آخری سیب
(قاسم علی شاہ)
اس ہال میں کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے جو آج کی اس نشست سے مستفید ہونے کے لیے آئے تھے۔ٹرینر نے تمام شرکاء میں ایک ایک سیب تقسیم کیا اور کہا کہ اسے کھائیں۔ وہ سب سیب کھانے لگے۔ ان میں سے کوئی جلدی سیب کھاگیا، کوئی ایک منٹ میں، کوئی دو منٹ میں، کوئی دوسروں کو دیکھتا رہا۔ غرض ہر کوئی اپنے حساب سے سیب کھاتا رہا۔ آدھ گھنٹے بعد وہ مشق ختم ہوئی۔ پھر نئے سیب دئیے گئے۔ ایک ایک سیب دینے کے بعد اس نے کہا کہ اب اس سیب کو کھانا ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ سیب آپ کی زندگی کا آخری سیب ہے۔ یہ سننے کے بعد سارے لوگ اپنے اپنے سیبوں کو مزے لے لے کر کھا رہے تھے۔ جب انسان کو یقین ہوتا ہے کہ یہ میرا آخری سیب ہے تو وہ اس سے مزا لینے لگتا ہے۔ جو لمحہ آپ گزار رہے ہیں، یہ بھی آخری سیب ہی ہے۔ یہ جو آپ دن گزار رہے ہیں، یہ بھی آخری سیب کی طرح ہے۔ یہ جو وقت آپ گزار رہے ہیں، یہ بھی آخری لمحہ ہے۔ مگر ہمیں واہمہ ہوتا ہے کہ شائد یہ آخری نہیں ہے، ابھی تو زندگی بہت باقی ہے۔
جب آدمی کو یہ ادراک ہوجاتا ہے کہ وہ جو لمحہ گزار رہا ہے، وہ آخری ہے تو وہ اسے شان دار بناتا ہے۔ تب وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے۔ ایک آدمی اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کر تا ہے تو وہ شان دار ہے۔ شان دار کی سطح، ہر فرد کیلئے مختلف ہوتی ہے۔ ہم ساری زندگی انتظار کرتے ہیں کہ اگلے وقت میں بہتر کریں گے، مگر وہ وقت نہیں آتا۔ آپ کیلئے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرنا شروع کر دیں۔ یہ اظہار ایک وقت کا، ایک زمانے کا،ایک صورتحال کا، ایک دن کا اور ایک لمحے کا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، آج آپ کی بہترین صلاحیت کچھ اور ہے، دس سال پہلے کچھ اور تھی۔۔۔ اسی طرح، آنے والے وقتوں میں بہترین صلاحیت کے اظہار کا تصور بد ل جائے گا، کیو نکہ آپ میں بہتری آ رہی ہے۔
ہم دنیا کے کیلنڈر پر لاکھ جادو کر لیں، ممکن نہیں ہے کہ آج کا دن آپ کی زندگی میں دوبارہ آئے۔ اس لیے آج کے دن کو سلام کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو انعام کے طور پر دیا ہے۔ اس کا بہترین استعمال کریں۔ کبھی بھی زندگی میں کوئی چیز ضائع کرنے لگیں توآخری سیب کو ضرور یاد کیا کریں۔ اس تھیوری سے یہ فائدہ ہو گا کہ آپ کے جذبات بد ل جائیں گے۔ کسی کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ آنے والے کل میں زندہ ہو گا۔ یقین صرف یہی ہے کہ اس وقت سانس چل رہی ہے جب کل کا یقین ہی نہیں ہے تو پھر آج کا دن دنیا کا سب سے قیمتی دن ہے کیونکہ اس نے دوبارہ نہیں آنا۔ آج سے سو سال بعد ایک تاریخ لکھی جائے گی جس میں لکھا جائے گا کہ فلاں جگہ کچھ نہیں ہوتا تھا صرف کھیت ہی کھیت ہوتے تھے مگر وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑا شہر بن گیا جبکہ بندہ ملکیت بنا کر بیٹھا ہوا ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ سو سال پہلے والا بھی یہی سوچتا تھاکہ مجھے یہیں رہنا ہے اور شائد وقت کبھی ختم نہیں ہوگا۔
