چالیس کا چلہ

چالیس کا چلہ
(قاسم علی شاہ)
یہ آج سے بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میرے استاد نے مجھے فون کیا، ان کی طبیعت خراب تھی اور اتفاق سے گھرپہ کوئی نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ فارغ ہیں تو آکر مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ میں نے اپنا کام چھوڑا اور کچھ ہی دیر میں استاد صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ انھیں اپنی بائیک پر بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور جب دوا تجویز کرنے لگے تو میرے استاد سے پوچھا کہ آپ پہلے سے کوئی دوا استعمال کر رہے ہیں؟ استاد صاحب کہنے لگے، ”جی ہاں میں بلڈپریشر کی دوا لے رہا ہوں اور اس کے ساتھ ڈیپریشن کی بھی۔ “ڈیپریشن کا لفظ سن کر ڈاکٹر کے چہرے پر حیرت ابھر آئی جب کہ میں بھی چونک اٹھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں کوئی بھی شخص یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ اسے ڈیپریشن ہے اور وہ اس کے لیے دوا استعمال کر رہا ہے۔ ڈاکٹر نے دل چسپی سے پوچھا؛ اگرچہ آپ اس وقت پیٹ کے درد میں مبتلا ہیں لیکن بہ ظاہر ہشاش بشاش لگ رہے ہیں تو پھر ڈیپریشن کی گولیاں کیوں کھا رہے ہیں؟ “میرے استاد نے ڈاکٹر کو جو جواب دیا اس میں میرے لیے بہت بڑا سبق تھا۔ اس کی وجہ سے میری زندگی 180 ڈگری کے زاویے پر بدل گئی۔ انھوں نے ڈاکٹر کی آنکھو ں میں دیکھتے ہوئے کہا؛ ”ڈاکٹر صاحب! میں خواہشات ختم کرنے کاقائل تھا، میں سمجھ رہا تھا کہ خواہش انسان کو بے سکون کرتی ہے اور انسان اگر اپنی خواہشات ختم کرلے تو اس کی زندگی میں اطمینان آسکتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس چیز کی تبلیغ شروع کردی اور سب سے پہلے خود اس بات پر عمل کیا۔میں نے اپنے دل سے تمام خواہشات، آرزوئیں اور تمنائیں ایک ایک کرکے باہر نکال دیں۔ اس وقت میری عمر اسّی برس ہے۔ میں نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا ہے لیکن مجھے اس فیصلے کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ مجھے سزا ملی ہے اور میں ڈیپریشن کا شکار ہوچکا ہوں۔“میرے استاد کی بات سن کر ڈاکٹر نے سرد آہ بھری، اپنا قلم اٹھایا اور کاغذ پر دوا لکھ کر ہمیں دے دی۔

میں گھر واپس آیا تو رات ہو چکی تھی۔ میرے دماغ میں استاد صاحب کے الفاظ گونج رہے تھے کہ جو انسان اپنی خواہشات ختم کر دیتا ہے وہ ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنے استاد کی بدولت مجھے زندگی کا ایک بہترین فلسفہ مل چکا تھا۔ میں نے فوری طور پر اس فلسفے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنی ڈائری اٹھائی اور وہ تمام خواہشات لکھنا شروع کیں جو میرے دل کے نہاں خانوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ کہیں میرا دل خوب صورت مقامات کی سیر کے لیے مچلتا تھا، کہیں میں فطرت کی قربت میں وقت گزارنا چاہتا تھا اور کہیں نئی چیزیں سیکھنا، نئے لوگوں سے ملنا، نئے تجربات کرنا، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، کھانا پکانا اور دنیا کے عجائبات دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے کسی کتاب میں یہ اصول پڑھا تھا کہ آپ جب اپنی خواہشات کی فہرست بنائیں تو کوئی خواہش اس وجہ سے لکھنا نہ چھوڑیں کہ یہ کیسے پوری ہوگی۔ آپ بس لکھتے جائیں، چنانچہ میں نے بھی ایسی 100 خواہشات کی فہرست بنائی اور پختہ ارادہ کیا کہ چالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے یہ تمام خواہشات پوری کروں گا۔ اس کے بعد میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ سے دعا مانگی کہ میرے لیے یہ کام آسان بنا دے۔

گذشتہ سال جب میں نے اپنی ڈائری دیکھی تو حیران رہ گیا، اللہ کے فضل سے تمام اہداف پورے ہوگئے تھے۔ میری ٹیم نے اس فہرست پر مزید کام کیا اور ایک خوب صورت کتاب مرتب کی جو اِس وقت ”چالیس کا چلہ“ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔

