’’مشکل‘‘ کو ’’موقع‘‘ بنائیے
(قاسم علی شاہ)
برسات کا موسم تھا۔بادلوں نے آسمان پر گھنی چادر تان رکھی تھی۔اچانک گھن گرج شروع ہوگئی اورپھر جوآسمان نے اپنا منہ کھولاتوجل تھل مچ گیا۔ساری رات بارش برستی رہی ۔صبح اٹھ کرلوگوں نے دیکھا کہ گاؤں کے آخری سرے پر واقع ایک نشیبی پٹی کو برساتی پانی نے اپنا راہ گزر بنالیا ہے اوروہ ایک نہر کی صورت اختیار کرگئی ہے۔دیکھنے والوں نے سوچا کہ چار پانچ دنوں کی بات ہے،پھرپانی اترجائے گا لیکن جب ہفتہ بھر بعد بھی پانی کی روانی جاری رہی تو پھر مسئلہ واقعی سنگین صورت اختیار کرگیا، کیوں کہ گاؤں والوں کی آمد و رفت اسی پٹی سے ہوتی تھی اور اب نہر بن جانے کی وجہ سے زندگی رُک سی گئی تھی۔
دریا کنارے ایک شخص کھڑا سوچ رہا تھا کہ گاؤں ںوالوں نے اس نہر کو پارتو کرنا ہی ہے اور اس وقت کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے تو کیوں نہ میں ایک کشتی کابندوبست کرکے یہاں پر ایک چھوٹا ساروزگار شروع کرلوں ۔چنانچہ اگلے دِن سے کشتی کی سروس شروع ہوگئی اور دریاپارجانے کا مسئلہ حل ہوگیا، لیکن کچھ ہی دنوں میں ایک او ر مسئلہ پیدا ہوگیا۔سواریوں کی تعداد زیادہ تھی اور کشتی ایک ۔چنانچہ کشتی والا ایک بار پھر متحرک ہوگیا اورآس پاس کے علاقوں سے آٹھ ، دس ملاحوں کو ڈھونڈا ، انھیں کشتیاں فراہم کیں اور یوں اسShipping Companyکا ’’سی ای او‘‘ بن کر کام کی نگرانی کرنے لگا۔اسی گاؤں میں ایک ترکان بھی موجود تھا ۔اس نے دیکھا کہ کشتیوں کا کاروبار بڑھ گیا ہے اوران میں آئے روز کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتارہتا ہے تو اس نے بھی دریا کا رُخ کیا اور کشتیوں کی تعمیر و مرمت کے ساتھ ساتھ نئی کشتیاں بنانے لگا۔اس سارے پس منظر میں ہوٹل والا بھی پیچھے نہیں رہا۔اس نے گاؤں کے چار پانچ آدمیوں کو اپنے ساتھ ملایا، دریا کنارے ایک خوب صورت سا چھپر ڈال کر میز کرسیاں لگائیں اور ’’Fish Point‘‘بناکرتازہ مچھلیاں فرائی کرکے بیچنے لگا۔کچھ دنوں بعد ایک انجینئر کی نظر اس دریا پر پڑی ، اس نے سوچا:بھاری سامان کے ساتھ اس دریا کوپار نہیں کیاجاسکتا، اس پر پُل بناناچاہیے ، چنانچہ کچھ ہی دِنوں میں اس نے حکومت سے ٹھیکہ لیا ۔سیمنٹ ، بجری ، سریاآگیا، بیسیو ں کی تعداد میں مزدور اورراج کا م پر لگ گئے اورمختصر عرصے میں پل بھی بن گیا۔
جولائی کی ایک طوفانی رات میں آنے والی طغیانی اگر چہ گاؤں والوں کے لیے ایک بڑی مصیبت بن گئی تھی لیکن جو عقل مند تھے اور ’’مشکل‘‘ کو ’’موقع‘‘ بنانا جانتے تھے ، انھوں نے اس ’’زحمت‘‘ کو اپنے لیے ’’رحمت‘‘ بنادیا او اسی کی بدولت زندگی کو مزید آسان بنایا۔
