اپنی ذات میں تبدیلی
(قاسم علی شاہ)
انسانی تجربات کا نچوڑ ہے کہ تبدیلی کے عمل کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ہم اپنی ہی ذات پر غور کریں تو کئی فکری وارتقائی عوامل سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ معاشرہ اور یہ ملک آج ہمارے پاس ہے یہ کبھی ہمارے بڑوں کے پاس تھا انہیں یہ خبر نہیں تھی کہ یہ وقت بھی آئے گا۔ اسی طرح کبھی ہم بھی نہیں ہوں گے اور ایک وقت وہ بھی آئے گاجب یہاں ہماری آنے والی نسلیں ہوں گی۔ اگر ہم بہتر ہوں گے تو ہمارے شہر بہتر ہوں گے، ملک بہتر ہوگا، ہماری آنے والی نسلیںمحفوظ ہوں گی، ہمارے گھر محفوظ ہوں گے۔لہٰذااپنے اور نسلِ نو کے محفوظ مستقبل کے لیے ہمیں خود اپنی ذات کا احتساب کرنا ہو گا، اپنے انداز میں،اپنی ذات میں،اپنی سوچ میں روز افزوں تبدیلی لانا ہو گی۔جب سوچ بدلے گی توہمارے روّیے اور عمل میں بھی تبدیلی آ ئے گی۔
زمانہ ء جدید میں کامیابی کی دوڑ اِس قدر تیز ہے کہ ہماری پرسنل اور پروفیشنل زندگی میں لوگوں کا روّیہ، عمل، نظریہ اور تنقید ہمار ی حیثیت کم کر دیتی ہے جس کی وجہ سے ہماری موٹیویشن کم ہو جاتی ہے۔لہٰذاہمیں چاہیے کہ بحثیت ذمہ دار شہری ہم اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں سے اچھے اور بہترین انداز میں پیش آئیں۔ تحقیقات کے مطابق ایک ایسا شخص جو دوسروں کے ساتھ اچھا روّیہ اپناتا ہے اس کا اَثر دوسروں پر بعد میں ہوتا ہے پہلے اس شخص کی اپنی ذات پر ہوتا ہے۔اِس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گرم کوئلہ کسی کو مارا جائے تو پہلے مارنے والے کا ہاتھ ہی جلے گا۔ اسی طرح الفاظ، جملے، روّیے کوئلہ بھی ہوسکتے ہیں اور ایک خوبصورت انداز بھی۔ جب تک زبان سے جملہ نہیں نکلتا یہ انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔لیکن جیسے ہی جملہ زبان سے ادا ہوتا ہے انسان کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ زبان سے نکلاہوا جملہ اور کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آ تا۔ لہٰذا آج سے طے کرلیں کہ ہمارے روّیے اور جملے سے کسی کی دل آزاری نہیں ہو گی، کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ دوسرے کانقصان بعد میں ہوگا سب سے پہلے ہمارا اپنانقصان ہوگا۔ برتن میں زہر ڈال کر اس کو انڈیل بھی دیںتو زہر کا اثر باقی رہتا ہے اور اس کو دھوئے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح انسان بھی برتن کی مانند ہے،اس کی زبان اور دل بھی برتن کی مانند ہیں۔ ہماری برُی سوچ اور منفی نظریہ اِس قدر نقصان دہ ہیں کہ اِس کے بارے میں ایک بزرگ فرماتے ہیں اگر بندے کویہ معلوم ہو جائے کہ کسی کے ساتھ کی ہوئی نیکی اور بدی کیا ہے،غلطی کا خود کو نقصان کتنا زیادہ ہے تو وہ کبھی غلطی ہی نہ کرے۔ اصل میں انسان اِس غلط فہمی میں رہتا ہے کہ میرانقصان نہیں ہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے میرا بڑا فائدہ ہو رہا ہے تو ایسا نہیں ہوتا۔
