فیض والا
(قاسم علی شاہ)
’’دینا ایک مسلسل عمل ہے۔ جب آپ کسی کیلئے چیک کاٹتے ہیں تو یہ کاغذ کا پُرزہ نہیں ہوتا، آپ دوسرے کی زندگی کو چھوتے ہیں !‘‘(اوپرا ونفری)
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی پڑھائی سے بد ظن ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ میرے ساتھ ایف ایس سی میں ہوا۔ میں یہ سوچنے لگا کہ پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سے تو بہتر ہے، کوئی کام کرلیا جائے۔ ان دنوں میں ایک ٹیچر کے پاس فزکس پڑھنے جایا کرتا تھا۔ اس زمانے میں بچے گروپ کی شکل میں پڑھتے تھے۔ ان ٹیچر کے پاس بارہ سے زائد گروپ تھے جن میں سے ایک گروپ میں، میں تھا۔ استادِ محترم پڑھانے کے بعد ٹیسٹ لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ٹیسٹ ہوا۔ سر نے ٹیسٹ چیک کرنے کے بعد مجھے پاس بلایا، کندھے پر ہاتھ رکھا اور ٹیسٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ قاسم بیٹا، یہ ٹیسٹ بتاتا ہے کہ آپ کا داخلہ یو ای ٹی میں ہوجائے گا۔ مجھ میں ایک خوبی یہ پائی جاتی ہے کہ اپنے اساتذہ کا ادب بہت کرتا ہوں۔ اس ادب کی وجہ سے یہ جملہ میرے لیے بڑا محترم تھا۔ سر کا یہ جملہ میرے دماغ میں بیٹھ گیا۔ اس رات مجھے نیند ہی نہ آئی۔ میں ساری رات کتابیں کھول کر بیٹھا رہا ۔ جملہ چونکہ دماغ میں بیٹھا ہوا تھا، اس لیے میں نے محنت کرنا شروع کردی۔
اگلے سال رزلٹ آیا تو میرے فزکس میں 150 میں سے 149 نمبر تھے اور یوں میرا داخلہ یو ای ٹی میں ہوگیا۔ میں مٹھائی کا ڈبا لے کراپنے استاد کے پاس گیا اور مٹھائی دینے کے بعد کہا، سر آپ کی وجہ سے میرا داخلہ یو ای ٹی میں ہوگیا ہے۔ انھوں نے پوچھا، کون سی وجہ؟ میں نے انھیں اپنے ٹیسٹ کا حوالہ دیا تو انھوں نے جواب میں کہاکہ یہ بات تو میں نے بہت سے طلبہ سے کہی ہے۔ میں گھر آیا۔ میں نے اپناٹیسٹ تلاش کیا۔ جب میں نے اس ٹیسٹ کو دیکھا تو وہ بہت بے کار ٹیسٹ تھا۔ مجھے اس دن یہ بات سمجھ آئی کہ پڑھائی سے بھی اگر کوئی بڑی چیز ہے تو وہ ’’یقین‘‘ ہے۔
آپ کیلئے کون اہم ہے؟
آدمی جس کو اہم سمجھتا ہے، وہ اس کی بات کو بھی اہم سمجھتا ہے۔ چنانچہ جو صاحب یقین ہوتا ہے، وہ آگے نکل جاتا ہے۔ آگے نکلنے کیلئے یقین بہت بڑی شے ہے۔ میں نے اس فارمولے کو پکڑ لیا اور اس فارمولے کو بے شمار شاگردوں پر اپلائی کیا جس سے مجھے بہت شان دار نتائج ملے۔ البتہ اس فارمولے سے تب ہی نتائج لیے جاسکتے ہیں کہ جب اسے اہمیت دی جائے، یعنی اس پر یقین کیا جائے۔
انسان کو فیض اس سے ملتا ہے جس کی تقدیس دل میں ہوتی ہے۔ اگر تقدیس نہیں ہے تو پھر چاہے جتنی مرضی باتیں بتا دی جائیں، سننے والے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ صرف ذہن میں رہیں گی۔ اس بات کو فائدہ مند بنانے کیلئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ جس کی بات ہو، اس پر اعتماد ہو، پورا یقین ہو اور یہ ذہن میں ہو کہ اگر اس نے کہا ہے تو بے وجہ نہیں کہا ۔
استاد اور شاگرد کی حدود
تقدیس بڑی اہم چیز ہے۔ جس کے پاس قرآن پاک کی تقدیس ہے، اسے قرآن پاک سے راستہ مل جائے گا۔ سب سے اعلیٰ راستہ بھی قرآن پاک کا راستہ ہے، لیکن جس کے پاس تقدیس نہیں ہے، اسے ہدایت نہیں ملے گی۔ سب سے زیادہ قابل تقدیس شخصیت خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک ہے۔ جو مسلمان آپؐکی باتوں سے بہتر بات کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس سے تعلق رکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے بہتر بات ہو ہی نہیں سکتی ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے بہتر بات کی جاسکتی ہے (نعوذ باللہ) تو وہ بڑی گمراہیمیں ہے۔
