مادرِ ادب، بانوقدسیہ

مادرِ ادب، بانوقدسیہ
(قاسم علی شاہ)
خزانہ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا،اس کے لیے زمین کھودنا اور اپنا خون پسینہ ایک کرناپڑتا ہے ۔خام حالت میں سونابھی بے قدرا ہوتا ہے لیکن جب اس کو آگ کی بھٹی میں جھونک کر کندن بنالیاجائے تو تب وہ بیش قیمت بنتا ہے ۔ہیرے کا پتھر بھی تب ہی بادشاہ کے تاج میں سجتا ہے جب وہ مہارت سے تراشاجائے ۔فرانس بیکن کہتا ہے کہ میں نے دنیا کے عظیم انسانوں کو افلاس کے جھونپڑے سے نکلتے دیکھا ہے۔

جون کی تپتی دوپہر تھی اور دونوں میاں بیوی بچے کی بیماری کی وجہ سے پریشانی کے عالم میں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے کی طبیعت مزید خراب ہوتی جارہی تھی ۔وہ دونوں گھبراگئے ۔شاید بچو ں کی اس قدر شدید بیماری پہلے کبھی دیکھی نہ تھی ، اسی حالت میں وہ بچے کو اٹھاکر گھر سے نکلے اور ایک تانگے میں بیٹھ کرڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ڈاکٹر نے بچے کی حالت دیکھی تو دونوں پر برس پڑاکہ بچے کو لانے میں اتنی دیر کیوں کردی۔دونوں میاں بیوی پریشانی کے ساتھ ساتھ شرمندہ بھی ہورہے تھے۔بچے کی ماں نے ڈاکٹر کو التجاء بھری نظروں سے دیکھااور بچے کا علاج کرنے کی درخواست کی ۔ڈاکٹر نے دوچار دوائیاں ملاکر ایک مرکب تیار کیا اور بچے کو پلایا۔کچھ ہی دیرمیں بچے کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی لیکن اچانک اس نے الٹیاں شروع کردیں جس سے ڈسپنسری کا فرش خراب ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب کا موڈ مزید بگڑگیا۔بچے کی ماں نے معذرت خواہانہ نظروں سے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا اور پھر نیچے بیٹھ کرسر پر موجود دوپٹے کے دوسرے کنارے سے فرش کو صاف کرنے لگی ۔وہ روئی جارہی تھی ، شرمندگی کی وجہ سے اس کاسرجھکاہوا تھا، پاؤں سے ایک جوتا بھی اتر چکا تھا اور سسکیوں سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا۔اچھی طرح فرش صاف کرنے کے بعد دونوں میاں بیوی ڈسپنسری سے نکلے ۔باہر لگے نلکے سے دوپٹے کو دھویا۔سامنے ایک تانگہ کھڑاتھا اس کو ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایااور دونوں اس میں بیٹھ گئے ۔کوچوان نے مرد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھاتو وہ بولا:’’گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ بیوی نے حیرانی سے اپنے شوہر کو دیکھا کہ اس گرم دوپہر اور بیمار بچے کے ساتھ گھر کے بجائے کالج کیوں جارہے ہیں لیکن کچھ پوچھ نہ سکی اور خاموش بیٹھی رہی۔کچھ ہی دیر میں دونوں گورنمنٹ کالج لاہور کی پرشکوہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے ۔چھٹیوں کی وجہ سے کالج بند تھا اور ہر طرف سناٹا طاری تھا۔درختوں کے لمبے لمبے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے ۔وہ دونوں آگے بڑھے اور اس کلاس روم کے پاس پہنچے جہاں دونوں کسی زمانے میں نہ صرف اردو ادب سے شناسا ہوئے تھے بلکہ محبت کی منزلیں بھی طے کی تھیں۔وہ کلاس روم کی سیڑھیوں پر بیٹھے نہ جانے کتنی دیر تک ماضی کے جھروکوں میں گم رہے۔

دُنیا کا ہر انسان جب پریشان اور بے بس ہوجاتاہے تو اس کو کسی ایسے کسی سہارے کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس کی گود میں سر رکھ کر وہ اپنے آنسو بہائے اور اپنے دِل کا بوجھ کوہلکا کرے۔گورنمنٹ کالج لاہور بھی ان کے لیے درگاہ کی طرح تھاجب وہ اپنے حالات سے بے بس ہوئے تو ان کے قدم خود بخود اس کی طرف بڑھنا شروع ہوئے، کیوں کہ یہی وہ ادارہ تھا جہاں ان دونوں کی علمی و فکری ترقی ہوئی تھی ، ان کا ادب کے ساتھ رشتہ گہراہوا تھا ،قلم قرطاس سے شناسائی ہوئی تھی اورکتاب سے دوستی مضبوط ہوئی تھی اور یہی مشترکہ دلچسپی انھیں ایک دوسرے کے قریب لائی اور آنے والے وقت میں دنیا نے محبت ، عزت ،خلوص ، قربانی اور مشرقی اقدار و روایات کے حامل میاں بیوی کی ایک ایسی جوڑی دیکھی جو اپنی مثال آپ تھی۔

