کامیاب لیڈرکیسے سوچتاہے؟
(قاسم علی شاہ)
شکور ابو غزالہ فلسطین میں پیدا ہوا ،وہاں پلا بڑھا ، تعلیم حاصل کی لیکن پھر حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ1948ء میں اس کو اپنا وطن چھوڑکر سعودی عرب کی طرف ہجرت کرنا پڑا۔اس نے ایک ریلوے کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 13سال تک کام کیا لیکن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ۔اس کی خواہش تھی کہ میں نے جس طرح پرمشقت زندگی جی ہے ، میرے بچوں کی زندگی ایسی نہ ہو۔اس مقصد کے لیے وہ لبنان چلا آیا۔یہاں اس نے ایک کے بعد ایک کام شروع کیا، 10مختلف کاروباروں میں کبھی وہ کامیاب ہوا اور کبھی ناکام ۔البتہ ایک صبح جب وہ اُٹھا تواس کو یہ لرزادینے والی خبر ملی کہ وہ کنگال ہوچکا ہے ۔اس نے جس بینک میں اپنا سرمایہ رکھا تھا وہ سارا کا ساراڈوب گیا۔یہ خبر اس پرقیامت بن کر گری ، وہ شدید مایوس ہو گیالیکن ابھی زندگی کا کھیل باقی تھا۔کچھ عرصہ بعد اس کو اطلاع ملی کہ تیل کی بدولت ساری دنیا سعودی عرب کا رُخ کررہی ہے۔چوں کہ اس نے زندگی کے زناٹے دار تھپڑ کھائے تھے اس لیے اس وہ جان گیا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے۔ وہ جدہ آیا اور حالات کاجائزہ لیاتومعلوم ہوا کہ باہر سے آنے والے لوگ عربوں کی طرح کھجور اوراونٹنی کے دودھ کے ساتھ خشک روٹی کھانے کے عادی نہیں، انھیں ماڈرن خوراک چاہیے جوسستی بھی ہو اور لذیذ بھی۔اس نے ایک مشہور کمپنی کی ایجنسی خریدی اور فرائیڈچکن کاکاروبار شروع کیا۔ دکان میں بجلی نہ ہونے کے باوجود بھی اگلے دوسال تک اس نے نہ دن دیکھا نہ رات اورخوب محنت کی ۔وہ رات کو 12بجے تھکاہارا گھرلوٹتاتواس کے لباس سے تیل کی بو آرہی ہوتی لیکن اس سے زیادہ وہ اس بات پر پریشان تھا کہ سخت محنت کے باوجودبھی فروخت نہیں ہورہی ۔اسی دوران اس پر یہ خوفناک انکشاف بھی ہواکہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے لیکن اس بات کو اس نے اعصاب پر سوار نہ کیااورجی جان سے محنت کرتا رہا۔کچھ ہی عرصے میں اس کاکاروبار چل پڑا لیکن اب اس میں اپنی بیماری سے لڑنے کی ہمت نہیں رہی تھی ،چنانچہ 1976ء کووہ اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔شکور ابوغزالہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ،ایک دن اس کے بیٹے کو فون آیا۔دوسری جانب ریسٹورنٹ کامینیجر تھا جو بتارہا تھا :’’ سر!مدینہ روڈ والے ریسٹورنٹ کا آج افتتاح ہے لیکن ریسٹورنٹ کھلنے سے پہلے ہی گاہکوں کی 100میٹرطویل لائن لگ چکی ہے جوہمارے فرائیڈ چکن لینے کے لیے بے تاب ہیں۔‘‘
آپ کو اگر سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے وہاں کی مشہور سوغات ’’البیک‘‘ کا مزہ ضرور چکھاہوگا۔آپ کو جان کرحیرت ہوگی کہ یہ برانڈ اپنی پروڈکٹ کی تیاری میں وہی چیزیں استعمال کرتاہے جو باقی لوگ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کا ایک پیکٹ حاصل کرنے کے لیے لوگ لمبی قطار میں کھڑے ہوکر انتظارکرتے ہیں۔ایک عام سی پراڈکٹ کی اس قدر مقبولیت کے پیچھے آخرراز کیا ہے؟ آج کی تحریر میں آپ کے سامنے وہ نکات پیش کریں گے جن پر اس کمپنی کی لیڈرشپ عمل پیرا ہے اور اسی کی بدولت 120برانچز کے ساتھ آج یہ عرب ممالک کا مقبول ترین فوڈبن چکا ہے۔
