پرانے رشتوں میں نئی روح کیسے پھونکیں؟

پرانے رشتوں میں نئی روح کیسے پھونکیں؟
(قاسم علی شاہ)
یہ ایک خوب صورت گھر تھا جس کے باغیچے میں رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔ ان پھولوں کی خوشبو نے نہ صرف گھر بلکہ ڈیوڈ اور اولیویا کی زندگی کو بھی معطر کیا تھا۔ ڈیوڈ آسٹریا کے شہر ویانا کا ایک قابل انجینئر تھا اور معروف کمپنی میں اچھی پوزیشن پر فائز تھا جب کہ اولیویا ایک بہترین شاعرہ تھی۔ حال ہی میں اس کا ایک شعری مجموعہ منظر عام پر آچکا تھا
وہ دونوں اچھی زندگی گزار رہے تھے لیکن کچھ دنوں سے ان کے درمیان نا معلوم سا فاصلہ پیدا ہوگیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا تھا۔ ایک شام یہ لاوا پھٹ پڑا، ڈیوڈ اپنے پراجیکٹ پر کام میں مصروف تھا جب اولیویا کمرے میں داخل ہوئی اور بولی:”ڈیوڈ! میں اب مزید اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔“ یہ سن کر ڈیوڈ کا رنگ اڑگیا، وہ نہ سمجھنے والے انداز میں اپنی بیوی کو دیکھنے لگا۔ ”تم دن بھر دفتر میں ہوتے ہو اور گھر آکر بھی اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہو، تم اس بات کو بالکل بھول چکے ہو کہ میں بھی اس گھر میں رہتی ہوں۔ میں ہر شام تمھاری واپسی کی منتظر ہوتی ہوں لیکن تمھیں اپنے کام کے سوا کسی کا احساس نہیں ہے۔ میں اس گھٹن بھرے ماحول سے تنگ آچکی ہوں۔ “ڈیوڈ کو بھی غصہ آگیا، وہ بولا: ”تم سمجھتی ہو کہ صرف تم تکلیف میں ہو اور میں مزے کر رہا ہوں۔ جب کہ میں صبح سے رات تک محنت کر رہا ہوں اور یہ سب میں تمھارے لیے کررہا ہوں تاکہ ہم دونوں اچھی زندگی گزار سکیں۔ تم اتنی احسان فراموش کیوں بن رہی ہو۔“ اولیویا کا پارہ چڑھ گیا، اس نے پہلے سے بھی زیادہ سخت انداز میں جواب دیا اور زور سے دروازہ بند کرکے کمرے سے نکل گئی۔ کچھ لمحوں میں گھر کا ماحول انتہائی تلخ ہوگیا۔ کام کی تھکاوٹ اور اولیویا کے درشت رویے سے ڈیوڈ کی توانائی ختم ہوگئی، وہ بے دم ہوکر صوفے پر ڈھے گیا۔

کہتے ہیں کہ مکان سیمنٹ، اینٹ اور بجری سے نہیں بلکہ مکینوں کی باہمی محبت سے بنتا ہے۔احساس، اپنائیت اور قربانی ایسے عوامل ہیں جن کی دولت ایک پرسکون گھرانہ وجود میں آتا ہے جہاں ایسے لوگ رہتے ہیں جو دکھ درد کے ساتھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بنتے ہیں۔ ونسٹن چرچل کہتا ہے کہ میری سب سے بڑی طاقت میرے اندر یہ اہلیت ہے کہ میں ایک عورت کے قابل بنا اور اس سے شادی کی۔

انسانی زندگی میں ازدواجی سفر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ رشتہ محبت کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ البتہ شادی ہوجانے کا مطلب یہ نہیں کہ اب تمام عمر یہ تعلق اسی طرح چلتا رہے گا بلکہ جس طرح پودے کو صبح و شام پانی کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ہی اس بندھن کو بھی محبت کا پانی چاہیے ورنہ یہ مرجھا جاتا ہے۔ توجہ نہ ملنے کی وجہ سے اس عمارت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں اور ایک دن یہ زمین بوس ہوجاتا ہے۔
امجد اسلام امجد صاحب کی ایک نظم ہے ؎
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی بھی پرانی، جتنی بھی مضبوط ہوجائے
اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی باقی رہتی ہے

ہم زندگی میں جتنے بھی رشتے بناتے ہیں ان میں سب سے اہم، نازک او ر ہماری زندگی پر بھرپور نتائج مرتب کرنے والا رشتہ شادی کا ہے۔ اس رشتے کی چند بنیادی ضروریات ہیں جن کی بدولت یہ قائم رہتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ یہ ایک الاؤ ہے جس میں ایندھن ڈالنا ضروری ہے۔ اگر ایندھن ڈالنے میں دیر ہوگئی تو یہ الاؤ بجھ سکتا ہے۔

