بادِ مخالف
(قاسم علی شاہ)
وہ موچی کا بیٹا تھا لیکن اپنے عزم سے دنیا کی بڑی سلطنت کا صدر بن گیا۔اس نے زندگی میں بے شمار مشکلات، مخالفت اور مایوس کن لمحات کا سامنا کیا مگر مایوس نہیں ہوا۔ بچپن میں اس کی ماں فوت ہوگئی۔ باپ غریب تھا، گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اسے بھی کام کرنا پڑتا تھا، چنانچہ وہ دِن کو کام کرتا اور رات پڑھنے میں گزار دیتا۔ ایک دفعہ اسے معلوم ہوا کہ دریا پار ایک وکیل رہتا ہے جس کے پاس کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ وہ وکیل کے پاس گیا۔ وکیل نے کہا، میرا ملازم چھٹی پر ہے، تم میرے پاس نوکری کرلو۔ابراہم نے ہامی بھری اور کتابوں کی محبت میں نوکری شروع کردی۔ اس وقت امریکا میں غلاموں کو بیچنے اور خریدنے کا کاروبار عروج پر تھا۔ ایک دفعہ اس نے کچھ لوگوں کو سیاہ فام غلاموں پر تشدد کرتے دیکھا، اسے شدید دُکھ ہوا اور اس نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ اس ظلم کاخاتمہ کرے گا لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں تھا۔ اس نظام کو ختم کرنے کے لیے اسے طاقت ور شخص بننا تھا، چنانچہ اس نے سیاست میں حصہ لیا۔ پہلے الیکشن میں وہ ناکام ہوگیا، اس نے دوسری بار حصہ لیا لیکن ناکام رہا۔ تیسری بار بھی وہ کام یابی نہ پاسکا۔ ناکامیوں کا یہ سلسلہ صرف اس کی سیاسی زندگی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا ذریعہ معاش اور ذاتی زندگی بھی شدید مشکلات کا شکار تھی۔ اسے دو دفعہ کاروبارمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بیٹے مرگئے۔ یہ حالات عام انسان پر آئے ہوتے تو وہ کب کا ٹوٹ چکا ہوتا لیکن معلوم نہیں ابراہم لنکن کس مٹی سے بنا ہوا تھا۔ اتنے صدمات کے باوجود بھی وہ پیچھے نہیں ہٹا۔ ا س کے دوست احباب کو خطرہ تھا کہ کہیں شدید مایوسی میں وہ خودکشی نہ کرلے، چنانچہ اس کے گھر سے چاقو اور چھری ہٹا دیے گئے، ابراہم لنکن بولا:’’ ابھی میں نے تاریخ رقم نہیں کی، جب تاریخ لکھوں گا، اس کے بعد مروں گا۔‘‘ طویل جدوجہد کے بعد جب وہ اقتدار میں آیا تو اس نے غلامی کے اس نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن بڑے بڑے سیٹھ اس کے مخالف ہوگئے، کیوں کہ ان کا کاروبار اسی کی بدولت قائم تھا۔ جنگ شروع ہوگئی جس میں ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بالآخر ابراہم لنکن اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا اور امریکا سے غلامی کا قبیح کاروبار بند ہوگیا لیکن بہت سے لوگ اس کے دشمن بن گئے اور 15اپریل 1865ء کو اسے قتل کر دیا گیا۔ شدید مخالفت، آزمائشوں اور بے پناہ مشکلات کے باجود ہمت نہ ہارنا اور امریکی تاریخ کو بدل کر رکھ دینا ایسا انقلابی قدم تھا جو عام شخص کے بس سے باہر تھا لیکن ابراہم لنکن نے مضبوط عزم اور بلند حوصلے کے ساتھ اسے کر دکھایا۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ آرام دہ اور پرسکون زندگی چاہتا ہے۔ وہ تکلیف، درد اور مصیبت سے بچنا چاہتا ہے۔ وہ کام یابی، عزت، شہرت اور دولت کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ شان دار زندگی گزارنے کے بعد جب وہ دنیا سے جائے تو لوگ اس کی مثال دیں اور اس کے کارناموں کے گن گائیں۔
اس دوران اگر اس کے سامنے مشکل آجائے، اسے نقصان پہنچے یا اس کی مخالفت کی جائے تو وہ شکوہ کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟وہ آزمائش سے نکلنا او ر پرسکون زندگی کی طر ف واپس جانا چاہتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ پیدائش سے لے کر موت تک دنیا میں گزارا گیا وقت ایک سفر ہے۔ یہ سفر موٹروے پر کیے جانے والے سفر کی طرح سیدھا اور آرام دہ نہیں بلکہ یہ نشیب و فراز کا مجموعہ ہے۔ اس میں خوش گوار لمحات بھی آتے ہیں اور تکلیف دہ مراحل بھی۔ کہیں انسان کو خوشی ملتی ہے تو کہیں اذیت۔ بانو قدسیہ کہتی تھی کہ انسان غم کی گرفت سے کبھی نہیں نکلتا، خوشی محض تھکان اتارنے کا وقفہ ہے۔