اس فوڈ برانڈ کے بانی ’شکورابو غزالہ‘ نے اللہ کو اپنے بزنس میں پارٹنر بنالیاتھا۔رات کوجب وہ دن بھرکا حساب کتاب کرنے بیٹھتا تو جس قدر پیکٹ فروخت ہوئے ہوتے ، فی پیکٹ وہ ایک ریال صدقہ کرتا ۔اگلے دن بزنس دگنا ہوتا ،اور وہ صدقہ بھی دگنا کردیتا۔جیسے جیسے اس کا کاروبار بڑھتا گیااس کے صدقے کی مقدار بھی بڑھتی گئی اور پھر یہ اس قدر بڑی رقم بن گئی کہ کئی سارے خیراتی ادارے اسی رقم پرچلنے لگے ۔1976ء میں جب ابوغزالہ کاجنازہ اٹھا تواس کی اولاد کے ساتھ ساتھ یہ ادارے بھی یتیم ہوگئے۔باپ کی وفات کے بعد جب اس کے بیٹوں کو اس’’ خفیہ پارٹنرشپ‘‘ کا پتا چلا تو انھوں نے اس روایت کو برقراررکھنے بلکہ فی پیکٹ دو ریال صدقہ کرنے کافیصلہ کیا اور پھراللہ کے ساتھ شراکت داری کی برکت سے مختصر عرصے میں یہ برانڈ دنیا بھر میں مشہور و معروف ہوگیا۔
جب شکورابو غزالہ کا انتقال ہو ا تو اس وقت اس کے دو بیٹے پڑھ رہے تھے۔انھیں کاروبار کاتجربہ بالکل نہیں تھا۔ایک دن انھیں بینک سے کال آگئی ۔دونوں وہاں پہنچے تو بتایاگیاکہ آپ کے والدنے ایک بڑی رقم قرض کے طورپر لی ہے۔دوسال کے اندر اندر یہ قرضہ اتارو یا پھر اپنے کاروبار سے دستبردار ہوجاو۔دونوں بہت پریشان ہوئے کہ اب تعلیم کی طرف دھیان دیں یا پھر کاروبار کودیکھیں لیکن پھر اپنے باپ کے سکھائے ہوئے سبق کے مطابق انھوں نے حالات کامقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے اپنے تمام اثاثہ جات بیچے ،اپنے اخراجات کو انتہائی کم کیا۔یہاں تک کہ چائے اور کافی پینی بھی چھوڑدی اور جی جان سے کاروباربڑھانے پر لگ گئے۔اسی دوران انھوں نے اپنے لیے کچھ اصول اور نکات مقرر کیے اورسختی کے ساتھ ان پر عمل شروع کیا۔
پہلااصول : یہ ایک سوال تھا :’’میں اس دنیا میں کیوں ہوں؟‘‘
انھوں نے یہ طے کیا کہ ہمارا اس دنیا میں آنے کامقصد کیا ہے۔ان کے پاس تعلیم اور مہارت تھی اور کاروبارکرنے کا ایک بہترین موقع بھی ۔چنانچہ انھوں نے لوگوں کوبہترین خوراک دینے اوراس کاروبار سے ہونے والے نفع سے اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنے کاعزم کیا اورپھر کاروبار میں جت گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا کاروبارہ روز بروز بڑھتا گیا اورانھوں نے کئی سارے فلاحی پراجیکٹس شروع کرلیے جواب بھی ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کررہے ہیں۔
دوسرا اصول:یہ بھی ایک سوال تھا: ’’میں نے جانا کہاں ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب انھوں نے یہ متعین کیاکہ ہم نے دنیا بھر کے شہروں میں اپنی برانچز کھولنی ہیں جہاں ہم نے اپنے کسٹمرز کوبہترین غذا، اچھی سہولیات اور مہربان رویہ دینا ہے۔
تیسرا اصول:یہ بھی ایک سوال تھا:’’اپنی منزل تک پہنچناکیسے ہے؟‘‘
