دوست ، رشتے اور زندگی
(قاسم علی شاہ )
انسان کا لفظ’’ انسیت‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مخلوق جس میں محبت و لگاؤ کا مادہ پایا جاتا ہو۔ اسی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کی طرف راغب ہوتا ہے اور جانور بھی اسی صفت کی بدولت انسان سے مانوس ہوتے ہیں۔اس فطرتی محبت کااندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ انسان ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں ہوتا لیکن والدین کے دِل میں اس کے لیے محبت پیدا ہوچکی ہوتی ہے ۔یہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے ساتھ رشتوں اور تعلق کا ایک خوبصورت سلسلہ لے کر آتا ہے۔والدین کا تعلق ،بہن بھائیوں کا تعلق ، دادا، دادی ، نانا نانی وغیرہ کا تعلق۔وقت کے ساتھ ساتھ تعلق کا یہ دائرہ دوست،کلاس فیلوز ، کولیگز اور پارٹنر تک جاپہنچتا ہے۔کوئی انسان خوش نصیب ہوتا ہے کہ اس کو مخلص اور وفادار دوست مل جاتے ہیں اور ان کی بدولت وہ اپنی زندگی کو خوبصورت بنادیتا ہے ،جبکہ بعض لوگوں کی زندگی اس نعمت سے خالی ہوتی ہے۔
رشتے اور تعلق کے اعتبار سے اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دو انتہائیں ملتی ہیں۔ایک انتہا وہ ہے جس میں انسان سب رشتوں سے لاتعلق بن جاتا ہے اور صرف اپنی دنیا بسالیتا ہے۔ دوسری انتہا وہ ہے کہ انسان اپنے دوستوں کو ہی اپنی دنیا سمجھ بیٹھتا ہے اور صبح و شام گپ شپ و محفلوں میں گزارنے لگتا ہے۔یہ دونوں صورتحال اچھی اور معیاری زندگی سے دور لے جاتی ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو مردم بیزار ہوں ان کی اس عادت کے پیچھے وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ رشتوں سے پیدا ہونے والی اذیت کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، اسی وجہ سے یہ رشتوں سے دور ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔دوسری وجہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل گیجٹس(آلات) ہیں جو انہیں انسانوں سے دور لے جاتے ہیں اور ان ہی کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے وہ اچھا محسوس کرتے ہیں۔یہ لوگ موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی تنہائی کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ چیز عارضی طورپر شایدانہیں کچھ فائدہ دے دے لیکن اس کا ایک بڑ انقصا ن یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی معاشرتی زندگی تباہ ہوجاتی ہے ۔اس کے علاوہ لوگوں کی ایک قسم اور بھی ہے جو مردم بیزار نہیں ہوتے،وہ اس معاشرے میں سب کے ساتھ رہتے ہیں لیکن لوگ ان سے بیزار ہوئے ہوتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں میں مندرجہ ذیل خامیاں ہوتی ہیں تو کوئی بھی شخص ان سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔
(1)بداخلاقی
بدھاکہتا ہے
’’بداخلاقی تو جانوروں کو بھی پسند نہیں۔‘‘
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک چیز جو جانوروں کو بھی پسند نہیں وہ حس و شعور رکھنے والے انسان کو کیسے پسند ہوگی ۔بداخلاق انسان کا سوشل بینک نہیں بن سکتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے میں اکیلا رہ جاتا ہے۔
(2) خودپرستی
ہر وہ انسان جو اپنی ذات کے عشق میں مبتلا ہواورصرف اپنے بارے میں سوچتا ہو۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ دوسرے انسان کا فائدہ ہورہا ہے یا نقصان ۔ایسا شخص بھی بہت جلد اپنا وقار کھودیتا ہے اوراچھے لوگ رفتہ رفتہ اس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں۔
(3)لالچ
ایسا انسان جو ہر وقت اپنا کام نکلوانے کی فکر میں ہوتا ہے اور لوگوں کو استعمال کرکے چھوڑدیتا ہے تو وہ بھی بہت جلد تنہا رہ جاتا ہے۔عموما ً ایسے افراد نے اچھائی کا نقاب اوڑھا ہوتا ہے،لیکن جب آپ ان کے قریب جاتے ہیں اور ان سے کچھ معاملات کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اچھائی صرف اور صرف اس مقصد کے لیے تھی تاکہ وہ اپنا کام نکلواسکے۔
(4)بدگمانی
ہر وہ شخص جو بلا کسی وجہ کے بدگمانی کا شکار ہو اور ہر بات میں منفی پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ بھی لوگ تعلق رکھنا نہیں چاہتے۔ شک ، محبت کی قینچی ہے ۔کسی بھی رشتے میں جب شک آجاتا ہے تو وہ اس رشتے میں دراڑیں ضرور لاتا ہے۔زندگی کی مثال بس کی طرح ہے ۔ایسا شخص جب ہر دوسرے شخص کو بدگمانی کی بنا پر اپنی زندگی کی بس سے اتارے گا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ اس بس میں تنہا رہ جائے گا۔
تعلق اور معاشرتی کمزوریاں
ایک پرانی کہاوت ہے:
“اتنا نرم نہ بن کہ نچوڑ لیا جائے اور نہ اتنا خشک کہ توڑ دیا جائے.”