انسان کی زندگی میں خواہش کی کیا اہمیت ہے، اس بارے میں نپولین ہل کہتا ہے کہ انسان کی تمام کام یابیوں کا آغاز خواہش سے ہوتا ہے۔
خواہش انسان کے لیے بہترین محرک ہے جو اسے ذاتی اور پیشہ ورانہ اہداف کے حصول پر مجبور کرتا ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ بات چل رہی ہوگی کہ مختلف فلسفی اور روحانی شخصیات تو خواہش ختم کرنے کی قائل ہیں اور دین بھی خواہشات پالنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ میں آپ سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ میری اس تحریر کا مقصد ایسی خواہش پالنا نہیں جو حرص اور ہوس بن جائے، جو انسان کو شر کا پتلا بنا دے، جس کی وجہ سے انسان کے اندر منفیت پیدا ہوجائے اور وہ خواہشات کا غلام بن کر اپنی دنیا و آخرت ضائع کر دے، بلکہ اس سے مراد اپنا مقصد حیات ڈھونڈنا، خدا کی زمین پر سیر کرنا، نئے لوگوں سے ملنا، نیا علم حاصل کرنا، نئے تجربات کرنا اور بھرپور انداز میں زندگی جینا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی خوب صورت خواہش کا گلہ گھونٹ دے تو پھر اس کی زندگی بے رنگ ہوجاتی ہے، کیوں کہ جب جستجو تمام ہو جائے پھر چلنے کا حوصلہ کہاں رہتا ہے۔ زندگی طلب، تڑپ اورتلاش کا نام ہے؛ بہ قول عادل اسیر دہلوی ؎
باقی ہے اب بھی ترک تمنا کی آرزو
کیوں کر کہیں کہ کوئی تمنا نہیں مجھے

جو انسان ایسی خوب صورت خواہشات کو ختم کردے تو سب سے پہلے اس کا حوصلہ جواب دے دیتا ہے۔ اس کے اندر ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو بہتر بنانے اور نئے اہداف حاصل کرنے کی طلب ختم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی زندگی جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔

خواہش انسان کی کارکردگی بہتر بناتی ہے۔ جب انسان کچھ نیا حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لیے محنت کرتا ہے، تیاری کرتا ہے، نئی حکمت عملی بناتا ہے اور پُرجوش ہوکر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر خواہش ختم ہو جائے تو پھر اس کا جوش، عزم اور توانائی بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ بہترین کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔
خواہش کا جذبات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جب انسان کسی کام کو مکمل کرنے کی خواہش کرتا ہے تو اس کے ساتھ جذباتی ہم آہنگی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اب اگر خواہش ختم ہو جائے تو کام کے ساتھ جذباتی تعلق بھی ختم ہوجائے گا اور فرد کی زندگی میں نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔
جس شخص کی خواہش مرجائے وہ انسانوں سے دور ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ مشترکہ مفاد انسانوں کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ اگر انسان کے اندر خواہش نہیں رہے گی تو وہ دوسرے لوگوں سے تعلق نہیں بنا پائے گا جس کی وجہ سے وہ معاشرتی طور پر تنہا رہ جائے گا۔
جب انسان کے اندر خواہش نہیں ہوتی تو اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی، وہ بے حس بن جاتا ہے۔ یہ بے حسی اگر طویل ہوجائے تو انسان اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اور بہت جلد افسردگی کا شکار ہو جاتا ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ جو لوگ خواہش سے بھرپور ہوتے ہیں ان کے اندر مثبت پن ہوتا ہے جو ان کی صحت پر بہترین اثرات چھوڑتا ہے۔ اس کے برعکس خواہش کے نہ ہونے سے فرد شدید انداز میں تناؤ، بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔

خواہش کا ختم ہو جانا انسان کو ذہنی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے، کیوں کہ ایسے فرد کی دل چسپی کم ہوجاتی ہے، وہ پر لطف اور معنی خیز چیزیں ڈھونڈنا چھوڑ دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی زندگی پھیکی پڑ جاتی ہے۔ایسے شخص کو کوئی بھی بہترین چیز، خوب صورت منظر اور انوکھا تجربہ خوش نہیں کرسکتا اور وہ آہستہ آہستہ ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔

خدا نے آپ کو زندگی کی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ زندگی کے کینوس میں چاہت، تمنا، آرزو اور خواہش کے رنگ بھر کر خوب صورت بنائیے، کیوں کہ یہی وہ چیز ہے جو آپ کو محنت کرنے، آگے بڑھنے اور کچھ نیا حاصل کرنے پر ابھارتی ہے اور اگر زندگی سے یہ ختم ہوجائے تو پھر زندگی بے زار بن جاتی ہے اور انسان مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

