انسان اور پنسل

انسان اور پنسل
(قاسم علی شاہ )

خاتون کافی دیر سے بیٹھی لکھنے میں مصروف تھی۔پاس ہی اس کا پوتابڑی محویت کے ساتھ اس کو دیکھ رہا تھا۔جب لڑکے کا تجسس زیادہ دیر برقرار نہ رہا تووہ اپنی دادی سے پوچھ بیٹھا۔’’ کیا آپ اپنی زندگی کی داستان لکھ رہی ہیں یا پھر میرے بارے میں کچھ لکھ رہی ہیں؟‘‘ خاتون نے ہاتھ روکا، اس کی طرف دیکھا اور مسکراکر بولی:’’ میں تمھارے متعلق ہی لکھ رہی ہوں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم ایک اور چیز ہے ۔وہ یہ پنسل ہے ،جس سے میں تحریر لکھ رہی ہوں۔مجھے امید ہے کہ تم جب بڑے ہوگے تو اس پنسل کی طرح بنوگے۔یہ پنسل دیکھنے میں تو ایک معمولی چیز ہے لیکن اس کے اندر پانچ خصوصیات ایسی ہیں کہ اگر وہ تم اپنے اندر پید اکرلو تو اپنی زندگی کو سکون اور خوشی سے بھردو گے ۔

پہلی چیز اس کے اندر یہ ہے کہ یہ خود کچھ بھی نہیں کرسکتی، انسانی ہاتھ اس کو تھامتا ہے ، تب ہی ایک تحریر لکھی جاتی ہے ۔یہی چیز تمھارے ساتھ بھی ہے ۔تم بہت قابل ہوسکتے ہو، بہت ذہین اور لائق فائق ہوسکتے ہو لیکن یہ مت بھولنا کہ ایک ہاتھ ایسا ہے جو ہمیشہ تمھیں تھام کر رکھتاہے اور اسی سہارے کی بدولت تم اپنی زندگی میں کامیابیاں حاصل کرتے ہو۔

یہ ہاتھ اس وقت انسان کو تھامناشروع کرتاہے جب وہ ابھی دُنیا میں بھی نہیں آیا ہوتا۔یہ ماں کے پیٹ میں ہی اس کے لیے جینے کی سہولیات پہنچاناشروع کردیتاہے۔اس وقت انسان شعور سے خالی ہوتاہے ، وہ نہ مانگ سکتاہے ، نہ کسی خواہش کا اظہار کرسکتاہے ۔وہ مکمل تنہائی میں ہوتاہے ۔کوئی اس کاغمگساراور غم خوار نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود یہ’’ دست غیب‘‘ اس کی تمام ضروریات پوری کرتاہے ۔وہ اس کو گرمی، سردی اور تنہائی کے خوف سے بچاتاہے ، اس کی ہر طرح حفاظت کرتاہے اور پھر جب انسان دنیا میں آجاتاہے تو ’’دست غیب‘‘ کی مہربانیاں اور انعامات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔وہ انسانوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتاہے چنانچہ پھر لوگ اس کاپورا پورا خیال رکھتے ہیں۔وہ اس کی معمولی تکلیف پر پریشان ہوجاتے ہیں ۔اس کی خاطر وہ لوگ اپنا آرام تک قربان کردیتے ہیں ۔وہ اپنا مال اس پر بخوشی خرچ کرتے ہیں ۔وہ لوگ خود جیسے کیسے ہوں ،اپنے بچے کو بہترین حالت میںرکھتے ہیںاو ر اس کی تمام ضروریات کوپورا کرتے ہیں۔

