ڈاکٹرعبد القدیر خان، عزم و ہمت کی داستان

ڈاکٹرعبد القدیر خان، عزم و ہمت کی داستان
(قاسم علی شاہ)
میری ڈاکٹرعبدالقدیر خان صاحب کے ساتھ دو ملاقاتیں ہیں ۔ایک دِن اُن کے کسی ٹیم ممبر نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب آپ سے ملناچاہتے ہیں ۔ میری خوشی کی انتہاء نہیں تھی یہ سن کر کہ میرے ملک کا ہیرو ، میری پسندیدہ شخصیت اور محسن پاکستان مجھ سے ملنا چاہتا ہے!چند ہی دِن بعد مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ ملاقات لاہور میں ہوگی۔وقت مقررہ پر جب میں پہنچاتو مختلف ایجنسیوں کے احباب وہاں موجود تھے ، انھوں نے وہاں بیٹھے ہی میرا ڈیٹا ، میرا آئی ڈی کارڈ سب چیزیں چیک کیں اور مجھے ’’کلیئر‘‘ کیا اور اگلے ہی چند لمحوں میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب میرے سامنے تھے۔میں انتہائی ادب سے سہما بیٹھا تھا ،لیکن میری اس کیفیت کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے مجھے پاس بیٹھنے کو کہا ، چائے منگوائی اور پرانے دوستوں والے انداز میں بات چیت شروع کردی۔وہ اپنی زندگی کی جدوجہد کا تذکرہ کرنے لگے ، ملک کے لیے دردِ دِل اور قوم کی اصلاح کا جذبہ اُن کی بات چیت سے چھلک رہاتھا۔لیکن تھوڑی دیر بعد اُن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی ، اپنے زمانہ جوانی کے دو واقعات سناتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔میری خوشی کی انتہاء نہیں تھی ۔میں ایک اصلی ہیرو ، ایک محب وطن پاکستانی اور اس ملک کے محسن سائنس دان کے ساتھ بیٹھا گپیں لگارہا تھا ۔پھر انھوں نے بلانے کی غرض سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ہمارا ایک ہسپتا ل ہے ، جوغریب مریضوں کی صحت کے حوالے سے کافی ساراکام کررہا ہے۔اس کے لیے عطیات جمع کرنے کاایک پروگرام ہے ۔آپ اس میں ایک تقریر کردیجیے۔میں نے خوشی سے ہامی بھری ، ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ چومے اوراُن سے جانے کی اجازت چاہی ۔

میری دوسری ملاقات PCہوٹل میں عطیات جمع کرنے کی اس تقریب میں ہوئی ۔جب میری تقریر کی باری آئی تو ڈاکٹر صاحب نے کندھے پر تھپکی دی اور میں اسٹیج کی طرف بڑھا ، اُس تقریر میں میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کی زندگی پر ایک فلم بننی چاہیے اور خان صاحب کی کہانی کو نصاب میں بھی شامل کرنا چاہیے ۔اس تجویز کو سب نے بہت سراہا ۔تقریر کے بعد میں دوبارہ اسٹیج سے نیچے اترا ، خان صاحب کے گھٹنو ں کو ہاتھ لگائے ،اُن سے شاباشی لی اور اس محفل سے نکل آیا ۔میں آج کی اس تحریر کے ذریعے ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کے حوالے سے آپ کومزیدبھی کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب 1936ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔آ پ کا بچپن بھوپال میں گزرا ، یہیں آپ پلے بڑھے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ چلے گئے ۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے یورپ میں پندرہ سال گزارے اور مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئر کی اسناد حاصل کیں۔

ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب انتہائی ذہین اور محنتی تھے ۔اپنے وقت کو ہمیشہ بہت سمجھ کر خرچ کرتے۔جرمنی میں اپنی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد نیدرلینڈ میں بھی آپ نے کئی ڈگریاں حاصل کیں۔آپ نے بیلجیم میں بھی پڑھا اور وہاں بطور سائنسدان کام کیا۔آپ کا پسندیدہ مضمون ’’میٹالرجیکل انجینئرنگ‘‘ تھا ، اس میں آپ کو کمال حاصل تھا ،پورے یورپ میں آپ کی مہارت کو سراہا گیا۔اس کے بعد آپ نے ہالینڈ میں یورینیم افزودگی کے میدان میں بہت کمال حاصل کیا۔یہاں ان کی زندگی بہت پرتعیش گزررہی تھی ۔ہر چیز کی فراوانی تھی اور وہ بڑے مزے کے ساتھ زندگی گزاررہے تھے لیکن اس کے ساتھ وطن کی محبت بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اسی دوران دوواقعات ایسے ہوئے جنھو ں نے ان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ایک پاکستان کادولخت ہوکر بنگلہ دیش بننا اور دوسرا بھارت کا ایٹمی دھماکے کرنا۔اِس وقت آپ کے دِل میں شدید تمنا پیدا ہوئی کہ کاش پاکستان بھی بھارت کے مقابلے میں ایٹمی قوت بن جائے ۔

ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب نے 31 مئی 1976ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر ’’انجینئرریسرچ لیبارٹریز‘‘کے پاکستان ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی بیگم اور دونوں بیٹیوں کے ہمراہ پاکستان آئے تو انھیں ایک ریسٹ ہائوس میں ٹھہرایا گیا۔رات بھر میاں بیوی کاآپس میں مکالمہ چلتارہا۔بیوی بار بار ڈاکٹر صاحب کو یہ بتارہی تھی کہ آپ کے پاس بہترین نوکری ہے ، ہر چیز کی فراوانی ہے ، ہمارے بچیاں بھی ہیں جن کی مستقبل کی ہم نے فکر کرنی ہے تو پھر یہ سب کچھ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟لیکن ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب حقیقی معنوں میں ایک فیصلہ کرچکے تھے اور اپنے ملک کی خدمت کی خاطر اپنی شاندار نوکری کی قربانی دینے کوبھی تیار ہوچکے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کواس وقت تین ہزار روپے ماہانہ پر’’ اٹامک انرجی کمیشن‘‘ میں مشیر لگا دیا گیا،کچھ دِنوں بعد دفتر خارجہ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی، جس میں فیصلہ ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیلئے ایٹمی پروگرام کو بالکل علیحدہ کر کے انہیں اس کا سربراہ بنا دیا جائے۔ڈاکٹر صاحب ایٹمی پروگرام کو شروع کرنے کے لیے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھے ، ان کی نظر انتخاب کہوٹہ پر پڑی ۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے اس وقت کمیٹی سے کہاکہ مجھے فوج کی انجینئرنگ کور کی ایک ٹیم چاہیے جو اس پلانٹ کی تعمیر کرے۔ ان کا مطالبہ منظور کرلیا گیا ۔چند دِنوں بعد ڈاکٹرصاحب نے اختیارات کی ایک فہرست بنائی جو انہوں نے بورڈ ممبران کو پیش کی۔ممبران نے جب تفصیل دیکھی تو بڑے حیران ہوئے کیوں کہ یہ وہ اختیارات تھے جو صرف وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں لیکن اس وقت وزیر اعظم سمیت سارے ممبران پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے لیے جوش و جذبے سے لبریز تھے ، چنانچہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کو ہر طرح کے مطلوبہ اختیارات دیے گئے ۔انھوں نے بڑی راز داری کے ساتھ اس پراجیکٹ پر کام شرو ع کیا ۔اس میں یقینی طورپر اللہ کی مدد شامل تھی کہ کم تر وسائل اور مختصر وقت میں کہوٹہ میں ایک بڑی ریسر چ لیبارٹری کا قیام عمل میں لایاگیا ۔ جہاں پر باقاعدہ اسٹاف تعینات کیا گیا ، ان کے لیے رہائش ، بچوں کی تعلیم اور دوسری ضروریات زندگی کوپوراکرنے کا بندوبست بھی کیا گیا۔
ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب اپنا مقصد پانے کے لیے بڑے ہی پُرجوش تھے۔انھوں نے دِن رات ایک کرکے کام شروع کیا اور 10 دسمبر 1984ء کو جنرل ضیاء الحق کو دفتر میں جا کر بتایا کہ ہم نے ٹارگٹ حاصل کرلیا ہے ۔جنرل صاحب نے سنا تو بہت خوش ہوئے اور اسی سرشای کے عالم میں انھوں نے ڈاکٹرقدیرخان صاحب کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب عالم اسلام کے وہ مایہ ناز مسلمان سائنس دان ہیں جنھوں نے آٹھ سال کے مختصر عرصے میں اپنے ایمانی جذبے اور محنت کے ساتھ ایسی شاندار مثال قائم کی کہ جس پر دُنیا آج بھی حیران ہے۔یہ 1998کا سال تھا جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے ۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کی حب الوطنی ایک بار پھر جوش مارنے لگی اور انھوں نے وزیر اعظم سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی جو کہ خوش قسمتی سے منظورہوگئی اور آپ نے چاغی کے مقام پر 6 کام یاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے۔ یہ دراصل وہ موقع تھا جہاں ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اب پاکستان پر اللہ نے اپنا خاص کرم کرلیا ہے اور وہ ایک ناقابل تسخیر ملک بن چکا ہے۔ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب کی ان تھک محنت اور خلوص کی بدولت اب پاکستان پورے قدکے ساتھ کھڑ ا تھا۔

