بچوں کو صحت مند کیسے رکھا جائے؟

بچوں کو صحت مند کیسے رکھا جائے؟
(قاسم علی شاہ)
بادشاہ کی خواہش تھی کہ وہ ہمیشہ صحت مند رہے اور اقتدار کے مزے لوٹے۔ اس نے سلطنت میں اعلان کروایا کہ جو شخص مجھے ہمیشہ صحت مند رہنے کا راز بتادے گا میں اسے انعام کے طورپر ہیرے جواہرات دوں گا۔ کچھ دن بعد بادشاہ تک خبر پہنچی کہ فلاں گاؤں میں ایک شخص اسی سال کی عمر میں بھی صحت مند اور مضبوط جسم کا مالک ہے۔ بادشاہ نے اس شخص کی جاسوسی کا حکم دیا۔ شاہی کارندوں نے دیکھا کہ بوڑھا شخص صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے اور دور واقع پہاڑوں میں غائب ہو جاتا ہے۔ کارندوں نے اس کا پیچھا کیا اور کافی دیر بعد جب بوڑھا شخص پہاڑ سے اترا تو کارندوں نے اس کے ہاتھ میں پھل دیکھا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہی صحت کا راز ہے۔ یہ بات بادشاہ تک پہنچ گئی، وہ اس قدر بے تاب ہوا کہ پھل حاصل کرنے کے لیے وزیروں سمیت پہاڑ پر چلا گیا۔ کارندوں نے کافی دیر تلاش جاری رکھی لیکن انھیں وہ پھل نہیں ملا۔ چنانچہ گاؤں سے بوڑھے شخص کو بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تم صحت مند رہنے کے لیے جو پھل کھاتے ہو وہ لے کر آؤ۔ بوڑھا شخص پہاڑ کی دوسری طرف گیا اور بیر کے درخت سے چند دانے توڑ کر بادشاہ کے پاس لایا۔ بادشاہ کو غصہ آگیا اور بولا: یہ تو بیر کے دانے ہیں۔ بوڑھا شخص پرسکون انداز میں مسکرایا اور بولا: ”حضور! یہ درخت میں نے اُگایا ہے۔ میں روزانہ دس میل کا فاصلہ طے کرکے یہاں آتا ہوں اور اس درخت سے پھل کھا کر واپس جاتا ہوں۔ پیدل چلنا، پہاڑوں پر چڑھنا اور قدرتی خوراک کھانا میری لمبی عمر اور بہترین صحت کا راز ہے۔“

دنیا میں ایسی دوا موجود نہیں جسے کھا کر انسان ہمیشہ کے لیے صحت مند اور جوان رہے۔انسان کی اچھی صحت کا انحصار خوراک اور طرزِ زندگی پر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جیسے جیسے سہولیات بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے ہم سست اور سہل پسند بنتے جارہے ہیں جس کا بڑا اثر ہماری صحت پرپڑ رہاہے۔ دوسری طرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر مصنوعی خوراک اورJunk Foods کی تشہیر بھی ہماری صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ناقص خوراک کو ایسے پرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کے منہ میں پانی آجاتا ہے اور خاص طورپر بچے ان سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ بچہ جب بھی بسکٹ، ببل گم یا چاکلیٹ کا اشتہار دیکھتا ہے تو وہ اس کے تحت الشعور میں چلا جاتا ہے اور جب تک والدین اسے وہ چیز خرید کر نہ دیں وہ ضد کرتا رہتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ مصنوعی خوراک کی وجہ سے بچے کئی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آج کی تحریر میں ہم بچوں کی صحت اور خاص طور پر صحت مند Lunch Box تیار کرنے کے لیے مفید تجاویز بیان کریں گے۔