بانو قدسیہ 28نومبر1928ء کوفیروز پورشہرمیں پیداہوئی ۔اپنی پیدائش کے متعلق وہ بتاتی ہیں کہ میں نے اپنے بارے میں سنا ہے کہ جس رات میری پیدائش ہوئی تو اس وقت بارش ہورہی تھی ۔قریب ہی ایک جوتشی بیٹھا ہوا تھا وہ بولاکہ اس لمحے اس ہسپتال میں کوئی بھگت پیدا ہوا ہے ۔آپ کے والد بدرالزمان چٹھہ زراعت میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے ۔بانوقدسیہ کی عمر ابھی نو سال ہی تھی جب ان کے سر سے والد کاسایہ اٹھ گیا۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی ۔ جب پاکستان بنا تو انھیں یقین تھا کہ مسلم اکثیرت ہونے کے اعتبار سے ان کے شہر کو بھی پاکستان کا حصہ بنادیا جائے گالیکن ایسا نہ ہوسکا ۔البتہ پاکستان جانے کی تمنا ان سب کے دِل میں مچل رہی تھی اور پھر ایک دِن حالات سے مجبور ہوکر ان کی والدہ نے ہنگامی حالت میں پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کرلیا۔

لاہور میں انھیں گھر مل گیا اور وہ زندگی بسرکرنے لگے۔کنیئرڈ کالج سے بی اے کرنے کے بعد بانوقدسیہ کی والدہ کی خواہش ان کی شادی کرنے کی تھی لیکن پھر ان کے ایم اے کرنے تک شادی کوموخرکردیا گیا۔بانوقدسیہ کی خواہش تھی کہ وہ اردو میں ایم اے کریں لیکن اس زمانے میں کنیئرڈ کالج میں یہ سہولت نہیں تھی ، البتہ گورنمنٹ کالج لاہورمیں ایم اے اردوکاآغازہوگیا تھا،چنانچہ وہ داخلہ کروانے کے لیے وہاں پہنچیں ۔پرنسپل صاحب نے انھیں داخلے کے بارے میں ساری تفصیل سے آگاہ کیا اور انھیں کلرک کے پاس بھیج دیا۔بانوقدسیہ کلرک کے دفتر پہنچیں تو وہاں ایک گورا چٹاخوبصورت لڑکاکھڑکی کے ساتھ کہنی ٹیک کر کھڑا تھا۔بانوقدسیہ کو دیکھ کر وہ پیچھے ہوگیا اور نظریںنیچے کرلیں۔فیس جمع کرانے کے بعد کلرک نے ان سے کہا:’’بی بی یہ اشفاق احمد ہیں۔یہ آپ کے ساتھ ایم اے کریں گے۔‘‘یہ ان کا اشفاق صاحب سے پہلا تعارف تھا جو بعد میں جاکر ایک گہرے رشتے میں بدل گیا۔

ایم اے کی کلاس شرو ع ہوگئی۔سب کلاس فیلوز کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ رسمی تعلق بن گیا ۔اشفا ق احمد جہاں ایک بہترین افسانہ نگار تھے وہیں ایک حساس انسان بھی تھے ،چوں کہ اس وقت تک ان کی کتاب ’’ایک محبت سوافسانے‘‘شائع ہوچکی تھی اس اعتبارسے وہ اپنے کلاس فیلوزسے سینئر تھے اور ان کی مددو رہنمائی کرتے تھے لیکن ساتھ ہی اس چیز کا بھی بھرپور خیال رکھتے کہ کسی کو احساس کمتری میں مبتلا نہ کریں۔ایک دِن بانوقدسیہ لائبریری سے کتابیں نکلواکر واپس آرہی تھیں کہ برآمدے میں اشفاق احمد ملے ۔انھوں نے ان کی کتابیں دیکھنے کی درخواست کی ۔ایک سرسر ی نظر ڈالنے کے بعد اشفاق احمد نے کہا کہ کیا آپ اپنی کتابیں مجھے دے سکتی ہیں؟جواب اثبات میں ملا اور انھوں نے آپس میں کتابیں ’’ایکسچینج ‘‘کرلیں۔دراصل وہ بانوقدسیہ کو بتاناچاہ رہے تھے کہ آ پ نے اردومطالعہ کے لیے جو کتابیں منتخب کی ہیں وہ زیادہ مفید نہیں ہیں، میرے انتخاب سے آپ زیادہ بہتر انداز میں تیاری کرسکیں گی۔یہ تعلق کب محبت کی صورت اختیار کرگیا، دونوں کو علم نہ ہوسکا۔

