اللہ کی رضا میں راضی
تحریر : قاسم علی شاہ
لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو بہت زیادہ عبادت کرتی ہے اورساتھ ہی ساتھ ان میں تکبر بھی پایا جاتا ہے۔ عبادت تو عاجزی پیدا کرتی ہے، عبادت زبان میں مٹھاس پیدا کرتی ہے، عبادت سجدے کی طرف لے کر جاتی ہے، عبادت جُھکنا سکھاتی ہے۔جب ہم پہ کوئی آ زمائش آ تی ہے تو فوری ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہی ایساکیوں ہے؟یہ ایک مزاج ہے اور اس مزاج کا نام’’شکوہ ‘‘ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں ہے۔ ہمیں اس مزاج کو بدلنے اور شکوے کی جگہ ’’شکر ‘‘لانے کی ضرورت ہے۔زندگی میں سب چیزیں سو فیصد نہیں ہوتیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سمجھ کر قبول کرنا چاہیےاللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے یہ فرما دیا کہ میں ستر ماؤں سے زیادہ پیارکرنے والا ہوں۔کہاں ایک ماں کا پیا ر نہیں سنبھالا جاتا اور کہاں ستر ماؤں کا پیار ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والاوہ رب کیسے چاہے گا کہ اس کا بندہ بھٹک جائے پستیوں میں چلا جائے یا پھر گمراہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ۔ ہمارا اللہ تعالیٰ سے تخلیق کا تعلق ہے۔ اس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اور اس تخلیق کی بنیاد محبت ہے۔ کوئی بھی چیز اس وقت تیار ہوتی ہے جب اس میں محبت ڈالی جاتی ہے ۔جیسے بچہ کا غذ پر تصویر بناتا ہے تو اس کو اس تصویر سے محبت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں تخلیق کیا ہے وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔ہر کام سے پہلے حتی کہ ہماری پیاری کتاب قرآن مجید کا آغازبھی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کے دو تعارف رحمان اور رحیم ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر یہ دونوں نام شروع میں ہی کیوں ہیں۔ بعض مفسرین کرام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں الفاظ کے ماخذ میں “رَحَم” آتا ہے اور “رحمِ مادر” وہ مقام ہے جہاں سے زندگی کی ابتداء ہوتی ہے۔ جب یہاں پر انسان ہوتا ہے تو اس کو تقاضے اور تمنا کے بغیر ملتا ہے۔ جب ہماری تخلیق شروع ہوتی ہے توہمیں ہماری ضرورتوں کے مطابق رزق ملنا شروع ہو جاتا ہے اور ہماری نشوو نما کے اسباب بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ کہاں زبان پر یہ الفاظ آئیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں رزق عطا کر اور کہاں وہ ذات جو ہما ری تمنا کے بغیر ہماری ضرورت کے مطابق عطا کرتی ہے۔
ماں کو ہم سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ اس کو ہمارے رونے کا سبب معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ بھوک کی وجہ سے رو رہا ہے یا درد کی وجہ سے؟اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے یہ فرما دیا کہ’’ میں ستر ماؤں سے زیادہ پیارکرنے والا ہوں۔‘‘ کہاں ایک ماں کا پیا ر نہیں سنبھالا جاتا اور کہاں ستر ماؤں کا پیار، ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والاوہ ’’ رب‘‘ کیسے چاہے گا کہ اس کا بندہ بھٹک جائے ، پستیوں میں چلا جائے یا پھر گمراہ ہو جائے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ بندہ خود اپنے آپ کو گمراہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ میرا بندہ میری طرف پلٹے تا کہ میں اس کو ہدایت دوں۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کے لیے ضرور ی ہے کہ دین کو سطحی حدتک نہیں بلکہ پوری طرح سمجھا اور اس پر عمل کیا جائے۔ ہم جو کچھ کر تے ہیں ا س کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی رضا ہونی چاہیے۔ اگر ہماری عبادت ، سجدے ،صوم وصلوٰۃاورحج و عمرے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہیں ہیں تو پھر یہ عبادات کسی کام کی نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کی تجدید نہیں کرتے ہم اس ذات کو بھول جاتے ہیں جو بن مانگے عطا کرتی ہے۔ جب ہم بھول جاتے ہیں تو پھرعبادات کی روٹین تو ہوتی ہے لیکن اس میں نیت کی کمی رہ جاتی ہے۔
واصف علی واصف ؒسے کسی نے پوچھا کہ ’’کیسے پتا چلے گا کہ ہمارا اللہ ہم سے راضی ہے‘‘۔انہوں نے جواب دیا: ’’جتنا تم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اتنا اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے‘‘۔
زندگی میں سب چیزیں سو فیصد نہیں ہوتیں ہمیں کچھ چیزیں قبول کرنا پڑتی ہیں۔ جو چیزیں قبول کرنا پڑتی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر قبول کرنا چاہیے ۔جب یہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگا۔
ماضی کے مقابلے میں آج ہمارے پاس زیادہ آسائشیں ہیں تاہم اس کے باجود زبان پر شکوے ہیں ۔اس کی وجہ دین کے متعلق ہمارے غلط نظریات ہیں۔ہمیں اپنے نظریات کو قرآنی حوالوں سے دیکھنا چا ہیے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔’’اور ہم تمہیں آزمائیں گے! خوف سے بھوک اور مال واولاد کے نقصان سے اور صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تووہ کہتے ہیں :بیشک یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہے اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ155/)