آپ کو مارچ 2020ء تو یا د ہوگا ، جب دُنیا بھر میں کورونا نے سر اُبھارنا شروع کیا تھااور پھراچانک شدت اختیار کرلی ۔پوری دُنیا لاک ڈاؤن کی زنجیروں میں بندھ گئی ۔کاروبار ٹھپ ہوگئے ، انڈسٹریاںبند ہوگئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں۔اس صورت حال نے عام آدمی کو شدید انداز میں متاثرکیا۔اس اندوہناک صورت حال میں ہر شخص بوکھلاگیالیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تو اس مشکل سے نمٹنے کے لیے اُن کے ذہن میں مختلف طریقے بھی آتے گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص ای کامرس پر منتقل ہوگیا اور اس’’ میڈیم‘‘ نے کاروبار کو کئی گنا بڑھادیا۔رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ جن لوگوں کا کاروبارکوویڈ19- سے پہلے آن لائن دستیاب تھا ،وہ شدید مالی نقصان سے کافی حد تک محفوظ رہے بلکہ انھوں نے اس کٹھن دور میں بھی کافی ترقی کی۔
سڑک پر چلتے ہوئے انسان کے سامنے اگر ایک بڑ ا پتھر آگرے تووہ انسان بڑا بے وقوف ہوگا جو پتھر کو ٹکریں مارکر راستے سے ہٹاناچاہے ۔عقل مند ایسا نہیں کرے گا بلکہ وہ کوئی متبادل راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اور عین ممکن ہے کہ دوسرے راستے پر ا س کے لیے زیادہ مواقع اور فوائد ہوں۔یہی مثال انسان کی زندگی میں آنے والی مشکل کی ہوتی ہے ۔شاہراہ زندگی پر چلتے ہوئے اگرآپ کے سامنے مشکلات کااتنا بھاری پتھر آگرا کہ ا س کے پیچھے آ پ کوکچھ نظر ہی نہیں آرہاتواب آپ کی عقل اور جذبات کاامتحان ہے ۔آپ کا مائنڈ سیٹ ہی اب طے کرے گا کہ آپ نے اس رکاوٹ کو ’’اختتام‘‘ سمجھنا ہے یاپھر ایک نئے مرحلے کا ’’نقطہ آغاز‘‘۔
دُنیا بھر میں مقبول کتاب The 5 AM Clubکا ایک بہترین جملہ ہے کہ ’’میں آسان زندگی کی خواہش نہیں کرتا،کیوں کہ اس میں ترقی اور قوت نہیں ہے ۔مجھے ایک چیلنج والی زندگی عطاکر جو میرے اندر کا بہترین باہر لائے او راُس کے لیے مجھے آہنی عزم دے اورمجھے ناقابل شکست بنا۔‘‘
مشکلات ومصائب درحقیقت انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے آتے ہیں اور اسی میں انسان کی بہترین قابلیت باہر نکلتی ہے لیکن یہ تب ہوگا جب انسان ’’Growth Mindset ‘‘ کا حامل ہو۔ایسے شخص کی زندگی میں اختتام نہیں ہوتا بلکہ وہ راستہ بدل بدل کر اپنی منزل پر پہنچتا ہے۔اس کے دل و دماغ پر مایوسی قبضہ نہیں جماتی ،اس کا اپنے آپ پر او راپنی ذات پرمضبوط یقین ہوتاہے اور یہی یقین اس کو بڑی سے بڑی آزمائش میں بھی سرخروکرادیتا ہے۔
مائنڈ سیٹ کے لیے دوچیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں: ’’یقین ‘‘اور ’’سوچ‘‘
آپ کس یقین کے حامل ہیں؟اگر آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ زندگی میں ہر چیز سیکھی جاسکتی ہے توآپ کامائنڈ سیٹ درست ہے،لیکن اگر آپ کا یقین یہ ہے کہ سیکھنا مشکل ہے تو پھر آپ چاہے جو بھی کورس کرلیں یا ڈگری لے لیں آپ زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔یقین کا اگلامرحلہ یہ ہے کہ زندگی میں آنے والی مشکل اور رُکاوٹ کو آپ Full Stopسمجھتے ہیںیا پھرمعمولی سا سپیڈ بریکر۔اگرمعمولی تکلیف پر بھی آپ کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں اورآپ ہمت ہارجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ Fixed Mindsetکے حامل ہیں۔ایسا شخص ہر مسئلے پر یہ فیصلہ کرلیتاہے کہ اب بس زندگی ختم ہوگئی۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔رات کے آنے کا مطلب مایوسی تھوڑی ہوتی ہے!!وہ تو صبح کے اُجالے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