فیض اس کیلئے ہے جس کے پاس احترام ہے۔ ہم بچوں کو سکھاتے ہیں کہ بیٹا، استاد کا احترام کرو۔ درحقیقت، ہم یوں اسے مستقبل کا احترام سکھاتے ہیں، کیوں کہ اگر اسے اپنی منزل اور مستقبل سے محبت ہوگی تو پھر سے اس منزل تک پہنچانے والے، رہ نمائی کرنے والے سے بھی محبت ہوگی۔ استاد کا درجہ اس ضمن میں سب سے بڑا اس لیے ہے کہ وہ آدمی کے سب سے بڑے اور سب سے عظیم مستقبل کی طرف نہ صرف رہ نمائی کرتا ہے، بلکہ اسے وہاں تک جانے کے قابل بھی کرتا ہے۔
احترام کیا ہے، کیا نہیں ہے؟دل کا معاملہ
ہمارے ہاں احترام کا مطلب ہے کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے، ہاتھ چوم لیا، ادب سے سلام کر دیا۔ یہ سب ٹھیک اور ادب کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اس احترام سے پہلے بھی ایک احترام ہے۔ وہ ہے، ذہنی اور قلبی طور پر قبول کرنا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’بیعت تو دل کی بیعت ہوتی ہے۔ اگر دل کی بیعت نہیں ہے تو پھر ہاتھ کی بیعت منافقت بن سکتی ہے۔‘‘ ہاتھ کی بیعت صرف رسم نہیں ہونی چاہیے۔ کتنی خوف ناک بات ہے کہ کسی نے رسم ادا کی ہو، لیکن دل سے قبول ہی نہ کیا ہو۔
اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کے درمیان فاصلہ رکھتا ہے۔ ہم اگربہتر ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے اندر کوئی نہ کوئی رَدّوبدل ہونا ضروری ہے۔ یہ بہتری اور ردّوبدل احترام اور تقدس کے ساتھ جڑا ہے۔ ہمارے ہاں فیض کا مفہوم بہت عجیب ہے۔ ناجائز کمائی سے گھر بنایا جاتا ہے اور دروازے پر لکھا جاتا ہے، ’’یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے۔‘‘ اسی طرح، اپنے نام کے ساتھ الحاج لکھا جاتا ہے۔ بھلے ناجائز کمائی سے ہی حج کیوں نہ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فضل خیالات و افکار کے بدل جانے کا نام ہے۔ اگرفیض ملا ہے تو پھر سوچ میں تبدیلی آئے گی۔ فضل کی یہ نشانی ہے کہ عقائد بدلنا شرو ع ہوجائیں۔ فضل کی علامت ہے کہ آدمی معاف کرنے والا بن جائے۔ فضل کی علامت ہے کہ خواہشیں ختم ہوجائیں۔ غور کیجیے کہ کیا آپ کی خواہشیں بدلی ہیں؟ کیا آپ کے تقاضے بدلے ہیں؟ جب آدمی کو اللہ کا فضل مل جاتا ہے تو اس کا نفع و نقصان کا معیار بدل جاتا ہے۔ دنیا جسے فائدہ کہتی ہے، وہ اس کیلئے نقصان ہے۔ وہ یہ حقیقت سمجھتا ہے کہ حقیقتاً فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے؟ اکثر، دنیا جس شے کو نقصان سمجھتی ہے، وہ اس کیلئے فائدہ ہوتا ہے۔
فیض کی بڑی علامت یہ ہے کہ خوشیوں اور غموں کو منظم کرنا آ جائے۔ ایسے فرد کو جب خوشی ملتی ہے تو وہ آپے سے باہر نہیں ہوتا اور غم سے واسط پڑتا ہے تو بے خود نہیں ہوتا۔ غم کو سنبھال لینا، غم کو سجدے میں بدل لینا، غم کو آنسوؤں میں بدل لینا، فیض ہے۔
زندگی میں تبدیلی