اشفاق احمدایک شرمیلے اورکم گو انسان تھے ۔ ان کا تعلق ایسے پٹھان خاندان سے تھا جس کی جڑیں روایات سے جڑی تھیں اوران روایات سے آج تک کسی نے بغاوت نہیں کی تھی۔وہ انتہائی مہمان نواز اور ہر دلعزیز لوگ تھے ، مہمان کوسر آنکھوں پربٹھانے والے ، اس کو اپنے دسترخوان میں شریک کرنے والے لیکن یہ سب کچھ گھر کے باہر ہی ہوتا، کسی اجنبی کے ساتھ وہ رشتے ناتے نہیں بناتے تھے۔ایک طرف بانوقدسیہ اشفاق احمد کے دِل میں گوشہ نشین ہوتی جارہی تھی تو دوسری طرف اپنی خاندانی روایات اور اپنا فطری شرمیلا پن انھیں دِ ل کی بات زبان پرلانے سے روک رہا تھا۔اِن کادِلی میلان بانوقدسیہ کی طرف بڑھنے لگاتو ان کے خاندان کویہ تسلی تھی کہ یہ اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھے ،اپنی خاندانی اقدار کو نہیں چھوڑسکتا۔دوسری طرف بانوقدسیہ کی والدہ نے ان پر واضح کردیا تھا کہ تم ایک بیوہ کی بیٹی ہو۔تمھارے سر پر والدکاسایہ نہیں ہے۔ تمھارے بھائی کی تعلیم ابھی نامکمل ہے ۔تمھار ایک غلط قدم پورے خاندان کے لیے مسئلہ بنا سکتاہے لہٰذا بہت احتیاط سے کام لینا،لیکن تقدیر کے لکھے کوکون بدل سکتاہے۔

اشفاق احمد دِل کے ہاتھوں مجبور تھے ۔وہ ایک ایسے دوراہے پر آچکے تھے جہاں ان کے لیے فیصلہ کرنا انتہائی مشکل تھا۔اس دوران سات سال گزرگئے لیکن وہ کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے ، بالآخر انھوں نے بانوقدسیہ کو اپنی شریکہ حیات بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔یہ فیصلہ ان کے لیے آسان نہیں تھا ۔ انھیں اپنا خاندان ، اپنے بہن بھائی بہت عزیز تھے اور ان سے دوری ان کو بالکل گوارانہ تھی ،لیکن وہ اس بات کو بھی خوب سمجھتے تھے کہ انسان کا دعویٰ جس قدر بلند ہوتا ہے اسی حساب سے اس کو قربانی بھی دینا پڑتی ہے ، اس کو اپنے اختیار اوراپنی آزادی سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے اور اپنے قوتِ ارادی کو اپنے ہم سفر کی خواہش پر قربان کرناپڑتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر یا وہ انسان غلط ہے یا پھر ا س کادعویٰ جھوٹاہے۔
اشفاق احمد نے ساری زندگی نہ صرف بانوقدسیہ کوعزت ومقام دیابلکہ یہ کوشش بھی کی کہ انھیںدنیاکے سامنے ایک باکمال خاتون کے طورپر پیش کیا جائے۔بانوقدسیہ لکھتی ہیں:
’’اشفاق احمد چاہتے تھے کہ میرے تمام عیوب ، کمزوریاں ، غفلتیں،Shortcomingsلوگوں کی نظروں سے چھپی رہیں اور میری خوبیوں کو ہیرے کی طرح تراش کرمجھے معاشرے میں پیش کیا جائے ۔اس معاملے میں وہ اللہ کی طرح سترپوشی کرنے کو مدد کی بہترین صورت تصورکرتے تھے ۔میں نے کبھی انھیں اپنی کسی غلطی کاتمسخر اڑاتے نہیں دیکھا۔‘‘

