’’ای کامرس کا بادشاہ‘‘ کیسے سوچتا ہے؟
(قاسم علی شاہ )
بنک کے ’’وائس پریزیڈنٹ‘‘ کی سیٹ پر براجمان وہ کافی دیر سے اپنے کام میں مصروف تھا ۔اچانک اس کے سامنے موجودکمپیوٹر اسکرین پر ایک رپورٹ آئی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ مستقبل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی انڈسٹری 2300گنابڑھ جائے گی ۔یہ بات جان کر اس کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔دِماغ تو اس کا تھا ہی تیز، ایک لمحے میں اس نے سوچا کہ میری موجودہ نوکری بعد میں بھی مل سکتی ہے لیکن اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا توپھر شاید ہاتھ نہ آئے چنانچہ اس نے اس شاندار موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔یہ الگ بات تھی کہ اس نے اپنی موجودہ نوکری اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے کافی محنت کی تھی ۔اس کا بچپن شدید مسائل کا شکار رہا تھا ،لیکن اس کے باوجود خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ ایک ذہین بچہ تھا ، جو ہر چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا ۔جب وہ چھوٹا تھا تو اسکریوڈرائیوسے اپنے کھلونوں کو کھول کربیٹھ جاتا اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتا کہ یہ کیسے چل رہے ہیں ؟ اس کا تخلیقی مزاج اس سے چھوٹے چھوٹے تجربات کراتا ، اس کے اندر ایک جستجو تھی اور اسی جستجو کی بدولت وہ مشکل ترین کاموں میں بھی دلچسپی لے رہا تھا۔اس زمانے میں کمپیوٹر نیا ایجاد ہو اتھا۔ کمپیوٹرسیکھنے کے لیے اس کو ایک اکیڈمی میں داخل کرایا گیا اور پھر سارے لوگ حیران رہ گئے جب کچھ ہی دِنوں میں وہ اپنی ٹیچر سے بھی زیادہ کمپیوٹر کو سمجھ چکا تھا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعدہر جوان کی طرح ا س کو نوکری کی فکر شروع ہوئی ۔اسے ایک بینک میں ملازمت مل گئی ،یہاں بھی وہ سیکھتا گیا ، محنت کرتا گیا اور کچھ ہی عرصے میں وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچ گیا۔
جب ا س کے سامنے آئی ٹی کے متعلق یہ رپورٹ آئی تو اس نے اپنی نوکری کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہی دِنوں میں استعفیٰ دے کر نوکری چھوڑدی ۔اب اپنے کام کا آغاز کرنا تھا ۔اس کے پاس کچھ زیادہ وسائل نہیں تھے۔اپنے گھر کے گیراج میں ہی اس نے میز، کرسی ، کمپیوٹر اور چند کتابیں رکھیں اور ایک ویب سائٹ سے اپنی کمپنی کا آغاز کردیا جس کا نام اس نے ’’Amazon‘‘رکھا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اگلے تقریباًسات سالوں تک اس کواپنی کمپنی سے کوئی تسلی بخش منافع نہ مل سکا۔اسی دوران 2000ء میں آنے والے’’ ڈاٹ کام کریش‘‘کی لپیٹ میں اس کی کمپنی بھی آئی لیکن ا س نے ہمت نہیں ہاری ،وہ ڈٹا رہا۔رفتہ رفتہ اس کی کمپنی نے ترقی شروع کی اور آج یہ ا س مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اس کا مالیاتی حجم (Net Worth)1.7ٹریلین ڈالر ہے اور دنیا بھر سے 15لاکھ لوگ اس کمپنی میں ملازمت کررہے ہیں۔اپنی سروس اور معیار کے لحاظ سے یہ دنیا کی نمبرون ’‘ای کامرس‘‘ کمپنی بن چکی ہے جو دنیا بھرمیں ’’ون ڈے ڈیلیوری‘‘ جبکہ بعض شہروں میں تو’’1ہاور ڈیلیوری‘‘ کی سروس بھی دے رہی ہے۔بظاہر ایک ناکام کمپنی دنیا کی سب سے مالد ار ترین اور کامیاب ترین کمپنی کیسے بنی اور اس کا مالک دنیا کادوسرا امیر ترین آدمی کیسے بنایہ سب سوچ کے وہ نرالے ڈھنگ ہیں جن کی بدولت انسان کہیں سے کہیں پہنچ سکتاہے۔
