فیصلہ سازی – ایک اہم خوبی
(قاسم علی شاہ)
’’آپ کا فیصلہ ہی آپ کی منزل کا تعین کرتا ہے!‘‘
(ٹونی روبنس)
فیصلہ۔۔۔ کامیابی اور ناکامی دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فیصلے کے اثرات مستقبل کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ فیصلوں کی وجہ سے مستقبل متاثر ہوتا ہے۔۔۔ منفی بھی اور مثبت بھی۔ آج ہم زندگی کے جس مقام پر کھڑے ہیں، یہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ یہ فیصلے کبھی ماضی میں کیے تھے اور ان فیصلوں کے اثرات آج نتائج دے رہے ہیں۔
انسان کی خوش بختی اور بدبختی دونوں، بڑی حد تک فیصلوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ اگر کسی قیدی سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے تو وہ جواب دے گا کہ مجھ سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا تھا۔ اگر کسی کامیاب انسان سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں کیسے پہنچے تو وہ جواب دے گا کہ میں نے کچھ فیصلے ایسے کیے تھے جنھوں نے مجھے اس مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے۔ تاریخ کے جتنے بھی کامیاب یا پھر ناکام انسان ہیں، وہ فیصلوں کی وجہ سے کامیاب یا ناکام ہوئے۔ کامیابی کے حوالے سے جتنی تحقیق ہوئی ہے، وہ یہ مانتی ہے کہ کامیابی میں فیصلوں کا کردار بہت اہم ہے۔ نپولین ہل نے کامیابی کے موضوع پر پچیس سال تحقیق کی۔ وہ تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں، ان کے فیصلے بہت معیار کے ہوتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ ناکام ہیں، وہ اپنے فیصلوں میں کمزور ہوتے ہیں اور اس کمزوری کی وجہ سے وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
قسمت کے دوحصے ہیں۔ ایک حصہ جس کو بد لا نہیں جاسکتا اور ایک حصہ وہ ہے جسے بدلا جاسکتا ہے۔ قسمت کا وہ حصہ جو بدلا جاسکتا ہے، اس کا انحصار فیصلوں پر ہوتا ہے۔ اگر فیصلے مضبوط اور واضح ہیں اور ان کو سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے تو پھر قسمت کا یہ حصہ خوش قسمتی میں بدل جاتا ہے۔ جو لوگ فیصلہ نہیں کر پاتے، انھیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں ہم ناکام نہ ہوجائیں۔ جب تک آدمی اس خوف سے باہر نہیں نکلتا یا اس پر قابو نہیں پاتا، اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کے پاس علم کی کمی ہوتی ہے، وہ بھی فیصلہ نہیں کرپاتے ۔
تاہم، علم رکھنے والے بھی اکثر اس مہارت سے فارغ ہوتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فیصلہ کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ ہمارے ہاں گھروں کا کلچر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ سارے فیصلے والدین، خاص کر والد کرتے ہیں۔ کیا کھانا ہے، کیا پینا ہے، کیا پہننا ہے، کہاں داخلہ لینا ہے، کیا پڑھنا ہے اور کیا بننا ہے، یہ سب فیصلے والدین کرتے ہیں۔
بچے بڑے ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود فیصلہ کرتے وقت اپنے بڑوں سے پوچھتے ہیں۔ یہ ضرور اچھی بات ہے کہ بڑوں سے پوچھا جائے، لیکن بڑوں کی یہ غلطی کہ وہ فیصلے خود ہی کرتے رہیں اور بچوں سے فیصلہ نہ کرائیں تواس سے اُن میں قوتِ فیصلہ نہیں آتی۔ جب قوتِ فیصلہ نہیں ہوتی تو وہ بچہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔
جن لوگوں کی قوتِ فیصلہ کمزور ہوتی ہے، وہ کمزور شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ شعور کی پختگی اور شخصیت میں ٹھہراؤ فیصلہ سازی میں بہت معاون ہوتا ہے۔ جو آدمی کبھی فیصلہ نہیں کرتا، وہ سیکھ نہیں پاتا، یعنی سیکھنے کیلئے تجربہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اِن تجربوں کی وجہ سے ہی کامیابی ملتی ہے۔