(1)آگاہی
والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کو جو کھلا رہے ہیں کیا وہ قدرتی خوراک ہے یا مصنوعی؟ عام طورپر بچوں کو ڈبے والا جوس، ڈبے والا دودھ، چپس، بسکٹ اور اس طرح کی بے شمارچیزیں دی جاتی ہیں لیکن درحقیقت یہ خوراک صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ والدین بے خبری میں بچوں کو زہر کھلا رہے ہوتے ہیں۔ آپ مصنوعی خوراک کے ڈبے پر موجود Code کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھیں توآپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس خوراک میں ملائے گئے کیمیکلز کس قدرنقصان دہ ہیں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ خوراک کے متعلق آگاہی حاصل کریں اور مصنوعی خوراکوں سے بچیں۔

(2)طرزِ زندگی
طرزِ زندگی میں پانچ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ خوراک، جسمانی سرگرمی (ورزش وغیرہ)، ذہنی صحت، نیند اور پانی کا استعمال۔ یہ تمام چیزیں ہماری صحت کو بناتی بھی ہیں اور بگاڑتی بھی ہیں۔ اگر ہماری خوراک ناقص ہے، جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، ہم ہر وقت پریشان اور متفکر رہتے ہیں، رات بھر جاگتے رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا طرزِ زندگی ٹھیک نہیں اور ہم بہت جلد بیمار پڑجائیں گے۔

(3) ناقص خوراک کے نقصانات
جب بچے مصنوعی خوراک کھانا شروع کرتے ہیں تویہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ زیادہ میٹھی چیزیں کھانے کی وجہ سے وہ روٹی سالن کھانا پسند نہیں کرتے، مصنوعی خوراک کی وجہ سے وہ بہت جلد غصہ ہوتے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد کرنے لگتے ہیں، روتے ہیں چلاتے ہیں اور پورا گھر سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ وہ جلد بازی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا جسم پھولا اور توانائی سے خالی ہوتاہے۔ ان کے دانت خراب ہو جاتے ہیں اور یہ چیز مزید بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

(4)غذائیت
بچوں کے کھانے میں ایسی خوراک شامل کریں جو غذائیت سے بھرپور ہو۔ مثال کے طورپر انھیں موسمی پھل کھلائیں۔ دوپہر اور رات کے کھانے میں سبزی شامل کریں۔ بچوں کے سامنے قدرتی خوراک اورخاص طورپر گھر میں بننے والی خوراک کی تعریف کریں تاکہ ان کا دھیان مصنوعی خوراکوں کی طرف نہ جائے۔

(5)جسمانی سرگرمی
بچوں کی بہترین صحت کے لیے جسمانی سرگرمی بہت ضروری ہے۔ انھیں روزانہ ایک گھنٹہ کھیلنے کی ترغیب دیں۔ کھیل کے ساتھ ساتھ انھیں سائیکل چلانے، تیراکی کرنے اور چہل قدمی کی اجازت دیں۔

(6)نیند
بچوں کی نیند پر خصوصی توجہ دیں۔ یاد رہے کہ چھوٹے بچوں کو زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ بڑے بچوں کو دن میں آٹھ سے گیارہ گھنٹے نیند چاہیے۔ ان کے کمرے پرسکون اور آرام دہ بنائیں اور وہاں ڈیجیٹیل آلات نہ رکھیں تاکہ بچے اپنی نیند پوری کرسکیں۔

(7)پانی
بعض اوقات بچوں کی طبیعت انتہائی خراب ہو جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ جسم میں پانی کی کمی ہوتی ہے۔ بچوں کو پیاس لگی ہوتی ہے لیکن کھیل کود یا کسی اور وجہ سے وہ پانی نہیں مانگتے جس کی وجہ سے ان کا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وقفے وقفے سے بچوں کو پانی پینے کی یاد دہانی کروایا کریں۔

