جھوٹی امید

جھوٹی امید
(قاسم علی شاہ)
سیٹھ صاحب گاڑی سے اتر کر گھر کی طرف بڑھنے لگے تو ان کی نظر دروازے کے پاس بیٹھے چوکیدار پر پڑی جو دسمبر کی ٹھنڈی رات میں خود کو گرم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ اس کے قریب گئے اور پوچھا؛ ”تمھارے پاس جیکٹ نہیں ہے؟“ چوکیدار بولا: ”صاحب! جیکٹ بہت مہنگی ہے اور میری تنخواہ کم ہے۔“اچھا، سیٹھ صاحب ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑگئے اور پھر بولے:”میں گھر جاکر تمھارے لیے جیکٹ لے کر آتا ہوں۔“ چوکیدار خوش ہوا اور تصور میں جیکٹ کی گرمی سے لطف اندوز ہونے لگا۔ رات گزر گئی، صبح سویرے موبائل بجنے لگا تو سیٹھ صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ فون بند کرنے کے بعد انھیں اچانک جیکٹ والی بات یاد آگئی۔ وہ بستر سے اترے، الماری کے پاس گئے اور اپنی جیکٹ نکال کر باہر چوکیدار کے پاس آئے۔ انھوں نے چوکیدار کو آواز دی لیکن جواب نہیں آیا۔ سیٹھ صاحب اس کے قریب گئے تو یہ دیکھ کر ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کہ چوکیدار کرسی پر بیٹھے بیٹھے ایک جانب لڑھک گیاتھا۔ سیٹھ صاحب نے اس کے گلے پر ہاتھ رکھا تو شہہ رگ ساکت ہوچکی تھی۔ چوکیدار مرچکا تھا اور اس کے بائیں ہاتھ میں پرچی تھی جس پر لکھا تھا: ”صاحب جی! میرے پاس جیکٹ نہیں تھی لیکن میں سردی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ آپ نے جیکٹ کی اُمید دلائی تو اب میں اس کے بغیر تکلیف محسوس کرنے لگا، سردی کی شدت بڑھ رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ میں اس کی تاب نہ لاکر صبح سے پہلے مرجاؤں۔ “سیٹھ صاحب چوکیدار کا مردہ جسم دیکھ کر شدید پچھتاوے میں مبتلا ہوچکے تھے۔

اُمید پہ دنیا قائم ہے۔ جب انسان کی امید ختم ہوجائے تو اس کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ہمارے آس پاس ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خوب صورت لباس اور دل کش مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہمیں سہانی امیدیں دلاتے ہیں لیکن کچھ وقت بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ انھوں نے جس چیز کا دعویٰ کیا تھا وہ سراسر غلط تھا اور یہ ڈھونگ انھوں نے اپنے فائدے کے لیے رچایا تھا۔

مستنصرحسین تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ لوگ پہلے ہمیں متاثر کرتے ہیں اور بعد میں متاثرہ کرکے چلے جاتے ہیں۔
روزمرہ زندگی میں اس طرح کے کرداروں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ آپ کے گھر کا ائر کنڈیشنر خراب ہوگیا، آپ مکینک کو بلاتے ہیں۔ وہ معائنہ کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ اس کا فلاں پرزہ خراب ہوگیا ہے، نیز اس کی مکمل صفائی کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگر ہم سے کروا لیں تو اس کے بعد کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔ وہ اپنے کام کامعاوضہ بھی زیادہ طلب کرتا ہے۔ آپ یہ سوچ کر زیادہ پیسے دینے پر راضی ہوجاتے ہیں کہ اس کے بعد میں ائر کنڈیشنر خراب ہونے کی زحمت سے بچ جاؤں گا، لیکن مہینہ استعمال کرنے کے بعد کاریگر کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور ائر کنڈیشنر ایک بار پھرکام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

آپ نے راستوں او ر سڑکوں پر بینرز دیکھے ہوں گے جو پرائیوٹ اسکولوں کی طرف سے لگائے گئے ہوتے ہیں۔ بعض اسکول بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ آپ کے بچوں کے مستقبل سنوارنے کا واحد ادارہ ہمارا اسکول ہے۔ داخلے کے وقت وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کا بچہ فرفر انگریزی بولے گا، اس کی تحریر خوب صورت ہوگی اور کچھ عرصے میں وہ قابلیت کا نمونہ ہوگا لیکن سال گزرنے کے بعد بھی بچے میں مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی، آپ اسکول انتظامیہ سے شکایت کرتے ہیں تو الزام آپ کے اوپر لگ جاتا ہے کہ بچے کی تربیت کی ذمہ داری صرف ہماری نہیں آپ کی بھی ہے۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں چیزیں بیچنے والا ایسے دعوے کرتا ہے جنھیں سن کر ہمارا دل مچلنے لگتا ہے، ہم وہ چیز خریدلیتے ہیں اور کچھ دن بعدمعلوم ہوتا ہے کہ ہمیں الو بنایا گیا ہے۔