بہترین انسان وہی ہے جو اعتدال کے ساتھ زندگی گزارے۔نہ تو اتنا سخت مزاج بننا چاہیے کہ لوگ ملنا ہی چھوڑدیں اور نہ انتا نرم مزاج کہ کوئی بھی انسان جب چاہے آپ کی زندگی میں دخل اندازی کرلے۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ شعوری اور فکری لحاظ سے اتنا پختہ نہیں ہے۔یہاں اگر آپ اپنے لیے کچھ اصول طے کرکے زندگی گزارتے ہیں تو متکبر اور سخت مزاج انسان کا لیبل آپ پر لگ جاتا ہے ۔اگر آپ نرم مزاجی اپناتے ہیں تو پھرلوگ اس کا اس قدر غلط فائدہ اٹھاتے ہیں کہ بنیادی اخلاقیات کو ہی بھول جاتے ہیں اور آپ کی ذاتی زندگی کو بھی ڈسٹرب کردیتے ہیں۔رشتے اور تعلق کے سلسلے میں چند معاشرتی کمزوریوں کی نشاندہی ذیل میں کی جاتی ہے۔
(1)توقع :امید
عام طوپر جب بھی کسی کے ساتھ تعلق یا دوستی بنائی جاتی ہے تو اس سے بہت زیادہ توقعات لگائی جاتی ہیں ۔سب سے بڑی توقع یہ ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ شخص ہمارے کام آئے گا۔
(2) بے جا مداخلت
دوستی یا تعلق رکھنے والا شخص بعض اوقات ان ذاتی چیزوں کے بارے میں بھی متجسس ہوتا ہے جن سے اس کا کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔اس کو اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ آپ کی ذاتی زندگی بالکل الگ تھلگ ہے اور اس پر صرف آپ کا حق ہے لیکن وہ پھر بھی آپ کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی کوشش کرتا ہے۔
(3)بغیر اطلاع ملاقات
بعض لوگ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ملاقات کرنے آجاتے ہیں،جس کی وجہ سے آپ کی بنی بنائی روٹین خراب ہوجاتی ہے ۔ایسے وقت میں اگر آپ کسی ضروری کام میں مصروف ہوں اور ان کو پوراوقت نہ دے سکیں تو یہ لوگ اس حد تک ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ کے ساتھ تعلق ہی ختم کردیتے ہیں،حالانکہ اس ڈیجیٹل دور میں اطلاع دینے کا کام بے حد آسان ہوگیا ہے ۔آپ کسی کو بھی ٹیکسٹ میسج ، فون کال یا ای میل کے ذریعے اپنی آمد کے بارے میں بتاسکتے ہیں ۔جب آپ کسی کے پاس اطلاع دے کر آئیں گے تو اس کی روٹین بھی خراب نہیں ہوگی اور وہ آپ کو مکمل وقت دے کر آپ کی بھرپور مہمان نوازی بھی کرسکے گا۔
(4)آپ کے تعلق کواستعمال کرنا
بعض دفعہ ایک شخص آپ سے تعلق جوڑلیتا ہے اور پھر اس تلاش میں ہوتا ہے کہ آپ کے حلقہ احباب(خاص طور پر فیس بک فرینڈز) میں سے اہم لوگوں کے ساتھ بھی آپ کا حوالہ دے کرتعلق بنالے. اس کامقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان لوگوں سے اپناکام نکلوایا جائے۔
(5)احسان جتلانا
لوگوں کے اس جنگل میں بعض اوقات آپ کو ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو بظاہر بڑے نیک ، پارسا ،خوش اخلاق اور ہر وقت آپ کی خاطر جان نچھاور کرنے والے ہوتے ہیں ،لیکن بدقسمی سے اگر کبھی وہ آپ کے کسی کام آجائیں تو پھرہر جگہ اس کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیتے ہیں اورہر شخص کو یہ جتلاتے ہیں کہ ا س نے آ پ کے لیے فلاں فلاں خدمات انجام دی ہیں۔
(6)ناجائز کاموں کی سفارش
یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اخلاقیات اور دینی احکام ہر رشتے سے مقدم ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’مخلوق کی اطاعت کے لیے خالق کی نافرمانی نہ کرو. ”