مشکلات اور آزمائش ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہے۔ البتہ ان کا حجم مختلف ہوتا ہے۔ جو انسان جس قدر عظیم ہوتا ہے اس کی مشکلات بھی اسی قدر بڑی ہوتی ہیں۔ بڑے انسان کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ جفت میں طاق بن جاتا ہے۔ وہ کئی سالوں تک دن رات ایک کرکے محنت کرتا ہے، اس کی محنت رنگ لاتی ہے، وہ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں سے منفرد بن جاتا ہے۔ وہ عام سے خاص بن جاتا ہے۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ہمارے جیسا انسان ہم سے آگے بڑھ گیا تو یہ چیز ان کے لیے ناقابل برداشت بن جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسان دوسروں کی کام یابی کو قبول کیوں نہیں کرتا؟
کیوں کہ ہر انسان عزت اور شہرت چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کے لیے محنت نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے اندر قربانی دینے کی ہمت ہوتی ہے۔البتہ جب دوسرے فرد کو کام یاب دیکھتا ہے تو اس سے حسد کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو ورغلاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاشرہ کام یاب شخص کے خلاف ہو جاتا ہے۔ کبھی اس کے کام پر اعتراض کیا جاتا ہے، کبھی اس کی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی اس کی کردارکشی کی جاتی ہے، کبھی اس کی باتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور کبھی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ پتھر اسی درخت پر پڑتے ہیں جس پر پھل لگا ہو۔
درست کام کرنے یا صحیح راستے پر چلنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کو ہموار راستہ ملے گا، بلکہ اس کی مخالفت ہوگی اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ درست راستے پر گامزن ہے۔ جیف بیزوس کہتا ہے کہ’’اگر تم تنقید برداشت نہیں کرسکتے تو نیا اور دل چسپ کام کرنا چھوڑ دو۔ ‘‘بادِمخالف انسان کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس فلسفے کو شاہین کی مثال سے بہترین انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔
جب بارش سے پہلے طوفانی ہوا چلتی ہے تو تمام پرندے اپنے گھونسلوں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ البتہ ایسے میں شاہین کا جوش پرواز بلند ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھونسلے سے نکلتا ہے، فضا میں غوطہ لگاتا ہے اور اس کے بعد ہوا کی مخالف سمت میں اڑنا شروع کرتا ہے۔ اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ زور لگاتا ہے، جس قدر وہ پروں کو پھڑ پھڑاتا ہے اسی قدر اس کے اعصاب مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ وہ ہوا کی شدت کو استعمال میں لاکر اپنی پرواز اونچی کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ مخصوص بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔ طوفانی ہوا کامقابلہ کرنے کے بعد اس کے اعتماد اور پروں کی طاقت میں شان دار اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ انتہائی بلندی پر جا کر وسیع فضا میں اپنا شکار بآسانی ڈھونڈ لیتا ہے اور پھر ایک ہی جست میں اسے اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔
بڑے انسان کی زندگی میں آنے والی باد مخالف بھی یہی کردار ادا کرتی ہے۔