(8)آئرن کی کمی
چڑچڑاپن، بھوک نہ لگنا، دودھ نہ پینا، چہرے پر زردی اور پڑھائی میں دل چسپی نہ لینا، یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ بچے آئرن کا شکارہیں۔ ایسے میں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ڈبے اورپیکٹ کی خوراک دینے کے بجائے قدرتی غذا کھانے کو دیں اور خاص طورپر ایسی سبزیاں اور پھل دیں جو ان کے جسم میں آئرن کی کمی پورا کر دیں۔

(9)جذباتی صحت
والدین کو چاہیے کہ گھر کا ماحول خوش گوار بنائیں جہاں بچے اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔بچوں کے ساتھ گپ شپ کریں اور انھیں بتائیں کہ جب آپ کسی تناؤ کا شکار ہوں تو گہرے سانس لینے کی مشق کریں۔ اپنا ذہن پرسکون رکھیں اپنی پریشانی ہمیں بتائیں تاکہ سب مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔

(10)والدین کی عادت
بچہ اپنے والدین سے سب کچھ سیکھتا ہے۔ جب والدین کہتے ہیں کہ چلو آج سینڈوچ یا پیزا منگواتے ہیں تو بچے کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ جاتی ہے۔ وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر والدین انکار کردیں تو بچہ رونے لگتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ مصنوعی خوراک سے پرہیز کریں، بچوں کو اس کی عادت نہ ڈلوائیں اور اپنی خوراک میں قدرتی چیزیں شامل کریں تو بچے مصنوعی خوراک کا مطالبہ نہیں کریں گے۔

(11) اشتہارات سے کیسے بچائیں
میڈیا پر دکھائے جانے والے زیادہ تر اشتہارات کھانے پینے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بچے جب یہ دیکھتے ہیں تو گھر یلو کھانے کے بجائے بازارکی بنی خوراک کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بچوں کو اس چیز سے بچانے کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جائے کہ ہفتے یا دو ہفتے بعد انھیں پسندیدہ چیز ملے گی اس سے پہلے نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ٹیلی وژن پر اشتہارات بند کروائے جائیں۔ اس مقصد کے لیےAds free سہولت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

(12) Lunch box
عام طورپر جب Lunch Box تیار کیا جاتا ہے تو اس میں کمزور معیار کی خوراک ڈالی جاتی ہے جو اگرچہ بچوں کو پسند ہوتی ہے لیکن ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بہترین Lunch Box وہ ہوتا ہے جس میں ایسی خوراک ہو جولذیذ ہونے کے ساتھ صحت مند بھی ہو۔ کیلا، سیب، تربوز، انگور، مالٹا اور ان کے علاوہ دیگر موسمی پھلوں سےLunch Box تیار کیا جاسکتا ہے۔ انڈے میں موجود پروٹین بچوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ انسانی دماغ میں جذبات، یادداشت، سیکھنے اور فیصلہ سازی کی قابلیت ہوتی ہے اور ان سب کو مضبوط بنانے کے لیے Omega three fatty acids کی خوراک درکارہوتی ہے جو کہ موسمی پھل، بادام، کھجور، اخروٹ اور دیگر خشک میوہ جات سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی بدولت بچوں کا حافظہ تیز ہوتا ہے اور کلاس کے دوران ملنے والی معلومات اس کی Long-term memory (طویل المیعاد یادداشت) میں محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ Vitamin C پر مشتمل خوراک بھی بچوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس کی بدولت ان میں قوت پیدا ہوتی ہے، وہ ذہنی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور تعلقات بنانے میں بھی ماہر ہوتے ہیں۔

(13)ماں کی مہارت کی ضرورت
بچے مصنوعی خوراک سے تب بچ سکیں گے جب والدین ان کے سامنے قدرتی خوراک دل کش انداز میں پیش کریں۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ کھانا بنانے کے مختلف طریقے سیکھیں۔ سبزیوں اورپھلوں کو ایسے انداز میں پیش کریں کہ بچوں کا دل ان کی جانب مائل ہو اور وہ شوق کے ساتھ کھائیں۔

Related Posts