پھر جب وہ بچہ بڑا ہوجاتاہے تو وہ ’’دست غیب‘‘ ایک بار پھر حرکت میں آتاہے ۔وہ اس کی ٹانگوں میں قوت ڈالتاہے ۔بچہ چلنے کی کوشش کرتاہے ، لڑکھڑاکرگرجاتاہے تووہ ہاتھ انسانی صورت میں اس کوتھام لیتاہے، بچہ اُٹھتاہے ، اس ہاتھ کے سہارے چلنے کی کوشش کرتاہے ، گرتاہے ، پھر اٹھتاہے ، ہاتھ تھامتاہے اور چلنا شروع کرتاہے اور پھر ایک وقت آتاہے کہ وہ دوڑنے لگ جاتاہے۔یہ دوڑ اس کو بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی دہلیز پر لاکھڑاکردیتی ہے۔ شباب کے دنوں میں اپنے پُرجوش اور تازہ دم حوصلوں سے وہ پہاڑوں کوسرکرتاہے ، جنگل بیابانوں اور دریاؤں کو عبور کرتاہے ۔رگوں میں جوش مارتے خون کی وجہ سے وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتاہے کہ یہ سب کچھ میں اپنے دم پر کررہاہوں ۔وہ ایسے کاموں میں بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے جو اس کی استطاعت سے باہرہوتے ہیںاورنتیجتاً وہ دھڑام سے گرجاتاہے لیکن اس کی نادانیوں اور بے وقوفیوں کے باوجود ’’دست غیب‘‘ ایک بار پھر اس کو تھام لیتا ہے اور اس کے لیے راستے کھولنا شروع کرتاہے۔وہ اس کے جسم کو توانائی اور دماغ کو عقل و شعورسے بھردیتاہے اوربیرونی دنیا میں اس کے لیے ایسے مواقع پیدا کردیتاہے جس کے ذریعے وہ بے تحاشاکامیابیاں سمیٹتاہے ۔یہ ہاتھ ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتاہے ۔ایک مہربان سہارا،ایک اَن دیکھی طاقت جو انسان کو ترقیوں کے زینے طے کراتی ہے۔

اس پنسل کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ کچھ دیر لکھنے کے بعد اس کی نوک کو تراشنا پڑتاہے ۔تراشنے سے اس کی نوک باریک اور لکھائی خوب صورت ہوجاتی ہے۔تمھیں بھی اپنی زندگی میں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرناہوگا تاکہ تمھارے اندر نکھار پیداہو۔
ہم انسان بڑے آسانی پسند ہیں۔ہم ہمیشہ ایک آرام دہ زندگی کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ہم مشکلات میں گھبراجاتے ہیں اور جلد سے جلد اس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن قدرت کا بھی ایک اصول ہے ۔وہ ہمیں Updatedرکھناچاہتی ہے ۔وہ ہمارے سامنے مشکلات کو کھڑاکردیتی ہے اور اس بات کا نظارہ کرتی ہے کہ ہم ان مشکلات پر کیا Reactکرتے ہیں ۔بیٹا یاد رکھنا کہ ہر مشکل کاسامنا کرنے کی اہلیت ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتی ہے ، بس اپنی عقل اور حوصلے سے کام لینا پڑتاہے۔یہ مصائب ہمیں سوچنے اور ان کا حل نکالنے پر مجبور کرتے ہیں۔’’شخصیت سازی‘‘کایہ عمل ہمارے لیے تکلیف دہ ضرور ہوتاہے لیکن جب ہم کامیابی کے ساتھ اس مرحلے سے نکل آتے ہیں تونئے تجربات کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے آپ پراعتماد اور بھروسا بھی بن چکا ہوتاہے ۔ایک بزرگ شخصیت کا قول ہے کہ نادان کا غم اسے کھاجاتاہے اور داناکاغم اسے بناجاتاہے۔قدرت کی اس ترکیب کو نہ سمجھنے والے شخص کی زندگی میں جب مشکلات آتی ہیں تو وہ سمجھتا ہے کہ بس اب زندگی ختم ہوگئی ، لیکن درحقیقت وہ مشکل ’’رُکاوٹ‘‘ نہیں ہوتی بلکہ ایک دروازہ ہوتاہے جس کے بعد زندگی کاایک خوب صورت مرحلہ انسان کا منتظر ہوتاہے اور مشکلات کی صورت میںدراصل انسان کو اس مرحلے کے لیے تیار کیاجارہا ہوتاہے ۔

