کلر کہار، کٹاس راج ، دُرابی جھیل
(قاسم علی شاہ)
ٍٍیہ سفر میری زندگی کے تین قیمتی ترین لوگوں کے ساتھ تھا ۔میرے والد صاحب جن کا احسان میں کبھی نہیں اتارسکوں گا،میرے دِل کے بہت قریب (ر)چیف جسٹس انوارالحق صاحب اور پاکستا ن کے نمبر ون فوٹوگرافر گلریزغوری صاحب ۔ہم چاروں ایک ہی گاڑی میں دوپہر 12 بجے لاہور سے نکلے۔گاڑی میں چلا رہا تھا اور ہماری منزل کلر کہار تھی ۔فقط تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہم کلر کہار پہنچ گئے ۔
’’ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب‘‘کے جنرل منیجر عاصم رضا صاحب جو کہ میرے بہت ہی قریبی دوست اور ایک خدمت کرنے والے بیوروکریٹ ہیں ، وہ کلر کہار انٹرچینج پر ہمار اانتظار کررہے تھے ۔ ان کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے دوست ملک سلیمان صاحب جو کہ ’’پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ‘‘ کے صدر اور معروف کالم نگار ہیں،بھی تھے اور ساتھ میں بہن اقرأ بھی موجود تھی ۔
اس دِن موسم بہت ہی شاند ار تھا ۔ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور دھوپ بھی مزے کی تھی ۔میں اس سے پہلے کئی دفعہ کلر کہار جاچکاہوں لیکن ’’ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب‘‘نے اس سپاٹ کو بہت خوب صورت بنایا ہے۔تھوڑی دیر میں ڈپٹی کمشنر چکوال بلا ل حسام صاحب بھی ہمیں ملنے چلے آئے ۔ بلال حسام صاحب انتہائی قابل،شستہ اور سلجھے ہوئے اور احترام کرنے والے آفیسرہیں ۔ میں سمجھتاہوں کہ بلال صاحب جیسے آفیسر کو ہمیشہ کمانڈ کی پوزیشن پر ہوناچاہیے۔لنچ ہم نے مل کر کیا ، شاندارباربی کیو ، میری پسندیدہ مکس سبزی اور تندو ر کی گرم روٹی نے کھانے کا مزہ دوبالا کردیا۔
کھانا کھانے کے بعد ہم کلرکہار کا میوزیم دیکھنے چلے گئے ۔اس میوزیم میں پرانے فوسلز بھی پڑے ہوئے ہیں۔تاریخ کی گرد ان فوسلز ، برتنوں ، دروازو ں اور ہتھیاروں پر پڑتی رہی اورپھر کسی ماہر آثارِ قدیمہ کی نظر نے اس گرد کو ہٹایا اور یہ سب نایاب چیزیں میوزیم کی زینت بن گئیں ۔پاس ہی ایک صوفی بزرگ حضرت ہوباہوکا مزار تھا ۔ہم نے وہاں حاضری دی، سورج ڈھل رہا تھا اور میں تخت بابری پر کھڑ اجھیل کے کناروں کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔جھیل کے وسط میں گھاس کے سرکنڈے ہاتھ اٹھائے صدائیں دے رہے تھے :
’’جناب ہم حاضر ہیں ۔‘‘پاس ہی ایک چھوٹا سا بازار تھا ۔جہاں گلی کے ایک کونے پر ایک قوال کوئی کلام گارہا تھا ۔میں ، ڈپٹی کمشنرصاحب اور عاصم رضا صاحب اکھٹے کھڑے ہوکر وہ کلام سنتے رہے ، اس قوال کونذر و نیاز پیش کیا ۔میں نے اس بازار سے لکڑی کا بنا ہوا ایک ’’ ہارٹ پاٹ‘‘ خریدا اور واپسTDCP ’’ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب‘‘کے ریسٹ ہاؤس کی طرف چل دیے ۔کچھ دیر آرام کے بعد تازہ دم ہوئے اورپھر نیچے لان میں آکربیٹھے، جھیل کنارے رنگ برنگی جھولوں پر بتیاں جگمگارہی تھیں ۔ہم سب کے درمیان آگ کا الائو جل رہا تھااور عاصم رضا صاحب نے اپنی شاعری سنانی شروع کی۔مجھے حدت محسوس ہورہی تھی مگر میں جانتا تھا کہ یہ حدت کوئلوں کی حدت سے زیادہ عاصم رضا کی شاعری کی حدت ہے۔