پکی دھن سے دنیا تسخیر کریں

پکی دھن سے دنیا تسخیر کریں
(قاسم علی شاہ)

یہ دنیا کا ایک خوبصورت پُل ہے۔آپ انٹرنیٹ پر دنیا کی حسین اور یادگارمقامات کی لسٹ نکالیں تو اس فہرست میں اس پل کا نام بھی آئے گا۔اس کے نیچے ایک دریا بہہ رہا ہے اور آس پاس تاریخی مقامات کے علاوہ خوبصورت پارک بھی ہیں۔دریا میں مختلف قسم کی چھوٹی بڑی کشتیاں تیرتی ہیں ،جن میں مسافر سوار ہو کرجہاں دنیا کے اس مہنگے ترین شہر سے لطف اندور ہوتے ہیں ،وہیں وہ اس برج کے نظارے سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔’’مین ہٹن‘‘ اور ’’بروکلن‘‘کو آپس میں ملانے والا یہ پُل ’’بروکلن برج‘‘ کہلاتا ہے جو امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع ہے ۔یہ پل اپنی خوبصورتی اور شاہکار فن تعمیرکے علاہ ایک اور چیز کی وجہ سے بھی دنیا میں مشہور ہے اور وہ ہے اس کی تعمیر کی ناقابل یقین کہانی۔

یہ 1852ء کی بات ہے۔جان ریملنگ نامی ایک انجینئر نے دیکھا کہ ان دو شہروں کے لوگوں کو آنے جانے کے لیے فیری کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔رش زیادہ ہوتا ہے اور کشتیوں کی تعداد کم ۔اس وجہ سے لوگوں کا کافی وقت خرچ ہو جاتا ہے۔ فیری کے ڈوبنے اور دوسرے آبی نقصان کا خدشہ الگ ۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ ایک ایسا پُل بنایا جائے جو دونوں شہروں کو آپس میں ملائے اوریہ دنیا کا سب سے لمبا پُل ہو ۔دِن بہ دِن اس کا یہ ارادہ پختہ ہورہا تھا اور وہ چشم تصورسے ایک خوبصورت پُل کو دیکھ رہا تھا جس پر گاڑیاں اور انسان چل رہے تھے اور دریاپار کررہے تھے ۔جان ریملنگ نے جب یہ آئیڈیا اپنے دوست انجینئرز کے ساتھ شیئر کیا تو ہر طرف سے اس کا خوب مذاق اڑا اور اس کے حوصلوں کو پست کیا گیا ،کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ بالکل ناممکن ہے،لیکن جان ریمبلنگ کا دِل کہہ رہا تھا کہ اگرچہ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔اس نے اپنے بیٹے واشنگٹن کو قائل کیا اور دونوں باپ بیٹا اس منصوبے پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔کچھ ہی دِنوں میں انھوں نے اس آئیڈیا کو ایک حتمی شکل دے دی۔

3 جنوری1870کو اس آئیڈیے پر کام شروع کردیا گیا،لیکن قدرت ان کے قوتِ ارادی کا امتحان لیناچاہتی تھی ۔کچھ ہی دِن بعد ایک حادثہ رونما ہوا ، جس میں جان ریمبلنگ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔باپ کی وفات سے واشنگٹن کو شدید دھچکا لگا۔افسردگی کے عالم میں اس نے پل کی تعمیر کا کام روک لیا۔کچھ دِنوں تک تو اسے کچھ سمجھ ہی نہ آیالیکن پھر اس کو خیال آیا کہ باپ نے دوستوں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنا ارادہ نہیں چھوڑا تھا ، اس لیے مجھے بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ ایک نئے عزم کے ساتھ وہ اٹھا اور اس پراجیکٹ پرکام شروع کروادیا۔