اس کاجواب انھوں نے ’’علم‘‘ کو بنایا۔وہ جان گئے کہ علم ایک طاقتو ر ہتھیار ہے اور جس کے پاس یہ ہتھیار ہے وہ کامیاب ہے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے دوسروں کی معلومات پر انحصار نہیں کرنا ۔دوسروں کے ٹوٹکوں پرچلنے کے بجائے انھوں نے اپنی ریسیپی بنائی۔انھوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اپنے کاروبار کے بارے میں ہر طرح کی معلومات حاصل کرنی ہیں۔چنانچہ چھوٹا بھائی پیرس چلاگیااور انجینئر ہونے کے باوجو دوہ ڈیڑھ سال تک فوڈ ٹیکنالوجی کے بارے میں سیکھتارہااور اسی کی بدولت انھوں نے ایک ’’خفیہ ریسیپی‘‘ بنائی جس کے ذائقے نے دنیا کو دیوانہ بنادیا۔
چوتھااصول: Hard workکرنا ہے اور مایوس نہیں ہونا
انھوں نے طے کیا کہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ہمیں منافع بے شک کم ملے لیکن ہم نے مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور کبھی مایوس نہیں ہونا۔وہ معمولی چیز کو بھی نظر اندازنہیں کرتے تھے اور چھوٹے سے چھوٹے کام کے بارے میں بھی مکمل معلومات حاصل کرتے۔انھوں نے طے کیا تھا کہ اپنے نتائج سے مطمئن ہوکر بیٹھنانہیں ہے بلکہ اپنی کوشش پر بھی سوالات اٹھانے ہیں کہ یہ چیز کیوں ہے اوراس کو مزید بہتر کیسے بنایاجاسکتاہے۔انھوں نے عادت بنائی کہ اپنے رویے سے عاجز ی کا اظہار کرنا ہے اور ہمیشہ اپنے رب کا، اپنے اسٹاف کا اور اپنے کسٹمرز کا شکرگزار رہنا ہے۔
پانچواں اصول: سیکھنے کے لیے اپنی انا ختم کرنی ہے
انھوں نے جان لیا تھا کہ صرف کرسی پر بیٹھ کر اور اپنے ملازمین کو آرڈرز دے کر کمپنی نہیں چلائی جاسکتی۔چنانچہ ریسٹورنٹ کے کام کو بہترین انداز میں چلانے کے لیے بڑے بھائی نے ویٹرزوالا یونیفارم پہنا اور باقی اسٹاف کے ساتھ اپنے کسٹمرز کی خدمت کرناشروع کی ۔اس نے ریسٹورنٹ میں ہونے والے تمام کاموں کابغور جائزہ لیا۔اس نے اپنے کان کھلے رکھے کہ لوگ کیابات چیت کرتے ہیں ۔آنکھیں یہ دیکھنے کے لیے کھلی رکھیں کہ اسٹاف اور گاہک کیاکرتے ہیں۔اس کو جس چیز کی سمجھ نہ آتی وہ بغیر کسی جھجک کے اپنے اسٹاف سے پوچھ لیتا اورپوری طرح سمجھنے کی کوشش کرتا۔اس نے چکن فرائی کرنا ، اسے اپنے گاہکوں کے سامنے پیش کرنا، ان سے بات چیت اور مسکراکر ملناحتیٰ کہ فرش دھونااور باتھ روم صاف کرنے کا طریقہ بھی سیکھا۔
چھٹا اصول:کمپنی کا فرنٹ لائن اسٹاف ایک قیمتی ترین سرمایہ ہے
انھوں نے بہت جلد اس با ت کوسمجھ لیاتھا کہ کسٹمرز کو ڈیل کرنے والے اسٹاف کارویہ ہی یہ طے کرتاہے کہ گاہک نے اگلی بار اس ریسٹورنٹ میں آنا ہے یانہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن پرکسٹمرزکی آنکھ ہوتی ہے اور یہی لوگ کمپنی کی پہچان ہوتے ہیں۔چنانچہ انھوں نے طے کیا کہ اپنی ٹیم کو ایک جسم کی مانند سمجھنا ہے۔ ان کو ہمیشہ پہلی ترجیح پر رکھنا ہے۔ان کی قدر کرنی ہے ۔ان کا خیال ایسے رکھناہے جیسے ہم اپنی فیملی کارکھتے ہیں۔ان کی تمام ضروریات کی مکمل ذمہ داری لینی ہے ۔ ان کے مسائل کو سمجھنا ہے اورانھیں جلد سے جلد دورکرنا ہے۔وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب آپ اپنی ٹیم کو مسائل سے بے فکر کردیں گے تویہ لوگ صف اول کے بہادرسپاہیوں کی طرح آپ کے لیے میدانِ کاروبار میں لڑیں گے۔