شاعری کی یہ چھوٹی سی محفل ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر بلال حسام صاحب نے ہم سے رخصت چاہی اورجاتے ہوئے ہمیں چکوال کی مشہور سوغات ،ریوڑھی بھی پیش کی ۔بلال صاحب کے جانے کے بعد ہم نے بھی محفل برخاست کی اور کمروں میں چلے گئے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ مجھے لاہور سے بڑی محبت ہے لیکن ذاتی اور پروفیشنل ذمہ داریاں ، کام، وعدے او ر بڑے عزائم، لاہور میں میراسکون چھین لیتے ہیں۔لہٰذا کلرکہار کا یہ سپاٹ ، لاہور سے بغاوت ، راہِ فرار اور سکون ڈھونڈنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی تھا ۔رات کو پرسکون نیند لی ، صبح اٹھے توگرماگرم پراٹھے ، انڈے ، آلو کی بھجیاں اورچنوں کا بنا سالن ہمارا انتظار کررہاتھا ۔چوں کہ مجھے اچار بہت پسند ہے ، اس لیے میں نے آدھا پراٹھا اچار کے ساتھ کھالیا۔الائچی میں بنی چائے اور اس کے اوپر تیرتی ملائی جو پہلے ہی سِپ پر آپ کے بالائی ہونٹ کے ساتھ چمٹ جاتی ہے ، دنیا اس ملائی کوہٹاکر پیتی ہے لیکن میں اس کو نہیں ہٹاتا، معلوم نہیں کیوںمجھے ایسا لگتا ہے کہ اچھی چائے کااستقبال وہ ملائی ہی کررہی ہوتی ہے ۔
آئیے میں آپ کو کلر کہار کی تاریخ کے بارے میں بتاتاہوں ۔
کلر کہار M2موٹروے کے کنارے آباد پاکستان کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔یہ علاقہ تاریخی ، روحانی اور اپنی خوب صورتی کے لحاظ سے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔16ویں صدی میں کابل کے حکمران ظہیرالدین بابر جب ہندوستان فتح کرنے کے لیے روانہ ہوا تو اس نے کلر کہار میں پڑائو کیا تھا ۔یہیں ایک پہاڑی چبوترہ تراش کر ظہیر الدین بابرکے لیے تیار کیا گیا اور اس کا تخت یہا ں رکھاگیا،اسی چبوترے پر کھڑے ہوکر بابر نے اپنی فوج سے ایک ولولہ انگیز خطاب کیا تھا۔آج بھی یہ چبوترہ خستہ حالت میں موجود ہے۔کلر کہار کی ایک اور نمایاںچیز یہاں کی وسیع جھیل ہے ،جس کو دیکھنے کے لیے بے شمارسیاح آتے ہیں ۔اس جھیل کے کنارے ایک خوبصورت ریسٹ ہائوس،بچوں کے لیے جھولے اورمختلف قسم کے خوب صورت مقامات بنائے گئے ہیں۔
ناشتے کے بعد ہم کٹاس راج کی طرف چل پڑے ۔عاصم صاحب کی گاڑی آگے تھی ۔ میری گاڑی میں پاکستان کے سب سے بڑے فوٹوگرافر گلریز غوری صاحب میرے ساتھ بیٹھے تھے ۔جہاں کہیں فطرت اپنی خوب صورتی کے جلوے بکھیررہی ہوتی تو گلریز صاحب کی فنکارانہ نگاہ اس خوب صورتی کو بھانپ لیتی ،ہم گاڑی روک لیتے اوروہ ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیتے۔راستے میں سرسوں کے پکے ہوئے کھیت ملے ،گلریز صاحب کیمرہ لیے کھیتوں میں نکل گئے ، دورپیچھے سالٹ رینج کی پہاڑیاں بھی نظر آہی تھیں۔اس جگہ کی تصاویر دیکھ کر آپ اس بات کا اقرار کریں گے کہ نظارے کا سارا حسن ’’نظارے‘‘ میں نہیں بلکہ ’’دیکھنے والی آنکھ‘‘میں ہوتاہے۔ آنکھ نظارے کو خوب صورت بناتی ہے ۔
ہم ’’کٹاس راج‘‘ پہنچے ۔لاہور والے اپنے فوٹوشوٹ کے لیے ’’شاہی قلعہ‘‘ جاتے ہیں لیکن میں سب کو کٹاس راج جانے کا مشورہ دوں گا کیوں کہ کٹاس راج سے بہتر فوٹو شوٹ کہیں نہیں ہوسکتا۔
میں آپ کو کٹاس راج کی تاریخ سے بھی واقف کراتاچلوں :