کوئی بھی رشتہ اور تعلق برقرار رکھنے کے لیے سب سے اہم چیز وقت ہے۔ جب آپ کسی سے تعلق کا دعویٰ کریں تو آپ کا فرض ہے کہ اسے وقت دیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں ہیں۔ ازدواجی زندگی میں شریک حیات کو وقت دینا بہت ضروری ہے اور صرف وقت نہیں بلکہ معیاری وقت دینا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت میں آ پ دوسرا کوئی کام نہ کریں اور شریک حیات کے ساتھ باتیں کریں یا اسے سنیں۔

بعض لوگ اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر موبائل پر مصروف رہتے ہیں۔ یہ حرکت سامنے بیٹھے انسان کو مایوس کر دیتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ آپ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں جس سے وہ ناراض ہوسکتا ہے۔ توجہ ایسی چیز ہے جو انسان کو اہم محسوس کرواتی ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی سریلی آواز کا حامل کیوں نہ ہو اگر اس کے سامنے ایسے لوگ نہ ہوں جو اسے توجہ سے سنیں تو وہ اچھا نہیں گا سکے گا۔ واصف علی واصف کا قول ہے کہ بولنے والی زبان کو طاقت، سننے والے کان فراہم کرتے ہیں۔

بعض اوقات شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک Struggle Period سے گزر رہا ہوتا ہے اور صبح و شام اپنے کام میں مصروف رہتا ہے۔ جب اس سے شریک حیات گلہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں یہ سب خاندان کے لیے ہی کررہا ہوں۔ یہ زندگی کا اہم موڑ ہے جس میں شریک حیات کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے اگر وہ اجازت دے تو ٹھیک ورنہ گھر میں پیشہ ورانہ کام نہ کریں۔

آپ اپنے بچوں اور خاندان کے لیے کتنی ہی محنت و مشقت کرلیں، ان کے لیے مال و دولت جمع کریں اور انھیں بھرپور آسائشیں فراہم کریں، اگر آپ انھیں معیاری وقت نہیں دیتے تو یہ سب چیزیں بے کار ہیں۔ آپ کی توجہ نہ دینے سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوں گے اور آپ کی محنت کی قدر نہیں کریں گے۔

معروف امریکی مصنف گیری چیپمین نے ازدواجی تعلق کو بہتر بنانے کے حوالے سے The Five Love Languages کے نام سے ایک شان دار کتاب لکھی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ’ہر انسان کی اپنی Primary Love Language (محبت کی بنیادی زبان) ہوتی ہے جس کے مطابق وہ محبت کو سمجھتا ہے، وصول کرتا ہے اور دوسروں کو دیتا ہے۔ ‘ازدواجی زندگی میں شریک حیات کی PLL سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جب آپ کو سمجھ آجائے کہ آپ کا شریک حیات کن چیزوں سے خوش ہوتا ہے اور کس طریقے سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو آپ آسانی کے ساتھ اسے خوش رکھ سکتے ہیں اور ازدواجی تعلق کو بہتر بناسکتے ہیں۔

آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ ہم اپنی Primary Love Language کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
یہ معلوم کرنے کے لیے اس بات پر غور کریں کہ آپ کن الفاظ سے خود کو با وقار اور قابل قدر محسوس کرتے ہیں۔ وہ جملے اور اندازِ گفت گو آپ کا PLL ہے اور اسی کے مطابق آپ محبت کو سمجھتے ہیں اور دوسروں کومحبت دیتے ہیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے Perfect life-partner کے بارے میں سوچیں کہ اس کے اندر کون سی خوبیاں ہونی چاہییں، اس کا اخلاق اور رویہ کیسا ہو اور وہ کس سوچ کا حامل ہو۔ اس چیز سے بھی آ پ اپنی Primary Love Language کو سمجھ سکتے ہیں۔

ازدواجی رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے تیسری چیز قربانی دینا ہے۔ اگر آپ اس رشتے کو خوب صورت بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اپنی انا کے بت کو توڑنا ہوگا۔ آپ نے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ کا شریک حیات آپ کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس تعلق کو پروان چڑھانے کے لیے آپ نے وقت، توانائی اور جذبات کی قربانی دینی ہوگی اور اپنے شریک حیات کو ذہنی و جذباتی طور پر خوش رکھنا ہوگا۔ اگر آپ کے اندر قربانی دینے کا جذبہ نہیں تو پھر معذرت کے ساتھ، مجھے یہ کہنے دیجیے کہ آپ تعلق نہیں نبھا سکتے۔