آج کی اس نشست میں ہم ’’Amazon‘‘کے بانی ’’جیف بیزوس‘‘ کے سوچنے کے اس انداز کو قارئین کے سامنے پیش کریں گے جو کہ اس کی شاندار کامیابی کی بنیاد بنا۔
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک کاروباری دنیا میں دو طرح کے بزنس مین پائے جاتے ہیں ۔ایک وہ ہوتے ہیں جو خود سے نیا کچھ نہیں کرتے بلکہ پہلے سے موجود بزنس میں سرمایہ لگاتے ہیں ،اس پر محنت کرتے اور اسی سے پیسے کماتے ہیں، جبکہ دوسرے قسم کے بزنس مین وہ ہوتے ہیں جودیکھتے ہیں کہ اس وقت مارکیٹ میں کس چیز کی ضرورت ہے اور اسی کے مطابق نئے آئیڈیازلا کر بزنس شروع کرلیتے ہیں۔دراصل انھی لوگوں کو لیڈرز کہا جاتا ہے جو اپنی خداداد بصیرت سے مستقبل میں جھانکتے ہیں اور آنے والے مواقع کوبہترین شکل کے ساتھ انسانیت کی آسانی کے لیے پیش کرتے ہیں۔یہ ہمیشہ ایک لانگ ٹرم پلاننگ کے ساتھ چلتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ جب ابتدا میں جیف بیزوس کی کمپنی ’’ایمازون‘‘ منافع نہیں دے رہی تھی تو انویسٹرز نے جیف سے منافع کے بارے میں پوچھا۔جیف کا جواب تھا کہ آپ اطمینان رکھیں ، میری عادت ہے کہ میں تین چار مہینوں کی نہیں اگلے تین چار سالوں کودیکھ کر پلاننگ کرتا ہوں اور پھر واقعی جیف کی سوچ اور منصوبہ بندی نے جادو کردکھایاجب کمپنی نے عروج کی منزلیں طے کرنا شروع کیں اور آج اس کے کسٹمرز کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
جیف بیزوس کہتا ہے کہ اگر آ پ نے دنیا کو بدلنا ہے اور خود کو ایک موثر انسان بناناہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس کوئی رول ماڈ ل ہو اورآپ اپنے اس رول ماڈل کی ایک چیز کو لازمی طورپر اپنائیں اور وہ اس کے سوچنے کا انداز ہے ۔آپ دیکھیں کہ وہ شخص کیساسوچتا ہے اور اپنی سوچ کو رویے میں کیسے ڈھالتا ہے۔ اسی چیز کو آپ بھی اپنی عادت میں شامل کرلیں تو آپ ترقی کرنا شروع ہوجائیں گے۔
NLP(نیورولینگویسٹک پروگرامنگ)میں بھی ایک تکنیک سکھائی جاتی ہے جس کو ’’ماڈلنگ‘‘ کہاجاتا ہے ۔اس میں سکھایا جاتاہے کہ کیسے آپ اپنے پسندیدہ انسان کی عادات اور سوچ کو خود پر طاری کرسکتے ہیں۔اسی عادت کی بدولت آپ وہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں جو اس انسان نے حاصل کیے ہیں۔دنیا کے بڑے موٹیویشنل اسپیکر ٹونی رابنز اوراین ایل پی کے ایکسپرٹ رچرڈ بینڈلر نے بھی اسی چیز پر تحقیق کی کہ دنیا پر اثرانداز ہونے والی شخصیات کے سوچنے کا انداز کیا تھا؟
ان ٹرینرز نے اپنے فالورز کو یہ چیز سکھائی کہ اگر ہم بھی اپنے اندر یہ عادات پیدا کرلیں تو دُنیا کو بدل سکتے ہیں۔
آج آپ زندگی میں کسی بھی پوزیشن اور مقام پر ہیں یہ دراصل آ پ کے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔فیصلہ آپ کی زندگی بدلتا ہے اورلمحہ بہ لمحہ آپ کی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔جیف بیزوس کی کامیابی میں بھی فیصلوں کا ایک بڑا کردار ہے ۔وہ کہتا ہے کہ جب میں فیصلہ کرتا ہوں تواس کے ساتھ یہ بھی سوچتا ہوں کہ جب میں 80سال کی عمر میں پہنچوں گا تو میرایہ فیصلہ میرے لیے پچھتاوا تو نہیں بنے گا؟ہر وہ فیصلہ جوبعد میں میر ے لیے صرف ایک پچھتاوا بن جائے میں ہرگز نہیں کرتا۔
آپ جب بھی اپنی زندگی میں کوئی فیصلہ کریں تو صرف آج کے دِن کو مدنظر رکھ کر فیصلہ نہ کریں، بلکہ آج کے فیصلے کو سالوں میں آگے جاکر سوچیں کہ یہ میرے لیے کیاشکل اختیار کرے گا؟ جن فیصلوں کو آپ مختلف ٹائم فریم میں رکھ کر سوچیں اور وہ درست ثابت ہو تو دراصل وہی ٹھیک فیصلہ ہوتا ہے ۔وقتی طورپر کیے جانے والے فیصلے جو آ پ کو پُرلطف لگیں ، وہ اکثر و بیشتر مستقبل کا پچھتاوا بن جاتے ہیں۔