اس کے برعکس Growth Mindsetوالابندہ ہر مشکل میں بھی اپنے لیے موقع ڈھونڈلیتا ہے۔زندگی کے سفرمیں اگر راستہ پُر مشقت ہو بھی جائے تو وہ اس سے گھبراکر سفر نہیں چھوڑتابلکہ چلنا جاری رکھتاہے ۔گوکہ اس کو زیادہ زور لگانا پڑتاہے ۔اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں اور رگیں تن جاتی ہیں لیکن اس مشکل کو وہ ’’اختتام‘‘ نہیں بلکہ اپنے اعصاب کی مضبوطی کا ذریعہ بناتا ہے ۔کیوںکہ اس کو یقین ہوتاہے کہ زندگی میں کسی بھی مشکل کامطلب ’’The End‘‘نہیں بلکہ ہر مقام سے آگے ایک اور مقام منتظر ہوتاہے اور ذوق سفر نہ ہو توجینے کا مزہ ہے اور نہ ہی فائدہ ۔
مائنڈ کے ساتھ’’یقین‘‘ کاایک گہراتعلق ہے ۔انسان کا اپنے آپ پر یقین کہ ’’ہاں میں کرسکتاہوں ‘‘ یا پھر کسی اُستا د یا سینئر کااس کے کندھے پر تھپکی دے کر کہنا کہ ’’بیٹا! تم بہت آگے جاسکتے ہو‘‘ دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔’’Growth Mindset‘‘والے انسان کے پاس’’ Yes, i can‘‘کایقین ہوتا ہے اور اسی کی بدولت وہ خود کو اور دنیا کو بدل سکتاہے جبکہ’’Fixed Mindset‘‘والا’’I can’t‘‘کے کنویں میں قیدہوتاہے ۔
دوسرا یقین یہ ہے کہ میں جو اس زمانے میں موجود ہوں ،میں ویسے نہیں آیا بلکہ مجھے کسی خاص مقصد کے تحت بھیجاگیاہے۔انسان کا یہ یقین جتنا پختہ ہوتا ہے اتناہی وہ زندگی میں سنجیدہ ہوتا ہے اور اپنے ’’مقصد‘‘ کو تلاش کرنے کی جستجو کرتاہے۔
تیسرا یقین یہ ہے کہ غلطیوں کا مطلب سیکھنا ہوتاہے۔اس دنیا میں جتنے بھی لوگ کامیابی کی معراج پر پہنچے ہیں وہ آخر انسان ہی تھے اور میں بھی انسا ن ہوں۔میں بھی اگر اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلوں تو ان سے بڑھ کر کامیاب ہوسکتا ہوں۔ Practice(مشق)سے ہی انسان کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جو انسان اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا وہ ترقی بھی نہیں کرسکتا۔دراصل یہ اس کی ’’انا‘‘ کا مسئلہ ہوتا ہے۔’’انا‘‘ اس کو کہتی ہے کہ تو بالکل ٹھیک ہے۔تجھے غلطی تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ۔یقین جانیں !ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ غربت نہیں ہے بلکہ انا ہے۔یہ انا ہی ہے جو انسان کو درگزرسے دور اوربدلہ لینے پراُکساتی ہے۔روڈ پر جاتے ہوئے اس کی گاڑی کے ساتھ معمولی سا بھی کوئی لگ جائے تو یہ ہاتھاپائی اور اس کی بے عزتی کرنے پراترآتاہے اورنوبت بڑے جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔اس ساری صورت حال میں وہ اپنے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی انرجی اورEmotions( جذبات) کو بھی بے دردی سے ضائع کردیتا ہے اور بعد میں اُس پر پچھتاتاہے،جبکہ اناسے خالی عاجز انسان کواللہ ہمیشہ نوازتاہے۔صراحی بھی پیمانے کو تب ہی بھراکرتی ہے جب وہ سرنگوں ہوجاتی ہے۔