غور کیا جائے تو ہمیں سب کچھ بتا دیا گیا ہے کہ زندگی میں ساری مرضی ہماری نہیں ہونی ، ساری چیزیں ہماری نہیں ہونی جب سب کچھ ہمارے مطابق نہیں ہوناتو پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔ ہم ان آزمائشوں پر پورا نہیں اترتے اور کہتے ہیں کہ میرے ساتھ ہی ایساکیوں ہے؟یہ ایک مزاج ہے اور اس مزاج کا نام’’شکوہ ‘‘ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں ہے۔ ہمیں اس مزاج کو بدلنے اور شکوے کی جگہ ’’شکر ‘‘لانے کی ضرورت ہے۔
ایاز محمود غزنوی کاانتہائی فرماں بردار غلام تھا وہ اتنا فرمان بردار تھا کہ محمود و ایاز محاورہ بن گیا۔ ایک دفعہ محمود غزنوی نے اپنے دربار میں اپنے وزیروں اور مشیروں کو بلایا اور انہیں اپنے ہاتھ سے خربوزہ کاٹ کر دیا اور کہا کہ اس کو کھاؤ اور بتا ؤ کہ یہ کیسا ہے۔ ایک مشیر نے ابھی منہ میں ڈالا ہی تھا کہ نگل دیا اور برا سا منہ بنا لیا دوسرے نے بھی ایسا ہی کیا، تیسرے نے بھی ایسا ہی کیا، غرض سب نے ایسا ہی کیا۔ جب ایاز کے پاس خربوزے کا ٹکڑا آیا تو اس نے مسکراتے ہوئے اس کو کھا لیا۔ محمود غزنوی نے سب سے پوچھا بتاؤ یہ خربوزہ کیسا تھا تو سب نے جواب دیا کہ’’ اتنا کڑوا خربوزہ زندگی میں ہم نے کبھی نہیں کھایا‘‘ جب ایاز سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ اتنا مزیدا ر خربوزہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں کھایا۔ محموز غزنوی نے کہا ’’یا تو تم جھوٹ بول رہے ہو یا پھر یہ سب ،میں ان کو مانوں یا تمہیں ؟‘‘ ایاز نے کہا ’’بادشاہ سلامت !حقیقت تو یہی ہے کہ یہ پھل کڑوا ہے لیکن میں نے آپ کے ہاتھوں سے اتنے میٹھے پھل کھائے ہیں اس لیے میرا دل نہیں چاہا کہ میں آپ سے کہوں کہ یہ کڑوا ہے۔‘‘
ہماری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں ، اتنی کرم نوازیاں اتنی آسانیاں اور اتنا فضل ہوتا ہے جس کو شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے باجود بجائے شکریہ ادا کرنے کے ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری محنت کا صلہ ہے۔ دوسری طرف اگر ہمیں تھوڑی سی تکلیف آتی ہے تو ہم فوری طور پر شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ راضی رہنا ایک اپروچ کا نام ہے۔ اس اپروچ کو اپنانا چاہیے۔ہمیں چاہیے کہ اس اپروچ کو اپنائیں اور راضی رہیں۔ہم اس دنیا میں محدود زندگی لے کر آئے ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس محدود زندگی میں جتنے بھی گناہ کیوں نہ ہو جائیں وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کم ہوں گے کیونکہ ا للہ تعالیٰ کی رحمت لامحدود ہے اور اس کا فرمان ہے ’’ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے آ پ پر زیادتی کی میری رحمت سے کبھی ناامید نہ ہونا،بے شک اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے،یقیناً وہ بڑا بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے(سورۃ الزمر:53)۔جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے تصور سے واقفیت ہوتی ہے تو پھر ایمان متزلزل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو گنا ہ کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والاہے حالانکہ سچی توبہ کا مطلب تو گناہ سے دُوری ہے ۔جب بندہ سچی توبہ کے ساتھ چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ مددگار ہوتے ہیں۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو بہت زیادہ عبادت کرتی ہے اورساتھ ہی ساتھ ان میں تکبر پایا جاتا ہے۔ عبادت تو عاجزی پیدا کرتی ہے، عبادت زبان میں مٹھاس پیدا کرتی ہے، عبادت سجدے کی طرف لے کر جاتی ہے، عبادت جُھکنا سکھاتی ہے۔ وہ گناہگار جو اس کی رحمت سے ناامید ہوگیا ہو اس سے بڑا بدقسمت کوئی نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’تم مجھے یاد کرو !میں تمہیں یاد کروں گا اورمیرا شکر اداکرو اور میری نا شکری نہ کرو۔‘‘(سورۃ بقرہ:152)سوچنے کی بات ہے کہ کہاں ہم اورکہاں اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیں یاد کرے ،ہمیں تو اس کی محبت میں فنا ہو جانا چاہیے۔حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں:’’باقی سے تعلق بقا کی طرف لے جاتا ہے اور فانی سے تعلق فنا کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق خاص دنوں اور راتوں کا محتاج نہیں ہوتا، یہ تو دل کی کیفیت ہوتی ہے۔بھٹکنے یا گمراہ ہونے سے بچنے کاایک ہی طریقہ ہے کہ نیک لوگوں کے ساتھ وابستہ رہا جائے۔جب بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ تو وہ تذکرہ اس محبت کو بڑھا دیتا ہے۔ آج ہی سے پہلا قدم محبت کا ضرور اٹھائیں !دو نفل اس محبت کے نام کریں،چند آنسو اس محبت کے نام کریں، سجدہ ٔوفا کریں جو اس بات کااعلان ہو کہ میرے مالک آج اور آئندہ زندگی میں میری ترجیحِ اوّل آپ ہی ہیں۔