آپ کے خوب صورت، میٹھے، حوصلہ ا فزا اور محبت بھرے الفاظ کسی بھی شخص کا دل جیت سکتے ہیں اور یہ معاملہ اگر شریک حیات کے ساتھ ہو تو ازدواجی تعلق انتہائی خوش گوار ہو جاتا ہے۔ زبان سے کسی نے پوچھا کہ تم خون خوار دانتوں کے درمیان سلامت کیسے ہو؟ اس نے جواب دیا: اپنی نرمی کی بدولت۔ شادی شدہ بندھن کو خوب صورت بنانے کے لیے زبان اور رویے کی نرمی بہت ضروری ہے۔

اپنے شریک حیات کی تعریف کریں، اسے ہمت دیں اور ایسے کام جو وہ کرنا چاہتا/چاہتی ہے لیکن جھجک کی وجہ سے نہیں کرسکتا/کرسکتی تو اسے حوصلہ دیں، اس خوبی کی تعریف کریں تاکہ وہ خود اعتمادی سے لبریز ہوجائے۔ شریک حیات کی غیر موجودگی میں اس کے لیے بہترین الفاظ کا استعمال کریں۔ اگر کبھی وہ غصے میں ہو تو آپ تحمل کا مظاہرہ کریں، اس کی ناگوار باتوں کو برداشت کریں اور نرمی سے جواب دیں۔ البتہ بعد میں اسے بتائیں کہ اس کا لہجہ غیر مناسب تھا۔

چوتھی اہم چیز اپنے Love Tank کو بھر کر رکھنا ہے۔
خدا نے ہر انسان کے اندر محبت کا مادہ رکھا ہے۔ جب بھی یہ ذخیرہ کم ہوجاتا ہے تو وہ منفی رویوں کا اظہار کرتا ہے اور وہ معاشرے کے لیے تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ ازدواجی رشتے میں اس چیز کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ میاں بیوی میں سے کسی کا Love Tank خالی نہ ہو، ورنہ حالات بگاڑ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ میاں بیوی میں سے اگر کوئی ایک ایسے رویے کا اظہار کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے بھرپور محبت کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع ہوجائے گا جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی اجیرن بن جائے گی۔ Love Tank کو وقتا ً فوقتاً بھرنا ضروری ہے اور اس کے لیے بنیادی چیز وقت، توجہ اور خوب صورت الفاظ کا تبادلہ ہے۔

ازدواجی زندگی کو خوب صورت بنانے کے لیے پانچویں چیز تحفہ دینا ہے۔
اپنے شریک حیات کو تحفہ دینا ایک شان دار عمل ہے۔ اس کی بدولت وہ جان جاتا ہے کہ میرے پارٹنر کے دل میں میرے لیے عزت اور محبت ہے۔ تحفہ دینا محبت کا اظہار ہے جس سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے۔ تحفہ اگر کسی خاص موقع کی مناسبت سے ہو تو اس کی بدولت وہ یادگار بن جاتا ہے۔ تحفہ دینا اس بات کی علامت ہے کہ آپ اپنے پارٹنر کی خدمت اور جذبات کی قدر کرتے ہیں اور اپنی زندگی میں ا س کی موجودگی سے خوش ہیں۔

اگر ازدواجی زندگی مسائل کا شکار ہوجائے تو کیا کیا جائے؟
(1) مکمل بات چیت بند نہ کریں، کسی نہ کسی حد تک رابطہ ضرور قائم رکھیں۔ اگر بات چیت نہیں کرسکتے تو ایک دوسرے کو خط لکھیں۔ اس میں اپنے احساسات لکھیں۔ چند دن تک یہ معمول جاری رکھیں اس کی بدولت تناؤ کی کیفیت ختم ہوجائے گی، فاصلے کم ہوجائیں گے اور تعلق استوار ہوجائے گا۔
(2) اپنے شریک حیات کے سامنے اعلان کریں کہ میں ایک اچھا شوہر/بیوی بننا چاہتاہوں اور بدلے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کریں۔ اس کے بعد مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا رویہ بہتر کریں اور ایسے کام کریں جو شریک حیات کو پسند ہوں۔ ایک ہفتہ تک بہترین برتاؤ کرنے کے بعد شریک حیات سے پوچھیں کہ کیا میں آپ کی نظر میں اچھا انسان بن گیا ہوں؟ اگر مثبت جواب ملے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شریک حیات کے دل میں آپ کے لیے عزت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ایک ہفتہ بعد شریک حیات سے کوئی وعدہ کریں اور اسے نبھائیں۔ جلد آپ کی ازدواجی زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی۔

Related Posts