ہمارے اِرد گرد رہنے والوں میں دوسرے افراد کی طرح ہمارے گھر والے بھی شامل ہوتے ہیں اگر اِن کے ساتھ ہمارا روّیہ، ہمارا انداز بہتر نہیں ہوگا تو یہ اُن کی حق تلفی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک اس لیے بھی کریں کہ حضوراکرمﷺ کا ارشادِ پاک ہے ’’تمہارے اچھے سلوک کے سب سے زیادہ حق دار تمہارے اپنے گھر والے ہیں۔‘‘ اِس دنیا میں کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا میں ملنا شروع ہو جاتی ہے جسے بدلنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے ان میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ اگر آپ والدین کے گستاخ ہیں تو آپ کی اولاد بھی گستاخ ہوگی۔ آپ نے والدین کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو آپ کے بچے آپ کو رُسوا کریں گے۔لہذٰااپنی ذات اور روّیے میں تبدیلی لا کر سب سے پہلے گھر اور باہر والوں کے ساتھ بہترین روّیہ اختیار کریں۔
آج ایک عہد یہ بھی کریں کہ آپ کبھی وقتی فائدے کی غرض سے رشوت لے کر اپنی ذات کا نقصان نہیں کریں گے۔انسانی زندگی پر تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ حق حلال کا لقمہ کئی نسلوں پر اثر ڈالتا ہے۔ ہماری زندگی میں رزقِ حلال تھوڑا ہونے کے باوجود برکت والا ہوتا ہے اور وہ نسلوں کو بنا دیتا ہے جبکہ ِاس میں ملاوٹ کی صورت میں ہمیں سزاوار ٹھہرایا جاتا ہے جو اِس دنیا میں ہی ملنا شروع ہو جاتی ہے۔آج ہم سب یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم عاشقانِ رسولﷺ ہیں لیکن ہمارے عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ حضوراکرمﷺ کے ارشادِ مبارک کا مفہوم ہے کہ جو شخص رشوت لیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ ہم تصویر کا ایک رُخ دیکھتے ہیں،چیزیں چل پڑتی ہیں اور چلتے چلتے ہمارے معمولی عمل بھی کئی جگہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا ظلم جس کا زندگی میں ہی سامنا کرنا پڑے، ایسا نقصان ہے جس سے نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔لٰہذااگر کسی بھی شعبے میںآپ کو آپ کے آفیسرز غلط کام کرنے کو کہیں بھی تو آپ اس کو ناراض کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ کوکبھی ناراض نہ کریں۔زیادہ سے زیادہ آپ کی جگہ تبدیل ہو جائے گی بے شک اللہ تعالیٰ عزت دینے والا ہے۔ ایک وقت کی ناکامی کواللہ تعالیٰ کسی اور وقت کی کامیا بی بنا دے گا۔ زندگی میں ہارنا سیکھیں، ہار کو ماننا سیکھیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے ہارنا سیکھیں،آپ سرفراز ہو جائیں گے۔رشوت کے بارے میں بانو قدسیہ کہتی ہیں:
’’دنیا کا سب سے بڑا اپاہج وہ ہے جس کی سوچ اپاہج ہے او رسوچ اپاہج ہمیشہ رزق ِحرام سے ہوتی ہے۔ سوچ کا ٹھیک ہونا بھی رزقِ حلال سے ہے۔‘‘
اپنے اندر ایک تبدیلی یہ بھی لائیے کہ اپنے کام کا شکوہ کرنے کی بجائے شکر ادا کریں اور ہمیشہ اپنی نیت صاف رکھیں۔ ہم میں سے ہر کو ئی محدود سی زندگی میں محدود سے وسائل میں کسی نہ کسی شکل میں مجاہد ہے۔ ہتھیار سے بھی جہاد ہے اور قلم اور زبان سے بھی۔ اپنی زندگی میں اپنے کام کو بہادری اور جرأت سے کریں،ہمت کر کے اپنے کام کی نیت بدل لیں۔ اتنی نیت بدل لیں کہ ہمارا کام تو کام رہے لیکن اس کے ساتھ اس کا اَجر بھی ملنا شروع ہو جائے۔ اگر کسی کے ساتھ کام کرنا ہے یاجاب کرنی ہے تو اس کا گلہ اور شکوہ و شکایت نہیں کرنا، بلکہ شکر ادا کر کے اِس کی قدر کریں۔جب کا م شکوے کے بغیر کیا جائے تو دلی سکون و اطمینان اور خوشی میسر ہوتی ہے۔لٰہذاآج سے اپنی ذات میں ایک تبدیلی یہ بھی لائیں کہ اپنی زندگی سے گلہ بالکل ختم کر دیں کیونکہ یہ انسان کے مزاج پربُرا اثر ڈالتا ہے۔