ہمیں ایسے فیض کی ضرورت ہے جس سے زندگی کی سمت بدل جائے، جس سے ہمارا دین اور دنیا دونوں بہتر ہوجائیں، جس سے ہمارا رب راضی ہو جائے۔ فیض وہ مانگنا چاہیے جو اپنے اندر تبدیلی لائے۔ ہم وہ فیض مانگتے ہیں جو باہر تبدیلی لاتا ہے۔ فیض داخلی دنیا کا سوال ہے، خارجی دنیا کا سوال نہیں ہے۔ اندر کی دنیا بدلنے سے باہر کی دنیا خودبہ خود بدل جاتی ہے۔ کم از کم ہم میں یہ تبدیلی آنی چاہیے کہ ہم فیض کو سمجھیں کہ فیض تقدس کا، احترام کا، جھک جانے کا، خیالات کے بدلنے کا، زندگی میں مقصد اختیار کرنے کا نام ہے۔
زندگی میں ان لوگوں کی قدر کیجیے جن سے لینا ہو اور نہ دینا ہو، لیکن وہ آپ کو متحرک کر دیں۔ وہ بہ ظاہر کچھ کریں نہ کریں، لیکن اندر ایسی طلب ڈال دیں کہ جس سے آپ مقصد کی طرف چل پڑیں۔ آپ کا فوکس اُن کاموں کیلئے ہوجائے جو آپ کیلئے زندگی میں سب سے اہم ہیں۔ آپ کے منتشر افکار ایک جگہ پر آ جائیں۔ اس کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ جہاں پر اپنے سے بہتر انسان ملے، اس کا دل سے ادب کیجیے۔ استاد ملا ہے تو دل سے ادب کیجیے۔ دعا کیلئے درخواست کرنے سے بہتر ہے کہ اسے ایسا کام کرکے دکھائیں کہ وہ آپ کیلئے خود دعا کرے۔
حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’جس کیلئے زبان سے اچھا کہہ رہے ہیں پھر اسی زبان سے برا نہیں کہنا۔‘‘ یہ اس لیے ہے کہ آپ نے اس سے مدد لی ہے، پھر اس کیلئے برا سوچنا اور کہنا بھی نہیں چاہیے۔
کل کریں گے؟
دنیا کے بڑے انسانی المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ انسان کہتا ہے کہ میں کل کروں گا اور کل کے انتظار میں مال اکھٹا کرتا رہتا ہے لیکن وہ کل نہیں آتا بلکہ وہ کل آکر چلاجاتا ہے۔ اگر بے شمار دوائوں کے باوجود اندر وسعت قلب نہیں آ رہی تو پھر مہربانی کرکے ساری دوائیں چھوڑ کر ایک ہی دوا کھانا شروع کر دیں، یعنی ایک دانش وَر کی باتیں سنیں اور انھی پر عمل کریں تاکہ کوئی رنگ تو چڑھ سکے۔ وہ جگہ تلاش کیجیے جہاں پر آنکھیں بند کرکے چل سکیں۔ اپنے لیے چلیں، استاد کیلئے نہ چلیں۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’اگر آپ کو کوئی سچا نہیں ملا تو پھر آپ سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا جو پیمانہ ہے، وہ آپ نے خود پر نہیں لگایا۔
ایک فیض یہ بھی کہ آدمی کو آزادی کا احساس ہوجائے۔ یہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔ اپنی نوکری کے غلام نہ بنیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ملازم غلام ہی ہو۔ میرا مطلب ہے کہ نوکری تو ہو لیکن ادراک ہو کہ میں اس کا غلا م نہیں ہوں۔ لوگوں کے ساتھ چل رہا ہوں۔ یہ شعور ہو کہ میر ی غلامی صر ف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ آزادی کا احساس بہت بڑی کمائی ہے۔ یہ فیض کی انتہا ہے۔
فیض یہ بھی ہے کہ ممکن ہے، دنیا جس چیز کو برداشت نہ کر رہی ہو، آپ اس پر شکر ادا کررہے ہوں۔ دنیا کہہ رہی ہو کہ میرے غم دور ہو جائیں جبکہ آپ کہیں کہ میرا غم میرے اور قریب ہو جائے تاکہ میرا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رہے۔
فیض بانٹنے والے بن جائیے۔ جو اچھی چیزیں آپ کو ملی ہیں، ان کو لوگوں میں منتقل کیجیے۔ لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر نہ رکھیے بلکہ انھیں آزاد کیجیے۔ اگر کوئی چلا گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ کوئی آ گیا ہے تو صد بسم اللہ۔ جس کو کسی کے آنے سے فرق نہیں پڑتا، اس کو کسی کے جانے سے بھی فرق نہیں پڑتا۔