جو لوگ فیصلے کرنے کے بعد اپنا فیصلہ بدل لیتے ہیں، انھیں فیصلے کے معانی نہیں معلوم ہوتے، فیصلہ کا معنی یہ ہے کہ آدمی پہلے جس حالت میں تھا، اس حالت کو ختم کرکے نئی حالت میں لے جانے کیلئے عملی اقدامات کرے۔جو لوگ قدم اٹھانے کے بعد اپنے قدموں پرقائم نہیں رہتے، پیچھے ہٹ جاتے ہیں، وہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ انھیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہوتا۔ فیصلے کیلئے خود پر اعتماد بہت ضروری ہے۔ وہ تمام لوگ جن کا دوسرے لوگوں پر اعتماد ہوتا ہے، لیکن اپنے آپ پر نہیں ہوتا، وہ مسئلے کو تکتے رہے ہوتے ہیں، حل کی طرف نہیں دیکھتے۔ ایسے لوگ کبھی اچھا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اگر وہ فیصلہ کر بھی لیں تو غلط کریں گے، کیوں کہ حل کی بجائے مسئلہ کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔ اُن کی بنیاد غلط ہے۔
آدمی ہمیشہ اچھے فیصلے برے فیصلوں سے سیکھتا ہے، کیونکہ غلط فیصلوں کے بعد سبق ملتا ہے۔ جب یہ پتالگ جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا تو پھر اکثر فیصلے صحیح ہونے لگتے ہیں، کیونکہ وہ فیصلے تجربے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے سارے فیصلے ٹھیک ہوں۔ انسان ہونے کے ناتے اس میں سو خامیاں ہوتی ہیں۔ کوئی انسان کل سے واقف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ کل کو نہ جاننے کی وجہ سے کچھ فیصلے غلط ضرور ہوتے ہیں، لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ بندہ قدم ہی نہ اٹھائے اور کوئی فیصلہ ہی نہ کرے۔
▪فیصلہ سے پہلے مشورہ
جو لوگ فیصلہ کرکے بدل جاتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ پہلے رکیں، معاملہ سمجھیں، غور کریں اور کسی سے مشورہ کریں۔ مشورہ کرنا سنت ہے اور اس میں بڑی قوت ہے۔ جب کسی سے مشورہ کیا جاتا ہے تو اس سے اس کی عقل بھی اس فیصلے میں شامل ہوجاتی ہے اور اس طرح فیصلے بہتر بھی ہوجاتے ہیں اور آدمی اپنے فیصلوں پر قائم بھی رہتا ہے۔
غلط فیصلے بھی کچھ نہ کچھ ضرور دے کر جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برا وقت بہت کچھ چھین کر جاتا ہے، لیکن برا وقت بہت کچھ سکھا کر بھی جاتا ہے۔ غلط فیصلوں سے آدمی جو کچھ سیکھتا ہے، دراصل وہ قیمت ادا کرتا ہے۔ وہ قیمت عقل اور دانش کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ عقل و دانش آدمی کی زندگی کو قیمتی بناتی اور اس سے منسلک لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
جہاں اللہ تعالیٰ کا بندے پر بے شمار کرم ہے، بے شمار فضل ہے، وہاں عقل اور شعور کا مل جانا ، دانش حاصل ہوجانا بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے۔
▪مناسب وقت کا انتظار
جو لوگ مناسب وقت کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ کبھی فیصلہ نہیں کرپاتے۔ حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں، ’’جو کہتا ہے، میں کل بدلوں گا، اس کا کل کبھی نہیں آتا۔‘‘ مناسب وقت کا بہانہ بڑی نالائقی ہے۔ اگر آپ نے مناسب وقت میں فیصلہ کرنا ہے تو اس کیلئے دوباتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایک اس بات کی عادت نہیں ہونی چاہیے کہ میں مناسب وقت کا بہت زیادہ انتظار کیا جائے۔ کسی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے سوال کیجیے کہ اس فیصلہ کو کب تک ٹالا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک وقت ہے۔ اس کے بعد فیصلہ نہ کرنے سے نقصان ہوگا۔ یہ نقصان فیصلے میں تاخیر کی واضح علامت ہے۔ دوسری بات یہ کہ مناسب وقت وہ بہترین وقت ہوتا ہے کہ جب آدمی تکلیف میں ہوتا ہے، کیونکہ انسان تکلیف میں رہ کر سب سے زیادہ سیکھتا ہے کہ اب مجھے یہ غلطیاں نہیں دہرانی۔
