ایک لیڈر کی گیارہ خصوصیات
(قاسم علی شاہ)
یہ مئی 1990کی بات ہے۔ نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ پر جانے والا امریکی کوہ پیمائوں کا ایک قافلہ سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس قافلے میں پیٹر ایتھنز ایک ایسا شخص تھا جو اس سے پہلے چار بار ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی کوشش کر چکا تھالیکن بدقسمتی سے ناکام رہاتھا۔مئی کا مہینہ کوہ پیمائی کے لئے بہت مددگار ہوتا ہے۔ دنیا کے اکثر کوہ پیما اسی مہینے کوہ پیمائی کرتے ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ ایک ایسی چوٹی ہے جسے سر کرنا کسی بھی کوہ پیما کا خواب ہوتا ہے۔ یہی خواب لے کرپیٹر امریکہ سے ہر سال نیپال آتا تھا۔اسی وجہ سے وہ سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس دفعہ نہ صرف ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے جا رہا ہے بلکہ ایک عالمی ریکارڈ بنانے کی ابتدابھی کر رہا ہے۔ اس دفعہ اس نے ایک ایسے راستے کاانتخاب کیا جو اس سے پہلے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے بہت کم آزمایا گیا تھا۔ اس کامیاب مہم نے پیٹر ایتھنز کی سب ناکامیوں کو دھو دیا۔اس کے بعد اس نے لگاتار چھ بار کامیابی سے مائونٹ ایورسٹ کو سر کیا اور اسی وجہ سے 2008ء اس کو ’’مسٹر ایورسٹ‘‘ کا لقب دیا گیا۔
مئی1996 میں جب وہ ایورسٹ کی طرف بڑھ رہا تھا تو ان کی ٹیم کو ایک خطرناک طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔سب کے قدم لڑکھڑاگئے، ان کے حوصلے کمزور ہونے لگے اور ان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ گئی۔پیٹر اس مہم کی قیادت کررہا تھا۔اس نے اپنی تمام مہارتوں کو کام میں لایا اور بروقت فیصلہ کرتے ہوئے کئی سارے کوہ پیمائوں کی جان بچائی۔البتہ اس کا ایک دوست جان کی بازی ہارگیا لیکن ایک سال بعد پیٹر ایتھنز ہی وہ شخص تھا جو اپنے دوست کی لاش کو واپس لے کر آیا۔ اب پیٹر ایتھنز دنیا بھر کے کوہ پیمائوں کے لیے کامیابی کا ایک استعارہ بن چکا تھا۔
دنیا کے کسی بھی شعبے کی کامیابی میں ایک لیڈر کا بہت اہم کردار ہوتاہے۔کوئی انسان لیڈرہوکر بھی اگر مطلوبہ قابلیتوں سے محروم ہو تو پھر وہ اپنی ٹیم، شعبے اور ادارے کو کامیاب نہیں کرسکتااور بہت جلد وہ ناکامی سے دوچارہوجاتاہے۔ایک کامیاب لیڈر میں کون سی صفات کا ہونا ضروری ہیں۔آج کی نشست میں ہم ان گیارہ خصوصیات کو جاننے کی کوشش کریں گے جوایک حقیقی لیڈر میں پائی جاتی ہیں۔
(1 )پُرامید
ایک لیڈر میں سب سے پہلی خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ ناکامی سے دلبرداشتہ نہ ہو بلکہ ناکامی کی صورت میں اس کے حوصلے اور جنون میں مزید پختگی آنی چاہیے۔
ایک کامیاب لیڈر اپنے کام کی عزت کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کی ذمہ داری لیتا ہے۔وہ اپنی ناکامی کی تاویلیں نہیں پیش کرتا اور نہ کسی دوسرے کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
(2) ناکامی سے سیکھنا
لیڈر اپنی ناکامی سے سیکھتاہے۔ پیٹر ایتھنز بتاتاہے کہ اس نے مسلسل چار ناکامیوں سے یہ بات سیکھی کہ پہاڑ پر کیسے نہیں چڑھنا چاہیے۔ یہ سیکھنے کے بعد انھیں سمجھ آئی کہ پہاڑ پر چڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔
ایک حقیقی لیڈر پختہ کردار کا مالک ہوتا ہے۔ وہ ناکامی سے مفاہمت نہیں کرتا بلکہ اپنے کام اور مقصد سے پختہ وابستگی رکھتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کرتا۔
(3) مثبت پہلوؤں پرنظر
ایک اچھا لیڈراپنی زندگی میں مثبت پہلوئوں کو مدنظر رکھتا ہے۔وہ اس بات کو تسلیم کرتاہے کہ مجھے بہت سی باتوں کا علم نہیں ہے۔ پھر وہ اِس بات کاجائزہ لیتاہے کہ اس کے شعبے میں کون سی اہم باتیں ہیں جن کا اسے علم ہونا چاہیے اور کون سے ایسے پہلو ہیں جن پر اسے مکمل عبور ہونا چاہیے۔ پھر وہ ان باتوں اور چیزوں کو جاننے اور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب وہ یہ باتیں سیکھ لیتا ہے تو پھر وہ اپنی معلومات کو زیادہ بہتر اور درست بنانے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے شعبے میں آگے بڑھتا رہتا ہے اور اپنا مقام بناتا ہے۔
(4) نیا راستہ
قیادت کی چوتھی خوبی نئے راستے کی تلاش ہے۔ پیٹر ایتھنز کہتے ہیں کہ جب وہ چار دفعہ ناکام ہواتو اُس نے سوچا کہ اسے کسی نئے راستے سے پہاڑ پر چڑھنا چاہیے۔ اس نے ایک ایسے راستے کو منتخب کیا جس کو پہلے استعمال نہیں کیا گیا تھا اور وہ اس راستے سے کامیاب ہوگیا۔
(5) خوش قسمتی
لیڈرشپ کی پانچویں خوبی خوش قسمت ہونا ہے۔ مگر یہ خوش قسمتی بھرپور تیاری اور مسلسل محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ جو شخص ہمت ہار جاتا ہے قسمت اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ لیڈر کو مسلسل ناکامیوں کے باوجود اپنا عزم مضبوط رکھناچاہیے اور اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ اپنے کام پر توجہ مرکوزکرنا اور اسی کو محور بنائے رکھنا چاہیے۔
(6) سیکھنے کی کوشش
لیڈر کی چھٹی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔جیسا کہ پیٹر ایتھنز کہتاہے کہ’’میں نے کبھی نہیں سمجھا کہ میں نے ہر بات سیکھ لی ہے۔‘‘ اس نے اپنی ناکامیوں سے سیکھنے اور اسے کامیابیوں کو بدلنے کی مسلسل کوشش کی۔اس نے ہمیشہ نئے راستے تلاش کرنے اور نئے طریقے سمجھنے کی کوشش کی اور اسی وجہ سے وہ کامیاب ہوگیا۔
(7) دل کی بات سننا
لیڈر کی ساتویں خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں فیصلے کرتے ہوئے صرف اپنے دماغ کی نہیں سنتا بلکہ اپنے دل کی بھی سنتا ہے۔ وہ صرف دستیاب معلومات اور اطلاعات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اپنے خواب اور اپنے مقصد کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل رکھتا ہے۔ پیٹر ایتھنز نے صرف معلومات اور اطلاعات کی بنیاد پر پہاڑ سر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ایسا کرنے میں اس کی زندگی کے خواب شامل تھے۔ اس کی زندگی کا مقصد شامل تھا۔ اس نے یہ خواب پورے کیے اور اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کیا۔
(😎 مستقل مزاجی
لیڈر کی آٹھویں خوبی بحرانوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ کھڑے رہنا ہے جبکہ بہت سے لوگ اس موقع پر ہار مان جاتے ہیں۔ چار دفعہ مسلسل ناکامی نے پیٹر ایتھنز کو خاصا مالی نقصان دیا ور بہت سے خیرخواہوں نے مشورہ دیا کہ وہ یہ کام ترک کردے مگر پیٹر ایتھنز نے ہمت نہیں ہاری اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ وہ نہ صرف سات دفعہ یہ پہاڑ سر کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ دنیا بھر کے کوہ پیمائوں کے لیے مشعل راہ بھی بن گیا۔ وہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے کوہ پیمائی کا ایک معتبر حوالہ ٹھہرا۔ بے شمار لوگوں نے اس سے راہنمائی حاصل کی اوراس کی راہنمائی اور ہدایات کی روشنی میں پہاڑوں کو سر کرنے کی مہمات ترتیب دی گئیں۔