لوگ جھوٹی امیدوں کاشکار کیوں ہوجاتے ہیں؟

دراصل ہم انسانی معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہماری تہذیب ہم سے انسانوں پر اعتماد کرنے کا تقاضا کرتی ہے، کیوں کہ اسی بنیاد پر سماجی تعلقات قائم ہوتے ہیں اور معاشرے کا کاروبار چلتا ہے۔ ہم دوسروں پر بھروسا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ہمارے اعتماد کو سنہری موقع سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیں دھوکا دے جاتے ہیں۔

ہم جھوٹی امید کے جھانسے میں اس لیے آتے ہیں کہ بعض اوقات ہم بنیادی معلومات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ جو چیز ہم خرید رہے ہیں وہ کس مواد سے بنی ہے، کہاں سے آئی ہے اور اس کی Market Value کیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ ہمیں جھوٹی یقین دہانی کرواتے ہیں جو کہ غلط ثابت ہوتی ہے اور ہم نقصان کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بعض اوقات ہم اپنے جذبات کی وجہ سے دھوکا کھاجاتے ہیں۔ اگر کوئی اجنبی ہمارے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئے، ہمارے لیے قابل احترام الفاظ استعمال کرے تو ہم اس جذباتی داؤ میں آجاتے ہیں اور ہم اس کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ ہمیں دھوکا دے جاتا ہے۔ ہم اگر اپنے جذبات پر قابو پائیں، عقل کا استعمال کرکے اس شخص کی باتوں پر توجہ دیں اور ان کا تجزیہ کریں تو نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

دھوکا کھانے کی ایک وجہ لالچ بھی ہے۔ لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ اس کیفیت میں ہمارے جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ کمزور ہو جاتا ہے۔ جب بھی ہم لالچ میں مبتلا ہوں گے تو چالاک شخص ہماری اس کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ وہ ہمیں یقین دلائے گا کہ فیصلہ کرنے کا یہی موقع ہے، اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو بعد میں پچھتائیں گے اور ہم اس کی باتوں میں آجاتے ہیں۔

انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی چیز کے لیے محنت کرتا ہے تو اس کے نتائج حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں توقع کے مطابق نتائج نہیں ملتے تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں اور اس کیفیت میں ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جو ہمارے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے تین حصے ہیں۔ ہم محنت کرتے ہیں اوراس کا نتیجہ فوراً مل جاتا ہے۔ کبھی کبھار محنت کا نتیجہ کچھ وقت کے بعد ملتا ہے۔ جب کہ بعض اوقات نتیجہ ملتا ہی نہیں، شاید آخرت کے لیے ذخیرہ بن جاتا ہے یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی اور شکل میں مل جائے لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ نہیں ملا۔ ایسے میں جو شخص صبر کا دامن تھام لے گا اور وقتی فائدے کے لیے پریشان نہیں ہوگا تو وہ بڑے نقصان سے بچ سکے گا۔

سوال یہ پید اہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کو جھوٹی امید کیوں دیتے ہیں؟

ہر وہ شخص جو محنت اور صبر کا قائل نہیں ہوتا اور جلد سے جلد فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ جھوٹ اور دھوکا دہی کا راستہ اپناتا ہے۔ اس لیے وہ چالاکی کا مظاہرہ کرکے دوسروں کو سہانے خواب دکھاتا ہے جو کہ بعد میں جعلی ثابت ہوتے ہیں۔
بعض لوگوں کی فطرت جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ ایک دفعہ کسی کو دھوکا دیتے ہیں اور اس کے بعد انھیں اس کام میں لطف آنے لگتا ہے۔ وہ سادہ لوگ ڈھونڈتے ہیں، انھیں اپنی چرب زبانی سے قائل کرکے دھوکا دیتے ہیں اور راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔

بعض اوقات انسان جھوٹا اور بدخصلت نہیں ہوتا بلکہ حالات سے مجبور ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے کسی شخص کو اُمید دلائی کہ اگر آپ میرے ادارے میں پانچ سال تک کام کریں تو اس کے بعد میں آپ کو گاڑی دوں گا۔ پانچ سال مکمل ہونے پر ملازم کو یقین ہوتا ہے کہ اب میں گاڑی کا مالک بن جاؤں گا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ دراصل پانچ سال پہلے آپ کے حالات کافی بہتر تھے لیکن اب ویسے نہیں ہیں۔ اس بات پر آپ کا ملازم ناراض ہوسکت اہے اور عین ممکن ہے کہ آ پ کو وعدہ فراموشی کا طعنہ بھی دے دے۔

