زندگی ایک شان دار موقع

زندگی ایک شان دار موقع
(قاسم علی شاہ)
خاتون اینکر سوالات پوچھ رہی تھی اور اس کے سامنے دنیا کا سب سے بڑا انویسٹر اور درجنوں کمپنیوں کا مالک ’’وارن بفٹ‘‘ موجود تھا۔ وہ بڑے پُر اعتماد انداز میں بیٹھا خاتون کے سوالات کے جوابات دے رہا تھا۔ اچانک خاتون بولی:’’مسٹر بفٹ! آپ زندگی کے مواقع کو کیسا دیکھتے ہیں؟‘‘ وارن بفٹ کے چہرے پر شوخی اتر آئی، اس نے کوٹ کی جیب سے چیک بک نکالی اور ٹیبل پر رکھ کر بولا:’’یہ پین پکڑیں اورجتنا دل کرے، چیک پر رقم لکھ دیں۔‘‘ اینکر گڑبڑا گئی، وہ اس آفر کو ایک مذاق سمجھی اور مسکراہٹ کے ساتھ اگلے سوال کی طرف بڑھی۔ وارن بفٹ نے چیک بک واپس لی اور بولا: ’’میڈم اینکرپرسن! میری آفر بالکل سنجیدہ تھی لیکن افسوس کہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا۔ ‘‘وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا، مسکراہٹ اب بھی اس کے چہرے پر تھی۔ وہ بولا: ’’ہاں تمھارا سوال۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں کسی بھی موقع کو مذاق نہیں سمجھتا۔ میں زندگی میں آنے والے ہر چھوٹے اور بڑے موقع کو اہمیت دیتا ہوں، اس کو کیش کراتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آج ایک مالدار ترین انسان کی حیثیت سے آپ میرا انٹرویو کر رہی ہیں۔‘‘
زندگی کو اگر کوئی بہترین نام دیا جاسکتا ہے تو وہ ہے’’ موقع‘‘۔ یہ موقع ہی تو ہے کہ ہم زندہ ہیں، سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھ پاؤں حرکت کر رہے ہیں، ہمارے پاس اختیار کی طاقت اور وقت کی دولت ہے۔ ہمارا دماغ کام کر رہا ہے جس کی بدولت ہم اپنے لیے اچھی چیزوں کا انتخاب کرسکتے ہیں، اپنے لیے منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اور پھر اس کو عملی شکل دے کر خود کو کامیاب بھی بنا سکتے ہیں۔
یہ موقع 1440منٹس اور 24 گھنٹوں کی صورت میں روز ہمیں ملتا ہے۔ جوعقل مند ہوتا ہے وہ اس کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہے ۔وہ اس کو ضائع جانے نہیں دیتا بلکہ اپنے ہر منٹ کو مفید اور موثر بناتا ہے جبکہ ناقدرے انسان کے سامنے اس ’’موقع‘‘ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ وہ جب صبح بیدار ہوتا ہے تو سوچتا ہے کہ پھر صبح ہوگئی، آج پھر کام پر جانا پڑے گا اور وہی پرانی مصروفیات ہوں گی۔ اس کے لیے صبح کی تابناکی، دن کے اجالے اور رات کی تنہائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ ان سب چیزوں کو بس روٹین کی کارروائی سمجھتا ہے اور اس طرح کرتے کرتے پوری زندگی گزار دیتاہے۔
لیکن یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔
کیوں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کو رب نے ویسے ہی نہیں بھیجا بلکہ ہر انسان کا یہاں آنے کا ایک خاص مقصد ہے۔ یوں سمجھیں کہ کائنات کے نظام میں ایک چیز کی کمی ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انسان کو بھیجتا ہے۔ جب ہر انسان کسی خاص مقصد کے لیے آیا ہے تو پھر اس کا وقت بھی معمولی نہیں بلکہ انتہائی قیمتی ہے۔ وقت کا کوئی نعم البدل نہیں، یہ سونے سے زیادہ قیمتی اور جواہرات سے زیادہ انمول ہے، لیکن یہ خطرناک بھی ہے۔ یہ وہ دو دھاری تلوار ہے جس کو اگر انسان کاٹ نہ لے تو یہ انسان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ انتہائی وفادار دوست لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بھیانک دشمن بھی ہے۔ جو بھی شخص اپنے وقت کو ضائع کر دیتا ہے تو وقت اس کو ضائع کر دیتا ہے ۔لیکن جو اس موقع سے فائدہ اٹھالے تو یہ اس کے سرپر بادشاہت کا تاج بھی سجالیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک ریاست تھی جہاں کا اصول تھا کہ جو بھی شخص اس ریاست کا بادشاہ بنتا تو پانچ سال بعد اس کو معزول کر دیا جاتا اور پھر اس کو جنگل بدر کر دیا جاتا۔جنگل آبادی سے کافی دور تھا، جس میں درندوں اور چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کی کثرت تھی۔جو بھی بادشاہ ایک دفعہ جنگل میں داخل ہو جاتا پھر اس کی واپسی مشکل ہوتی۔ اسی شرط کے خوف سے ایک وقت ایسا آیا کہ کوئی بھی شخص بادشاہت کے لیے تیار نہیں ہو رہا تھا۔ قوم متفکر تھی کہ اب کیا بنے گا؟ ایک دن ایک مسافر کا گزر وہاں سے ہوا، جو کہ بہت ہی عقل مند اور دانا تھا۔ یہ بات جب لوگوں کو پتا چلی تو انھوں نے اس کو اپنا بادشاہ بنالیا لیکن ساتھ ہی اس کو ریاست کا اصول بھی بتا دیا۔ دانا شخص مان گیا اور شاہی مسند پر بیٹھ گیا۔ پہلے سال میں وہ یہ پلاننگ کرتا رہا کہ اس جنگل کو رہنے کے قابل کیسے بنانا ہے۔ اگلے سال اس نے جنگل سے دور ایک چڑیا گھر بنایا اور جنگل کے تمام درندوں کو وہاں منتقل کرا دیا ۔ تیسرے سال اس نے جنگل سے تمام زہریلے پودوں کا خاتمہ کرایا۔ چوتھے سال اس نے چند بنیادی سہولیات کا بندوبست کرایا اوراس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی ریاست کے بے گھر لوگوں کے لیے جنگل کے آس پاس چھوٹے چھوٹے خوب صورت جھونپڑے بھی بنوا دیے اور پھر پانچ سال بعد جب وہ ریٹائر ہوکر جنگل کی طرف روانہ کر دیا گیا تو اس کو وہاں رہنے میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
یوں سمجھیں کہ آ پ بھی اس وقت ایک ریاست کے بادشاہ ہیں اور اگلے پانچ سال بعد آپ کو جنگل بدر کیا جائے گا۔ اب آپ کے سامنے دو راستے ہیں۔ آرام سے بیٹھ جائیں، کوئی محنت مشقت نہ کریں، گرمیوں میں ٹھنڈی لسی اور سردیوں میں گرما گرم سوپ پی کر لمبی تان کر سو جائیں، عیش کریں اور اس بادشاہت کے مزے لیجیے۔ جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جو اختیار اور وسائل موجو دہیں، انھیں کام میں لائیں، آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کریں اور اس کو شان دار بنانے کی کوشش کریں۔ آپ کا جو بھی فیصلہ ہوگا، اسی کے مطابق آپ کو نتائج ملیں گے۔