پاکستان کا ایٹمی قوت بننا ، ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک ایسی کاوش تھی، جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔دراصل یہ ایک ایسی کامیابی تھی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کیوں کہ دُنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک نے وسائل کی بے انتہاء کمی کے باوجود اس قدر شان دار کامیابی حاصل کی ہو ۔ہر لحاظ سے پاکستان ایک غریب ملک تھا۔ تعلیم کی شرح بھی اس وقت انتہائی نچلی سطح پر تھی ۔ اس کے پاس ایران جیسا تیل کا ذخیرہ نہیں ،نہ عرب ممالک کی طرح درہم ودینار کے ڈھیر، اس کی صنعت بھی پڑوسی ملک ہندوستا ن کی طرح مضبوط نہیں تھی،نہ اس کے پاس اسرائیل کی طرح سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ ایٹمی قوت بن گیا تو یہ یقینی طورپر کسی کا جذبہ ، کسی کا خلوص اور دردِ دِل تھا اور اللہ کا خاص کرم بھی۔

قدرت نے ہمیشہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان صاحب پر اپنا کرم کیا ، وہ اس عظیم کامیابی کے بعدہر ایک کے دِل میں بسنے لگے۔ہر پاکستانی آج تک ان کے لیے عزت و احترام کا جذبہ رکھتاہے۔اس کے علاوہ سرکاری طورپر اور مختلف اداروںکی طرف سے بھی انھیں متعدد اعزازات سے نوازاگیا۔1989ء میں ڈاکٹر صاحب کو ہلال امتیاز کا تمغہ عطا کیا گیا۔ 1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔ 14 اگست 1996ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز’’ نشانِ امتیاز‘‘ دیا۔

دُنیا کا ہر عظیم انسان اپنی زندگی میں جہاں بہت ساری کامیابیاں سمیٹتا ہے وہیں اس کو آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بھی بڑے شدیدقسم کے بحران آئے لیکن آفرین ہے ان کی جرات اور استقامت پر کہ انھوں نے بڑی ہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ،وطن کی خاطر ہر طرح کی مشکلات سہیں، انھیں نظر بندی کاایک طویل زمانہ بھی دیکھنا پڑا ، اپنے لوگوں سے ملنے ، میڈیا سے ملنے ، بیرون ملک جانے اور نہ جانے کیاکیا پابندیاں انھیں دیکھنی پڑیں لیکن پھر بھی انھوں نے خود کو زندہ رکھا۔ان کی مشکلات و مصائب کو دیکھ سابق وزیر اعظم ظفر اللہ خان نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہمارے ’’زندہ شہید’’ہیں،لیکن اس سب کے باوجود بھی انھوں نے زندہ دِلی کے ساتھ زندگی گزاری ۔ ڈاکٹر صاحب ایک شگفتہ مزاج اورعلم و ادب سے تعلق رکھنے والے انسان تھے۔ملک کے معروف اخبارات میں ان کے کالمزشائع ہوتے رہے ،جن میں وہ اپنی زندگی کے تجربات اور مفید خیالات و افکار کا تذکرہ کرتے۔اپنی فکر و تحریر سے قوم کی ترقی ، معاشرے کی اصلاح اور خد مت خلق کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ۔اگرچہ انھیں سیاستدانوں اورحکمرانوں سے شکایت رہی لیکن عام پاکستانیوں نے انھیں جو عزت، مان اور رُتبہ دیا ،اس پر وہ دِل سے مسرور تھے ۔

10اکتوبر2021ء کادِن پورے پاکستان پرسوگ کا عالم تھا کیوں کہ اسی دِن عالم اسلام کا حقیقی ہیرو اورمحسن پاکستان اس فانی دُنیا سے رب کی جواررحمت میں چلے گئے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب جیسی مخلص ، ایمان دار اور درددِل رکھنے والی شخصیات صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہیں اور قوم کو ہمیشہ اپنے ایسے سپوتوں پر ناز ہوتا ہے۔

Related Posts