(مشکوٰۃ المصابیح/جلد سوم:3696)
بعض دفعہ کسی غیر اخلاقی کام کے لیے بھی آپ کا کوئی دوست آپ کی سفارش چاہ رہا ہوتا ہے۔ایسی صورت میں نرمی کے ساتھ ’’ناں‘‘ کردیں اور ان پر واضح بھی کردیں کہ یہ کام درست نہیں ہے۔ واضح رہے کہ کسی کو ’’ناں‘‘کرنا بھی ایک فن ہے ۔یہ آپ کی اپنی بول چال (کمیونیکیشن) کا کمال ہے کہ آپ کسی شخص کواِس انداز میں ’’ناں‘‘ بولیں کہ وہ ناراض بھی نہ ہو اور اپنی بات بھی واپس لے لے۔
(7) پسند ناپسند
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی دوست کسی دوسرے انسان سے تعلق ختم کردیتا ہے اور پھر اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ آپ بھی اس کے ساتھ اپناتعلق ختم کرلیں. یہ چیز اصولی طورپر درست نہیں،ہر انسان کا اپنا نظریہ ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کا دوست ہی غلطی پر ہو۔ اپنا موقف دوسروں سے منوانا کسی طوربھی درست نہیں۔
دوست /رشتے کا انتخاب:سوچ سمجھ کر
حدیث شریف میں ہے :
’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔‘‘
(سنن الترمذی:2378)
اس حدیث کی رو سے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دوستوں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔صرف اس شوق میں کہ میرا پی آر سب سے زیادہ بن جائے اور لوگ مجھ سے مرعوب ہوجائیں ، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ تعلق بناناخسارے سے خالی نہیں۔ایسا تعلق جو کل آپ کے گلے پڑ جائے اوراس کی وجہ سے آپ کی نیک نامی پر حرف آجائے تو اس سے تعلق نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
واصف صاحب کہتے ہیں:
’’ دوست وہ جو غم کو ہلکا کردے اور خوشی کو زیادہ کردے ۔‘‘
ان کا ایک اور قول ہے:
’’دو ست وہ جو آپ کو آپ کی خامی بتائے ، دوسرے کو آپ کی خوبی بتائے۔‘‘
یہ بھی ایک بہترین اصول اور پیمانہ ہے جس کی بناپر آپ اپنے لیے کسی تعلق کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
تعلق رکھنے میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ دوسرے انسان پر بوجھ نہ بنیں بلکہ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ دوسروں کا بوجھ ہلکا کرنے والے بنیں۔
کسی انسان کے ساتھ کوئی معاملہ ختم کرنا ہو تو Happy Endingکے ساتھ ختم کریں ۔زندگی میں ہر انسان کو ہزاروں معاملات شروع اور ختم کرنے پڑتے ہیں لیکن انسان اور اس کے ساتھ بنے تعلق کی اہمیت ہر وقت رہنی چاہیے ۔معاملہ رہے یا نہ رہے لیکن ایک دوسرے کو اتنی گنجائش ضرور دینی چاہیے کہ آپس کا تعلق برقرار رہے ۔
عظیم انسان اپنے ساتھ جڑے رشتے اور تعلق کوکبھی نہیں چھوڑتا بلکہ آخروقت تک جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر آپ کا کوئی رشتہ یا تعلق ایسا ہے جو آپ کے خیال میں کمزوری کا شکار ہورہا ہے تو اول پوری کوشش کریں کہ اس رشے کو کسی نہ کسی صورت بحال کرلیں۔اگر وہ شخص رشتہ ختم کرنے پر بضد ہے تو پھر آپ صبرسے کام لیں اور جیسے بھی حالات ہوں ،انہیں قبول کرلیں۔
یاد رَکھیں! آپ کی زندگی میں تعلق رکھنے والے لوگ تھوڑے ہوں لیکن ایسے ضرور ہوں جوآخر تک ساتھ چل سکیں ،آپ کے دست و بازو بن سکیں اور آپ جب بھی مشکل حالات کے بھنور میں پھنس جائیں تو وہ آپ کا ہاتھ تھام سکیں۔