جب بھی آدمی غلطیوں سے سیکھ کر فیصلہ کرتا ہے تو وہ تبدیلی کا وقت ہوتا ہے۔ آئیڈیل وقت وہ ہوتا ہے کہ جس وقت آدمی کے پاس علم آجائے، شعور آجائے، سمجھ آجائے۔ بعض اوقات ہمیں تھوڑی سی ہمدردی چاہیے ہوتی ہے، تھوڑا سا ساتھ چاہیے ہوتا ہے، کندھا چاہیے ہوتا ہے، جب کند ھا مل جائے، ساتھ مل جائے، عقل مل جائے اور ہمدردی مل جائے تو یہ بھی فیصلے کیلئے آئیڈیل وقت ہوتا ہے۔ فیصلے کا بہترین وقت وہ بھی ہوتا ہے کہ جب آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ میں فیصلے کے بعد اس کے نتائج کو سنبھال سکتا ہوں۔
بے شمار لوگ فیصلہ تو کرلیتے ہیں، لیکن اس کے نتائج کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ اگر آپ فیصلہ کرکے یہ کہنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں کہ اب طوفان آئے، بادوباراں آئے، کچھ ہوجائے، میں نتائج قبول کروں گا تو پھر یہ جرات اور یہ ہمت فیصلے کیلئے مناسب وقت تخلیق کردیتی ہے۔
ماہرین اور دانشور اس بات کے قائل ہیں کہ کبھی بھی غصے اور خوشی کی کیفیت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، یعنی وہ تمام حالتیں جس میں آدمی جذبات میں قید ہو، اس کیفیت میں کبھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ تمام فیصلے جو فرد نے شدید جذباتی کیفیت میں کیے جاتے ہیں، زیادہ تر ان پر پچھتانا پڑتا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں،
’’غصہ وہ شیر ہے جو پورے مستقبل کو بکرا بنا کر کھا جاتا ہے۔‘‘
ناامیدی کی حالت میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس حالت میں اندر کی آنکھ ایسی تصویریں دکھا رہی ہوتی ہے جس سے لگتا ہے کہ مستقبل اچھا نہیں ہے۔ اس حالت میں ناامید ی کے جذبات غالب ہوتے ہیں۔
جب بھی فیصلہ کریں تو دیکھئے کہ ہمارے دماغ کا حقیقت پسندانہ حصہ کتنا متحرک ہے، کیونکہ وہ اعداد و شمار بناتا ہے، خطرات کا جائزہ لیتا ہے، مستقبل کا سوچتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے.
کہا جاتا ہے کہ کبھی جست لگانے کا فیصلہ کرنا ہو تو پہلے دیکھئے کہ زندگی میں پہلے جو چھلانگیں لگائی ہیں، اُن کا نتیجہ کیا رہا۔ پھر فیصلہ کیجیے، کیونکہ ان سے فیصلے کی قوت ملتی ہے۔ جب فیصلہ کرنا ہوتو اس کو کچھ وقت کیلئے روک لیں۔ تھوڑا سا وقت لے لیں، کیونکہ جن جذبات نے فرد کو قابو کیا ہوتا ہے، وہ ان سے باہر نکل آتا ہے۔
زندگی ایک لمحے میں بدل سکتی ہے
زندگی صدیوں میں، سالوں میں، مہینوں میں اور دنوں میں نہیں بدلتی بلکہ زندگی ایک لمحے میں بدل جاتی ہے اور وہ لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب آدمی فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی بدلنی ہے۔ اگر دوسمتیں بنی ہوں، ایک پر ’’اوسط‘‘ لکھا ہو اورایک پر ’’یادگار‘‘ اور آپ کو فیصلہ کرنا ہو کہ مجھے باقی کی زندگی معیاری اور اعلیٰ گزارنی ہے تو اپنے اندر کی تصویر میں ’’یادگار‘‘ کو نشان زد کیجیے۔ اس دنیا میں مثالیں دینے والے بے شمارہیں، لیکن مثال بننے والے بہت کم ہیں۔ مثال بننے والے انسان بنیں۔ کہاجاتا ہے، اس دنیا میں نہ کوئی کامیاب ہے اور نہ کوئی ناکام ہے۔ اس دنیا میں صرف انتخاب ہے ا ور انتخاب فیصلوں سے ہوتا ہے۔ اپنے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کو شامل کیجیے، کیونکہ جب آپ اللہ تعالیٰ کوشامل کر تے ہیں تو وہ آپ کے فیصلوں میں برکت ڈال دیتا ہے۔ وہ فیصلے نہ صرف اچھے نتائج دیتے ہیں، بلکہ ان فیصلوں سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
دوسروں کو بدلنے کا فیصلہ چھوڑیے، خود کو بدلنے کا فیصلہ کیجیے، کیونکہ خود کے بدلنے سے کتنے ہی لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کتنے قیمتی انسان ہیں۔ جب ہم بدلتے ہیں تو کتنا کچھ بدل جاتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیجیے۔