اپنے مستقبل کو بدلنے کے لیے اللہ نے آپ کو چار قسم کی توانائیاں عطا کی ہیں اور یقین جانیں کہ اگر آپ ان توانائیوں کو درست انداز میں استعمال میں لائیں تو نہ صرف آپ خود کو بلکہ پورے زمانے کو بدل کر رکھ سکتے ہیں۔
پہلی توانائی جسمانی ہے۔ اس توانائی کی بدولت ہم چل پھر سکتے ہیں، سوتے ہیں، جاگتے ہیں، دوڑتے اور کھیلتے ہیں اور روزمرہ زندگی کے سارے کام سرانجام دیتے ہیں۔ یہی وہ توانائی ہے جو ہمارے لیے رزق کمانے کا سبب بھی بنتی ہے۔
دوسری توانائی جذبات کی ہے۔ محبت، چاہت، خواہش، عزم اور جذبہ سب اسی کے اندر آتے ہیں۔ یہ اس قدر زبردست توانائی ہے کہ اگر انسان اس کا درست استعمال کرلے تو وہ اپنی زندگی میں انقلاب لاسکتا ہے۔ نپولین ہل کہتا ہے کہ غصہ اور محبت دو ایسے جذبات ہیں جو اپنے اندر تعمیر اور تخریب کی بھرپور طاقت رکھتے ہیں۔ انسان محبت کرنے پر آئے تو تاج محل جیسی شاہ کار بنا دیتا ہے اور نفرت کرنے پر آئے تو ہلاکو خان کی طرح بستیاں اُجاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
تیسری توانائی خیال اور سوچ کی ہے۔ اللہ نے انسان کو عقل و دانش سے نوازا ہے۔ اسی کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیاز سوچتا ہے، مختلف طرح کے ڈاٹس کو جوڑتا ہے، چیزوں کا تجزیہ کرتا ہے، بھانپتا ہے اورپرکھتا ہے، اپنے لیے پلاننگ اور اسٹریٹجیز بناتا ہے اور کم وقت، محدود وسائل کے ساتھ خود کامیابی تک لے جاتا ہے۔
چوتھی توانائی روحانیت کی ہے۔ یہ آپ کا اپنے رب سے تعلق ہوتا ہے۔ایمان، توکل، یقین کامل، اخلاص اور انا کو قابو کرنا، ایسی صفات ہیں جو آپ کو اندرونی اطمینان دیتی ہیں۔ آپ کو باطنی طور پر مضبوط بناتی ہیں۔ آپ کو مایوسی، ناامیدی اور ناشکرے پن کے عذاب سے بچاتی ہیں، آپ کو خالق کے قریب کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کا محبوب بھی بناتی ہیں۔
ہر وہ انسان جو روحانی طور پر مضبوط ہوتو وہ اپنی زندگی میں مادی کامیابیاں بھی بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کرلیتا ہے۔ البتہ یہ چار توانائیاں آپ کے کسی کام کی نہیں اگر آپ کے پاس ایک چیز نہیں ہے۔ مثال سے سمجھیے!
آپ کے پاس BMW گاڑی ہے۔ آپ نے اس کی ٹینکی پٹرول سے بھردی ہے۔ اس کا سیاہ رنگ لشکارے مار رہا ہے۔ اس کی سیٹیں بہترین اور آرام دہ ہیں۔ اس میں اے سی اور ہیٹر کی سہولت بھی موجود ہے اور اس کے ٹائر بھی ٹاپ کوالٹی کے ہیں لیکن وہ گیراج میں ہی کھڑی ہے، اس کو آپ روڈ پر لاتے ہی نہیں تو اتنی قیمتی گاڑی کا کیا فائدہ؟ ایسے ہی اگر آپ کے پاس بھی زندگی میں کوئی مقصد اور ہدف نہیں ہے تو یہ چار توانائیاں کسی کام کی نہیں۔ ان توانائیوں کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ زندگی میں کچھ گولز اور اہداف مقرر کریں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ جب بھی انسان اپنے اہداف کو لکھ لیتا ہے تو ان کے حاصل ہونے کا امکان 42 فی صد بڑھ جاتاہے۔ آپ بھی اپنے اہداف کو لکھیے اور اس کے ساتھ ساتھ پانچ باتوں کادھیان بھی رکھیے۔
پہلی بات: آپ کے اہداف مخصوص ہونے چاہییں۔