آپ سو سال پیچھے چلے جائیں اور ایک لمحے کیلئے سوچئے کہ سوسال پہلے تو ہمارے والدین بھی نہیں تھے، ہمارے وجود کی تو دور کی بات ہے۔ پتا ہی نہیں کہ اس نام کے کسی انسان کو دنیا میں آ نا ہے۔ اسی طرح، آپ سوسال آگے چلے جائیں اور غور کیجیے کہ ہم نہیں ہوں گے، اور شائد ہمارا نام اور وجود بھی نہ ہو۔ جب سوسال بعد ہمارے وجود نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی، ہم کائنات میں کسی اور جگہ ہوں گے تو ہم محسوس کریں گے کہ ہم تو جی کر ہی نہیں آئے۔ مجھے تو صرف ایک ہی سیب ملا تھا اور میں اس واہمے کے ساتھ اس سیب کو کھا گیا کہ اور سیب بھی ملیں گے۔ زندگی تو ایک بار ملی ہے اور ہم نے ایک بار کی زندگی کو ایک دم سے ہڑپ کر کے ضائع کر دیا۔ یوں ہماری پوری زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔
اپنی ذات کی تلاش
دنیا کی تاریخ میں یہ سوال ہمیشہ سنجیدہ شخص کو ملا ہے۔ آج تک اللہ تعالیٰ نے یہ سوال غیر سنجیدہ شخص کو دیا ہی نہیں ہے۔ کیا میں نے صرف والدین کے کہہ دینے پر داخلہ لیا ہے؟ کیاصرف میرا میرٹ لسٹ میں نام آگیا ہے، اس لیے داخل ہوا ہوں؟ آپ دیکھیں کہ آپ کو خدا نے کس کام کیلئے پیدا کیا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے سوال کیا کہ سر، کیسے پتا لگتا ہے اپنے آپ کا؟ انھوں نے جواب دیا کہ چند دن بعد یہ سوال کرنا۔ ہفتے بعد آپؒ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا سوال کیا تھا؟ اس نے کہا، میں سوال بھول چکا ہوں۔ آپؒ نے فرمایا کہ جس سوال کو تم ایک ہفتے بھی اپنے پاس سنبھال کے نہیں رکھ سکے، قدرت تمہیں اس کا جواب نہیں دے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اند ر ایک خوبی، ایک صلاحیت بلا کی رکھی ہے۔ آپ نے کبھی اس کو دیکھا ہی نہیں۔ ممکن ہے، کوئی بہت اچھا استاد ہو، کوئی بہت اچھا محقق ہو، ممکن ہے کوئی بہت بڑا کاروباری آدمی ہو۔
اخلاقیات آپ میں آ جائیں گی، لیکن آپ یہ ضرور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کون سی خاص صلاحیت سے نوازا ہے۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے کہ آپ ڈگر ی لینے کے بعد اپنی لائن تبدیل کر لیں۔ لیکن جس کام کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، کہیں وہ کام رہ نہ جائے۔ اگر آپ اس سارے نظام کو دیکھ کر اسی ڈگر پر چل رہے ہیں تو پھر آپ کو کامیابی نہیں ملے گی۔ جب آپ اپنے شوق کو ڈھونڈ لیتے ہیں تو آپ کو اپنا کام کام نہیں لگتا، کام اس کو کام لگتا ہے جو کام کو کام سمجھ رہا ہے۔ جس کیلئے کام فن ہے، عبادت ہے، شوق ہے، وہ کبھی نہیں تھکے گا۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ جیسے صوفیا کرام نے فرمایا کہ اپنے اندر دیکھو۔ جب آپ اپنے آپ کو تلاش کرلیتے ہیں تو سب سے پہلا تحفہ جو قدرت آپ کو دیتی ہے، وہ آپ کا اپنی ذات پر اعتماد ہوتا ہے۔ قدرت کی ہر چیز کو پتا ہے کہ میں کس لیے ہوں جیسے سورج روشنی دینے کیلئے ہے، پھول خوشبو دینے کیلئے ہے، دریاپانی کے بہائو کیلئے ہے۔ یہ آپ کی چھوٹی سی زندگی ہے۔ دوبار ہ اس دنیا میں آپ کو نہیں آنا۔ آپ کو ایک بار موقع ملا ہے، لہٰذاآپ اپنے اندر یہ سنجیدہ سوال پیدا کیجیے۔