خاتون نے اپنا چشمہ درست کیااور بولی :اس پنسل کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایک ربر لگاہوتاہے ۔یہ جب بھی لکھنے میں غلطی کرتی ہے تواس کے پاس اپنی غلطی کومٹانے کاموقع ہوتا ہے۔
انسان کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں خود اس کا رب کہتاہے کہ یہ بہت جلد باز ہے۔یہ ہمیشہ جلد سے جلد نتائج چاہتاہے ۔یہ بچپن میں ہوتو جلدی جلدی بڑاہوناچاہتاہے۔لڑکپن میں ہوتوجلدسے جلد ڈگری چاہتاہے ۔جوانی میں قدم رکھتے ہی اس کی عجلت اور تیزرفتاری میں مزید اضافہ ہوجاتاہے اور پھر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں ان اہداف کو چند مہینوں میں حاصل کرلوں جن کو اس کے باپ دادانے ساری عمر لگاکر حاصل کیا ہوتاہے ۔
اس تیزرفتاری میں اس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے اس کے پاس اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور ان سے سبق سیکھنے کا ایک سنہری موقع موجود ہوتاہے ۔اس کے پاس یہ مکمل اختیار ہوتاہے کہ وہ اپنی زندگی سے غلطیوں کو مٹائے اور ان سے سبق سیکھ کراپنی زندگی کو بہتر بنائے۔البتہ اس اختیار کی ایک حد ہے ۔ جب اس کی سانس اکھڑنا شروع ہوجائے اور موت اس کے سامنے کھڑی ہوجائے تو پھر یہ اختیار چھین لیاجاتاہے ۔تب وہ لاکھ گڑگڑائے ، معافی مانگے اور خود کو ٹھیک کرنے کاپختہ عزم کرلے لیکن اس وقت یہ سب کچھ بے فائدہ ہوتاہے ۔توبہ کادروازہ بند ہوچکاہوتاہے۔
لڑکے کی دلچسپی اپنی دادی ماں کی باتوں میں بڑھ رہی تھی ۔وہ بڑے غور سے ان سب باتوں کو سن رہا تھا۔خاتون کچھ وقفے کے بعد بولی:

اس پنسل کی چوتھی خاصیت یہ ہے کہ اس کا بیرونی خول کتنا ہی خوب صورت کیوں نہ ہو لیکن اہم چیزاس کے اندرموجودگریفائٹ ہے ، جس کی بدولت لکھاجاتاہے۔یہی اس کی روح ہے اور اگر یہ ختم ہوجائے تو پھر اس پنسل کی حیثیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
بیٹا فرض کریں کہ ایک ٹینکی کو سپلائی کی پانچ لائنیں لگی ہوں لیکن ان میں سے صرف ایک لائن سے گندہ پانی ٹینکی میں آرہاہوتو کوئی بھی شخص اس ٹینکی کا پانی استعمال نہیں کرے گا۔ انسان بھی اپنی آنکھ ، کان ،ناک ،زبان اور لمس سے اگر غلط چیزیں اپنے اندر بھررہاہوتو اس کا باطن گندہ ہوجاتاہے۔پھر وہ بولتاہے تو غلط، سوچتاہے تو غلط اور افعال کرتاہے تو بھی غلط۔امام غزالی ؒکہتے ہیں کہ زبان کی مثال چمچ کی طرح ہے ، یہ چمچ وہی چیز نکالے گی جوبرتن(انسان کے باطن)میں بھری ہوئی ہوگی۔