کٹاس راج پاکستان کے سب سے بڑی سالٹ رینج میں واقع ہے۔یہاں موجود قلعے کے بارے میں کئی ساری روایات مشہور ہیں ۔بعض اس کو 2500سال پرانا ،بعض 3ہزار سال جبکہ کچھ مورخین کے مطابق یہ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔کٹاس نام کی وجہ یہاں موجود وہ تالاب ہے جو کہ ہندومذہبی روایات کے مطابق، جب ان کے دیوتا ’’شیو‘‘ کی بیوی ’’ستی‘‘ فوت ہوئی تو وہ اس کے غم میں بے تحاشاروتے رہے ، ان کے رونے کی وجہ سے آسمان سے دو آنسو گرے اور اُن سے دو جھیلیں بن گئیں ۔ایک جھیل یہاں کٹاس راج میں اور دوسری ہندوستان کے شہر اجمیر میں۔اس جھیل کو ہندو مذہب میں مقدس مقام حاصل ہے۔سال میں دو بارانڈیا سے ہندو یہاں آتے ہیں اور اس جھیل میں اشنان کرتے ہیں۔اس پورے علاقے کو اسی تالاب کی وجہ سے شہرت حاصل ہے۔ اس قلعے کے اندر سینکڑوں سال پرانے مندر موجو دہیں۔شیوجی کا مندر بھی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ رنجیت سنگھ کے فوجی سردار ’’ہری سنگھ نلوا‘‘ کی حویلی بھی یہاں موجود ہے۔
ہم کٹاس راج سے نکلے تو اس علاقے کے پٹواری صاحب نے ہمیں چائے کے لیے دعوت دے دی۔گورنمنٹ کا یہ ریسٹ ہاؤس جہاں پر صرف دوکمرے ہیں، یہاں سے’’ چواسیدن شاہ‘‘ کا پورا شہر نظر آرہا تھا۔مجھ سے رہا نہ گیااور میں نے وہاں کھڑے کھڑے فیس بک لائیو سے ایک منٹ ، چوبیس سیکنڈ کی ویڈیو بنادی جو کہ وائرل ہوگئی ۔پٹواری صاحب کا شکریہ اداکرتے ، چکوال سے ہوتے ہوئے ہم ’’درابی ڈیم ‘‘پہنچے ۔میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم ایک جھیل کو دیکھنے کے لیے 12اور بعض اوقات 24گھنٹے کا سفر کرتے ہیں ، جبکہ ’’ درابی جھیل‘‘ لاہور سے فقط اڑھائی گھنٹے ،فیصل آباد سے دوگھنٹے اور اسلام آباد سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ایک اچھا دِن گزارنے کے لیے اس سے اچھی جگہ اور کیا ہوسکتی ہے ۔یہاں بھی ہم نے ڈرون کیمرے سے مناظر شوٹ کیے ۔
یہاں سے نکلے توہمیں بتایاگیا کہ پاس ہی ریچھوں کی ایک پناہ گاہ ہے۔آج سے پندرہ سال پہلے گورنمنٹ نے قانون پاس کیاکہ ریچھ اور کتے کی لڑائی قانوناً جرم ہے ۔اس وقت پورے پاکستان سے ریچھ اکھٹے کرکے یہاں لائے گئے ۔ان میں سے بے شمارریچھ ایسے ہیں جو اپاہج ہیں۔پناہ گاہ دیکھنے کے بعد ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔بھیرہ میں تھوڑی دیر کے لیے رُکے ، یہاں ہمیں شاہد اقبال صاحب نے لنچ کروایا۔لنچ کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیااور خیر سے لاہور پہنچے۔میں بتاتاچلوں کہ چکوال، کلرکہار ، کٹاس راج اور دُرابی ڈیم جانے سے پہلے میں کاموں کے برڈن (بوجھ)کی وجہ سے سٹریس میں تھا۔اس سفر سے واپسی پہ میری اسٹریس ختم ہوچکی تھی ، بیٹری چارج ہوچکی تھی اور نئے دِن سے پھر بہت سارے کام میرا انتظار کررہے تھے ۔
میں نے چند ہی دِنوں میں اپنے سینکڑوں دوستوں، فیملی ممبر ز، دفتر کے لوگوں کو اس جگہ دوبارہ بھیجا ہے ، کیوں کہ خوشیاں ، مزے اور مسکراہٹوں کو شیئر کرنا چاہیے ۔ہم بھی کتنے سادہ ہیں ہم صرف فیس بک کی پوسٹ کو شیئر کرتے رہتے ہیں۔آپ بھی اگر ایک دودِن اچھا گزارنا چاہتے ہیں تو ’’ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب‘‘کی ٹیم سے رابطہ کریں اور اپنارُخ کلر کہار کی طرف کردیں ۔