پہلے اپنے آپ سے لڑو
کتابThe 7 Habits of Highly Effective Peopleنے دنیا پہ راج کیا ہے۔ اس کی ڈیڑھ کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ چالیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اس کے مصنف اسٹیفن آر کوی کو دنیا اس وقت کا سب سے بڑا لائف کوچ تسلیم کر تی ہے۔ اس کتاب میں ایک جملہ ہے جس میں مصنف کہتا ہے کہ ’’جتنے بھی ذہین لوگ ہوتے ہیں، انھیں بڑی جلدی اپنی خاصیت کا پتا چل جاتا ہے۔‘‘ آپ بھی ذہین بننا چاہتے ہیں تو اپنی اس خاصیت کا پتا لگائیں جس پر آپ کو کام کرنا ہے۔ جو طالب علم ابھی مخصوص سوالا ت کے گرد گھو م رہا ہے وہ بڑا انسان نہیں بن سکتا۔ جو شخص ذہین ہوتا ہے وہ فوری طور پر اپنی خاصیت کو دیکھتا ہے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلتا ہے۔ وہ پہلی جنگ اپنے آپ سے لڑتا ہے۔ یہی جملہ اپنے وقت کے درویش دیوجانس قلبی نے سکند ر اعظم سے کہا تھا۔ جب سکندرِ اعظم دنیا فتح کرکے آیا اور اس درویش سے کہنے لگا کہ میں نے کیا کمال کیا تو درویش نے مسکرا کر سوکھی روٹی کو پانی میں بھگویا اور کھاتے ہوئے ایک بات کہی کہ ’’تونے کچھ فتح نہیں کیا۔‘‘ سکندر نے پوچھا، کیوں؟ درویش نے جواب دیا، ’’اس دنیا کی فتح سے بڑا کام اپنی فتح ہے۔ اور وہ تو نے ابھی نہیں کی۔‘‘ سکندر اعظم نے کہا، ثبوت؟ درویش نے جواب دیا، ’’تو میرے غلام کا بھی غلام ہے۔‘‘ سکندر اعظم نے کہا، غلام کا غلام کیسے ہوگیا؟ درویش نے کہا، عرصے سے نفس میر ا غلام ہے اور تو نفس کا غلام ہے۔‘‘
جو آدمی اپنے آپ کو فتح نہیں کر سکتا، وہ دنیا کے ساتھ بھی نہیں لڑسکتا۔ انسان خود اپنا دشمن بنا ہوتا ہے اور دوسروں کو کوستا رہتا ہے۔ آپ کی اپنے ساتھ جنگ اصلاح کی جنگ ہے۔ اپنے آپ کو مارنے کی جنگ نہیں ہوتی۔ جب بھی آپ اپنی بہتری کی طرف آتے ہیں تو اس لڑائی میں آپ ہر بار خود کو بہتر کرتے ہیں۔ بعض اوقات استاد کی ڈانٹ آ پ کو بہتر کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ اسی طرح، آپ کا اپنے ساتھ رویہ، اپنے ساتھ آپ کا برتائو، آپ کی اپنی بہتری کیلئے ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی تذلیل کیلئے ہے۔
زندگی کی صحیح سمت
سارے کام ہی ٹھیک ہیں، مگر کاموں کے درمیان ایک ایسی نیت ہے جس سے سب چیزیں جڑتی ہیں۔ وہ نیت یہ ہے کہ میرے مالک جی رہا ہوں تو تیرے لیے جی رہا ہوں۔ دکان ہے تو تیر ے لیے ہے، بچے ہیں تو تیر ا حکم ہے تو پال رہا ہوں، پڑھ اس لیے رہا ہوں کہ تجھے علم والا مسلمان پسند ہے، کاروبار اس لیے چلا رہا ہوں کہ تو نے کہا ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، جذبہ اس لیے ہے کہ تیری نظر میں سب سے پہلے وہ آتا ہے جو تڑپتا ہے، جو روتا ہے۔ اگر آپ کے ہر کام کے پیچھے نیت مالک ہے تو ہر کام کی سمت ایک ہوگی۔ پھر سونا بھی عبادت ہو گا، پہننا بھی عبادت ہو گا، چلنا بھی عبادت ہو گا، کھانا بھی عبادت ہو گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ نوکری لگی ہوئی ہے، پیسے تو آنے ہی آنے ہیں۔ یقین کیجیے کہ جذبے سے کام کر کے دیکھیں، پیسہ پیچھے پیچھے آئے گا۔ آپ ڈبا نہ بنیں، انجن بنیں۔ ڈبے کی نشانی یہ ہے کہ وہ محتا ج ہے۔ انجن محتاج نہیں ہوتا۔ قدر ت نے انسان کو جو سب سے بڑی آگ دی ہے، آپ جذبے کو انجن بنائیں۔ شہرت کا ڈبا، عزت کا ڈبا، پیسے کا ڈبا، آسانیوں کا ڈبا، لوگوں سے میل جول کا ڈبا۔ یہ خودبہ خود آپ کے پیچھے چلتے آئیں گے۔