ایک دِن وہ سائٹ پر مصروف تھا کہ اچانک ایک اور حادثہ پیش آگیا اور اب کی بار لوگوں کو لگا کہ یہ پل کبھی تعمیر نہیں ہوسکے گا۔اس حادثے میں واشنگٹن بری طرح زخمی ہوگیا۔بروقت علاج سے اس کی جان تو بچ گئی لیکن وہ ایسا معذور ہوا کہ نہ چلنے کے قابل رہا ، نہ بات کرنے کے اور نہ ہی کسی اور عضو کو حرکت دینے کے۔ایسے میں ان لوگوں کی زبانیں اور زیادہ کھل گئیں جو اس پراجیکٹ کے مخالف تھے مگر جان ریملنگ کا بیٹابھی کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا۔اس نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ میں نے اس پراجیکٹ کو ہر حال میں پورا کرکے ہی مرنا ہے۔

وہ ہسپتال کے بیڈ پر تھا۔اس نے اپنی بیوی ایملی کو اشاروں سے سمجھایا کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ایملی ایک سمجھ دار عورت تھی،وہ اپنے شوہر کی آنکھوں میں جھلکتے عزم کو سمجھ گئی اوردونوں نے مل کر ایک کوڈ آف کمیونیکیشن تیار کیا ، جس کے تحت وہ ایملی کے ہاتھ کو مخصوص انداز میں ٹچ کرتا اوراس کو ایک سگنل دیتا ۔ایملی اس پیغام کو لکھ لیتی ، پھر انجینئر کو بلاکر سمجھاتی کہ آگے کام ایسے کرنا ہے۔ساتھ ہی ساتھ وہ اس پورے کام کی نگرانی بھی کررہی تھی ۔گیارہ سالوں تک واشنگٹن اس مشکل اور انوکھے طریقے سے ہدایات دیتا رہا اور ایملی اس پر عمل کرتی رہی۔بالآخر ان کی محنت اور طویل جدوجہد رنگ لائی اور 24مئی 1883کو دنیا کا یہ شاہکار تیار ہوگیا۔
اس برج پر پہلا قدم ایملی نے رکھا اور اس دِن تقریباً 1800گاڑیوں اورایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اس پل کو پار کیا۔486.3 میٹرلمبایہ پل دنیا کا پہلا پل ہے جو سٹیل کے تاروں سے بنایاگیا۔جان ریمبلنگ ،اس کے بیٹے اور بہو کے اسی پختہ عزم اور قوتِ ارادی کاہی نتیجہ ہے کہ 138سال بعد بھی ’’بروکلن برج‘‘ آج پورے قد وقامت کے ساتھ کھڑا ہے ، جبکہ اس کے مقابلے میں بننے والے دوسرے پل نہ جانے کب کے قصہ پارینہ بن چکے۔یہ کہانی ایک آئیڈیا سے شروع ہوئی ،اس نے وجود میں آنے کے لیے عزم کی پختگی اور ارادے کی قوت کا خراج مانگا جو اسے مل گیا اور پھر ایک دردناک مشقت و محنت کے بعد ایساعجوبہ تیار ہوگیا کہ آج پوری دنیا اس کودیکھنے کے لیے آتی ہے۔

Will Power
یعنی قوتِ ارادی وہ طاقت ہے جس کی بدولت انسان ناممکن کام کو بھی ممکن بناسکتا ہے۔اسی کے ذریعے وہ اپنی عادات اور اپنی شخصیت کو سنوارسکتا ہے اور خود میں ایسی تبدیلیاں لاسکتا ہے کہ وہ مختصر وقت میں شاندار نتائج دے دے۔دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑانے سے جتنی بھی نامور شخصیات ہمارے سامنے آتی ہیں ، جنھوں نے بڑے بڑے انقلابات رونما کیے ،یہ تمام لوگ دھن کے پکے تھے ۔وہ ایک بار جس چیز کی ٹھان لیتے، پھر اس کو کردِکھاتے ،اور اسی چیز نے ان کے ناموں کو آج تک زندہ رکھا ہواہے۔