اپنی روزمرہ زندگی میں ہمیں ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو معمولی کامیابی پر پھولے نہیں سماتے ۔ہر شخص اپنی کامیابی کا اعلان ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کررہاہوتا ہے اور ایک طرح سے اپنے آپ کو کریڈٹ دے رہا ہوتا ہے۔یہ اچھی بات ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کامیابی پر خوشی منائی جائے ۔جیف بیزوس کہتا ہے کہ ہم لوگ اپنی کامیابی کااعلان تو بڑی دھوم دھام سے کرتے ہیں لیکن اپنی ناکامی کو دوسروں کے سر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ بتاتا ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی ناکامی کو Ownنہیں کرتااور اس کو دوسروں کی کوتاہی سمجھتا ہے تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا، کیوں کہ اس کوکبھی معلوم ہی نہیں ہوسکتا کہ اس کی کمزوری کیا ہے۔
جیف بیزوس کہتا ہے کہ بڑی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد اطمینان سے بیٹھ جانا یا ایک بڑی ناکامی کے بعد ہمت ہار کر بیٹھ جانے والاانسان عقل مندنہیں ہوتا۔جیف کو بھی اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے میں کافی ناکامیوں کاسامنا کرنا پڑا لیکن اس کی ایک عادت بڑی کمال کی ہے ۔وہ ہمیشہ’’ اصلاح کے دائرے‘‘ ( Course Correction) میں رہ کرکام کرتا ہے ۔اس کو جب بھی ناکامی ہوتی ہے تو وہ ہمت ہار کر بیٹھ نہیں جاتابلکہ اسی چیز میں ردوبدل کرکے کوئی اور شکل دے دیتا ہے ۔اس میں بھی ناکام ہوجائے تو کوئی اس کو کسی اور شکل میں لے آتاہے۔وہ اپنی ناکامیوں کو ٹسٹ کے طورپر لیتا ہے اور تجربات کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔
ہر دِن طلوع ہونے والا سورج انسان کے لیے ایک نئی امیدلے کرآتا ہے ۔جیف کہتاہے کہ زندگی میں آنے والے ہر دِن کو ایک نیا دِن اور ایک نیا موقع سمجھیںاور یہ یقین رکھیں کہ اس دِن آپ کو بھرپور مواقع ملنے والے ہیں تو آپ زندگی میں ترقی کرنا شروع ہوجائیں گے۔
جس شخص کے لیے آج کا دِن ایک’’نیا دِن‘‘ ہے تو وہ اس میں کام ،قابلیت ، اخلاق ورویے اور اقدار کے سلسلے میں اپنا The Bestدینے کی کوشش کرے گا اور یہ چیز اس کو کامیابی کے قریب کرے گی۔
آپ اگر بغور جائزہ لیں تو آپ کو ایسے مختلف ادارے اور افراد نظر آجائیں گے جو کافی عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی ترقی نہیں کرپارہے ۔فرد کی ترقی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس ادارے میں ایک عرصے سے کام کررہا ہوتا ہے اسی طویل عرصے کو ذہن میں رکھ کر وہ خودکو’’بڑا‘‘سمجھتا ہے ۔اس سوچ کی وجہ سے وہ مزید سیکھتا نہیں اورکئی سال گزرنے کے باوجود بھی ترقی نہیں کرپاتا۔ وہ ہر شخص کے سامنے یہ احسان جتلاتاہے کہ میں نے اس ادارے کو 15سال دیے ہیں لیکن اس چیز کو نہیں دیکھتاکہ اس عرصے میں اس نے ادارے سے کافی سارے مراعات اور فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔یہ سوچ اس کی اناکا وزن بڑھادیتی ہے اور اسی وجہ سے کام کے حوالے سے اس کا انرجی لیول بھی وہ نہیں رہتا جو نوکری کے پہلے دِن تھا،جبکہ اس کے برعکس جو شخص ہر دِن کو نیا دِن سمجھ کر کام پر آتا ہے تو اس کی انرجی کا لیول بھی اسی قدر زیادہ ہوتاہے۔لہٰذا اگر زندگی کو شاندار بنانا ہے تو آج کے دِن کی اہمیت سے انکار نہ کریں۔