اگر آپ زندگی کے چالیس برس مکمل کرچکے ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟
ہمارے ہاں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ چالیس سال کے بعد انسان کی زندگی رُک جاتی ہے، مواقع ختم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد انسان ترقی نہیں کرسکتا۔ ایسا نہیں ہے۔ چالیس سال کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی ختم ہوگئی ہے، یہ ایک خوب صورت آغاز ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کے پاس غلطی کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اب آپ نے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہے اور گذشتہ زندگی سے جو کچھ سیکھا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانا ہے۔

اگر آپ چالیس سال کی عمر میں پہنچ گئے ہیں تو فوری طورپر تین کام کریں۔

(1)آپ اس وقت کہاں ہے؟

اپنی گذشتہ زندگی کا محاسبہ کریں اور جائزہ لیں کہ آپ اس وقت کس مقام پر کھڑے ہیں۔ دیکھیں کہ وہ کون سے مواقع تھے جہاں آپ سے غلطیاں ہوئیں اور ان کے سنگین نتائج واقع ہوئے۔ ان کے اسباب پر غور کیجیے اور آئندہ ایسی غلطیوں کے قریب بھی نہ جائیے۔
اپنی پوری زندگی کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ آپ نے اس سفر میں کون سی مشکلات دیکھیں، کون سے فوائد سمیٹے، کیا کھویا، کیا پایا اور اگر آپ کو دوبارہ زندگی ملے تو آپ کون سی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ یہ تمام چیزیں ایمان داری کے ساتھ لکھیں۔

(2) آپ کی منزل کیا ہے؟
گذشتہ زندگی کے تجربات کی روشنی میں یہ فیصلہ کریں کہ اب آپ نے کہاں پہنچنا ہے۔ اپنے اہداف اور مقاصد متعین کریں، جان دار منصوبہ بندی بنائیں اور اس کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر آپ یہ طے نہیں کرسکتے کہ میں نے کہاں جانا ہے تو ایسے فرد سے ملیں جسے اللہ نے دور اندیشی کی صلاحیت دی ہے وہ آپ کو بہترین مشورہ دے سکتا ہے۔ چالیس سال کے بعد والی زندگی میں سب سے اہم ہدف صحت کو بنائیں۔ کیوں کہ یہی آپ کی زادِراہ ہے۔ اپنے کھانے پینے پر خصوصی دھیان دیں، روز چہل قدمی کریں اور خود کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند رکھنے کی کوشش کریں۔

(3)تعلق
انسان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی ترقی یا تنزلی میں ”صحبت“ کا بڑا عمل دخل ہے۔ اپنے تعلقات کا جائزہ لیں کہ آپ کن لوگوں کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں اور کیا وہ آپ کی ترقی میں آپ کے معاون بن رہے ہیں یا رکاوٹ؟یادرکھیں کہ آگے بڑھنے کے لیے آپ کو انسانوں کی ضرورت پڑے گی لیکن آپ کی زندگی میں اگر ایسے لوگ شامل ہیں جو آپ کے سفر کو مشکل بنا رہے ہیں توپھر آپ ترقی نہیں کرسکیں گے۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے تعلق مدھم کیجیے جوآپ کی زندگی میں مایوسی اور منفیت بھر رہے ہیں۔

کن لوگوں کے ساتھ تعلق رکھا جائے؟
لوگوں کی تین اقسام ہوتی ہیں۔

(1) Takers:
وہ لوگ ہیں جو ہر وقت کچھ حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف لینے کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کے اندر دوسروں کو مال، وقت، توجہ، حوصلہ اور آسانی دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

(2) Matchers:
یہ ”کچھ دو، کچھ لو“ کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کا فائدہ بھی چاہتے ہیں۔

(3) Givers:
یہ لوگ ایثار و قربانی سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ ہر وقت دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور انھیں اپنی نعمتوں میں شریک کرتے ہیں۔
آپ پہلی قسم کے لوگوں سے بالکل دور رہیں۔ دوسرے نمبر کے لوگ آپ کے لیے بہتر ہیں جن کے ساتھ ساتھ Win-Win کے فلسفے پر چل کر آپ اپنے سفر کو آسان بناسکتے ہیں۔ جب کہ تیسرے نمبر کے لوگ آپ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ انھیں اپنی زندگی میں ضرور شامل کیجیے۔

Related Posts