جب بھی اس کی ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی میں بحران آتا ہے تو یہ اس کی قوت برداشت میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ جلد بازی میں ردعمل نہیں دیتا بلکہ حالات درست ہونے کاانتظار کرتا ہے۔ اس کی ذات میں ٹھہراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔اس کا ظرف بڑا ہو جاتا ہے۔ یہ چیز اس کے رویے میں لچک پیدا کر دیتی ہے۔وہ مختلف طرح کے حالات و واقعات کو قبول کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں نئے لوگ شامل ہوتے ہیں، نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اس بحران کے بعد اس کی زندگی میں بہترین تبدیلی آتی ہے۔
طوفانی ہوا میں شاہین اپنی پرواز اونچی کرکے طوفان سے اوپر چلا جاتا ہے۔بڑے انسان پر جب مشکلات آتی ہیں تو وہ انھیں اپنے اعصاب پر حاوی نہیں کرتا بلکہ رب کی ذات پر توکل کرکے خود کو مشکلات سے بڑا بنا لیتا ہے۔ اس کی نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور وہ دوسروں سے زیادہ دوراندیش بن جاتا ہے۔
شاہین تنہا طوفانی ہواؤں کا مقابلہ کرتا ہے۔ بڑے انسان کی زندگی میں جب آزمائش آتی ہے تو وہ تنہا اس کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنی ذات سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ اس کی شخصیت مضبوط بن جاتی ہے اور اس آزمائش کے بعد وہ حقیقی معنوں میں قیمتی انسان بن جاتا ہے۔
آزمائش اس کے کردار کو تقویت دیتی ہے۔ وہ اپنی اقدار، خیالات اور نظریات پرمزید پختگی کے ساتھ عمل پیرا ہوتا ہے۔ مشکل اس کے لیے آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ اپنی شخصیت کا جائزہ لیتا ہے، اپنی کمزوریوں کو خوبیوں میں بدلتا ہے اور اپنی ذات کا نیا روپ (Version) بناتا ہے۔
جب سمندر میں کشتی چل رہی ہوا ور تیز ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں تو ملاح بادبانوں کو ہوا کے مطابق درست کر دیتے ہیں۔ اسی طرح بڑے انسان کی زندگی میں بھی جب مشکل حالات آجائیں تو وہ ان کے مطابق زندگی ترتیب دیتا ہے۔ وہ اتنی گنجائش پیدا کرتا ہے جس میں مشکل حالات کا ریلہ گزر جائے اور زندگی پرسکون ہو جائے۔ آزمائش اسے موافقت اور قبول کرنے کا فن سکھاتی ہے اور اس کے بعد وہ بڑے بڑے بحرانوں سے بھی با آسانی گزر جاتا ہے۔
آزمائش انسان کو نرم دل اور ہم درد بناتی ہے۔ وہ دوسروں کے درد کو بخوبی سمجھ سکتا ہے اور ان کی مشکلات ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
معروف مصنف زگ زیگلر کا قول ہے کہ مشکل راستے کی منزل ہمیشہ خوب صورت ہوتی ہے۔
آزمائش انسان کی منزل کو خوب صورتی عطا کرتی ہے۔ اس حالت میں اس کی تخلیقی صلاحیت بیدار ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ جب راستے بند ہو جائیں تو انھیں کھولنے کے لیے انسان کو سوچنا پڑتا ہے، دماغ حرکت میں آتا ہے اور وہ نئے امکانات پر غور کرتاہے۔ اس حالت میں وہ Out of the box چیزوں کو بھی زیر غور لاتا ہے اور ایسی تدابیر اختیار کرتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنی مشکلات حل کرلے۔
اگرآ پ کی زندگی میں ناموافق حالات چل رہے ہیں اور آپ کو بادمخالف کا سامنا ہے تو اسے بدقسمتی نہ سمجھیں۔ یقین کریں کہ زندگی ہمیشہ آرام دہ اور خوشیوں سے بھرپور نہیں ہوتی۔ راحت اور سکون سکے کا ایک رخ ہے۔اس کی دوسری طرف غم، دکھ اور تکلیف بھی ہے۔ نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ’’ناکام نہ ہونا کوئی عظمت نہیں، بلکہ ناکام ہوکر کام یاب ہونا کمال ہے۔‘‘مشکلات اور آزمائشیں آپ کو نکھارنے کے لیے آتی ہیں۔ بیج کو پودا بننے کے لیے زمین کے اندر دھنسنا پڑتا ہے، سختی برداشت کرنا پڑتی ہے، اس کے بعد وہ پھٹتا ہے اور زمین کا سینہ چیر کر نکلتا ہے۔ اگر آپ کی مخالفت ہو رہی ہے یا آپ پر تنقید کے پتھر برسائے جارہے ہوں تو پریشان مت ہوں، ان پتھروں کو جمع کرکے سیڑھیاں بنائیں اور اس پر چڑھ کر کام یابی کے معراج تک پہنچیں۔
جاپانی کہاوت ہے کہ’’سات بار گرو، آٹھویں بار اٹھو۔‘‘اور دنیا کو دکھا دو کہ گرجانے کا مطلب ہار نہیں ہوتا۔