دوسری طرف بانوقدسیہ نے بھی اس تعلق کو نبھانے میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔اس وقت تعلیمی اداروں میں ٹیچنگ اسٹاف کی قلت تھی ، انھیں لاہور کالج فار ویمن سے نوکری کی آفر آئی۔اشفاق احمد جب گھر آئے تو انھوں نے نوکری والاخط ان کے سامنے رکھا اوراجازت چاہی ۔اشفاق احمد نے گھر کے حالات اوربچوں کی پرورش کی ساری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور فیصلے کا اختیارانھیں دے دیا۔ بانوقدسیہ نے شوہر اورگھر کوترجیح دی اور نوکری نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اسی طرح ایک دفعہ قدرت اللہ شہاب نے انھیں بتایا کہ’’ تمھارے گھر کے پاس ایک میوزیم بن رہا ہے ، جس کے لیے ایک ڈائریکٹر کی ضرورت ہے اگر تم چاہوتو یہ نوکری تمھیں مل سکتی ہے۔اچھی تنخواہ ، گاڑی ، گھر کے لیے دو نوکر اور سفر کے ٹکٹ بھی ملیں گے۔‘‘یہ سن کروہ خوشی سے پھولے نہ سمائی ۔انھوں نے اشفاق احمد سے ذکر کیا لیکن اس بار پھر’’ داستان گو‘‘ نے ان کے سامنے ساری صورت حال کچھ یوں رکھی:دیکھوقدسیہ! اس وقت ہمیں پیسے کی تنگی نہیں ہے، گھر میں گاڑی موجود ہے او ر ضروریات کے لیے خدمت گزاربھی تو پھر ان سب کی کیا ضرورت ۔بہر حال فیصلہ تم نے کرنا ہے۔‘‘ لیکن یہاں بھی انھوں نے اپنے محبوب شوہر کی پسند اوررائے کا بھرپور احترام کیا اور مراعات سے بھرپور اس نوکری کی آفر کوبھی ٹھکرادیا۔

بانوقدسیہ نے اشفاق احمد کوشوہر کے ساتھ ساتھ استادکادرجہ بھی دیا ہو اتھا۔اشفاق احمد ہی کی حوصلہ افزائی پر انھوں نے لکھناشروع کیا اور30سے زیادہ مقبول ترین ناول،افسانے اور ڈرامے لکھے جنھوں نے نہ صرف اصلاح معاشرہ میں اپنا بھرپور کردار اداکیا بلکہ نئی نسل اور خاص طورپر خواتین کے ذہنوں میں اس اندیشے کو بھی ختم کردیا جو وہ مشرقی ہونے کے ناتے محسوس کرتی تھیں اور احساس کمتری کا شکار تھیں۔کنیئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج جیسے اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بانوقدسیہ نے اپنی مشرقیت کو نہیں چھوڑا۔اس سلسلے میں بانو قدسیہ کا نظریہ بہت واضح تھا ۔ان کے نزدیک مرد و عورت کی ذمہ داریاں الگ ہیں۔مرد کفالت کا ذمہ دار ہے اور عورت پرورش کی۔ماںاپنی اولاد کی امین ہیں اور اسی وجہ سے اس کے پائوں تلے جنت رکھی گئی ہے۔بانوقدسیہ خواتین کی نوکری یاکام کرنے کے خلاف نہیں تھیں لیکن وہ کہتی تھیں کہ آج کی عورت کو معاش سے زیادہ شناخت کی فکر ہے ۔وہ گھر سے باہراپنی تعریف سننا اور خود کو سراہنا چاہتی ہے اور یہ وہ چیز ہے جو اس کومشرقی اقدار سے دور لے جاتی ہے ۔

بانو قدسیہ کے تمام ناولوں میں”راجہ گدھ” کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔یہ ناول حلال و حرام کے فلسفے پر لکھا گیا ہے۔یہ وہ پہلا ناول ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حرام رزق انسان کے جینز میں شامل ہوکر اس کی نسل تک کو اثرانداز کرسکتا ہے ۔آج کے زمانے میں پریشانی ،فکریں اورتناؤ اسی سبب پیدا ہوتی ہیں کیوں کہ یہ انسان کودیوانگی کی حد تک لے جاتا ہے۔رزق حرام و حلال کا یہ وہ پہلو ہے جو اس سے پہلے اس انداز میں سامنے نہیں آیا۔اس ناول کے بارے میں خود بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ یہ ناول میں نے نہیں لکھا بلکہ یہ مجھ پر کہیں سے وارد ہوگیا تھا۔
بانو قدسیہ کو ان کی ادبی خدمات کے اعزاز میں 1983ء میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘، 2010ء میں ’’ہلال امتیاز‘‘، 2012میں ’’کمال فن ایوارڈ‘‘اور 2016ء میں انھیں’’لائف اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
اشفاق احمد کی وفات کے بعد ان کی زندگی کی رونقیں بھی ماند پڑگئی تھیں ۔عمر کے آخری حصے سانس کی تکلیف شروع ہوگئی تھی۔دس دِن تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد بالآخر 4فروری 2017ء کو 88سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔

Related Posts