صرف ایک خوبی کواگر پکڑ لیا جائے تو وہ بہت بڑا نتیجہ دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اخلاق والے کی زندگی میں نہ مواقع کم ہو تے ہیں، نہ لوگ کم ہوتے ہیں۔ ہر فرد اس کیلئے خوش بختی بن جاتا ہے۔ ہر حادثہ اس کیلئے خوش قسمتی بن جاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اخلا ق ہے تو پھر دنیا آپ کے سامنے سرنگوں ہو گی۔ اچھے خواب پالیں۔ جب دینا اللہ تعالیٰ نے ہے تو پھر مانگنے میں شرم کس بات کی۔ اگر رینگ رینگ کر ہی زندگی گزارنی ہے تو پھرزندگی کا کوئی لطف نھیں ہے۔ ہم اپنی عقل و شعور کو اس قابل بنائیں کہ ہم ذمے داریاں اٹھاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچے جن پر ذمہ داریاں پڑ جاتی ہیں، جلد سمجھ دار ہو جاتے ہیں، بہ نسبت ان کے جو بیٹھے رہتے ہیں، جو انتظار کرتے رہتے ہیں، جو گرم ہوا سے بچنا چاہتے ہیں۔
زندگی میں یہ ضرور کیجیے کہ اپنی زندگی کے مقصد کے متعلق لائن لگائیں۔ جو جو چیزیں اس سے جڑتی ہیں، وہ کرتے جائیں اور ان چیزوں کو چھوڑ دیں جو نہیں جڑتیں۔ اگر آپ نے یہ کام کر لیا تو آپ کے کام کی رفتا ر تیز ہو جائے گی۔ لوگوں کی رفتا ر اسی وجہ سے تیز نہیں ہوتی کہ انھیں پتا ہی نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ہم گھر سے بڑے کا م کیلئے نکلتے ہیں اور محلے کی لڑائی دیکھ کر واپس آ جاتے ہیں۔ ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ جو چیزیں ہم سے جڑی ہوئی ہیں، ان کا اس سے تعلق ہی کوئی نہیں ہے۔ کسی نے دانشور سے کہا، مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ اس نے کہا، ٹھہر جائو، پہلے مجھے ٹیسٹ کراؤ کہ میں یہ بات سنوں یا نہ سنوں۔ دانشور نے پوچھا، ’’بات مجھ سے متعلق ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا، نہیں۔ دانشور نے پوچھا، ’’بات تجھ سے متعلق ہے؟‘‘ اس نے کہا، نہیں۔ دانشور نے کہا، ’’بات نہ تیرے فائدے کی ہے اور نہ میرے فائدے کی ہے، تو اس بات کا فائدہ کیا؟‘‘ ہم زندگی میں بے شمار چیزیں سن رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، وہ ہماری سمت سے نہیں ملتیں۔ اُن کاموں کو کرنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں۔ جو آدمی یہ طے کر لیتا ہے کہ مجھے سننا کیا ہے، دیکھنا کیا ہے،تو اس کے پاس اس بات کی گرفت آ جا تی ہے کہ مجھے سوچنا کیا ہے۔
زندگی میں اپنی سمت پر کام کیجیے۔ اگر سمت پر کام نہیں کریں گے تو پھر دن گزریں گے۔ یہ ہفتوں میں بدلیں گے، یہ مہینوں میں بدلیں گے، یہ برسوں میں بدلیں گے اور یہ برس زندگی میں بدلیں گے اور زندگی ختم ہو جائے گی۔ آپ کولھو کے بیل کی طرح کہیں نہیں پہنچیں گے، حالانکہ آپ ساری زندگی سفر کرتے رہے ہوں گے۔