دنیا کا مایہ ناز فائٹر محمد علی کلے کہتا ہے:
’’Skill is not important will is important‘‘
(ہنر نہیں بلکہ انسان کاقوتِ ارادہ اہمیت رکھتا ہے۔)
لوگوں نے اس سے پوچھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ، کیوں کہ صنعتی انقلاب کے بعد تو ساری دنیا Skills پر ہی چل رہی ہے۔اس نے جواب دیا:
’’ جب رِنگ میں میرا مدِ مقابل مجھ پر بھرپور وار کرتا ہے اور مجھے زمین پر گرادیتا ہے تو اس وقت میری Skillہارجاتی ہے ، ایسے میں میری Willہی ہوتی ہے جولڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ مجھے دوبارہ کھڑا کرتی ہے اورمجھ میں ایسی ہمت پیدا کردیتی ہے کہ مدمقابل کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود بھی میں اپنے قدموں پر جما رہتا ہوں۔‘‘

Will Power
ایک جذبے اور احساس کا نام ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ ہمیشہ ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا۔زندگی کے بکھیڑے اور تلخ حالات اس جذبے کے مسلز کو کمزور کرتے رہتے ہیں۔ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کا عزم اپنی انتہا پر ہو اور آپ نے کسی کام کو کرنے کا پختہ ارا دہ کرلیا ہو لیکن بے رحم حالات کا ایک تھپیڑا آپ کے عزم و ارادے کوچکناچور کردے ۔ایسے میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس نے Will Power کو استعمال میں لایا ہو اوراپنی آزادی اور فیصلہ کرنے کی قوت کامزہ چکھا ہو۔پھر کتنے ہی مشکل اور ناموافق حالات کیوں نہ ہوں ، وہ اپنے اس جذبے کو تازہ دَم رکھتا ہے اور ہر حال میں اس کام کو بجالاتا ہے،جبکہ اس کے برعکس جو لوگ اپنی Will Power کو استعمال میں نہیں لاتے ، وہ حالات کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں اوران کی زندگی کو حالات ہی چلاتے ہیں۔

جس انسان کی Will Power
کمزورہوتی ہے وہ کوئی بھی نیا قدم نہیں اٹھاسکتا۔اس کی اپنی شخصیت اور شخصی آزادی کہیں گم ہوجاتی ہے۔ایڈیسن کہتا ہے کہ’’ اگر آپ کو اپنے ارادے کی طاقت کا علم ہوجائے تو آپ غلامی برداشت نہیں کرسکو گے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ جس انسان کو اپنے قوتِ ارادی کا علم نہیں ہوتا وہ خود کوبہت کم قیمت میں بیچ دیتا ہے۔

ماڈرن لٹریچر اور سیلف ہیلپ کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ انسان کامیاب تب ہوتا ہے جب اس کی Will Power مضبوط ہو۔دوسری طرف آپ اسلام کو دیکھیں تو اس کے تمام ارکان بھی انسان کے قوتِ ارادی کو بڑھاتے ہیں۔آپ نماز کی مثال لے لیں۔ تکبیر تحریمہ پڑھ کر جب انسان رب کے سامنے کھڑاہوتا ہے تواس کے دِل کویہ تسلی مل جاتی ہے کہ میرا تعلق اس ذات عالی سے ہے جو دنیا کے تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے ، اور یہ چیز اس کی خودی کو بڑھادیتی ہے۔پھر نماز کے دوران ’’ممنوعات‘‘ سے پرہیز کرنا اس کے قوتِ ارادی کو بڑھادیتا ہے۔آپ روزے کودیکھیں تووہ شروع سے آخرتک ضبط نفس پر ہی مشتمل ہے۔زکوٰۃ ، انسان کے دِل سے مال کی محبت کو کم کردیتی ہے۔حج ، خود کوکمفرٹ زون سے نکال کرتپتے موسم میں صرف دو کپڑوں میں ملبوس کرنے کا نام ہے۔