ایک عہد یہ بھی کریں کہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ ہم اپنی زندگیوں پر غور کریںتو اتناہمارا حق نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہوا ہے۔ ہمیں حق سے بھی زیادہ مل رہا ہے،حق کے بغیر ملنا اللہ تعالیٰ کے کرم کی دلیل ہے۔اور اگر کام کرتے ہوئے دوسروں کے لیے آسانی صرف اِس لیے پیدا کر دی جائے کہ جس کو میرے ساتھ کام ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے تو عین ممکن ہے کہ ہمارے اِس چھوٹے سے عمل سے اللہ تعالیٰ کی ذات راضی ہو جائے اور چھوٹاسا کام بھی بڑا ہو جائے۔اس کے بارے میں بابا فیروزؒ فرماتے ہیں:
’’کام نہ بڑے ہوتے ہیں اور نہ چھوٹے،کاموں کی نیت کاموں کو بڑا اور چھوٹا کر دیتی ہے۔‘‘
اگر آپ اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کے لیے بہترین انداز میںکر تے ہیں تو وہی کام آپ کی عبادت بن جاتا ہے۔حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں:
’’دنیا کی سب سے بڑی تسبیح بندے کا کام ہوتا ہے۔‘‘
دنیا میں لاکھوں لوگ رات کو سوتے ہیں لیکن صبح اُٹھ نہیں پاتے،اُن کا وقت، توانائی، طاقت اور صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔لہٰذااِس سے پہلے کہ یہ وقت ختم ہو جائے اپنی ذات میں تبدیلی پیدا کیجیے اپنے اور اپنے سے جڑے لوگوں کی مدد کیجیے اور اگرآپ کے کام میں کہیں بے بسی آجائے تو صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور مدد کی التجا کریں۔ دوسروں سے بہتر وہ ہے جس کی ذات سے کسی کو نقصان پہنچنے کی بجائے فائدہ ہو اور اگر آپ کی ذات سے دوسروں کوفائدہ ملنا شروع ہوگیاہے تو آپ کی دنیا اور آخرت دونوں بننا شروع ہوگئی ہیں۔حضرت واصف علی واصف ؒ اسی کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
’’فقیری بے ضرر ہو جانے سے شروع اور منفعت بخش ہو جانے پر مکمل ہوتی ہے۔‘‘
ابھی سے طے کر لیں کہ زندگی میں اگر یہ وقت ملا ہے تو اپنی ذات میں تبدیلی ضرور پیدا کریں گے اور دعا کریںکہ اے میرے اللہ!میں تیری ذات پہ توکل کر کے ارادہ کرتا ہوں کہ آئندہ سے میری زندگی میںایک بہتری ضرور آئے گی اور وہ بہتری یہ ہے کہ میری ذات سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ نفع ہی ملے گی۔ کسی بھی انسان کے لیے اپنی ذات، اپنی سوچ، اپنے روّیے اور عمل کو بدلنا مشکل نہیں ہے بس اِس کے لیے پختہ ارادے اور فیصلے کی ضرورت ہے۔ اپنی ذات میں تبدیلی کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ فر ماتے ہیں:
’’میں وہی عمر ہوں جو بکریاں نہیں چَرا سکتا تھا، میں وہی عمر ہوں جو اونٹ نہیں چَرا سکتا تھا اور میں کیسے بھول جاؤں اس محبت کو جورسول کریم ﷺسے ہو گئی۔اور اگر وہ محبت نہ ہوتی تو میں عمر فاروق ؓ نہ بنتا۔‘‘
یہ پختہ ارادہ اور فیصلہ ہی تھا جس نے عمر کو صحابی رسول عمر فاروقؓ بنا دیا۔ لہذا آپ بھی عہد کریں اور آج سے ہی اپنی ذات کو بدلنے کا فیصلہ کریں۔اِس سے آپ کا کام عبادت بن جائے گا اور لوگوں کے منفی روّیوں کا آپ کی زندگی پرکوئی اثر بھی نہیں ہوگا۔