بعض اوقات لوگ کسی مسئلے سے بچنے کے لیے دوسروں کو اُمید دلاتے ہیں لیکن پوری نہیں کرتے۔ جیسے آپ نے کسی شخص کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی، اس نے منظور کرلی لیکن بعد میں اسے معلوم ہواکہ آپ کے پڑوس میں اس کے بدخواہ موجود ہیں اور اگر وہ آپ کے گھر آگیا تو بدخواہوں کی وجہ سے اس کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔اس بات کو مدنظر رکھ کر وہ وعدے کے باوجود بھی نہیں آتا، کیوں کہ وہ کسی مسئلے یا لڑائی میں نہیں پڑنا چاہتا۔

جھوٹی امید دلانے اور دھوکا دینے سے انسان شاید کچھ فائدے حاصل کرلے لیکن اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔
اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ کبھی کسی کو دھوکا نہ دینا، دھوکے کو اپنی پیدائش کے مقام سے شدید محبت ہوتی ہے۔ یہ گھوم پھر کر واپس وہیں آتا ہے جہاں سے شروع ہوتا ہے۔
جھوٹ اور دھوکا دہی سے انسان کی ساکھ خراب ہوجاتی ہے۔ ایسے شخص پر لوگ اعتماد نہیں کرتے، اس کے ساتھ تعلقات نہیں بناتے اور اس کی بات پر بھروسا بھی نہیں کرتے۔ لوگوں کے دور ہونے کی وجہ سے اسے نئے مواقع نہیں ملتے اور وہ کوشش کے باوجود بھی ترقی نہیں کرسکتا۔

یاد رکھیں کہ ہم اس وقت سرمایادارانہ نظام میں جی رہے ہیں۔ یہاں اعتماد کا سکہ چلتا ہے۔ بعض اوقات کسی کمپنی کے اثاثے کم ہوتے ہیں لیکن اس کی Brand Value کھربوں ڈالرز میں ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ کمپنی کی ساکھ ہوتی ہے۔ ساکھ تب ملتی ہے جب انسان کا قول و فعل ایک ہو۔

دھوکے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے سفر پرروانہ کرنا جس کا انجام آپ کو معلوم ہے لیکن اسے نہیں معلوم۔ لہٰذا اس چیز سے بچنے کی کوشش کریں۔ جب بھی کسی کو اُمید دیں تو اپنے حالات کا جائزہ ضرور لیں۔ یہ ایک جاپانی حکمت ہے۔ جاپانی لوگ کہتے ہیں کہ ایسی جنگ کبھی نہ لڑو جس کی جیت کا آپ کو یقین نہ ہو۔ چنانچہ وہ ایسا کاروبار نہیں کرتے جس میں انھیں مہارت نہ ہو، ایسا تعلق شروع نہیں کرتے جسے نباہ نہ سکیں اور ایسا فیصلہ بھی نہیں کرتے جسے انجام تک پہنچانے کے وہ اہل نہ ہوں۔

آپ بھی کسی کو ایسی اُمید نہ دیں جسے آپ پوری نہ کرسکیں۔ اگر آپ نے کسی سے وعدہ کیا ہو لیکن اب اسے پورا نہیں کرسکتے تواس شخص کو اپنے حالات سے ضرور آگاہ کریں اور بتائیں کہ پہلے میرے حالات ٹھیک تھے، اب نہیں ہیں، میں آپ کی اُمید پوری نہیں کر سکتا اور معذرت خواہ ہوں۔

اگر آپ کوکسی شخص نے دھوکا دے دیا تو اس سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ واصف علی واصف کہتے ہیں کہ چالاک لوگ آپ کے استاد ہوتے ہیں۔ یہ آپ کو مزید نقصان سے بچنا سکھا دیتے ہیں۔ اگر آپ نے نقصان اٹھاکر کچھ سیکھ لیا تویقین جانیں کہ آپ فائدے میں رہے۔ آپ کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور تھی جو دھوکا کھانے کے بعد مکمل ہوئی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ زندگی میں خسارہ نہیں ہے۔ کبھی ہم Earn (فائدہ حاصل) کرتے ہیں اور کبھی Learn (سبق حاصل) کرتے ہیں۔

Related Posts