نماز میں امام کی اطاعت ، معاملات میں لیڈر کی اطاعت ، ازدواجی زندگی میں شوہر کی اطاعت اور گھر میں والدین کی اطاعت ۔یہ ترتیب دراصل ڈسپلن ہے اور ڈسپلن سے Will Power پیدا ہوتی ہے ۔وہ Will Power کہ جس میں آپ کا دِل نہیں کررہا لیکن فجر میں اٹھ کر آپ ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے ہیں۔یہ تابعداری اور قوتِ ارادی کی انتہا ہے کہ جسم اس وقت آرام و راحت مانگ رہا ہے لیکن آپ رب کے حکم کو ترجیح دے رہے ہیں۔
دین کا ایک اور حکم ہے کہ ’’ دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو‘‘حالانکہ نفس کہتا ہے کہ فلاں شخص تو تمہارے لیے ایسا نہیں چاہتا تو پھرتم کیوں اس کے لیے جان کھپارہے ہو؟لیکن دین کہتا ہے کہ نہیں ! دوسرے مسلمان کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے چاہتے ہو ۔ Will Power کو بڑھانے کا اس سے بہترین طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے!!

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں آپ کو بہت سارے لوگ ایسے ملیں گے جن کی عبادت پر آپ کو رشک آجائے گا لیکن جب ان کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو وہ معاملات میں اس قدر کمزور واقع ہوتے ہیں کہ انسان دھنگ رہ جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عبادت تو کرتے ہیں لیکن وہ کھوکھلی اور اپنی اصلی روح سے خالی عبادت ہوتی ہے ، اور اسی وجہ سے عملی زندگی میں ان کی عبادت کی کوئی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔

Will Power
ایک بیش قیمت تحفہ ہے ، اس لیے اس کو ناپ تول کر استعمال کرنا چاہیے ۔بعض اوقات انسان جذبات میں آکر اپنی Will Powerکوتوپ کی طرح طاقتور بنالیتا ہے لیکن جس کام کے لیے اس نے یہ ارادہ کیا ہوتا ہے اس کی حیثیت مکھی کی طرح ہوتی ہے۔اسی طرح بعض اوقات ایک کام ایسا آپڑتاہے جو کسی بھی طرح توپ سے کم نہیں ہوتا لیکن اس کے لیے جس Will Powerکا اظہار کیاجاتا ہے وہ مکھی کی طرح کمزور ہوتی ہے تو دونوں صورتوں میں انسان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان روزمرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے ذریعے اپنی Will Powerکو بڑھاسکتا ہے ۔مثلاًآپ جو کام دائیں ہاتھ سے کرنے کے عادی ہیں، کبھی کبھار اس کو بائیں ہاتھ سے بھی کیا کریں۔آپ کو کھانے پینے میں جو چیز اچھی لگتی ہے ،اس کواپنی جیب میں یا ایسی جگہ پر رکھیں جہاں آپ کی نظر اکثر پڑتی ہو اور کچھ گھنٹوں تک اس کو مت کھائیں۔مراقبہ اور غور وفکر یعنی یہ یقین کرلینا کہ میری Will Powerمضبوط ہورہی ہے،بھی آپ کے قوتِ ارادی کو مضبوط بناتا ہے۔اپنی زندگی میں بڑے بڑے اہداف کے بجائے چھوٹے چھوٹے گولز بنانا، یعنی اگر آپ نے ایک سال کے لیے کوئی پلان بنایا ہے تو اب سال بعد کے نتائج کا مت سوچیں، ورنہ آپ مایوس ہوکر یہ کام ہی چھوڑدیں گے۔آپ روزانہ اور ایک ایک ہفتے کی بنیاد پر اپنا جائزہ لیں توآپ خود میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور محسوس کریں گے ۔ یہ چیز آپ کی Will Power کو بڑھائے گی اورآپ آسانی کے ساتھ اپنا ہدف حاصل کرلیں گے۔
جوانی کی عمر میں انسان کی Will Power زیادہ مضبوط ہوتی ہے ۔اسی عمر میں انسان زیادہ جوش و جذبے سے بھرپور ہوتا ہے اور بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے ۔یاد رکھیے کہ Will Power کو بروقت قابو میں لانا بہت ضروری ہے ۔جوانی میں ہی اگر انسان اپنی Will Powerکو بہتر کرلے اور اپنی زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ جوڑلے تو اس کو آنے والی زندگی میں مار نہیں کھانی پڑتی۔

Related Posts