جیف اس بات کا قائل ہے کہ آپ ہمیشہ بنے بنائے راستوں پر نہ چلیں بلکہ انسانیت کے فائدے کے لیے کوئی نئی ایجاد سامنے لائیں۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ نئی چیزبنانے یا نئے آئیڈیا پر کام کرنے کے لیے آپ 100فی صد معلومات حاصل کرنے کا انتظار نہ کریں ، آپ کے پاس اگر 70 فی صد معلومات بھی ہیں تو فوری فیصلہ کریں اور عملی قدم اُٹھائیں ، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ جب تک آپ کے پاس 100فی صدمعلومات آئیں ، آپ کا شوق اور جذبہ ماند پڑچکا ہو۔
کچھ نیا کرنے کے سلسلے میں انسان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے لیکن یہی غلطی سنوارکر ایک شاہکار تعمیر کی جاسکتی ہے۔ جیف کہتا ہے کہ سیکھنے کے سلسلے میں جو غلطی ہوجائے اس کی معافی ہونی چاہیے ، البتہ اگر پہلے سے SOP’sبنے ہیں اور اس کے خلاف کوئی جاتاہے تو پھر اس کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
انسان کو زندگی میں خطرات مول لینے چاہییں ، اس موضوع پر ایک تحقیق ہوئی اوراس میں صرف 90سالہ بوڑھوں کو شامل کیا گیا ۔ان سے پوچھا گیا کہ اگر انھیں دوبارہ سے زندگی مل جائے تو وہ کیا کرناچاہیں گے؟ ان کا جواب تھاکہ ہم زیادہ سے زیادہ رِسک لینے والے کام کریں گے ، کیوں کہ ’’محفوظ‘‘ رہنے کی کوشش کرتے کرتے ہم ’’چوزہ‘‘ بن جاتے ہیں اوریہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے پروں میں اڑان بھرنے کی ایک بھرپور طاقت رکھی ہوئی ہے ۔میرے نزدیک عقل مند وہ نہیں جس نے ہزاروں کتابیں پڑھی ہوں بلکہ عقل مند وہ ہے جس نے غلطیاں کی ہوں اور اُن سے سیکھا ہو۔دنیا میں عملی قدم اٹھانے والے لوگ کچھ بڑاکرجاتے ہیں ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ ابھی ہم سوچتے ہیں ، دیکھتے ہیں یافلاں سے مشورہ کرتے ہیں تو وہ وہیں رہ جاتے ہیں۔
جیف کہتا ہے کہ ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان صرف گمان پر بھروسہ نہ کرے بلکہ زمینی حقائق کا بھرپور جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔
ہم اپنے معاشرے میں جتنے بھی منجمد لوگ دیکھتے ہیں ان کی ترقی نہ کرنے کی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنے گمان کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ، وہ حالات ، واقعات اور چیزوں کا تجربہ و مشاہدہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔آسانی کے لیے ایک مثال سمجھ لیجیے۔آپ اگر کمرے کے باہر کھڑے ہوں اور دروازے میں لگے Key Holeسے اندر کا منظر دیکھیں تو آپ کو وہ کمرہ اتنا ہی چھوٹا دکھائی دے گا جتنا کہ وہ سوراخ ہوگالیکن جب آپ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوں گے تو آپ کے سامنے ایک اوردنیا کھل جائے گی۔ایسے ہی انسان کی سوچ جتنی چھوٹی ہوتی ہے اس کو دنیا اسی قدر چھوٹی نظر آتی ہے۔زندگی کے مختلف حالات کو ایک ہی انداز میں دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی سوچ منجمد ہے اور اس کو انجماد کو توڑنا چاہیے۔
ایڈیسن کی عمر 72سال ہوگئی تھی جب اس کی لیبارٹری کو آگ لگ گئی ۔آگ دیکھ کر سارے لوگ جمع ہوگئے ۔ایڈیسن بھی ان میں کھڑا تھا،لوگ افسوس کا اظہار کرنے لگے لیکن ایڈیسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔وہ بولا: بہت خوب! آج میری ساری غلطیاں جل گئیں ،اب میں نئے سرے سے تجربات کروں گا۔بظاہر تو اس کا شدید نقصان ہورہا تھا کہ زندگی بھر کے تجربات و محنت آگ کی نذر ہورہے تھے لیکن چوں کہ اس کی سوچ اونچی تھی ، اس لیے وہ عام لوگوں سے ہٹ کر سوچ رہا تھا اور اسی وجہ سے دُنیا آج بھی اس کی عزت کرتی ہے۔