ساتھ اہم میٹنگ ہو توموبائل کو Airplane Moodپر لے جائیں تاکہ آنے والی نوٹیفیکیشنزآپ کی توجہ کو منتشر نہ کرسکیں ۔

(5)اپنے موبائل میں غیر ضروری ایپس کو ایک فولڈر میں ڈالیں اور اس کا ایک غیر معقول سانام رکھیں ، تاکہ آپ جب بھی اس فولڈر کوکھولیں تو آپ کو معلوم ہو کہ آپ ایک غیر ضروری چیز کو استعمال کرنے میں اپناوقت ضائع کررہے ہیں۔

ذہن کی نفسیات
واضح رہے کہ ہمارے دماغ کو ہر وقت نئی معلومات اور نئی چیزیں چاہیے ہوتی ہیںاورذہن کی یہ عادت ہم نے خود بنائی ہے ۔جیسے کہ بغیر کسی وجہ کے موبائل چیک کرنااور وٹس ایپ میسج کے ساتھ فیس بک بھی کھول دینا جہاں ہزاروں چیزیں ہمارے ذہن کو اپنی قید میں لے لیتی ہیں اور یوں ہماراذہن ہر وقت نئی چیزوں کے انتظار میں ہی رہتاہے۔آپ کو یادہوگاپرانے وقتوں میں لوگ ایک ناول لیتے اور دو تین ہفتے تک اسی کو پڑھتے رہتے۔چوں کہ ذہن ایک ہی جگہ پر مصروف رہتا تھا اس وجہ سے ان لوگوں کی Attention Spaceاور فوکس کرنے کی قابلیت بھی اعلیٰ تھی۔پھر انسان کارجحان موویزدیکھنے کی طرف ہوا تو دماغ نے ہر تین گھنٹے بعدنئی چیزمانگنی شروع کی اور گزشتہ دو تین سالوں میں یہ شرح گرتے گرتے بہت کم ہوگئی۔ٹک ٹاک جیسی ایپس کی وجہ سے شارٹ ویڈیوز کی روایت چل پڑی اور اب انسانی دماغ ایک منٹ کے بعد نئی چیزوں کی خواہش کرتاہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسانی توجہ کادورانیہ 11سکینڈز سے کم ہوکر صرف 7سیکنڈز پر آگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان جب بھی اہم کام کرنے بیٹھتاہے توجلد ہی وہ بیزاری کا شکار ہوجاتاہے او ر اس کو یاد آتاہے کہ گاڑی کاآئل بھی چینج کرنا ہے، فلاں دوست کو فون بھی کرناہے اور گھر کے لیے نیا قالین بھی خریدنا ہے۔یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہمارادماغ Over Stimulate(ایک کے بعد دوسری نئی چیزچاہنے والا)بن چکا ہے۔

خود کو بوریت کا عادی بنائیں
کسی بھی کام پر بھرپور توجہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا دماغ Low Stimulateہو۔ آپ خود کو بوریت کا عادی بنائیں۔کرس بیلی نے بھی ایک مہینے کے لیے خود کو ایسے کاموں کا پابندبنایا جو بالکل ہی بورکرنے والے تھے ۔جیسے ایک دن اس نے اڑھائی سوگرام چاول کے دانے گننا شروع کیے اور کافی وقت اس کام پر لگادیا۔کرس کہتاہے کہ بوریت کوسہنا شروع کروتو پھر منتشر کرنے والی چیزیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑسکتیں۔آپ جب بھی خود کو ایسے کاموں میں ڈالتے ہیں جوآپ کوبورکردیتے ہیں لیکن آپ پھر بھی وہ کرتے جاتے ہیں تو اس سے آپ کا دماغ Low Stimulateہوجاتاہے ،پھراس کو ہرمنٹ بعد نئی چیز دیکھنے کی طلب نہیں رہتی اوریوں آپ کے فوکس کرنے کی قابلیت مضبوط ہوجاتی ہے۔

’کچھ نہ کرنا‘ وقت کا ضیاع نہیں
کرس بیلی کہتاہے کہ روزانہ کچھ وقت ایسا ضرور گزارناچاہیے جس میں انسان کچھ بھی نہ کرے۔یہ تخلیقی صلاحیت کا ایک بہترین موڈ ہوتاہے۔دنیا کے نامور سائنس دان اور ماہرین کو بھی انمول آئیڈیاز ایسے ہی اوقات میں آئے ہیں،کیوں کہ سوچتے وقت انسان کے ذہن میں بہترین آئیڈیاز نہیں آتے بلکہ یہ ہمیشہ معمول کے کام کرتے وقت آتے ہیں۔جیسے اپنے کمرے کی صفائی ، کتابوں کی سیٹنگ، واک کرنا، کپڑے اوربرتن دھونااور پارک میں بیٹھ کر ویسے ہی چیزوں کا مشاہد ہ کرتے رہنا۔

چارطرح کے کام
انسان دن بھر میں جتنے بھی کام کرتاہے ، مصنف نے اس کی چاردرجہ بندیاں کی ہیں۔
(1)ضروری کام : یہ وہ کام ہیں جو اہم ہیں لیکن غیر دلچسپ ہیں ۔آپ جب بھی یہ کام سرانجام دیتے ہیں تو آپ بیزارہوجاتے ہیں۔
(2)غیر ضروری کام ـ: وہ کام جو دلچسپ بھی نہیں اور اہم بھی نہیں ہیں۔
(3)منتشرکرنے والے :ان کاموں کوکرنے میں مزہ آتاہے لیکن یہ ہمارے لیے مفید نہیں ہوتے ۔جیسے فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ
(4)بامقصد کام:یہ وہ کام ہیں جنھیں کرنے سے انسان کامعاشرے میں نام بنتاہے۔ان کاموں میں انسان کی پوری انرجی لگتی ہے ۔یہ بھی غیر دلچسپ لیکن انتہائی اہم ہوتے ہیں۔جیسے کسی چیز کی پریکٹس کرنا ، ورک آئوٹ کرنا ، ریہرسل کرنا اور بھرپور محنت کرناوغیرہ

واضح رہے کہ دنیا کے تمام عقل مند انسان اپنے دن کازیادہ تر وقت ’’بامقصد‘‘ کاموں پر لگاتے ہیں اور اسی کی بدولت وہ کامیابی کی معراج پر پہنچتے ہیں۔آپ بھی اپنے کاموں کا جائزہ لیں اور انھیں ان چار کیٹیگریز میں تقسیم کرکے دیکھیں کہ آپ اپنازیادہ تر وقت کن کامو ں پر لگارہے ہیں ۔اگر آپ اپناپروڈکٹیوٹائم بے مقصدکاموں میں لگارہے ہیں توجلد سے جلد اس عادت سے چھٹکاراپائیں ۔

خلاصہ
انسان کی توجہ آج کی دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔
ہم منتشر کرنے والی دنیا میں رہ رہے ہیں ،ایسے میں وہ شخص کامیاب ہے جس کے اندر فوکس کرنے کی قابلیت ہے۔
ہائپر فوکس کی عادت اپنائیں اور اپنی اٹینشنل اسپیس میں کم سے کم چیزیں رکھیں تاکہ آپ کاموں پرزیادہ توجہ دے سکیں۔
روزانہ خود کوکچھ وقت کے لیے آزاد چھوڑدیں ،اس سے آپ کی تخلیقی صلاحیت بہترین ہوگی۔
خود کو بوریت کا عادی بنائیں تاکہ آپ کا دماغ Low Stimulateبن جائے اور وہ منتشر نہ ہو۔

Related Posts