سوشل میڈیا کے گرداب سے نکلیں

سوشل میڈیا کے گرداب سے نکلیں
(قاسم علی شاہ)
اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ’’اسٹار‘‘بن چکی تھی۔ انسٹاگرام پر اس کے چھے لاکھ مداح تھے۔ اس کے اکاؤنٹ سے نشر ہونے والی ہر تصویر اور ویڈیو کو ہزاروں لوگ دیکھتے اورپسند کرتے تھے جس پر وہ بے انتہا خوش ہوتی تھی۔ اسے محسوس ہو اکہ یہی کام یاب زندگی ہے، چنانچہ وہ مکمل طورپر سوشل میڈیا کے سمندر میں ڈوب گئی۔ روز بہ روز اس کی مقبولیت کا گراف بلند ہونے لگا تو کاروباری کمپنیاں بھی اس کے پیچھے پڑگئیں۔ وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر اس سے کروانا چاہتی تھیں اور بدلے میں ہزاروں ڈالرز دینے کو تیار تھیں۔ اس نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کا بینک اکاونٹ ڈالروں سے بھرنے لگا۔ عالی شان ہوٹلوں میں قیام ،مہنگی گاڑیوں میں سفر اور دنیا کے خوب صورت ترین ساحلوں کی سیر، اسے اتنا کچھ مل گیا جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ مقبول ترین شخصیت بن گئی تھی لیکن پھر اس نے ایسا عجیب فیصلہ کیاکہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ اس نے انسٹاگرام پر موجود اپنی دو ہزار تصویریں ختم کیں اور ہمیشہ کے لیے سوشل میڈیا چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس دھماکہ خیز خبر پر اس کے مداح (Followers) چکرا کر رہ گئے۔ یہ واقعہ میڈیا پر بریکنگ نیو ز بن گیا جس کی وجہ سے اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔

شہرت کی چوٹی تک پہنچ کر پلٹنے والی یہ لڑکی ’اونیسا اونیل‘ تھی۔ اس نے انسٹاگرام پر آخری پیغام لکھا : ’’سوشل میڈیا حقیقی زندگی نہیں۔‘‘اس کا کہنا تھا کہ میں جب بھی ارب پتی لوگوں کو دیکھتی تو ان کی طرح مال دار بن جانا چاہتی تھی۔ میرے نزدیک دولت وہ چیز تھی جس سے انسان کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ میری یہ خواہش مجھے سوشل میڈیاکی طرف لائی، میں نے بھرپور محنت کی۔ میری تصویروں پر لوگ پسندیدگی کا اظہار کرتے۔ میری ہر پوسٹ سابقہ پوسٹوں کا ریکارڈ توڑ دیتی۔ میرے مداحوں کی تعداد روز بہ روز بڑھنے لگی۔ میں Likes حاصل کرنے کے نشے میں مبتلا ہوگئی اور دیوانگی کی حد تک لوگوں کے تبصروں کی منتظر رہتی۔ میرا یہ جنون میرے حواس پر چھا گیا اور میں حقیقی زندگی سے دور ہوتی گئی ۔مجھے شہرت اور دولت مل گئی لیکن دن رات اسی پریشانی میں رہتی کہ نئی پوسٹ پر کتنے Likes اورComments آئے ہیں۔ اس فکر نے مجھے ذہنی اور نفسیاتی طورپر تباہ کرکے رکھ دیااور جب مجھے ہوش آیا تو میں سر سے لے کر پائوں تک اس گرداب میں ڈوب چکی تھی ۔مجھے معلوم ہوا کہ میں اپنے آپ کو کھوچکی ہوں،میں مصنوعی دنیا میں جی رہی ہوں جہاں لوگ میری شخصیت نہیں بلکہ میرے جسمانی خدوخال دیکھ کرمجھے پسند کر رہے ہیں۔ میں زندگی کی نعمتوں سے بہت دورآگئی ہوں اور آہستہ آہستہ مررہی ہوں۔بس اسی وجہ سے میں نے مکمل طورپر سوشل میڈیا چھوڑنے کا اعلان کیا۔

’اونیسا اونیل‘ کی کہانی دراصل ہم سب کی کہانی ہے۔دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی سوشل میڈیا کا استعمال شروع کرتے ہیں اور پھر اس کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ کام کی بات کم اور بے مقصد چیزوں کا پرچار زیادہ ہوتا ہے۔ مہنگی گاڑیاں، خوب صورت گھر، سر سبز وادیوں کی سیر اور سمندر میں کشتی رانی سے لطف اندو ز ہوتے انسان، یہ تمام چیزیں ہمیں مرعوب کرتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ خوش قسمت اور کام یاب لوگ یہی ہیں جو ہم سے زیادہ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ چیز ہمارے لاشعور کو متاثر کرتی ہے اور ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم بھی ایسی زندگی اختیار کریں۔ ہم مال دار بن جانا چاہتے ہیں اور اپنی امارت دوسروں کو دکھانا بھی چاہتے ہیں۔ ہم لوگوں کے سامنے اپنی وہ تصویر پیش کرتے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہوتی ہے۔ ایک پوسٹ نشر کرنے کے بعد دیکھتے رہتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اس پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ عادت رفتہ رفتہ پختہ ہوجاتی ہے اور ہم اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ دکھاوے کی یہ عادت ہماری ذہنی، نفسیاتی اور روحانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

