’’ایم بی ٹی آئی‘‘کیا ہے؟

’’ایم بی ٹی آئی‘‘کیا ہے؟
(ڈاکٹر قمر الحسن،قاسم علی شاہ)
افسانوی کہانیوں میں جادوگروں کاذکر ملتا تھا جس کی سب سے بڑی اور دلچسپ طاقت یہ ہوتی تھی کہ وہ ایک ناممکن کام کو ممکن بنادیتاتھایہاں تک کہ وہ اپنے دشمن کے دِل کی بات بھی جان لیتاتھااور ’’ہاہاہا‘‘کاایک زوردار نعرہ لگاکرکہتا’’ میرے چنگل سے آز اد ہونے کی تم سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے بھرپور ترقی کرلی ہے۔جادو کے زور سے کسی انسان کے اندر کو جاننا ممکن ہے یانہیں البتہ سائنس نے اس چیز کو نہایت آسان بنادیا ہے۔MBTIایسے ہی ایک علم کا نام ہے جس کے ذریعے آپ کسی بھی انسان کی شخصیت اور اس کے مزاج کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنے معاملات کو بہترین انداز میں بڑھاسکتے ہیں۔

ویسے تو Personality Type کے نظریہ کا وجود بیسویں صدی کے آغاز کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، لیکن چار مزاجوں (Four Temperaments)کا فلسفہ صدیوں پرانا ہے، جس کا استعمال یونانی طب میں ہوتا رہا ہے اورا بھی بھی ہورہاہے۔MBTI(Myers-Briggs Type Indicator) کوشخصیت شناسی کا علم بھی کہا جاتا ہے۔اس کے ایجاد کا سہرامعروف ماہرنفسیات کارل جنگ کے سر ہے۔جس نے Psychological Typesکے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔اسی فن کوپھر مائرس برگس نے آگے بڑھایا۔ مائرس برگس ایک امریکی خاتون تھیں جس نے اپنی بیٹی کیتھرین برگس کے ساتھ مل کر 1921 ء میں ایک آزمائشی چارٹ (Test) تیار کیا۔ اس علم کی مدد سے انسان کی شخصیت اور اس کے رجحانات کو پہچانا جاتا ہے۔دراصل انسان کی فطرت کو سمجھنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔کیوں کہ ہر انسان ایک مخصوص فطرت پر پیدا ہوتاہے ۔یہ فطرت تبدیل نہیں ہوتی اور اسی فطرت میں رہتے ہوئے وہ نشونما پاتاہے۔

اس نظریے کے مطابق ہر انسان فطری طور پر مخصوص خصوصیات، مزاج اور رجحانات کا حامل ہوتا ہے۔ اس طرح شخصیت کی کُل 16 اقسام ہوتی ہیں اور ہر شخص ان اقسام میں سے کہیں ایک جگہ موجود ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ انسان کے شخصیت کے چارعناصر (Factors)ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی بسر کرتا اور معاملات کو برتتا ہے۔ ان میں ذاتی ،اندرونی و سماجی دنیا سے تعلق، عقل ، شعور اور وجدان شامل ہے۔ ہر فرد میں یہ چاروں چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کا تناسب ہر فرد میں مختلف درجات کا ہوتا ہے۔ فطرتی ترجیحات کے اسی اختلاف سے مختلف قسم کی شخصیات سامنے آتی ہیں۔

MBTI
دراصل خالق کی بہترین تخلیق کو جاننے کانام ہے۔انسانی فطرت جانے بغیر بہت سارے علوم ایسے ہیں جو بے معانی ہوجاتے ہیں اور فائدہ مند کے بجائے نقصان دہ بن جاتے ہیں۔جب تک ہم اپنی فطرت کو سمجھ نہیں پاتے تب تک ہم نے ایک چشمہ لگایاہوتاہے اور ہمیں باہر کی دنیا بھی اسی چشمے کے مطابق نظر آتی ہے۔ہمارے خیال میں جو ہم سمجھتے ہیں وہی ٹھیک ہے اور باقی لوگ غلط ہیں۔حالانکہ ایسانہیں ہے ۔اللہ نے انسانوں میں سولہ طرح کی فطرتیں رکھی ہیں۔جس کامطلب یہ ہے کہ ہمیں سولہ طریقوں سے سوچنا آناچاہیے۔ہر انسان ان سولہ اقسام میں سے کسی ایک قسم کا ماہر ہے اور باقی اقسام تک پہنچنے کے لیے اسے اپنی اخلاقیات سے کام لینا چاہیے۔