آپ زندگی میں جو بھی ہدف بنائیں وہ مبہم نہ ہوں، بلکہ خاص اور متعین ہوں۔ مثال کے طورپر اگر ایک شخص کہتا ہے کہ میں زندگی میں بہت سار اپیسا کمانا چاہتا ہوں تو یہ کوئی گول نہیں ہے اور نہ ہی وہ شخص اس کو جلدی حاصل کرسکے گا۔ آپ نے جو بھی ہدف بنایا ہے اس کا نام، مقدار اور نوعیت بالکل واضح ہونی چاہیے۔ تب ہی وہ آسانی کے ساتھ آپ کی دسترس میں ہوگی۔
دوسری بات: آپ کا ہدف قابل پیمائش بھی ہو۔
اگر کسی شخص کا ہدف یہ ہے کہ میں اتنی شہرت حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ ساری دنیا مجھے پہچانے، تویہ غلط ہے۔ آ پ کو اپنا میدان واضح کرنا ہوگا۔ اس کے لیے آپ سوچیں کہ آپ کون سا کام کررہے ہیں اوریہ کام کس طرح کے لوگوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ آپ اس طبقے کے لوگوں کو اپنا ٹارگٹ بنائیں اور اپنے کام کو اس حد تک بہتر اور موثر بنائیں کہ آپ اپنے مخصوص حلقہ میں ٹا پ پر پہنچ جائیں۔ ساری دنیا آپ کو جانے یہ ضروری نہیں، بس آپ کو اپنے میدان کا شہسوار ہونا چاہیے۔
تیسری بات: آپ کا ہدف قابل رسائی بھی ہو۔
آپ نے ایساہدف بنانا ہے جوممکن بھی ہو۔ اگر کوئی شخص 35 سال کی عمر میں یہ ہدف بنائے کہ میں جس طرح بچپن میں خوب صورت اور پھرتیلا تھا، اسی طرح آج بھی بنوں تو یہ ہدف درست نہیں، کیوں کہ یہ ناقابل رسائی ہے۔ البتہ وہ اگر خود کو چست مضبوط، متحرک اور خوب صورت بنانا چاہتا ہے تو اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ ورزش شروع کرے، جم جوائن کرے، خوراک پر کنٹرول رکھے اور قدرتی چیزیں کھائے تو کچھ ہی عرصے میں وہ اپنا یہ ہدف حاصل کرلے گا۔
چوتھی بات: آپ کا ہدف حقیقت پر مبنی ہو۔
ایساکوئی بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا جو حقیقی زندگی کے برعکس ہو۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص اسی بات کے پیچھے پڑجائے کہ میں نے الہ دین کا چراغ لے کر رہناہے تو یہ خیالی دنیا کی باتیں ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ ہدف بنائے کہ میں نے فلاں شعبے میں اتنی محنت کرنی ہے کہ اس میدان میں مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ہو تو یہ ہدف ممکن ہے اور اس کی کئی ساری عملی مثالیں دنیا میں موجود بھی ہیں۔
پانچویں بات: آپ کا ہدف وقت کی قید میں ہو۔
آپ جو بھی ہدف بنائیں تو اس کے لیے مخصوص وقت بھی مقرر کریں جیسے میں نے اس سال انگریزی میں مہارت حاصل کرنی ہے۔ اب اگر کوئی شخص انگریزی سیکھنے کا ہدف تو بنائے لیکن اس کو وقت میں محدود نہ کرے تو ساری زندگی وہ اسی کام میں لگارہے گا اور وہ اس کو اچھے طریقے سے حاصل نہیں کرپائے گا۔
اس سال آپ کو 365دن، 52 ہفتوں ، 8760 گھنٹوں، 525600 منٹس اور31536000 سیکنڈز کی صورت میں ایک بہترین تحفہ ملا ہے۔ اس پیکج کا ایک ایک منٹ ایک زبردست موقع ہے۔ اپنے آپ کو بہتر کیجیے، خود کو تراشیے، اپنی کمزوریوں پر قابو پائیے تو اگلے سال تک آپ کا ایک The Best اور ایک نایاب ورژن آپ کے سامنے ہوگا۔

Related Posts