(9) قربانی کا جذبہ
ایک لیڈر کی نویں خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قربانی دیتا ہے۔ اس کی پوری توجہ اپنے مقصد کے حصول پر ہوتی ہے کیوں کہ وہ جانتاہے کہ قربانی کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔
(10) عزت و منزلت
ایک لیڈر کی دسویں خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طرز عمل اور محنت سے لوگوں میں عزت اور مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ پیٹر ایتھنز نے بھی ایساہی کیا۔ اس نے اپنی محنت اور کوشش سے دنیا بھر کے کوہ پیمائی میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں اپنا مقام بنایا۔لیڈر جانتاہے کہ اس کی ایک ساکھ، ایک عزت ہے اور یہ عزت کسی عہدے یا تعلق کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی مسلسل محنت اور کام کو عزت دینے کی بنیاد پر ہے۔لیڈر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ بہت دولت مند ہو،ایک شاندار مقرر ہو یا زبردست لکھنے والا ہو۔ اگرچہ یہ بھی اہم خوبیاں ہیں لیکن سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کا اعتماد حاصل کرے، اپنی کوشش سے اپنی ساکھ بنائے، اپنا مقام بنائے۔ مدر ٹریسیا اور ایدھی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جن کے شعبے اگرچہ مختلف تھے مگر انہوں نے اپنے کام سے اپنی پہچان اور ساکھ بنائی۔
(11) اپنے خوابوں کو دوسروں میں منتقل کرنا
ایک اچھے لیڈرکی گیارہویں خوبی اپنے خوابوں کودوسروں میں منتقل کرنا ہے۔ ایک بہترین لیڈر اعلیٰ اقدار کا حامل ہوتاہے اور اس سے سیکھنے والوں میں یہ اقدار منتقل ہوتی ہیں۔
یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ لیڈر اورمنیجر ایک جیسی صلاحیت والے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔منیجر کا کام لوگوں سے کام لینا ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا منتظم ایک اچھا راہنما بھی ہو۔
لیڈرکے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے آگے چلے۔ لیڈر حکمت عملی کے لحاظ سے اپنی پوزیشن کا تعین کرتا ہے۔ وہ درمیان میں بھی چل سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ اپنی پوزیشن تبدیل بھی کر سکتا ہے۔آپ ایک گڈریے کو دیکھ لیجیے۔وہ اکثر اپنے ریوڑ کے پیچھے ہی چل رہاہوتاہے۔
ایک بہترین لیڈروہ بھی ہے جس کے پاس ہر مسئلے کا حل اگرچہ نہ ہو لیکن وہ آپ کی خوشی غمی میں آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔آپ کے مسائل میں آپ کو حوصلہ دیتا ہے۔ وہ اپنی ٹیم کے ہر چھوٹے بڑے فرد کا احساس کرتا ہے اور یہ احساس ہر انسان تک پہنچ جاتاہے کہ ان کا لیڈر ان سے محبت کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک اچھا منیجرکوشش کرتا ہے کہ اس کے اور اس کے ماتحتوں کے درمیان ایک خلیج برقرار رہے۔ وہ فاصلہ رکھنے پر یقین رکھتا ہے تاکہ اپنے ماتحتوں کو ایک نظم میں رکھ سکے اور ان سے بہتر اور زیادہ کام لے سکے۔
ایک کامیاب منیجر اپنے ماتحتوں سے زیادہ اور بہتر کام لینے سے پہچانا جاتا ہے جبکہ ایک کامیاب لیڈرلوگوں کی زندگیوں پر اثر ڈالتا ہے اور ان کی زندگیوں کو ایک نئی سمت دیتا ہے۔