’’البیک‘‘ کے سی ای او ’’رامی ابوغزالہ‘‘ کوایک دفعہ ملک سے باہر جانا تھا۔ائر پورٹ میں بورڈنگ کارڈ وصول کرتے وقت اہلکار نے ا س کے پیچھے کھڑے لڑکے کو آگے کیا ۔رامی ابوغزالہ نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا :’’یہ لڑکا البیک ریسٹورنٹ میں ویٹر تھا، میں جب بھی چکن لینے جاتا تویہ میرا پورا خیال رکھتا، مجھے اضافی کیچپ اور بریڈ بھی دیتا اس وجہ سے آج میں اس کو عزت دینا چاہتاہوں۔‘‘ رامی ابوغزالہ کہتاہے کہ کمپنی کا CEOمیں تھا لیکن اس نے عزت ایک عام لڑکے کو دی۔اس دن میں سمجھ گیا کہ آپ کا فرنٹ لائن اسٹاف ہی دراصل آپ کی کمپنی کاقیمتی ترین اثاثہ اور چہرہ ہوتاہے۔
ساتواں اصول:لیڈر وہ ہے جو میدان میں موجود رہ کر قیادت کرے
وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر وہ لیڈ ر جو آفس میں آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اپنے کاروبار کو بہترین انداز میں چلانے کی توقع کرتاہے تو یہ اس کی خطرناک غلط فہمی ہے۔ایک لیڈر جب میدان میں موجودہوتاہے ،اپنی ٹیم کواور اپنے کسٹمرزکو دیکھتا ، سنتااور ان کے احساسات کومحسوس کرتاہے تو اس کے دماغ میں شاندار آئیڈیاز جنم لیتے ہیں۔ میدان عمل میں اپنی موجود گی کی بدولت لیڈر یہ بات بھی جان سکتاہے کہ اس کاکاروباری حریف کیا کررہا ہے اوراسی کے مطابق وہ اپنے کاروبار کے لیے بہترین حکمت عملی بناسکتاہے۔
آٹھواں اصول: واضح معیار اورطریقہ کار کے بغیر ترقی ممکن نہیں
وہ کہتے ہیں کہ اپنی کمپنی کے تمام اہم معاملات اور مسائل کو لکھنے کی عادت بنائیں۔ لکھنے کے بعدان کا حل سوچیں۔کمپنی میں ہونے والی اہم تقریبات کی رپورٹ بنائیں، درپیش آنے والے مسائل کولکھیں ۔اس کافائدہ یہ ہوگا کہ اگلے سال جب یہ تقریب دوبارہ آئے گی تو اپنی رپورٹ ایک دفعہ پڑھنے سے وہ سب کچھ آپ کے ذہن میں آجائے گا اور آپ کو دوبارہ سے چیزوں کو سوچنا ، انھیں پلان کرنا نہیں پڑے گا۔لکھنے کی عادت سے آپ اپنی ٹیم کو بہترین انداز میں مصروف کرسکتے ہیں۔اس عادت کی بدولت آپ کسی کنسلٹنٹ کے بھی محتاج نہیں رہیں گے اور اپنے کاموں کابہترین جائزہ لے سکیں گے۔
نواں اصول: پیسے کے لیے نہیں بلکہ ترقی اور عزت کے لیے کام کریں
ایسے آئیڈیاز پر کام کریں جن کی بدولت آپ دوسروں کی زندگیوں کو بہتربناسکیں۔ہمیشہ بڑی منزل کا سوچیں۔صرف پیسے کا نہ سوچیں کیوں کہ جو چیز جلدی ملتی ہے وہ جلدی کھوبھی جاتی ہے البتہ آپ کا معیار اورآپ کی عزت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے کسٹمرزسے زیادہ ذہین نہ سمجھیں بلکہ ان کے ساتھ عاجزی کا مظاہرہ کریں ، ان کی ضروریات کو سمجھیں اور انھیں بہترین طریقے سے مکمل کرنے کی کوشش کریں۔آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہنی چاہیے کہ اپنے کسٹمرز کے ساتھ اعتماد سے بھرپور رشتہ برقراررکھیں۔
دسواں اصول: اپنے کاروباری حریفوں پر نظر رکھیں لیکن انھیں عزت بھی دیں
ایک بہترین لیڈر وہ ہوتاہے جو اپنے مدمقابل کی خوبیوں اور خامیوں سے خود کو باخبر رکھے۔لیڈر کو علم ہوناچاہیے کہ اس کا حریف کیساسوچتاہے۔اس کے وسائل کیا کیا ہیں۔ا س کی ترجیحات کیا کیا ہیں۔عقل مند لیڈر اپنے مدمقابل کوکبھی کمزور نہیں سمجھتا۔وہ اس سے بھی سیکھنے کی کوشش کرتاہے ، البتہ ایسی پراڈکٹ نہیں لاتا جس پر گمان ہو کہ یہ اس نے اپنے مدمقابل کی نقل کی ہے۔