فیض کا فارمولا
فیض والے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے فیض میں دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ جو اپنے فیض میں شریک نہیں کر تا، وہ فیض والا نہیں ہے۔ فیض والے کا فیض بچتا ہی نہیں ہے جب تک کہ وہ اس کو بانٹ نہ لے، کیو نکہ فیض تو بانٹنے والی چیز ہے۔ فیض اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا، یہ اپنے سے دوسرے تک جاتا ہے۔ یہ شریک کرنے کا نام ہے۔ یہ دبانے اور سمیٹنے کا نام نہیں ہے، یہ ہاتھ کھولنے اور دینے کا نام ہے۔
بعض شخصیات کا ادب متعین ہے جیسے والدین لیکن ان کا فیض متعین نہیں ہے۔ اس کا کوئی قاعدہ نہیں ہے، بس زندگی میں اشارے ہیں۔ جنہوں نے اشارے بتائے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ جس سے دل مل جائے، اس کا ادب کرنا چاہیے۔ جب آپ کا ادب کرنے کو جی کرے تو پھر اس پر کوئی قاعدے قانون نہیں لگانے چاہئیں۔ جس کے ساتھ آپ کا دل ملا ہوتا ہے، عموماً اس کے ساتھ آپ کی روح بھی ملی ہوتی ہے۔ ہمارے کچھ تعلقات خونی ہوتے ہیں، کچھ بنائے جاتے ہیں جبکہ کچھ رشتے روح کے ہوتے ہیں۔ اس میں آپ کے اندر کشش محسوس ہوتی ہے۔ آپ اُن رشتوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں اور بے اختیار اُن سے ملنے کو جی کرتا ہے ۔ اس فرد کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنے ہی سے کیفیت بدل جاتی ہے۔
صاحب
قدرت اللہ شہاب سے کسی نے پوچھا، آپ کی کتاب میں شکریئے کے بڑے نام لکھے ہو ئے ہیں۔ ان میں صرف ایک نام ہے جس کے ساتھ صاحب لکھا ہے اور وہ حضرت واصف علی واصفؒ ہیں۔ ان کے نام کے ساتھ صاحب کیوں لکھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ صاحب کہلوانے کے لائق ہی صرف وہ ہیں۔ جو اللہ کا بندہ صاحب ہوتا ہے، اس کے پاس عہدہ نہ بھی ہو وہ تب بھی صاحب ہی ہوتا ہے، کیونکہ ایسے لوگ دلوں کے صاحب ہوتے ہیں ۔ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ سے کسی نے کہا کہ آپ دنیا سے جانے لگے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا، نہیں، میں دنیا کی مسند سے اٹھ کر دلوں کی مسند پر بیٹھ رہا ہوں۔
دلوں کی مسند بڑی کمال کی مسند ہے۔ یہ نصیب والوں کو ملتی ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ سے کسی نے پوچھا کہ زندہ کون ہے اور مُردہ کون ہے؟ آپؒنے فرمایا، جو دلوں میں زندہ ہے وہی زندہ ہے، جو یادداشت سے نکل گیا وہ زندہ ہی نہیں ہے۔
جس طرح پھل پک کر کھانے کے قابل ہوتا ہے، اسی طرح محبت بھی پک کر فائدہ دیتی ہے اور آدمی اس محبت سے فیض پاتا ہے۔ اس کیلئے ملاقات ضروری نہیں، یہ دلوں کا معاملہ ہے۔ حضرت اویس قرنی قرن میں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے مدینہ آنا چاہتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہوا کہ اپنی ماں کے پاس رہ کر اُن کی خدمت کرو۔ دیکھئے کہ کہاں یمن اور کہاں مدینہ منورہ۔ ماں نے کہا تھا کہ اگر مسجد میں ملیں تو مل لینا، اگر نہ ملیں تو واپس آ جانا۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ مسجد سے ہو کر واپس آ گئے۔ یہ ہے احترام۔ فیض کا تعلق جسم سے نہیں ہے، اسی لیے تو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں آنسو بہاتی اور انھی کے حُسن و اخلاق کے قصیدے پڑھتی ہے۔