آئیے اس کے نقصانات کاتفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
بہت سی تحقیقات بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال انسان کو سماجی زندگی سے دور کر کے تنہائی پسند بنادیتا ہے۔ وہ دوستوں کی محفل اور گھر والوں کی اپنائیت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے برقی دوستوں(Digital Friends) سے بات کرنا زیادہ پسند کرتا ہے۔’’American Journal of Preventive Medicine ‘‘کی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو تنہائی کی شدید خواہش مند ہے اور یہ چیز انھیں انسانوں سے دور کر دیتی ہے۔

آپ اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آج ہر شخص پریشانی کا شکار ہے اور اکثر لوگوں کی پریشانی کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ کیوں کہ یہ انسانی رویوں پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق روزانہ دو گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کرنے والے شخص میں صدمہ (Depression) اور بے چینی (Anxiety) پیدا ہونے کی شرح خطرناک حدتک بڑھ جاتی ہے۔ ایسا شخص اپنے اندر کی آگ کو مختلف مواقع پر نکالتا رہتا ہے۔ وہ معمولی بات پر اشتعال میں آجاتا ہے۔ چھوٹے مسئلے پر لڑائی شروع کردیتا ہے، اس میں صبر و تحمل کی کمی ہوتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کا جینا بھی دوبھر کردیتا ہے۔ ایسا شخص اکثر اوقات تھکا ماندا اور بے زار صورت نظر آتا ہے۔

سوشل میڈیا کا بہ کثرت استعمال انسان کی خودتوقیری (Self-Esteem) کو بھی کمزور بنا دیتا ہے۔ Facebookاور Instagram پر نظر آنے والے مہنگے پرفیوم، جوتے، کپڑے، زیورات، موبائل فون، پرس اور پرتعیش طرزِ زندگی، جب فرد دیکھتا ہے تواس کے اندر احساس کمتری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ چیزیں اگر فلاں کے پاس ہیں تو میرے پاس کیوں نہیں ہیں۔ یہ سوال اس کی توقیر ذات کو کمزور کر دیتا ہے، اس کا اپنی ذات پر اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور وہ خود کو بے کار اور کم حیثیت سمجھنے لگتا ہے۔

سوشل میڈیا کے انسانی رویوں پر ہونے والے نقصانات پر تحقیق مسلسل جاری ہے اور اس میں خطرناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔
’’Journal of Social and Clinical Psychology ‘‘ کے مطابق، سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی ذات میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ 80فی صد لوگ ایسے ہیں جو دوست احباب کی پارٹیاں اور سیر سپاٹوں کی تصاویر دیکھتے ہیں تو انھیں اپنی زندگی ادھوری اور کھوکھلی محسوس ہوتی ہے۔ وہ نامعلوم اداسی کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کی زندگی اگرچہ بے شمار نعمتوں سے بھرپور ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پریشان رہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کو اس قدر پرکشش بنایا ہوتا ہے اور اس پر ایسا مواد نشرکیا جاتا ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ایک دفعہ استعمال کرنے کے بعد وہ دوبارہ موبائل اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ صارف سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ارادے سے ایسا کر رہا ہے، لیکن حقیقت میں سوشل میڈیا اس سے یہ فیصلہ کروا رہا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اس کے رویوں پرقابو پاچکا ہوتا ہے۔ نتیجتاً صارف برقی لت (Digital Addiction) کا شکار ہوجاتا ہے۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے لوگ تین گھنٹے کی فلمیں شوق سے دیکھا کرتے تھے ۔اس کے بعد YouTube آیا تو توجہ کا دورانیہ کم ہوگیا، لیکن TikTok آنے کے بعد انسانی توجہ کا دورانیہ انتہائی کم ہوگیا ہے اور اب انسان سات سیکنڈز سے زیادہ کسی چیز پر توجہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ سوشل میڈیا پر خبروں کی بھرمار اور بے تحاشا معلومات کی وجہ سے انسان کی توجہ ہر وقت بھٹکتی رہتی ہے۔ وہ روحانی طورپر کمزور ہو کر بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
میرے خیال میں اگرہم مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرلیں تو کئی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔

(1) اپنے آپ سے باخبر رہیں۔ اپنا جائزہ لیں۔ دیکھیں کہ آپ کتنا وقت سوشل میڈیا پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر یہ ضرورت سے زیادہ ہے تو فوری طورپر اسے کم کریں۔ اپنے لیے چند اصول بنائیں اور ان کے مطابق اسکرین کا استعمال کریں۔
(2) جب بھی موبائل فون اٹھائیں تو خود سے سوال کریں:’’میں اس وقت موبائل کیوں استعمال کر رہا ہوں‘‘۔ اگر جواب معقول ہے تو استعمال کریں، وگرنہ مت کریں کیوں کہ یہ آپ کا وقت ضائع کرے گا۔ جب آپ بار بار یہ مشق کریں گے تو اس کی بدولت آپ سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے بچ جائیں گے۔
(3) اگر آپ کاموبائل ہر وقت بجتا رہتا ہے اور فون و پیغام آنے پر آپ کو متوجہ کرتا رہتا ہے تو یہ آپ کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ آپ موبائل کا استعمال ضرور کریں لیکن اسے یہ اجازت مت دیں کہ وہ آپ کو استعمال کرے۔ لہٰذا فوری طورپر اپنے موبائل کی Setting میں جائیں اور تمام غیر ضروری اطلاعات ( Notifications) بند کردیں۔ اگر کوئی حرج نہ ہو تو اپنے موبائل کو Vibration Mode پر رکھیں تاکہ آپ اپنے کاموں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں۔
(4) کسی زمانے میں Multitasking (ایک وقت میں کئی کام سرانجام دینا) کو انسانی قابلیت سمجھا جاتا تھا لیکن جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ یہ عادت انسانی توانائیوں کی دشمن ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت دراصل ہم Multitasking کررہے ہوتے ہیں جوکہ ہمیں نقصان دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس چیز سے بچا جائے اور ایک وقت میں ایک چیز پر توجہ دی جائے۔
(5) سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت چوکنا رہیں۔ اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ آپ کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ سوشل میڈیا پر اکثر اوقات منفی مواد ہوتا ہے اس لیے کوشش کریں کہ مثبت مواد دیکھیں اور تمام ایسی پوسٹوں سے دور رہیں جن میں کسی پر تنقید کی گئی ہویا حسد کا اظہار کیا گیا ہو۔
(6) گھر میں ایک جگہ مقرر کریں اور اصول بنائیں کہ وہاں پر ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اوقات بھی مقرر کریں جن میں آپ موبائل سے دور رہیں گے۔ مثال کے طورپر کھانے کے دسترخوان پر، گھر والوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اور رات سونے سے پہلے۔ اس کی بدولت آپ کا اپنے گھر والوں سے تعلق مضبوط ہوگا، آپ بہت سی پراگندہ خبروں سے بچ جائیں گے اور آپ گہری نیند بھی لے سکیں گے۔
(7) روزانہ کی بنیاد پر چند لمحوں کے لیے مراقبہ کی عادت ڈالیں۔ چاہے آپ گھر میں ہوں یا کام کی جگہ پر ،کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کریں، گہری سانس لیں اور اردگرد کی چیزوں کو محسوس کریں۔ اس کے علاہ جب آپ موبائل فون اٹھائیں تو اس وقت بھی خود کو حقیقی دنیا میں محسوس کریں اور مصنوعی دنیا میں کھو جانے سے خود کو بچائیں، نیز اپنے موبائل میں ایسی Apps انسٹال کریں جو بار بار آپ کو یاددہانی کروائیں کہ آپ کافی دیر سے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔
(😎 آپ سوشل میڈیا سے جو مواد حاصل کررہے ہیں ، اسے ضرورپرکھیں کیوں کہ یہ آپ کی ذہنی صحت پر اثر ڈالتا ہے۔ اس معاملے میں حساس رہیں اور چند منتخب چینلز ہی استعمال کریں جن پر آپ کو یقین ہو کہ ان کی خبر مستند ہوتی ہے تاکہ آپ پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں۔
(9) ضروری نہیں کہ آپ ہر دس منٹ بعد موبائل فون اٹھائیں اور دیکھیں کہ کس نے کیا پیغام بھیجا ہے۔ اپنے موبائل فون سے غیر ضروری Apps اور پروگرامز ختم کر دیں۔ خود کو برقی دائرے (Digital Circle) سے دور رکھنے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ حقیقی دنیا میں جییں ، دوستوں کی سنگت اور بچوں کے پیار سے لطف اندوز ہوں، لمحہ موجود کو محسوس کریں اور دیکھیں کہ کائنات کے مالک نے آپ کے لیے کتنی شان دار نعمتیں پیدا کی ہیں۔
یادرکھیں! اپنوں کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات ہی آپ کی زندگی کی حسین یادیں بنیں گی نہ کہ سوشل میڈیا پر انجان لوگوں کی دوستیاں۔ لہٰذا مصنوعی دنیا کے اس فریب سے بچیں اور حقیقی دنیا کی نعمتوں سے لطف اٹھائیں۔

Related Posts