جس انسان کا باطن پاکیزہ نہ ہووہ کتنا ہی خوب صورت لباس کیوں نہ پہن لے وہ اس کے باطن کو فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔قدیم زمانے میں خانقاہی نظام میں آنے والے ہر نئے شخص کو سب سے پہلے لوگوں کی خدمت پر لگادیاجاتاتھا۔وجہ یہی تھی کہ پہلے اس کا باطن پاک ہوجائے تب اس کے بعد تربیت کرنا آسان ہوگا۔انسان کاباطن اس قدر اہم چیز ہے کہ یہ اس کی دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتاہے۔اللہ کے ہاں بھی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔اگر نیت درست ہوئی تو معمولی عمل بھی بڑا درجہ پاسکتاہے اور اگر نیت ہی ٹھیک نہ ہوتوپھر انسان دنیا کا سب سے بڑاعبادت گزار ، عالم اورسخی کیوں نہ ہو ، سب بے فائدہ ہے۔

اس پنسل کی پانچویں خاصیت یہ ہے کہ یہ جب بھی صفحے پر چلتی ہے تواپنی حرکت کا ایک نشان چھوڑجاتی ہے۔
ہم انسانوں کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ہماری زندگی میں نیا آنے والا ہر دن دراصل زندگی کی ڈائری کا ایک خالی ورق ہوتاہے جس پر ہم اپنے اعمال کے ذریعے نشان چھوڑتے جاتے ہیں ۔ہم جو بھی عمل کرتے ہیں وہ ایسے ہی نہیں چلاجاتابلکہ ہمارے نامہ اعمال میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتاہے۔ہم اپنے ان تمام نشانات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔انھی نشانات کی بدولت ہمیں نتائج ملتے ہیں اوران ہی کی بنیاد پرہمیں مکافات عمل کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے ۔اس لیے جب بھی کچھ بولوتو ہمیشہ سوچ کر بولو، کوئی بھی قدم اٹھاؤتو خوب جانچ پرکھ کر اٹھاؤ اور جب بھی کچھ لکھو تو یہ سوچ کر لکھو کہ یہ تحریر کل کو تمھارے اوپر گواہ بنے گی۔

اگر کسی انسان کے افعال درست اور نیک ہوں اور ان سے دوسروں کو خیر مل رہی ہو تو اس کا بدلہ خالق و مخلوق دونوں کی رضامندی کی صورت میں اس کوملتاہے۔لوگ اس کی عزت کرتے ہیں،اس کو چاہتے ہیں،اس پر فخر کرتے ہیں اور اس کی طرح بنناچاہتے ہیں ۔لیکن اگر کسی کے اعمال ایسے ہوں کہ جن سے دوسروں کو تکلیف ملتی ہواور لوگ اس انسان کی شر سے پناہ مانگتے ہوں توپھروہ اس دھرتی پر بوجھ بن جاتاہے۔اللہ اپنی مخلوق کے دل سے ایسے انسان کی عزت نکال دیتاہے ۔ اس کو اپنے اعمال کی سزا دنیا میں ہی ملنا شروع ہوجاتی ہے کیوں کہ اس نے اصولوں کی خلاف ورزی کی ۔اس کو اپنے رب کی طرف سے زندگی اور صحت کی دولت ملی لیکن اس نے ان کا انتہائی غلط استعمال کیا۔خالق نے جس مقصد کے لیے اس کو دنیا میں بھیجا تھا وہ اس مقصد کوپورا کرنے میں ناکام رہا۔پھر لوگ اس سے نفرت کرناشروع کردیتے ہیں ،وہ اس سے ملنااور تعلق بنانابھی گوارا نہیں کرتے ، وہ شخص ایک برا حوالہ بن جاتاہے اور اگر مرنے سے پہلے وہ اپنی اس خصلت کو نہ چھوڑے تو پھر قدرت حرکت میں آتی ہے اوروہ شخص اگلی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن جاتاہے،جبکہ آخرت کاعذاب الگ سے اس کا منتظر ہوتاہے۔

Related Posts