مائنڈسیٹ کا دوسرابنیادی رُکن ’’سوچ‘‘ ہے ۔یہ وہ خیال ہوتاہے جو انسان کے ذہن میں خودبخود آتاہے اور دراصل یہی انسان کی اصلیت ہوتی ہے۔آپ اچھا سوچتے ہیں ، براسوچتے ہیں ، اپنے آپ کو کامیاب سوچتے ہیں یاناکام ۔ان تمام کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کیا سنتے ہیں ،کیا پڑھتے اور کیا دیکھتے ہیں۔جو بھی آپ کے دماغ میں’’ In‘‘ہوتاہے ،’’Out‘‘بھی وہی ہوتاہے۔کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کامیاب لوگوں کی کہانیاں پڑھیں او ر سنیں ۔کیوں کہ جب انسان اپنے جیسے انسان کو کامیاب ہوتاہوا دیکھتا ہے تب ہی اس کا عزم بڑھتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ آج معاشرے میں ’’ڈی موٹیویشنل اسپیکرز‘‘ ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور جوبھی انسان کچھ نیا قدم اُٹھانا چاہتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں:’’یہ کام تمھارے بس کا نہیں ، تم کر ہی نہیں سکتے۔‘‘اور یوں ایک انسان کے بلند عزائم مٹی میں رول دیے جاتے ہیں۔قصہ مشہور ہے کہ مینڈکوں کاایک گروپ جارہا تھا ۔بارش ہوئی تھی ، زمین کیچڑ سے بھری ہوئی تھی۔اچانک ایک پھسلا، دوسرااس کو بچانے کے لیے لپکا تو وہ بھی پھسل گیا اور کرتے کرتے سب ہی نیچے کنویں میں جاگرے۔اب سب نے باہر آنے کے لیے زور لگانا شروع کیا۔اتنے میں جنگل سے دوسرے مینڈک بھی آگئے اور کنویں کے منڈیر پر بیٹھ کر انھیں آوازیں دینے لگے۔کنویں میں موجود مینڈکوں نے بڑی کوشش کی لیکن و ہ نکل نہ سکے اور ایک ایک کرکے واپس پانی میں گرتے گئے لیکن ایک مینڈک ایسا تھا جو با ربار کوشش کررہا تھا۔اوپر والے مینڈکوں نے شورمچانا شروع کیا:’’تو نہیں نکل سکتا،دیکھ باقی سارے بھی نیچے پڑے ہیں، یہ تمھارے بس کا نہیں ہے‘‘ لیکن مینڈک مسلسل جدوجہد کررہا تھا اورایک لمبی تگ و دو کے بعدبالآخر وہ کنویں سے نکل آیا۔ باہر موجود مینڈکوں کو تو چپ لگ گئی ۔انھوں نے اس سے اس ’’بہادری‘‘ کی وجہ پوچھی لیکن سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ تو بہرہ تھا۔
آپ نے زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو آس پاس کی آوازوں پر دھیان مت دیجیے ، یہاں ایسی آوازیں کم ہی ہوں گی جو آپ کا حوصلہ بڑھائیں۔
جس طرح دریا میں تیراکی کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی تیاری مکمل ہو اور آپ کو تیرناآتاہو ، ورنہ آپ منہ زور لہروں کے رحم و کرم پر ہوں گے جو آپ سے زندگی بھی چھین سکتی ہیں۔اسی طرح زندگی کی مشکلات کے لیے بھی تیاری کی ضرورت ہے اور ا س تیار ی کانام ’’مائنڈسیٹ‘‘ ہے ۔اگرآپ نے اپنا مائنڈ سیٹ’’Growth‘‘والا بنادیاتوپھر آپ ہر طرح کے حالات کاسامناکرسکیں گے اور ’’مشکل‘‘ کو بھی اپنے لیے ’’موقع‘‘ بناسکیں گے۔