شخصیت کی اقسام (Personality Types) کے اس نظام کا انحصار چار مختلف پیمانوں پر ہے۔ جس کے ہر پیمانے میں دو متضاد اوصاف ہوتے ہیں اور ہر انسان میں ان میں سے کوئی ایک فطرتی ترجیح ہوتی ہے۔
شخصیت سازی کی یہ اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
( 1) Introversion (I)/Extroversion(E):
بیرونی/اندرونی
یہ دو اوصاف اس بات پر منحصر ہیں کہ انسان دنیا سے کس طرح مخاطب ہوتا ہے اوراس کی توانائی کا بہائو کس رُخ پر ہے۔دُنیا میں رہنے والے ہر انسان کا رُجحان یاتوباہری دنیا میں ہوتا ہے یا اندرونی۔واضح رہے کہ ہر انسان میں یہ دونوں رجحان پائے جاتے ہیں لیکن فطری رجحان کسی ایک وصف کی طرف ہی ہوتا ہے۔ جو شخص مجموعی طور پر اندرونی دنیا میں خوش رہنے کو ترجیح دیتاہو، تنہائی پسند ہووہ Introvertکہلاتا ہے۔اس کے برعکس وہ انسان جو باہرکی دنیا میںرہنے کو ترجیح دیتاہے، لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا پسند اور گپ شپ پسندکرتاہے وہ Extrovertکہلاتا ہے۔

(2)Sensing(S)/Intuition(N):
وجدانی/حسی
شخصیت کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول سے معلومات کس طرح حاصل کرتاہے۔جو افراداپنے حواس خمسہ کے ذریعہ حاصل کی گئی معلومات کو ترجیح دیتے ہیں ۔انھوں نے کیاسنا ، کیا دیکھا سونگھااورمحسوس کیا،ان سب چیزوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔انھیں Sensors(حسی)کہاجاتاہے۔ اس کے برعکس کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا رجحان’ چھٹی حس‘ پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ معاملات کے اندرونی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ مستقبل میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کو Intuitive(وجدانی)کہاجاتاہے۔

(3)(Thinking(T)/Feeling(F):
احساس/منطقی
تیسری قسم فیصلہ سازی سے متعلق ہے۔ Thinkersلوگ منطقی انداز میں سوچتے اور فیصلہ کرتے ہیں۔وہ اپنا ہر معاملہ یہ سوچ کرکرتے ہیں کہ اس میں مجھے کیا منافع مل رہا ہے ۔اسی طرح Feelers وہ ہوتے ہیں جو انسانیت کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثرفیصلے دل سے کرتے ہیں اور نفع نقصان ان کی ترجیح نہیں ہوتی۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ Feelersمیں Logic نہیں ہوتا یا Thinkers جذبات سے خالی ہوتے ہیں بلکہ فرق صرف یہ ہے کہ ایک انسان میں ان دونوں میں کسی ایک وصف کو فطرتی طورپر ترجیح دیتاہے۔

(4)(Judging(J)/Perceiving(P):
مسائل کا حل تلاش کرنا/عملی جامہ پہنانا
شخصیت کی چوتھی قسم یہ ہے کہ ایک انسان اپنی معلومات کو کسی طرح منظم کرتاہے۔ Judgersلوگ نتائج کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ اپنی زندگی کو منظم کرکے گزارتے ہیں۔وہ وقت پر دفتر پہنچنا ، وقت پرمیٹنگ میں شرکت کرنااور ہر چیز کو مخصوص اندازے کے ساتھ کرتے ہیں۔بے ترتیبی یاپھر وقت سے آگے پیچھے ہوجانا نہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اس صفت والے انسان کو پسند کرتے ہیں۔اس کے برعکس Perceivers(کھلے مزاج)لوگ مسائل کا حل تلاش کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن اگر انھیں کسی نظم کا پابند کیاجائے تو یہ چیز ان کے لیے تنائو کا باعث بن جاتی ہے۔

دنیا میں آنے والا ہر انسان مختلف شکل و صورت ، مختلف آواز ، حرکات و سکنات اور شخصیت کے ساتھ آتاہے۔عام طورپر انسان دوسرے سے مختلف ہوتاہے اور یہی اختلاف ہی اس کائنات کا حسن ہے۔جس طرح گلدستے میں موجود پھولوں کا رنگ الگ اور خوشبو منفرد ہوتی ہے ایسے ہی یہاں موجود ہر انسان اپنی جداگانہ رنگت اور خصوصیات رکھتاہے یعنی ہر انسان اپنے طورپربہترین اور قیمتی ہے۔اس بارے میں خالق کائنات خود کہتاہے:
’’ہم نے انسان کوبہترین صورت پر پید اکیا۔‘‘(سورۃ التین:5)

جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں موجود کوئی بھی انسان غیر اہم نہیں ہے ۔ہر ایک کا اپنا جداگانہ مقام ہے ۔یہ بس ہمارے انسانوں کے بنائے پیمانے ہیں جس میں ہم کسی بھی انسان کوناکارہ قراردے دیتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جب خالق نے اس کو بہترین کہا ہے تو پھروہ کیسے غیر اہم ہوسکتاہے!!
یاد رکھیں کہ ہر انسان کواللہ کی طرف سے ایک مخصوص فطرت اور مزاج ملا ہواہے ۔انسان اس کو کبھی بھی نہیں بدل سکتا،البتہ اپنا رویہ تبدیل کر سکتاہے۔اس کو سکون و اطمینان اسی کام میں ملے گا جو اس کی فطرت کے مطابق ہو لیکن جب بھی وہ فطرت کے خلاف جائے گا تو اس کی زندگی غیر متوازن ہوگی اور وہ شدید تنائو کا شکار ہوگا ۔ فطرت کو بدلنے کی کوشش کرنا یا اس کے خلاف چلنے سے انسان کئی ساری نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتاہے۔

ایک عام سوال یہ کیاجاتاہے کہ کوئی انسان اگر منفی ذہنیت کا حامل ہے تو وہ بھی مندرجہ بالا اقسام کی کسی قسم میں شامل ہے؟ جواب ہے :نہیں۔ منفیت کوئی قسم نہیں ہے۔ہر انسان کو جب اپنی فطرت کے مطابق سازگار ماحول نہ ملے تو وہ اپنی فطرتی قابلیت کو منفیت کی طرف موڑدیتاہے اوراپنے لیے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ بن جاتاہے۔

ہمارے معاشرے میں اس آگاہی(شخصیت شناسی) کی شدید کمی ہے جس کے کئی سارے نقصانات ہم اٹھارہے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ بچوں کا ہے۔یہاں عمومی طورپر بچوںکامزاج اور ان کی شخصیت سمجھے بغیروالدین انھیں اپنی سوچ کے مطابق چلاناچاہتے ہیں۔اب اگربچے کی شخصیت والدین کی سوچ کے مطابق نہ ہو تو پھریاتو تصادم کی صورت پیداہوجاتی ہے ۔بچہ والدین کے خلاف ہوجاتاہے جس کوبے ادبی اور گستاخی سمجھاجاتاہے ۔یا پھر وہ والدین کی سوچ کے مطابق جینا شروع تو کرلیتاہے لیکن اس کو اس میدان میں کافی زورلگانا پڑتاہے اور نتیجتاً وہ بے جاتنائو کا شکار ہوجاتاہے۔

دوسرا مسئلہ عام لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے سامنا آتاہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں بندہ اگر اپنے وقت سے لیٹ آیا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے ، وہ مجرم ہے اور اس کو سزا ملنی چاہیے۔اصولی طورپر اس بات کو درست کہاجاسکتاہے لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھاجائے تو یہ عین ممکن ہے کہ وہ لیٹ آنے والا شخص Perceivingشخصیت کا حامل ہو اور وہ نظم وضبط سے آزاد ہوکر کام کرنے کا قائل ہو تو ایسے میں اس انسان کی شخصیت کے خلاف اس کے ساتھ معاملہ کرنا کسی طوردرست نہیں۔

انسان کی سوچ جس طرح ہوتی ہے اس کی پسند بھی اسی طرح بن جاتی ہے او ر اسی پسند کے مطابق اس کی دُعائیں بن جاتی ہیں۔اگرہم ان سولہ اقسام کو سمجھیں تو دوسرے لوگوں کو سمجھنے میں ہمیں آسانی ہوگی ۔کسی انسان سے نفرت اس بنیاد پر نہیں کرنی کہ وہ مجھے سمجھ نہیں آرہا۔یاد رکھیں جس انسان کو ہم سمجھ نہ سکیں اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کا ہمیں حق نہیں ۔جس انسان کی فطرت ہم سے مختلف ہے تو وہ اسی فطرت کے ساتھ ہم سے زیادہ کامیاب ہوسکتاہے ، ہم سے زیادہ نیک بن سکتاہے بس اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے پھر آپ تسلیم کرلیں گے کہ انسان غلط نہیں ہوتا بس ہمارے سمجھنے کا زاویہ غلط ہوتاہے۔

مجھے امید ہے کہ آج کے مضمون میں آپ نے MBTIکے علم کوسمجھ لیا ہوگا۔یاد رکھیں کہ اپنی فطرت کو جاننا بہت ضروری ہے ۔ہم اسی صورت خوش اور مطمئن رہ سکتے ہیں جب اپنی شخصیت سے باخبر ہوں۔اسی طرح دوسروں کی شخصیت سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اسی طرح کے مطابق اُنھیں ڈیل کریں اور کسی بھی طرح اختلاف ، بدمزگی، بدگمانی اور ناچاقی سے بچ سکیں۔

Related Posts